رمضان میں بھی ہوشیاری
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں منافع خور امیر اور غریب سب عوام کو لوٹنے کے لیے ایک ہوجاتے ہیں۔
رمضان المبارک کا اختتام قریب ہے اوراس رمضان میں بھی وہی کچھ ہوا جو ماضی سے ہوتا آرہا ہے۔ حکومتی دعوے رمضان سے قبل ہی شروع ہوجاتے ہیں کہ کسی کو ذخیرہ اندوزی اور ناجائزمنافع خوری کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اشیائے ضرورت کی قیمتوں پر کنٹرول کیا جائے گا اور سرکاری نرخوں پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔
یہ دعوے وہاں اچھے لگتے ہیں جہاں قوانین کا احترام ہوتا ہو مگر پاکستان میں قوانین بنائے ضرور جاتے ہیں جو صرف دکھاوے کے لیے ہوتے ہیں یا صرف غریبوں کے لیے ہوتے ہیں امیروں کے لیے نہیں جب کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں منافع خور امیر اور غریب سب عوام کو لوٹنے کے لیے ایک ہوجاتے ہیں مگر حکومتی کارروائیاں ان غریب کہلانے والے ریڑھی پتھارے والوں اور چھوٹے دکانداروں کے خلاف ہوتی ہیں بڑے تاجروں، آڑھتیوں اور ہول سیلرز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ ملک بھر میں ناجائز منافع خوروں کے خلاف اس بار بھی کارروائی ہوئی اور جرمانوں کی رقم سے حکومتی خزانوں میں ضرور اضافہ ہوا عوام کو کبھی ایسی کارروائیوں سے کوئی فائدہ ماضی میں ہوا ہے نہ اس رمضان میں ہوا اور نہ ہی کبھی ہوگا۔
رمضان المبارک کو اللہ پاک کا مہینہ کہا جاتا ہے جس کی سزا اور جزا خود اللہ نے دینی ہے مگر لوگ اس مقدس ماہ میں بھی ہوشیاری دکھانے سے باز نہیں آتے اور وہ سب اس میں شامل ہیں جو رمضان کو دنیاوی کمائی کا مہینہ سمجھتے ہیں یا دینی کمائی اور عبادت کا۔ مذہبی ہدایات پر عمل کرنے والوں کے لیے تمام مہینے اہم اور رمضان المبارک خاص طور پر مقدس ہے جس میں وہ اپنی عبادت نہ صرف بڑھا دیتے ہیں بلکہ عبادت بھی خشوع و دلی لگاؤ سے کرتے ہیں۔ راقم نے ایک ایسے درزی کو بھی دیکھا تھا جو گیارہ ماہ کپڑے سیتے تھے اور رمضان جو درزیوں کی کمائی اور نرخ بڑھانے کا مہینہ ہوجاتا ہے وہ کوئی کام نہیں کرتے تھے اور رمضان میں صرف عبادت اور مسجد کی خدمت کرتے تھے۔
رمضان سے قبل ذخیرہ اندوزی اور رمضان میں عوام کو لوٹنے والے خود تو ہوشیاری کرتے ہی ہیں مگر سرکاری انتظامیہ نے بھی عوام کو منافع خوروں سے عوام کو لٹوانے کے لیے پھلوں کے بھی نمبر مقررکردیے ہیں اور اول درجہ، دوم اور سوم درجہ پھل قرار دے کر ان کے مختلف نرخ مقررکردیے جاتے ہیں اور دکاندار دو نمبرکو درجہ اول اور تین نمبر کے پھلوں کو درجہ دوم قرار دے کر سرکاری نرخوں پر اپنا عمل دکھاتے ہیں۔
