الوداع اے ماہِ رمضان الوداع
ایمان مکمل ہی تب ہوتا ہے جب ہم اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی پسند کریں جو اپنے لیے کرتے ہیں۔
اس جمعۃ الوداع کے بعد رمضان المبارک ہم سے بچھڑنے کو ہے۔ رمضان کے بعد دیکھتے ہیں کہ آپ کم کھاتے، کم سوتے، کم بولتے اور کیا اپنے نفس کی چوکی داری کرتے ہیں یا پہلے کی طرح پھر ویسے ہی زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔۔ ؟
یاد رکھیے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے: '' تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم اپنی پسندیدہ ترین چیز اللہ کی راہ میں نہ دے دو۔''
کھانا، پینا، آرام اور نفس کی بے لگام آزادی سے بڑھ کر انسان کی پسندیدہ چیز اور کیا ہوگی۔۔۔ ؟
کم کھانے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مطلوبہ ضروری غذائیت کو ہی فراموش کر بیٹھیں۔ کم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نفس کے اندر موجود، زیادہ سے زیادہ کھانے کے ندیدے پن اور اس حوالے سے حرام و حلال دولت اکٹھا کرنے کی ہوس کو لگام ڈالتے ہیں یا نہیں ؟
ضرورت کے مطابق مال و دولت کا تو حکم ہے مگر دراصل یہ مال و دولت کی بے لگام ہوس ہے جو اللہ انسانی زندگی سے منہا کرنا چاہتے ہیں۔ جب ایک انسان پورے مہینے بہت کچھ نہ کھا کر اور نہ پی کر بھی زندہ رہ سکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ کی ہوس کیا معنی رکھتی ہے۔۔۔۔۔ ؟
کم سے کم سونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ جسمانی آرام کو اپنی زندگی سے خارج ہی کر دیں، بل کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے نظام الاوقات کو کس طرح بہترین استعمال کرکے عبادت کا اہتمام کرتے ہیں اور اللہ کی خاطر کس قدر اپنے آرام اور بے سرو پا محفلوں سے دامن بچا تے ہوئے، اللہ کے سامنے حاضر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
سورہ مزمل آیت6 : '' بے شک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائی مناسب اور بات کو بالکل درست کر دینے والا ہے۔''
سورہ ہود آیت114: ''دن کے دونوں سروں پر نماز قائم کرو اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی۔''
سورہ الذاریات آیات16, 17, 18: ''ان کے رب نے انہیں جو کچھ عطا فرمایا اسے لے رہے ہوں گے وہ تو اس پہلے ہی نیک تھے وہ راتوں کو بہت کم سویا کرتے تھے اور صبح کے وقت استغفار کیا کرتے تھے۔''
کم بولنا زیادہ غور کرنے سے عبارت ہے۔ روزے کے دوران، شدید بھوک اور پیاس ہمیں خود بہ خود خاموش کرا دیتی ہے۔ رمضان المبارک میں اعتکاف میں بیٹھنا کیا مطلب سموئے ہوئے ہے ؟ دراصل اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ دنیا و مافیہا سے الگ اپنے اللہ سے لو لگا لیتے ہیں اور اس دنیا اور اخروی دنیا سے متعلق سوالات پر غور کرتے ہیں اور اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے نفس کی چوکی داری کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔
غور کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ جیسے رمضان المبارک میں اپنے روزے کی حفاظت کے لیے اس بات کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہیں کہ آپ سے کوئی ایسا کام نہ ہو جائے جو اللہ کو ناپسند ہو مبادا آپ کا روزہ ضایع ہوجائے، بالکل اسی طرح غیر ِ رمضان آپ اپنے نفس کی اسی طرح کی چوکی داری کرتے ہیں یا نہیں۔۔۔۔ ؟
اسی طرح کی نفس کی نگرانی اللہ تعالی نے آپ کو تمام رمضان میں سکھائی ہے۔ نفس کی نگرانی کی پورے مہینے عملی مشق کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ غیر ِ رمضان اپنی زندگی کے لمحات کیسے گزارتے ہیں۔۔۔؟
سورہ النازغات، آیت37 تا 40: '' تو جس شخص نے سرکشی کی ہوگی اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی ہوگی اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے مگر ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے رکا ہوگا۔''
