سمندروں کو لاحق بھیانک خطرات
دنیا بھر میں 3 ارب سے زائد لوگوں کی گزر بسر آبی حیات اور ساحلی تنوع پر منحصر ہے۔
دنیا کو پائیدار ترقی کی جانب گامزن کرنے والے عالمی اہداف جنھیں ''پائیدار ترقی کے اہداف'' (SDGs) کہا جاتا ہے، اس عالمی معاہدے کا حصہ ہیں، جسے 25 ستمبر 2015ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کرتے ہوئے ایجنڈہ 2030ء کا نام دیا تھا۔ کرئہ ارض کو پائیدار ترقی کی تبدیلی کی جانب لے جانے والے ان 17 اہداف میں ہدف 14 کا تعلق پائیدار ترقی کے لیے سمندرکو محفوظ بنانا اور آبی و ساحلی آلودگی کا تحفظ کرنا ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 3 ارب سے زائد لوگوں کی گزر بسر آبی حیات اور ساحلی تنوع پر منحصر ہے جب کہ سمندروں اور ساحلی وسائل اور اس سے متعلقہ صنعتوں کی مارکیٹ ویلیو کا اندازہ 3 ٹریلین ڈالر لگایا گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے سمندروں میں تیزابیت کی مقدارگزشتہ 25 ملین سال میں سب سے زیادہ ہے۔
سمندروں کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں آگہی کا کانفرنسوں اور سیمیناروں کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کی میزبانی میں 5 سے 9 جون تک عالمی ادارے کے ہیڈکوارٹر واقع نیو یارک میں پہلی عالمی اوشین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، فجی اور سوئیڈن اس کانفرنس کے شریک میزبان تھے جس میں 16 سربراہان مملکت، 2 ڈپٹی وزیراعظم،86 وزراء، 16 نائب وزراء اور حکومتی عہدیداروں، بین الحکومتی تنظیموں، بین الاقوامی اور علاقائی مالیاتی اداروں، سول سوسائٹی، تعلیمی وتحقیقی اداروں، پرائیویٹ سیکٹر سمیت 4000 سے زائد مندوبین شریک ہوئے۔
کانفرنس کا بنیادی مقصد پائیدار ترقی کے ہدف نمبر 14 کے نفاذ کی کوششوں کو تیزکرنے کے علاوہ عالمی سطح پر تمام اسٹیک ہولڈرزکو سمندروں کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات اور تجربات میں شامل کرنا اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حوالے سے قائم اقوام متحدہ کا ''ہائی لیول پولیٹکل فورم'' (HLPF ) جو ان عالمی اہداف کا جائزہ لیتا ہے کو ان پٹ فراہم کرنا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگٹرس نے اس موقعے پر خطاب میں دنیا کے سمندروں کے بارے میں ہونے والی متعدد تحقیقی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر سمندروں کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا تو 2050ء تک سمندروں میں پھینکا جانے والا کچرا مچھلیوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہوگا۔
ماہرین کے مطابق دنیا کے سمندر انسانوں کی پیدا کردہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا 30 فیصد حصہ جذب کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ صنعتی انقلاب سے اب تک سمندروں کی تیزابیت میں 26 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جب کہ سمندروں میں پیدا ہونے والی آبی آلودگی کا زیادہ حصہ زمین سے پیدا ہونے والی آبی آلودگی پر مشتمل ہے جو اب اپنی خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے مطابق سمندر کے ہر مربع کلومیٹر پر پلاسٹک کے اوسطاً 13 ہزار ٹکڑوں پر مشتمل کچرا پایا جاتا ہے۔ سمندر میں پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا سمندری ماحول کی تباہی کا سب سے اہم عنصر تسلیم کیا جارہا ہے۔ اوشین کانفرنس میں بھی سمندروں کو لاحق خطرات میں سب سے بڑا خطرہ پلاسٹک کچرے کو قرار دیا گیا۔