رمضان المبارک میں نرخ مقرر کرنے والے سرکاری افسر ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر اپنا سرکاری فرض ادا کردیتے ہیں اور جو اشیا پہلے ہی کم نرخوں پر فروخت ہو رہی ہوتی ہیں ۔ ان کے سرکاری نرخ بڑھا کر مقررکردیے جاتے ہیں اورکبھی حقیقی نرخ مقرر نہیں کیے جاتے کہ عوام کو مناسب نرخوں پر اشیا مل سکیں اور فروخت کرنے والوں کو بھی جائز منافع مل سکے۔ جائز منافع کا تو ملک میں تصور ہی ختم ہوگیا ہے اور جس کا جہاں بس چلے وہ عوام کو لوٹ رہا ہے۔ انتظامیہ دعوے تو ایسے کرتی ہے جیسے منافع خور ان سے اجازت لے کر نرخ بڑھاتے ہوں جب کہ منافع خور زیادہ ہوشیار ہیں۔
رمضان المبارک کا احترام مسلمانوں پر لازم ہے مگر پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ خلیجی ممالک اور غیر مسلم ممالک میں تو رمضان کے موقعے پر مسلمانوں کو خاص رعایت دی جاتی ہے مگر رمضان کے احترام سے عاری لٹیروں میں مسلمان ہوتے ہوئے شرم ہوتی ہے نہ احساس ان کے نزدیک رمضان اپنے مسلمان بھائیوں کو لوٹنے کا مہینہ ہے اور رہی حکومت اسے تو اپنے عوام کا کوئی احساس ہی نہیں اور اب تک ہر حکومت نے عوام دشمنی ہی کا مظاہرہ کیا ہے اور پٹرول کو اپنی آمدنی کا بڑا ذریعہ بناکر عوام کو مہنگائی بڑھوا کر لوٹا اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے پر بھی جائز ریلیف نہیں دیا اور کبھی دیا بھی تو نرخ معمولی کم کرکے اور مزید ٹیکس بڑھا کر بڑی ہوشیاری سے واپس لے لیا۔
حکومت یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے عوام کو ارزاں قیمت پر ریلیف دے سکتی ہے اور صرف رمضان میں یوٹیلیٹی اسٹور پر نرخ کم کرنے کی تشہیر کی جاتی ہے مگر فائدہ عام لوگوں کو کم ہوتا ہے کیونکہ سرکاری عملہ ہوشیاری سے سستا سامان چھپر میں دکانداروں کو فروخت کرکے کمائی کرلیتا ہے اور عوام کو مشروط طور پر سستے کے ساتھ مہنگا مال خریدنا پڑتا ہے۔
ملک میں مختلف دنوں کے نام پر جو بچت بازار لگائے جاتے ہیں اب ان کی افادیت ختم ہوگئی ہے اور یہ بچت بازار صرف وہ اشیا ارزاں فروخت کرتے ہیں جو غیر معیاری ہوتی ہیں یا ان کی مانگ کم ہوتی ہے۔ باسی پھل اور سبزیاں بچت بازاروں میں بڑی آسانی سے فروخت ہوجاتی ہیں اور سرکاری نرخوں پر اشیا بہت کم ملتی ہیں کیونکہ منافع خوروں نے بڑی ہوشیاری سے بچت بازاروں کو بھی اپنی ناجائز کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے جس میں متعلقہ سرکاری عملہ بھی شامل ہوتا ہے اور عوام کو ان بازاروں میں تفریح ضرور مل جاتی ہے ریلیف حقیقی طور پر نہیں ملتا اور رمضان میں طلب بڑھ جانے اور رش سے فائدہ اٹھا کر منافع خور ہوشیاری دکھا جاتے ہیں۔
رمضان کے ماہ میں بھی سال کمائی ایک مہینے میں کرلینے والوں کے لیے رمضان دنیاوی طور پر مبارک ثابت ہوتا ہے اور غیر معیاری اشیا بھی مہنگے داموں فروخت ہوجاتی ہیں۔ رمضان واحد مہینہ ہے جس میں مسجدیں بھری ملتی ہیں کیونکہ گیارہ ماہ تک مساجد کا رخ نہ کرنے والے بھی مساجد کی رونق بڑھاتے ہیں اور یکم رمضان سے مسجدوں میں بڑھنے والا رش آہستہ آہستہ کم ہوتا جاتا ہے۔ تراویح کے نمازی بھی روزانہ آٹھ دس بارہ تراویح پڑھ کر وتر پڑھے بغیر لوٹ جاتے ہیں۔ پانچ سے پندرہ روزہ تراویح کے انعقاد کا رواج بڑھ رہا ہے۔
