نوجوان تبدیلی اور زرعی یونیورسٹی
باہمی مخاصمت اور غلط فہمیوں کو طول نہ دیں، اِس سے میری مادر علمی کی حیثیت اور نام پر فرق آ رہا ہے۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کیا ہمارے نوجوان واقعی اِس قدر ایماندار ہوچکے ہیں کہ اب وہ ایک ایماندار قیادت کے متمنی ہیں؟ کیا ہمارے نوجوان واقعی اِس قدر سچے ہوچکے ہیں کہ سچ سننا اور سچ ہی بولنا پسند کرتے ہیں؟ اور نظام ہے کہ بے ایمانی سکھا رہا ہے اور سچ بولنے پر پابندی لگا رہا ہے؟
ہم خود بھی اِس عہد سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے اردگرد بھی نوجوانوں کی اکثریت ہے اور یہ گھتی سلجھانا اِس قدر آسان نہیں ہے۔ کل معروف بلاگر رمضان رفیق صاحب کی جامعہ زرعیہ کے حوالے سے گفتگو سُن رہا تھا جس میں انہوں نے ایک طالب علم کا کمنٹ پڑھا جو اُس نے اپنے استاد کی پوسٹ پر کیا تھا۔
لفظوں کے فریب میں شاید یہ کمنٹ کسی بڑی تبدیلی کا پتا دیتا ہو لیکن حقیقی دنیا میں ہم جیسے ہی قدم رکھتے ہیں یہ خواب ٹوٹ جاتا ہ، اور معلوم پڑتا ہے کہ ہمارا سماج پہلے سے زیادہ پتلا ہو چکا ہے۔ خالص دودھ ہی نہیں خالص انسانی قدریں بھی ڈھونڈنا مشکل ہوچکا ہے۔
اگر ہمارا نوجوان طبقہ خود کو دیکھ کر مایوس نہیں ہوتا تو میرا مشاہدہ بھی اِسے نااُمید نہیں کرے گا۔ مجھے نہیں معلوم اپنے طالب علم کا یہ کمنٹ پڑھ کر اُس استاد نے کیا سوچا ہوگا، لیکن جامعہ زرعیہ کے ہی ایک استاد کی بات مجھے کئی بار یاد آتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر منیر احمد شیخ ہمیں بائیو کیمسٹری پڑھایا کرتے تھے۔ 80 سے زائد طلباء پر مبنی کلاس میں پچھلی قطار سے دورانِ لیکچر کسی نے آواز نکالی۔ استاد محترم پیچھے مڑے اور پوچھا کون تھا، کوئی بھی نہ بولا۔ انہوں نے ساری پچھلی رو کو سامنے بلا لیا۔ کہا اپنے ماں باپ کی قسم کھا کر کہتے جاؤ کہ میں نہیں بولا۔ ایک، دو، تین ... آٹھوں طلباء نے ماں باپ کی قسم اٹھائی اور کہا میں نہیں بولا۔ سب جانتے تھے کہ کون بولا تھا لیکن مجھ سمیت ساری کلاس دبی ہنسی میں سچائی کو چھپائے بیٹھی رہی۔ لیکن اِس موقع پر جو منیر صاحب نے کہا وہ مجھے آج تک نہیں بھولا، انہوں نے ماں باپ کی قسم اُٹھا کر جھوٹ بولنے والوں کو ایک موٹی سی گالی دی اور گویا ہوئے
جب بھی کوئی نوجوانوں سے کسی بڑی تبدیلی کی اُمید پیدا کرتا ہے تو میں محتاط ہوجاتا ہوں، اِدھر اُدھر دیکھتا ہوں، سب کو سوالیہ نظروں سے پڑھتا ہوں اور سوچتا ہوں اِس بات میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا سراب۔ میں نہیں کہتا کہ تبدیلی کا پہلا واقعہ فرد کے اندر ہی وقوع پذیر ہونا چاہیئے، اور جب تک نوجوان خود سراپا سچائی نہیں بن جاتا کسی دوسرے سے سچائی کی امید نہ رکھے۔ میں یہ بھی نہیں سوچتا کہ تبدیلی ہمیشہ باہر سے فرد کے اندر منتقل ہوتی ہے کہ جب تک نظام اور اِس سے جڑے لوگ سچائی کا ضامن نہیں بنیں گے ایک سچا سماج پیدا نہیں ہوسکتا، میں دو طرفہ تبدیلی پر یقین رکھتا ہوں۔
ہم جتنی سچائی کی اُمید دوسروں سے باندھتے ہیں اتنا سچ خود بھی بولنا شروع کردیں، جتنی مصلحتیں ہم اپنے لیے روا رکھتے ہیں کم از کم اُتنی کی اجازت دوسروں کو بھی دے دیں۔ جتنی ایماندار اور شفافیت کا مطالبہ دوسروں سے رکھتے ہیں، خود بھی اتنے ہی ایماندار اور شفاف ہوجائیں اور جتنی کرپشن خود کرتے ہیں اتنی دوسروں کی بھی برداشت کرلیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسا بالکل نظر نہیں آتا۔ ہمارے پاس اپنی لغزشوں اور غلط کاریوں کے لیے بڑی رعائتیں، الاؤنس، چھوٹ اور عفوکاریاں ہیں لیکن دوسروں کے لیے ہمارے جذبات بڑے سنگین، زبان بڑی درشت اور استدلال بڑے زور کا ہوتا ہے۔ دوسروں کے لیے ہماری کسوٹیاں اور معیارات بہت کڑے ہوتے ہیں۔