عالمی سطح پر سمندری آلودگی دنیا کے مختلف ساحلی خطوں کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ ہر سال 13.5 ملین ٹن پلاسٹک کا کچرا دریاؤں کے راستے یا براہ راست سمندر میں پھینکا جارہا ہے۔ ایک لاکھ سمندری جانور، ایک ملین سمندری پرندے، ایک لاکھ دودھ پلانے والے اور سمندری کچھوے ہر سال پلاسٹک کھانے یا ان میں پھنس جانے کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ وہیل اور ڈولفن مچھلیوں کے لیے بھی سب سے بڑا خطرہ پلاسٹک کچرا ہی ہے جب کہ اس کے ذریعے ہلاک ہونے والی مچھلیوں کی تعداد کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ اس حوالے سے ہونے والے معاشی نقصانات کی شرح 8 بلین ڈالر سالانہ بتائی جاتی ہے۔
ایک نئی رپورٹ کے مطابق سمندروں کو آلودہ کرتا ہوا پلاسٹک کچرا اب آرکٹک اور گرین لینڈ جیسے دور دراز علاقوں میں بھی پہنچ چکا ہے اور یہ دنیا کے چھ بڑے آبی مقامات پر جمع ہورہا ہے جب کہ یہ کچرا سمندری لہروں اور ان کے بہاؤ کے ذریعے زمین کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق انسانوں کی جانب سے پھینکے جانے والے کچرے کے یہ ڈھیر سمندروں کے درمیان ''کچرے کے جزیرے'' کی طرح گردش کرتے ہوئے سمندروں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہورہے ہیں یہاں تک کے سمندر میں ڈالے جانے والے تمام اقسام کے کچرے سیکڑوں میل دور تک سمندر میں موجود ہر چیز کو شدید متاثر کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ سمندروں میں پھینکی جانے والی پلاسٹک کی نصف تعداد چین، انڈونیشیا، فلپائن، ویت نام اور سری لنکا کی ہے۔
فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن (FAO) کے مطابق دنیا بھر میں ساحلی پٹی کے 100 کلومیٹر کا رقبہ دنیا بھر کی 61 فیصد پیداوار پر مشتمل ہے، یہ ساحلی پٹیاں کسی بھی ترقی پذیر ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اوشین کانفرنس میں بین الاقوامی ماہرین اور تحقیقی اداروں کی شایع ہونے والی رپورٹوں کی روشنی میں اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ سمندروں میں پلاسٹک کی مقدار میں اضافہ اگر اسی طرح جاری رہا تو ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ سمندروں میں مچھلیوں کی تعداد سے کہیں زیادہ تعداد پلاسٹک کی نظر آئے۔
کانفرنس کے موقعے پر برطانوی تاجر رچرڈ برائن نے دس لاکھ افراد کے دستخطوں پر مبنی ایک پٹیشن اقوام متحدہ میں جمع کرائی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ بحروں اور سمندروں میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور آبی حیات کو لاحق ہونے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے ایک عالمی معاہدے کو یقینی بنائے۔
عالمی اوشین کا نفرنس میں پاکستان کی نمایندگی اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کی۔ اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سمندر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے انحطاط کا شکار ہیں، پاکستان دنیا کے سمندروں کی حالت بہتر بنانے میں فعال کردار ادا کرے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ سمندر ہم سب کا اجتماعی ورثہ ہیں لیکن یہ قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال اور آلودگی کے باعث شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ پاکستان کی 11 سوکلومیٹر ساحلی پٹی بھی شدید خطرات سے دوچار ہے۔
موسمیاتی تبدیلی سے لاحق ہونے والے خطرات کے علاوہ صنعتی، گھریلو اور دیگر اقسام کا کچرا ٹنوں کے حساب سے روزانہ سمندر میں پھینکا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی، نوری آباد، حب کے صنعتی علاقوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں قائم غیر قانونی صنعتی اداروں سے نکلنے والاہر قسم کا فضلہ براہ راست سمندر میں ڈالا جارہا ہے جس کے باعث آبی حیات کو شدید نقصان پہنچنے کے علاوہ متعدد جگہوں سے یہ آبی حیات گہرے سمندر میں جاچکی ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل پورٹ اینڈ شپنگ کے مطابق 40 لاکھ گیلن صنعتی فضلہ روزانہ سمندر میں ڈالا جارہا ہے، صرف