حضرت معاذ ؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا : اس کو روک رکھو۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبیؐ جو گفت گو ہم عام طور پر کرتے ہیں کیا اس پر بھی مواخذہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اے معاذ لوگوں کو جہنم میں اوندھے منہ گرانے کا باعث صرف ان کی زبان کی کھیتیاں ( یعنی غیبت، بہتان، گالیوں بھری باتیں) ہی تو ہوں گی۔'' (ابن ماجہ، حدیث 3973)
سورہ بنی اسرائیل آیت 32 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ کیوں کہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ ہے۔ تفاسیر کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قریب جانے سے مراد ان افعال، حالات اور افراد سے دور رہنا ہے جو زنا کا باعث بن سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک نے آپ کو نفس کی جس چوکی داری کا درس دیا ہے آپ زبان اور زنا کے حوالے سے کس قدر اہتمام کے ساتھ اس کی خبر رکھتے ہیں کہ وہ لوگ کون ہیں جو آپ کو غیبت، گالی، بہتان، فحش گفت گو اور لایعنی باتوں میں الجھا کر آپ کے وقت اور مستقبل دونوں کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔۔۔ ؟
رمضان المبارک نے آپ کو یہ درس بھی تو دیا ہے کہ بھوک، پیاس اور مادی آسائشوں کی کمی انسانی زندگی پر کس قدر شدید اثرات مرتب کرتی ہے؟ یوں آپ کو اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ بہتر رویوں اور احسان کی روش قائم رکھنے کا امتحان شروع ہونے کو ہے۔
سورہ العمران آیت186: یقینا ً تمہارے اموال اور نفس سے تمہاری آزمائش کی جائے گی۔ آپؐ کی حدیث کے مطابق تو ایمان مکمل ہی تب ہوتا ہے جب ہم اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی پسند کریں جو اپنے لیے کرتے ہیں۔
ہماری زندگی کا مقصد حقوق اللہ اور حقوق العباد کی معیاری تکمیل ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد واضح ہیں اور آپؐ کی صورت ان حقوق کی ادائی کا معیار بھی واضح ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو ان دو قسم کے حقوق کی تکمیل کے حوالے سے دنیاوی زندگی میں اپنے اختیار اور شیاطین کی موجودی میں، ایک آزمائش سے دوچار کردیا گیا ہے۔
علوم ِ قرآن و حدیث کا مقصد یہی ہے کہ ان کے ذریعے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ عام لوگوں کو یہ صراط ِ مستقیم، ان کی اپنی زندگی کے تناظر میں بالکل صاف نظر آئے اور یوں زندگی میں پیش آمدہ کسی دو راہے پر صراط ِ مستقیم طے کرنے کا امکان میسر رہے۔ لیکن صراط ِ مستقیم پر چلنے کے بعد بھی کام یابی اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔ ہم مسلمان، بچپن سے لڑکپن اور جوانی سے ادھیڑ عمر تک اور پھر بڑھاپے تک، صراط ِ مستقیم کو طے کرنے کے عمل سے دوچار رہتے ہیں اور یہ سب تدریجا ً ہوتا ہے۔
درس ہائے رمضان المبارک بے شمار ہیں مگر ان سب کا مقصد و منتہا یہی ہے کہ آپ انہیں کس قدر اہتمام اور شوق سے اپنی عملی زندگی میں جاری کرتے ہیں ۔۔۔ ؟ اس سلسلے میں آپ تدریج کا راستہ بھی اپنا سکتے ہیں مگر پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ شیطان بھی کہیں تدریج کے ساتھ آپ کو اپنے راستے پر نہ لے جائے۔
سورہ اعراف آیات 16,17,18: '' پھر شیطان نے کہا کہ مجھے تو تو نے ملعون کیا ہی ہے، میں بھی تیرے سیدھے رستے پر ان ( انسانوں) کو گم راہ کرنے کے لیے بیٹھوں گا، پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے، دائیں سے اور بائیں سے آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گذار نہیں پائے گا۔ اللہ نے فرمایا ، یہاں سے نکل جا مردود ۔ جو لوگ ان میں سے تیری پیروری کریں گے میں ( ان کو اور تم سب کو) جہنم میں بھر دوں گا۔''