میں جامعہ زرعیہ کی انتظامیہ اور طلباء سے دست بستہ گزارش کرتا ہوں کہ آگے بڑھنے کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں۔ انتظامیہ بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے اور طلباء بھی چند سالوں کے مہمان ہوتے ہیں لیکن جامعہ زرعیہ نے ہماری اگلی نسلوں کو پروان چڑھانا ہے۔ باہمی مخاصمت اور غلط فہمیوں کو طول نہ دیں، اِس سے میری مادر علمی کی حیثیت اور نام پر فرق آ رہا ہے اور اداروں کی تعمیر میں ماہ و سال نہیں، سالہا سال لگتے ہیں۔ انتظامیہ خارج شدہ طلباء کو بحال کرے اور فوری طور پر اسٹاف اور طلباء کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال پر پالیسی اور گائیڈلائنز جاری کرے۔
جبر سے طلباء کے منہ بند کرنا، اکیسویں صدی میں ناممکن ہے، انہیں بھی مناسب طریقے ذمہ دارانہ اظہار رائے کی آزادی دی جانی چاہیے۔ دوسری طرف طلباء بھی اپنے اصل کردار کو پہچانیں، ہمارے تمام ادارے کرپشن اور غیر ذمہ دارانہ رویوں میں ڈوب رہے ہیں۔ آپ کو اِن پر توجہ بھی ضرور دینی چاہیے لیکن ردعمل میں ایسا توازن ضروری ہے جو ایڈمنسٹریشن اسٹوڈنٹ ایجوکیشنل ریلشن شپ کو توڑ نہ دے بلکہ سوچنے پر مجبور کردے۔ ورنہ حالات کا تازیانہ نہ آپ کو تبدیل کرسکا ہے اور نہ یونیورسٹی انتظامیہ کو سوچنے کا موقع دے پایا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہم خود بھی اِس عہد سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے اردگرد بھی نوجوانوں کی اکثریت ہے اور یہ گھتی سلجھانا اِس قدر آسان نہیں ہے۔ کل معروف بلاگر رمضان رفیق صاحب کی جامعہ زرعیہ کے حوالے سے گفتگو سُن رہا تھا جس میں انہوں نے ایک طالب علم کا کمنٹ پڑھا جو اُس نے اپنے استاد کی پوسٹ پر کیا تھا۔
''سر! میں شرمندہ ہوں کہ میں آپ کا طالب علم ہوں۔ آپ ہمیشہ ہمیں سچ بولنے کی تلقین کرتے رہے اور خود مصلحت کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔''
لفظوں کے فریب میں شاید یہ کمنٹ کسی بڑی تبدیلی کا پتا دیتا ہو لیکن حقیقی دنیا میں ہم جیسے ہی قدم رکھتے ہیں یہ خواب ٹوٹ جاتا ہ، اور معلوم پڑتا ہے کہ ہمارا سماج پہلے سے زیادہ پتلا ہو چکا ہے۔ خالص دودھ ہی نہیں خالص انسانی قدریں بھی ڈھونڈنا مشکل ہوچکا ہے۔
اگر ہمارا نوجوان طبقہ خود کو دیکھ کر مایوس نہیں ہوتا تو میرا مشاہدہ بھی اِسے نااُمید نہیں کرے گا۔ مجھے نہیں معلوم اپنے طالب علم کا یہ کمنٹ پڑھ کر اُس استاد نے کیا سوچا ہوگا، لیکن جامعہ زرعیہ کے ہی ایک استاد کی بات مجھے کئی بار یاد آتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر منیر احمد شیخ ہمیں بائیو کیمسٹری پڑھایا کرتے تھے۔ 80 سے زائد طلباء پر مبنی کلاس میں پچھلی قطار سے دورانِ لیکچر کسی نے آواز نکالی۔ استاد محترم پیچھے مڑے اور پوچھا کون تھا، کوئی بھی نہ بولا۔ انہوں نے ساری پچھلی رو کو سامنے بلا لیا۔ کہا اپنے ماں باپ کی قسم کھا کر کہتے جاؤ کہ میں نہیں بولا۔ ایک، دو، تین ... آٹھوں طلباء نے ماں باپ کی قسم اٹھائی اور کہا میں نہیں بولا۔ سب جانتے تھے کہ کون بولا تھا لیکن مجھ سمیت ساری کلاس دبی ہنسی میں سچائی کو چھپائے بیٹھی رہی۔ لیکن اِس موقع پر جو منیر صاحب نے کہا وہ مجھے آج تک نہیں بھولا، انہوں نے ماں باپ کی قسم اُٹھا کر جھوٹ بولنے والوں کو ایک موٹی سی گالی دی اور گویا ہوئے