پاکستان نیوی کو سمندری آلودگی کی وجہ سے ایک ارب روپے سالانہ جہازوں کی صفائی کی مد میں خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ یہ صورتحال مختلف زاویوں سے ملک کی تمام ساحلی پٹی کی ہے جس پر توجہ نہ دی گئی تو ایک بڑا ماحولیاتی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 3 ارب سے زائد لوگوں کی گزر بسر آبی حیات اور ساحلی تنوع پر منحصر ہے جب کہ سمندروں اور ساحلی وسائل اور اس سے متعلقہ صنعتوں کی مارکیٹ ویلیو کا اندازہ 3 ٹریلین ڈالر لگایا گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے سمندروں میں تیزابیت کی مقدارگزشتہ 25 ملین سال میں سب سے زیادہ ہے۔
سمندروں کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں آگہی کا کانفرنسوں اور سیمیناروں کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کی میزبانی میں 5 سے 9 جون تک عالمی ادارے کے ہیڈکوارٹر واقع نیو یارک میں پہلی عالمی اوشین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، فجی اور سوئیڈن اس کانفرنس کے شریک میزبان تھے جس میں 16 سربراہان مملکت، 2 ڈپٹی وزیراعظم،86 وزراء، 16 نائب وزراء اور حکومتی عہدیداروں، بین الحکومتی تنظیموں، بین الاقوامی اور علاقائی مالیاتی اداروں، سول سوسائٹی، تعلیمی وتحقیقی اداروں، پرائیویٹ سیکٹر سمیت 4000 سے زائد مندوبین شریک ہوئے۔
کانفرنس کا بنیادی مقصد پائیدار ترقی کے ہدف نمبر 14 کے نفاذ کی کوششوں کو تیزکرنے کے علاوہ عالمی سطح پر تمام اسٹیک ہولڈرزکو سمندروں کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات اور تجربات میں شامل کرنا اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حوالے سے قائم اقوام متحدہ کا ''ہائی لیول پولیٹکل فورم'' (HLPF ) جو ان عالمی اہداف کا جائزہ لیتا ہے کو ان پٹ فراہم کرنا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگٹرس نے اس موقعے پر خطاب میں دنیا کے سمندروں کے بارے میں ہونے والی متعدد تحقیقی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر سمندروں کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا تو 2050ء تک سمندروں میں پھینکا جانے والا کچرا مچھلیوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہوگا۔
ماہرین کے مطابق دنیا کے سمندر انسانوں کی پیدا کردہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا 30 فیصد حصہ جذب کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ صنعتی انقلاب سے اب تک سمندروں کی تیزابیت میں 26 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جب کہ سمندروں میں پیدا ہونے والی آبی آلودگی کا زیادہ حصہ زمین سے پیدا ہونے والی آبی آلودگی پر مشتمل ہے جو اب اپنی خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے مطابق سمندر کے ہر مربع کلومیٹر پر پلاسٹک کے اوسطاً 13 ہزار ٹکڑوں پر مشتمل کچرا پایا جاتا ہے۔ سمندر میں پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا سمندری ماحول کی تباہی کا سب سے اہم عنصر تسلیم کیا جارہا ہے۔ اوشین کانفرنس میں بھی سمندروں کو لاحق خطرات میں سب سے بڑا خطرہ پلاسٹک کچرے کو قرار دیا گیا۔
عالمی سطح پر سمندری آلودگی دنیا کے مختلف ساحلی خطوں کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ ہر سال 13.5 ملین ٹن پلاسٹک کا کچرا دریاؤں کے راستے یا براہ راست سمندر میں پھینکا جارہا ہے۔ ایک لاکھ سمندری جانور، ایک ملین سمندری پرندے، ایک لاکھ دودھ پلانے والے اور سمندری کچھوے ہر سال پلاسٹک کھانے یا ان میں پھنس جانے کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ وہیل اور ڈولفن مچھلیوں کے لیے بھی سب سے بڑا خطرہ پلاسٹک کچرا ہی ہے جب کہ اس کے ذریعے ہلاک ہونے والی مچھلیوں کی تعداد کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ اس حوالے سے ہونے والے معاشی نقصانات کی شرح 8 بلین ڈالر سالانہ بتائی جاتی ہے۔