جب بڑے بڑے شیطان رمضان کے بعد آزاد ہوں گے تو ایسی صورت میں ہمیں اپنے نفس کی زبردست نگرانی کرنا ہوگی یوں ہمارا امتحان اور بھی سخت اور محتاط رویوں کا متقاضی ہوگا۔
یاد رکھیے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے: '' تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم اپنی پسندیدہ ترین چیز اللہ کی راہ میں نہ دے دو۔''
کھانا، پینا، آرام اور نفس کی بے لگام آزادی سے بڑھ کر انسان کی پسندیدہ چیز اور کیا ہوگی۔۔۔ ؟
کم کھانے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مطلوبہ ضروری غذائیت کو ہی فراموش کر بیٹھیں۔ کم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نفس کے اندر موجود، زیادہ سے زیادہ کھانے کے ندیدے پن اور اس حوالے سے حرام و حلال دولت اکٹھا کرنے کی ہوس کو لگام ڈالتے ہیں یا نہیں ؟
ضرورت کے مطابق مال و دولت کا تو حکم ہے مگر دراصل یہ مال و دولت کی بے لگام ہوس ہے جو اللہ انسانی زندگی سے منہا کرنا چاہتے ہیں۔ جب ایک انسان پورے مہینے بہت کچھ نہ کھا کر اور نہ پی کر بھی زندہ رہ سکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ کی ہوس کیا معنی رکھتی ہے۔۔۔۔۔ ؟
کم سے کم سونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ جسمانی آرام کو اپنی زندگی سے خارج ہی کر دیں، بل کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے نظام الاوقات کو کس طرح بہترین استعمال کرکے عبادت کا اہتمام کرتے ہیں اور اللہ کی خاطر کس قدر اپنے آرام اور بے سرو پا محفلوں سے دامن بچا تے ہوئے، اللہ کے سامنے حاضر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
سورہ مزمل آیت6 : '' بے شک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائی مناسب اور بات کو بالکل درست کر دینے والا ہے۔''
سورہ ہود آیت114: ''دن کے دونوں سروں پر نماز قائم کرو اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی۔''
سورہ الذاریات آیات16, 17, 18: ''ان کے رب نے انہیں جو کچھ عطا فرمایا اسے لے رہے ہوں گے وہ تو اس پہلے ہی نیک تھے وہ راتوں کو بہت کم سویا کرتے تھے اور صبح کے وقت استغفار کیا کرتے تھے۔''
کم بولنا زیادہ غور کرنے سے عبارت ہے۔ روزے کے دوران، شدید بھوک اور پیاس ہمیں خود بہ خود خاموش کرا دیتی ہے۔ رمضان المبارک میں اعتکاف میں بیٹھنا کیا مطلب سموئے ہوئے ہے ؟ دراصل اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ دنیا و مافیہا سے الگ اپنے اللہ سے لو لگا لیتے ہیں اور اس دنیا اور اخروی دنیا سے متعلق سوالات پر غور کرتے ہیں اور اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے نفس کی چوکی داری کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔
غور کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ جیسے رمضان المبارک میں اپنے روزے کی حفاظت کے لیے اس بات کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہیں کہ آپ سے کوئی ایسا کام نہ ہو جائے جو اللہ کو ناپسند ہو مبادا آپ کا روزہ ضایع ہوجائے، بالکل اسی طرح غیر ِ رمضان آپ اپنے نفس کی اسی طرح کی چوکی داری کرتے ہیں یا نہیں۔۔۔۔ ؟
اسی طرح کی نفس کی نگرانی اللہ تعالی نے آپ کو تمام رمضان میں سکھائی ہے۔ نفس کی نگرانی کی پورے مہینے عملی مشق کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ غیر ِ رمضان اپنی زندگی کے لمحات کیسے گزارتے ہیں۔۔۔؟
سورہ النازغات، آیت37 تا 40: '' تو جس شخص نے سرکشی کی ہوگی اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی ہوگی اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے مگر ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے رکا ہوگا۔''