''لوگ کہتے ہیں نوجوان تبدیلی کے ضامن ہیں، نوجوان تبدیلی لاسکتے ہیں، اگرچہ میں اب ریٹائر ہونے والا ہوں، لیکن میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ یہ سب بکواس ہے۔ کیا ماں باپ کی جھوٹی قسم کھانے والے نوجوان تبدیلی لائیں گے؟ جو خود کو بدل نہیں سکتے وہ خاک تبدیلی لائیں گے، جنہیں کلاس میں بیٹھنے کا ڈھنگ نہیں آتا، استاد تو کیا ایک دوسرے سے بولنے کی تمیز نہیں، ماں باپ کی قسم اٹھا کر جھوٹ بکتے ہیں''۔
جب بھی کوئی نوجوانوں سے کسی بڑی تبدیلی کی اُمید پیدا کرتا ہے تو میں محتاط ہوجاتا ہوں، اِدھر اُدھر دیکھتا ہوں، سب کو سوالیہ نظروں سے پڑھتا ہوں اور سوچتا ہوں اِس بات میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا سراب۔ میں نہیں کہتا کہ تبدیلی کا پہلا واقعہ فرد کے اندر ہی وقوع پذیر ہونا چاہیئے، اور جب تک نوجوان خود سراپا سچائی نہیں بن جاتا کسی دوسرے سے سچائی کی امید نہ رکھے۔ میں یہ بھی نہیں سوچتا کہ تبدیلی ہمیشہ باہر سے فرد کے اندر منتقل ہوتی ہے کہ جب تک نظام اور اِس سے جڑے لوگ سچائی کا ضامن نہیں بنیں گے ایک سچا سماج پیدا نہیں ہوسکتا، میں دو طرفہ تبدیلی پر یقین رکھتا ہوں۔
ہم جتنی سچائی کی اُمید دوسروں سے باندھتے ہیں اتنا سچ خود بھی بولنا شروع کردیں، جتنی مصلحتیں ہم اپنے لیے روا رکھتے ہیں کم از کم اُتنی کی اجازت دوسروں کو بھی دے دیں۔ جتنی ایماندار اور شفافیت کا مطالبہ دوسروں سے رکھتے ہیں، خود بھی اتنے ہی ایماندار اور شفاف ہوجائیں اور جتنی کرپشن خود کرتے ہیں اتنی دوسروں کی بھی برداشت کرلیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسا بالکل نظر نہیں آتا۔ ہمارے پاس اپنی لغزشوں اور غلط کاریوں کے لیے بڑی رعائتیں، الاؤنس، چھوٹ اور عفوکاریاں ہیں لیکن دوسروں کے لیے ہمارے جذبات بڑے سنگین، زبان بڑی درشت اور استدلال بڑے زور کا ہوتا ہے۔ دوسروں کے لیے ہماری کسوٹیاں اور معیارات بہت کڑے ہوتے ہیں۔
میں جامعہ زرعیہ کی انتظامیہ اور طلباء سے دست بستہ گزارش کرتا ہوں کہ آگے بڑھنے کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں۔ انتظامیہ بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے اور طلباء بھی چند سالوں کے مہمان ہوتے ہیں لیکن جامعہ زرعیہ نے ہماری اگلی نسلوں کو پروان چڑھانا ہے۔ باہمی مخاصمت اور غلط فہمیوں کو طول نہ دیں، اِس سے میری مادر علمی کی حیثیت اور نام پر فرق آ رہا ہے اور اداروں کی تعمیر میں ماہ و سال نہیں، سالہا سال لگتے ہیں۔ انتظامیہ خارج شدہ طلباء کو بحال کرے اور فوری طور پر اسٹاف اور طلباء کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال پر پالیسی اور گائیڈلائنز جاری کرے۔
جبر سے طلباء کے منہ بند کرنا، اکیسویں صدی میں ناممکن ہے، انہیں بھی مناسب طریقے ذمہ دارانہ اظہار رائے کی آزادی دی جانی چاہیے۔ دوسری طرف طلباء بھی اپنے اصل کردار کو پہچانیں، ہمارے تمام ادارے کرپشن اور غیر ذمہ دارانہ رویوں میں ڈوب رہے ہیں۔ آپ کو اِن پر توجہ بھی ضرور دینی چاہیے لیکن ردعمل میں ایسا توازن ضروری ہے جو ایڈمنسٹریشن اسٹوڈنٹ ایجوکیشنل ریلشن شپ کو توڑ نہ دے بلکہ سوچنے پر مجبور کردے۔ ورنہ حالات کا تازیانہ نہ آپ کو تبدیل کرسکا ہے اور نہ یونیورسٹی انتظامیہ کو سوچنے کا موقع دے پایا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