ایک نئی رپورٹ کے مطابق سمندروں کو آلودہ کرتا ہوا پلاسٹک کچرا اب آرکٹک اور گرین لینڈ جیسے دور دراز علاقوں میں بھی پہنچ چکا ہے اور یہ دنیا کے چھ بڑے آبی مقامات پر جمع ہورہا ہے جب کہ یہ کچرا سمندری لہروں اور ان کے بہاؤ کے ذریعے زمین کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق انسانوں کی جانب سے پھینکے جانے والے کچرے کے یہ ڈھیر سمندروں کے درمیان ''کچرے کے جزیرے'' کی طرح گردش کرتے ہوئے سمندروں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہورہے ہیں یہاں تک کے سمندر میں ڈالے جانے والے تمام اقسام کے کچرے سیکڑوں میل دور تک سمندر میں موجود ہر چیز کو شدید متاثر کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ سمندروں میں پھینکی جانے والی پلاسٹک کی نصف تعداد چین، انڈونیشیا، فلپائن، ویت نام اور سری لنکا کی ہے۔
فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن (FAO) کے مطابق دنیا بھر میں ساحلی پٹی کے 100 کلومیٹر کا رقبہ دنیا بھر کی 61 فیصد پیداوار پر مشتمل ہے، یہ ساحلی پٹیاں کسی بھی ترقی پذیر ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اوشین کانفرنس میں بین الاقوامی ماہرین اور تحقیقی اداروں کی شایع ہونے والی رپورٹوں کی روشنی میں اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ سمندروں میں پلاسٹک کی مقدار میں اضافہ اگر اسی طرح جاری رہا تو ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ سمندروں میں مچھلیوں کی تعداد سے کہیں زیادہ تعداد پلاسٹک کی نظر آئے۔
کانفرنس کے موقعے پر برطانوی تاجر رچرڈ برائن نے دس لاکھ افراد کے دستخطوں پر مبنی ایک پٹیشن اقوام متحدہ میں جمع کرائی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ بحروں اور سمندروں میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور آبی حیات کو لاحق ہونے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے ایک عالمی معاہدے کو یقینی بنائے۔
عالمی اوشین کا نفرنس میں پاکستان کی نمایندگی اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کی۔ اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سمندر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے انحطاط کا شکار ہیں، پاکستان دنیا کے سمندروں کی حالت بہتر بنانے میں فعال کردار ادا کرے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ سمندر ہم سب کا اجتماعی ورثہ ہیں لیکن یہ قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال اور آلودگی کے باعث شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ پاکستان کی 11 سوکلومیٹر ساحلی پٹی بھی شدید خطرات سے دوچار ہے۔
موسمیاتی تبدیلی سے لاحق ہونے والے خطرات کے علاوہ صنعتی، گھریلو اور دیگر اقسام کا کچرا ٹنوں کے حساب سے روزانہ سمندر میں پھینکا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی، نوری آباد، حب کے صنعتی علاقوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں قائم غیر قانونی صنعتی اداروں سے نکلنے والاہر قسم کا فضلہ براہ راست سمندر میں ڈالا جارہا ہے جس کے باعث آبی حیات کو شدید نقصان پہنچنے کے علاوہ متعدد جگہوں سے یہ آبی حیات گہرے سمندر میں جاچکی ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل پورٹ اینڈ شپنگ کے مطابق 40 لاکھ گیلن صنعتی فضلہ روزانہ سمندر میں ڈالا جارہا ہے، صرف پاکستان نیوی کو سمندری آلودگی کی وجہ سے ایک ارب روپے سالانہ جہازوں کی صفائی کی مد میں خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ یہ صورتحال مختلف زاویوں سے ملک کی تمام ساحلی پٹی کی ہے جس پر توجہ نہ دی گئی تو ایک بڑا ماحولیاتی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