ایک ہی مسجد میں دس اور پندرہ روزہ تراویح کا بھی اہتمام ہوتا ہے اور امام صاحبان واضح بھی کرتے ہیں کہ چند روزہ تراویح قرآن پاک سننے کی حد تک درست ہے مگر تراویح پورے رمضان پڑھنا ضروری ہے مگر عمل کون کرتا ہے۔ ایسے لوگ اپنے کاروباری مفاد کے لیے چند روزہ تراویح پڑھ کر بعد میں عشا کی نماز پڑھ کر چلے جاتے ہیں۔ ایک مولانا صاحب بتا رہے تھے کہ ایسے لوگ رمضان میں بھی ہوشیاری دکھاتے ہیں اور چند روزہ تراویح امام کے پیچھے پڑھنے کے بعد وہیں مسجد میں اپنی تراویح پڑھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
مسجد میں خطاب کے دوران ایک عالم صاحب نے کہا کہ بدقسمتی سے بعض لوگ رمضان میں بھی ہوشیاری دکھا کر وقت بچاتے ہیں اور مکمل نماز نہیں پڑھتے اور جماعت کے بعد نفل اکثر چھوڑ دیے جاتے ہیں حالانکہ رمضان المبارک میں نفل کا ثواب بھی فرض نماز کے برابر ملتا ہے اور بہت سے لوگ رمضان میں نماز بھی جلدی جلدی پڑھتے ہیں جس کو نماز کی چوری علما قرار دیتے ہیں۔
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں بہت سے لوگ اپنے دفاتر سے چھٹیاں لینے کے لیے اعتکاف میں بیٹھ جاتے ہیں مگر اعتکاف میں بیٹھ کر وہ عبادت کم اورگپ شپ زیادہ کرتے ہیں اور تراویح کے بعد بہت سے لوگ مشہور ہوٹلوں سے کھانے منگوا کر پکنک کی طرح مل کر کھانے کھاتے ہیں اور تہجد کے وقت تک دنیاوی باتوں میں وقت گزارتے ہیں اور فجر پڑھ کر ظہر تک نیند پوری کرتے ہیں اور دینی معاملات میں بھی ہوشیاری دکھانے سے باز نہیں آتے۔
یہ دعوے وہاں اچھے لگتے ہیں جہاں قوانین کا احترام ہوتا ہو مگر پاکستان میں قوانین بنائے ضرور جاتے ہیں جو صرف دکھاوے کے لیے ہوتے ہیں یا صرف غریبوں کے لیے ہوتے ہیں امیروں کے لیے نہیں جب کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں منافع خور امیر اور غریب سب عوام کو لوٹنے کے لیے ایک ہوجاتے ہیں مگر حکومتی کارروائیاں ان غریب کہلانے والے ریڑھی پتھارے والوں اور چھوٹے دکانداروں کے خلاف ہوتی ہیں بڑے تاجروں، آڑھتیوں اور ہول سیلرز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ ملک بھر میں ناجائز منافع خوروں کے خلاف اس بار بھی کارروائی ہوئی اور جرمانوں کی رقم سے حکومتی خزانوں میں ضرور اضافہ ہوا عوام کو کبھی ایسی کارروائیوں سے کوئی فائدہ ماضی میں ہوا ہے نہ اس رمضان میں ہوا اور نہ ہی کبھی ہوگا۔
