کوئٹہ میں دھماکے سے 6 پولیس اہلکاروں سمیت 13 افراد جاں بحق
دھماکا بظاہر خودکش حملہ لگتا ہے جس میں 75 کلو گرام سے زائد دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا، ڈی جی بی ڈی ایس اسلم ترین
KARACHI:
جناح چیک پوسٹ اور آئی جی آفس کے قریب دھماکے سے 6 پولیس اہلکاروں سمیت 13 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کوئٹہ میں جناح چیک پوسٹ اور آئی جی آفس کے قریب شہدا چوک میں دھماکے سے 6 پولیس اہلکاروں سمیت 13 افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہو گئے۔ دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس کی آواز کئی کلو میٹر تک سنی گئی اور دھماکے سے قریبی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔
دھماکے کے نتیجے میں محکمہ تعلیم کی عمارت کو نقصان پہنچا جبکہ ایک گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی جس کے بارے میں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسی گاڑی میں بارودی مواد رکھا گیا تھا۔
ڈی جی بی ڈی ایس اسلم ترین نے میڈیا کو بتایا کہ دھماکا بظاہر خودکش حملہ لگتا ہے جس میں 75 کلو گرام سے زائد دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا، دہشت گردی کی اس کارروائی کو مزید ہولناک بنانے کے لیے بارودی مواد کے ساتھ نٹ بولٹ، بال بیرنگ اور کیلیں بھی استعمال کی گئیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ظالمانہ حملے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی مایوسی کا اشارہ ہیں، وزیراعظم
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکا صبح ساڑھے 8 بجے کے قریب ہوا، دھماکے کی جگہ پر عام دنوں میں کافی رش ہوتا ہے لیکن آج صوبائی حکومت کی جانب سے یوم القدس اور جمعتہ الوداع کے موقع پر عام تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا جس کی وجہ سے رش کافی کم تھا۔ دھماکے کے فوری بعد ہر طرف افراتفری پھیل گئی اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
ترجمان بلوچستان حکومت انوارالحق کاکڑ نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سیکیورٹی انتہائی سخت تھی اور جب اہلکاروں نے گاڑی کو روکا تو اس سے بارودی مواد سے بھری گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کا خدشہ موجود تھا جس کی وجہ سے سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی لیکن فوری طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دھماکے کا ہدف کیا تھا۔
ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے جان پر کھیل کر کوئٹہ کو بڑی تباہی سے بچایا، اہلکاروں کے گاڑی کو روکتے ہی دھماکا ہو گیا جس کے نتیجے میں دو گاڑیاں تباہ ہوئیں لیکن ابھی اس بات کا تعین کر رہے ہیں کہ دھماکا خیز مواد کس گاڑی میں موجود تھا۔ جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں کی شناخت لال خان، غنی خان اور ساجد کے ناموں سے ہوئی ہے۔
امدادی ٹیموں کے اہلکاروں نے دھماکے میں زخمی ہونے والوں کو فوری طور پر سول اور دیگر قریبی اسپتالوں میں منتقل کر دیا ہے جہاں انہیں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے علاقے کا محاصرہ کر کے شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔
صدر ممنون حسین نے کوئٹہ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے اہلخانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد آخری سانسیں لے رہے ہیں جبکہ ریاست عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے گی۔
وزیراعظم نواز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے بھی کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس میں ہونے والے جانی و مالی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔
جناح چیک پوسٹ اور آئی جی آفس کے قریب دھماکے سے 6 پولیس اہلکاروں سمیت 13 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کوئٹہ میں جناح چیک پوسٹ اور آئی جی آفس کے قریب شہدا چوک میں دھماکے سے 6 پولیس اہلکاروں سمیت 13 افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہو گئے۔ دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس کی آواز کئی کلو میٹر تک سنی گئی اور دھماکے سے قریبی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔
دھماکے کے نتیجے میں محکمہ تعلیم کی عمارت کو نقصان پہنچا جبکہ ایک گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی جس کے بارے میں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسی گاڑی میں بارودی مواد رکھا گیا تھا۔
ڈی جی بی ڈی ایس اسلم ترین نے میڈیا کو بتایا کہ دھماکا بظاہر خودکش حملہ لگتا ہے جس میں 75 کلو گرام سے زائد دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا، دہشت گردی کی اس کارروائی کو مزید ہولناک بنانے کے لیے بارودی مواد کے ساتھ نٹ بولٹ، بال بیرنگ اور کیلیں بھی استعمال کی گئیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ظالمانہ حملے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی مایوسی کا اشارہ ہیں، وزیراعظم
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکا صبح ساڑھے 8 بجے کے قریب ہوا، دھماکے کی جگہ پر عام دنوں میں کافی رش ہوتا ہے لیکن آج صوبائی حکومت کی جانب سے یوم القدس اور جمعتہ الوداع کے موقع پر عام تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا جس کی وجہ سے رش کافی کم تھا۔ دھماکے کے فوری بعد ہر طرف افراتفری پھیل گئی اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
ترجمان بلوچستان حکومت انوارالحق کاکڑ نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سیکیورٹی انتہائی سخت تھی اور جب اہلکاروں نے گاڑی کو روکا تو اس سے بارودی مواد سے بھری گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کا خدشہ موجود تھا جس کی وجہ سے سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی لیکن فوری طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دھماکے کا ہدف کیا تھا۔
ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے جان پر کھیل کر کوئٹہ کو بڑی تباہی سے بچایا، اہلکاروں کے گاڑی کو روکتے ہی دھماکا ہو گیا جس کے نتیجے میں دو گاڑیاں تباہ ہوئیں لیکن ابھی اس بات کا تعین کر رہے ہیں کہ دھماکا خیز مواد کس گاڑی میں موجود تھا۔ جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں کی شناخت لال خان، غنی خان اور ساجد کے ناموں سے ہوئی ہے۔
امدادی ٹیموں کے اہلکاروں نے دھماکے میں زخمی ہونے والوں کو فوری طور پر سول اور دیگر قریبی اسپتالوں میں منتقل کر دیا ہے جہاں انہیں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے علاقے کا محاصرہ کر کے شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔
صدر ممنون حسین نے کوئٹہ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے اہلخانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد آخری سانسیں لے رہے ہیں جبکہ ریاست عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے گی۔
وزیراعظم نواز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے بھی کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس میں ہونے والے جانی و مالی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