حضرت معاذ ؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا : اس کو روک رکھو۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبیؐ جو گفت گو ہم عام طور پر کرتے ہیں کیا اس پر بھی مواخذہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اے معاذ لوگوں کو جہنم میں اوندھے منہ گرانے کا باعث صرف ان کی زبان کی کھیتیاں ( یعنی غیبت، بہتان، گالیوں بھری باتیں) ہی تو ہوں گی۔'' (ابن ماجہ، حدیث 3973)
سورہ بنی اسرائیل آیت 32 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ کیوں کہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ ہے۔ تفاسیر کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قریب جانے سے مراد ان افعال، حالات اور افراد سے دور رہنا ہے جو زنا کا باعث بن سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک نے آپ کو نفس کی جس چوکی داری کا درس دیا ہے آپ زبان اور زنا کے حوالے سے کس قدر اہتمام کے ساتھ اس کی خبر رکھتے ہیں کہ وہ لوگ کون ہیں جو آپ کو غیبت، گالی، بہتان، فحش گفت گو اور لایعنی باتوں میں الجھا کر آپ کے وقت اور مستقبل دونوں کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔۔۔ ؟
رمضان المبارک نے آپ کو یہ درس بھی تو دیا ہے کہ بھوک، پیاس اور مادی آسائشوں کی کمی انسانی زندگی پر کس قدر شدید اثرات مرتب کرتی ہے؟ یوں آپ کو اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ بہتر رویوں اور احسان کی روش قائم رکھنے کا امتحان شروع ہونے کو ہے۔
سورہ العمران آیت186: یقینا ً تمہارے اموال اور نفس سے تمہاری آزمائش کی جائے گی۔ آپؐ کی حدیث کے مطابق تو ایمان مکمل ہی تب ہوتا ہے جب ہم اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی پسند کریں جو اپنے لیے کرتے ہیں۔
ہماری زندگی کا مقصد حقوق اللہ اور حقوق العباد کی معیاری تکمیل ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد واضح ہیں اور آپؐ کی صورت ان حقوق کی ادائی کا معیار بھی واضح ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو ان دو قسم کے حقوق کی تکمیل کے حوالے سے دنیاوی زندگی میں اپنے اختیار اور شیاطین کی موجودی میں، ایک آزمائش سے دوچار کردیا گیا ہے۔
علوم ِ قرآن و حدیث کا مقصد یہی ہے کہ ان کے ذریعے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ عام لوگوں کو یہ صراط ِ مستقیم، ان کی اپنی زندگی کے تناظر میں بالکل صاف نظر آئے اور یوں زندگی میں پیش آمدہ کسی دو راہے پر صراط ِ مستقیم طے کرنے کا امکان میسر رہے۔ لیکن صراط ِ مستقیم پر چلنے کے بعد بھی کام یابی اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔ ہم مسلمان، بچپن سے لڑکپن اور جوانی سے ادھیڑ عمر تک اور پھر بڑھاپے تک، صراط ِ مستقیم کو طے کرنے کے عمل سے دوچار رہتے ہیں اور یہ سب تدریجا ً ہوتا ہے۔
درس ہائے رمضان المبارک بے شمار ہیں مگر ان سب کا مقصد و منتہا یہی ہے کہ آپ انہیں کس قدر اہتمام اور شوق سے اپنی عملی زندگی میں جاری کرتے ہیں ۔۔۔ ؟ اس سلسلے میں آپ تدریج کا راستہ بھی اپنا سکتے ہیں مگر پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ شیطان بھی کہیں تدریج کے ساتھ آپ کو اپنے راستے پر نہ لے جائے۔
سورہ اعراف آیات 16,17,18: '' پھر شیطان نے کہا کہ مجھے تو تو نے ملعون کیا ہی ہے، میں بھی تیرے سیدھے رستے پر ان ( انسانوں) کو گم راہ کرنے کے لیے بیٹھوں گا، پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے، دائیں سے اور بائیں سے آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گذار نہیں پائے گا۔ اللہ نے فرمایا ، یہاں سے نکل جا مردود ۔ جو لوگ ان میں سے تیری پیروری کریں گے میں ( ان کو اور تم سب کو) جہنم میں بھر دوں گا۔''
جب بڑے بڑے شیطان رمضان کے بعد آزاد ہوں گے تو ایسی صورت میں ہمیں اپنے نفس کی زبردست نگرانی کرنا ہوگی یوں ہمارا امتحان اور بھی سخت اور محتاط رویوں کا متقاضی ہوگا۔