رمضان المبارک کو اللہ پاک کا مہینہ کہا جاتا ہے جس کی سزا اور جزا خود اللہ نے دینی ہے مگر لوگ اس مقدس ماہ میں بھی ہوشیاری دکھانے سے باز نہیں آتے اور وہ سب اس میں شامل ہیں جو رمضان کو دنیاوی کمائی کا مہینہ سمجھتے ہیں یا دینی کمائی اور عبادت کا۔ مذہبی ہدایات پر عمل کرنے والوں کے لیے تمام مہینے اہم اور رمضان المبارک خاص طور پر مقدس ہے جس میں وہ اپنی عبادت نہ صرف بڑھا دیتے ہیں بلکہ عبادت بھی خشوع و دلی لگاؤ سے کرتے ہیں۔ راقم نے ایک ایسے درزی کو بھی دیکھا تھا جو گیارہ ماہ کپڑے سیتے تھے اور رمضان جو درزیوں کی کمائی اور نرخ بڑھانے کا مہینہ ہوجاتا ہے وہ کوئی کام نہیں کرتے تھے اور رمضان میں صرف عبادت اور مسجد کی خدمت کرتے تھے۔
رمضان سے قبل ذخیرہ اندوزی اور رمضان میں عوام کو لوٹنے والے خود تو ہوشیاری کرتے ہی ہیں مگر سرکاری انتظامیہ نے بھی عوام کو منافع خوروں سے عوام کو لٹوانے کے لیے پھلوں کے بھی نمبر مقررکردیے ہیں اور اول درجہ، دوم اور سوم درجہ پھل قرار دے کر ان کے مختلف نرخ مقررکردیے جاتے ہیں اور دکاندار دو نمبرکو درجہ اول اور تین نمبر کے پھلوں کو درجہ دوم قرار دے کر سرکاری نرخوں پر اپنا عمل دکھاتے ہیں۔
رمضان المبارک میں نرخ مقرر کرنے والے سرکاری افسر ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر اپنا سرکاری فرض ادا کردیتے ہیں اور جو اشیا پہلے ہی کم نرخوں پر فروخت ہو رہی ہوتی ہیں ۔ ان کے سرکاری نرخ بڑھا کر مقررکردیے جاتے ہیں اورکبھی حقیقی نرخ مقرر نہیں کیے جاتے کہ عوام کو مناسب نرخوں پر اشیا مل سکیں اور فروخت کرنے والوں کو بھی جائز منافع مل سکے۔ جائز منافع کا تو ملک میں تصور ہی ختم ہوگیا ہے اور جس کا جہاں بس چلے وہ عوام کو لوٹ رہا ہے۔ انتظامیہ دعوے تو ایسے کرتی ہے جیسے منافع خور ان سے اجازت لے کر نرخ بڑھاتے ہوں جب کہ منافع خور زیادہ ہوشیار ہیں۔
رمضان المبارک کا احترام مسلمانوں پر لازم ہے مگر پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ خلیجی ممالک اور غیر مسلم ممالک میں تو رمضان کے موقعے پر مسلمانوں کو خاص رعایت دی جاتی ہے مگر رمضان کے احترام سے عاری لٹیروں میں مسلمان ہوتے ہوئے شرم ہوتی ہے نہ احساس ان کے نزدیک رمضان اپنے مسلمان بھائیوں کو لوٹنے کا مہینہ ہے اور رہی حکومت اسے تو اپنے عوام کا کوئی احساس ہی نہیں اور اب تک ہر حکومت نے عوام دشمنی ہی کا مظاہرہ کیا ہے اور پٹرول کو اپنی آمدنی کا بڑا ذریعہ بناکر عوام کو مہنگائی بڑھوا کر لوٹا اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے پر بھی جائز ریلیف نہیں دیا اور کبھی دیا بھی تو نرخ معمولی کم کرکے اور مزید ٹیکس بڑھا کر بڑی ہوشیاری سے واپس لے لیا۔
حکومت یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے عوام کو ارزاں قیمت پر ریلیف دے سکتی ہے اور صرف رمضان میں یوٹیلیٹی اسٹور پر نرخ کم کرنے کی تشہیر کی جاتی ہے مگر فائدہ عام لوگوں کو کم ہوتا ہے کیونکہ سرکاری عملہ ہوشیاری سے سستا سامان چھپر میں دکانداروں کو فروخت کرکے کمائی کرلیتا ہے اور عوام کو مشروط طور پر سستے کے ساتھ مہنگا مال خریدنا پڑتا ہے۔
ملک میں مختلف دنوں کے نام پر جو بچت بازار لگائے جاتے ہیں اب ان کی افادیت ختم ہوگئی ہے اور یہ بچت بازار صرف وہ اشیا ارزاں فروخت کرتے ہیں جو غیر معیاری ہوتی ہیں یا ان کی مانگ کم ہوتی ہے۔ باسی پھل اور سبزیاں بچت بازاروں میں بڑی آسانی سے فروخت ہوجاتی ہیں اور سرکاری نرخوں پر اشیا بہت کم ملتی ہیں کیونکہ منافع خوروں نے بڑی ہوشیاری سے بچت بازاروں کو بھی اپنی ناجائز کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے جس میں متعلقہ سرکاری عملہ بھی شامل ہوتا ہے اور عوام کو ان بازاروں میں تفریح ضرور مل جاتی ہے ریلیف حقیقی طور پر نہیں ملتا اور رمضان میں طلب بڑھ جانے اور رش سے فائدہ اٹھا کر منافع خور ہوشیاری دکھا جاتے ہیں۔
رمضان کے ماہ میں بھی سال کمائی ایک مہینے میں کرلینے والوں کے لیے رمضان دنیاوی طور پر مبارک ثابت ہوتا ہے اور غیر معیاری اشیا بھی مہنگے داموں فروخت ہوجاتی ہیں۔ رمضان واحد مہینہ ہے جس میں مسجدیں بھری ملتی ہیں کیونکہ گیارہ ماہ تک مساجد کا رخ نہ کرنے والے بھی مساجد کی رونق بڑھاتے ہیں اور یکم رمضان سے مسجدوں میں بڑھنے والا رش آہستہ آہستہ کم ہوتا جاتا ہے۔ تراویح کے نمازی بھی روزانہ آٹھ دس بارہ تراویح پڑھ کر وتر پڑھے بغیر لوٹ جاتے ہیں۔ پانچ سے پندرہ روزہ تراویح کے انعقاد کا رواج بڑھ رہا ہے۔
ایک ہی مسجد میں دس اور پندرہ روزہ تراویح کا بھی اہتمام ہوتا ہے اور امام صاحبان واضح بھی کرتے ہیں کہ چند روزہ تراویح قرآن پاک سننے کی حد تک درست ہے مگر تراویح پورے رمضان پڑھنا ضروری ہے مگر عمل کون کرتا ہے۔ ایسے لوگ اپنے کاروباری مفاد کے لیے چند روزہ تراویح پڑھ کر بعد میں عشا کی نماز پڑھ کر چلے جاتے ہیں۔ ایک مولانا صاحب بتا رہے تھے کہ ایسے لوگ رمضان میں بھی ہوشیاری دکھاتے ہیں اور چند روزہ تراویح امام کے پیچھے پڑھنے کے بعد وہیں مسجد میں اپنی تراویح پڑھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
مسجد میں خطاب کے دوران ایک عالم صاحب نے کہا کہ بدقسمتی سے بعض لوگ رمضان میں بھی ہوشیاری دکھا کر وقت بچاتے ہیں اور مکمل نماز نہیں پڑھتے اور جماعت کے بعد نفل اکثر چھوڑ دیے جاتے ہیں حالانکہ رمضان المبارک میں نفل کا ثواب بھی فرض نماز کے برابر ملتا ہے اور بہت سے لوگ رمضان میں نماز بھی جلدی جلدی پڑھتے ہیں جس کو نماز کی چوری علما قرار دیتے ہیں۔
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں بہت سے لوگ اپنے دفاتر سے چھٹیاں لینے کے لیے اعتکاف میں بیٹھ جاتے ہیں مگر اعتکاف میں بیٹھ کر وہ عبادت کم اورگپ شپ زیادہ کرتے ہیں اور تراویح کے بعد بہت سے لوگ مشہور ہوٹلوں سے کھانے منگوا کر پکنک کی طرح مل کر کھانے کھاتے ہیں اور تہجد کے وقت تک دنیاوی باتوں میں وقت گزارتے ہیں اور فجر پڑھ کر ظہر تک نیند پوری کرتے ہیں اور دینی معاملات میں بھی ہوشیاری دکھانے سے باز نہیں آتے۔