موقع
نا تجربےکاری اورخام مگربھرپورصلاحیتوں کی حامل اس ٹیم کے کھلاڑیوں نے واقعی حقیقی زندگی میں کرشمہ کر دکھایا
ISLAMABAD:
چیمپئنز ٹرافی کا آغاز ہوا تو پاکستان آئی سی سی آئی کی ایک روزہ میچوں کی رینکنگ میں آٹھویں نمبر تھا اور اس ٹورنامنٹ میں اس کی فتح مندی کے امکانات معدوم دکھائی دیتے تھے۔ جب بھارت نے 124رن سے پچھاڑدیا تو پاکستانی ٹیم سے کسی کو کوئی امید باقی نہیں رہی۔ شکست خوردہ ٹیم جس طرح پورے قد سے کھڑی ہوگئی۔ یہ ایک حیرت انگیز منظر، ایک معجزہ تھا۔
نا تجربے کاری اور خام مگر بھرپور صلاحیتوں کی حامل اس ٹیم کے کھلاڑیوں نے واقعی حقیقی زندگی میں کرشمہ کر دکھایا۔ پاکستانی ٹیم، مدمقابل نمبر ایک جنوبی افریقہ کو شکست دیتی اس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا، لیکن ڈک ورتھ اینڈ لوئیس فارمولا لگا تو 19رنز کی برتری پاکستان کو مل گئی۔ سری لنکا کے خلاف 162پر سات وکٹیں گر چکیں تھی تو سرفراز نے کپتانی کا حق ادا کیا اور 61رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی، دوسری جانب محمد عامر چٹان کی طرح جمے رہے اور انتہائی اہم 28اسکور کا اضافہ کیا۔
ناقابل شکست اور ٹورنامنٹ کے لیے سب سے فیورٹ ٹیم قرار پانے والی انگلیڈ کو ہوم گراؤنڈ پر سیمی فائنل میں پاکستان کے ہاتھوں شکست اس ٹورنامنٹ کا سب سے بڑا اپ سیٹ تھا۔پاکستان واضح برتری کے ساتھ فتح یاب ہوا، آٹھ وکٹوں سے جیت ہوئی جب کہ ابھی 13اوور باقی تھے۔ ٹیم کی بہتر ہوتی کارکردگی ماہرین کی نظر میں آچکی تھی اور بعضے اس میں تسلسل بھی دیکھ رہے تھے، اس کے باوجود کوئی ایک بھی کوہلی، دھونی، یوراج، جدیجا، اشون، روہت اور دھون جیسے کھلاڑیوں کی ٹیم بھارت کے خلاف پاکستان کی فتح کا موہوم سا امکان تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔
بھارتی ٹیم ہدف کے تعاقب کا شان دار ریکارڈ رکھتی ہے، اسی لیے جب کوہلی ٹاس جیتنے کے بعد پاکستان کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی، توبذات خود وہ اور روہت شرما کو جو پوری فارم میں تھے انھیں دنیا کے بہترین بلے باز تسلیم کیا جارہا تھا، اسی لیے پاکستان کے پہلے کھیلنے کو شکست سے تعبیر کیا گیا۔
پاکستان نیوی کے سابق سیلر فخر زمان نے 114رنز کی ناقابل فراموش اننگز کھیلی۔ مصباح کے محتاط انداز کے اثر سے نکل کر اظہر رن آؤٹ ہونے تک کُھل کر کھیلے۔ بابر اعظم اور حفیظ کی ذمے دارانہ شراکت نے پاکستان کو ایک بڑے اسکور 338تک پہنچایا۔
ابتدائی 5 اوورز کے اندر محمد عامر نے روہت شرما، کوہلی اور شیکھر دھون کی وکٹیں گرا کر بھارتی بیٹنگ لائن کی کمر توڑ دی۔ پانڈیا کی زوردار بلے بازی بھی زیادہ دیر جاری نہیں رہے سکی۔ کوئی ایک بھارتی بلے باز عامر، حسن علی، جنید خان اور شاداب خان کی بالنگ کے سامنے ٹھہر نہیں سکا۔ یہ سب کسی بھی آئی سی سی فائنل میں کھیلنے والے نوجوان ترین کھلاڑی تھے۔ کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھنے والے ہمارے ملک میں اس کھیل کی تاریخ ''تنازعات''، ''اقربا پروری''، ''بدعنوانی''، ''من مانی'' جیسے حوالوں سے بھری ہوئی ہے۔ پاکستان میں قابلیت ہی کسی کی سب سے بڑی نااہلی ہے۔ شاذ ہی ایسے نوجوان اوپر آتے ہیں جو واقعی باصلاحیت بھی ہوں۔ ہونہار نوجوان کھلاڑیوں کی طویل فہرست ہے، جنھیں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہیں دیا گیا۔ٹیسٹ کے بہترین کیپٹن مصباح الحق کے ''ٹک ٹک'' اثرات ون ڈے اور ٹی ٹوینٹی ٹیم کی سلیکشن پر بھی پڑے۔ کسی کو دائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والے سمیع اسلم کا نام یاد ہے، جس نے گزشتہ برس انگلیڈ کے خلاف اچھے خاصے اسکور کیے تھے؟ شرجیل خان کو ''میچ فکسنگ'' کے ناکافی شواہد کے باوجود کیوں کنارے کردیا گیا؟
شعیب ملک اور وہاب ریاض کی جگہ ٹیم میں کیسے بنتی ہے جب کہ حارث سہیل اور فہیم اشرف جیسے آل راؤنڈرز کو میدان سے باہر بٹھا رکھا گیا ہے؟ کرکٹ میں زوال کا سبب یہ بھی ہے کہ پی سی بی کے چلانے والے کھیل کا براہ راست فہم نہیں رکھتے۔ شہریار خان کو اب آرام کرنا چاہیے۔ نجم سیٹھی کی کاروباری سوجھ بوجھ کا کرشمہ پی ایس ایل میں دیکھا جاچکا لیکن اس کے باجود ہمیں پاکستان کرکٹ بورڈ سنبھالنے کے لیے اس کھیل سے وابستہ افراد کی ضرورت ہے۔ پہلے بھارت نے ''اصول پسندی'' کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا، چونکہ پاکستان دہشتگردی کا ''مرکز'' ہے اس لیے وہ اس کی ٹیم سے کسی تیسرے ملک میں بھی کھیلنے کے لیے تیار نہیں۔
بھارت کی منافقانہ روش کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کے اس موقف کے باوجود چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان سے کھیلتے ہوئے اس کے ضمیر پر کوئی ''بوجھ'' نہیں آیا۔ اگر اوول میں ہونے والے مقابلے کے لیے بھی بھارت ''اصول پسندی'' کی آڑ لے لیتا تو شکست کے نتیجے میں ہونے والی ہزیمت نہ اٹھانی پڑتی۔ بہر حال ، کوہلی کی اسپورٹس مین اسپرٹ قابل تعریف ہے کہ شکست کے بعد دل و دماغ پر چھا جانے والی مایوسی کے باوجود، اس نے پاکستانی ٹیم کی دل کھول کر تعریف کی۔
بھارت مصروف رہا ہے کہ کرکٹ میں بالخصوص اور کھیل کے میدان میں بالعموم پاکستان کو تنہا کر دیا جائے۔ 2008کے ممبئی حملوں کو بنیاد بنا کر بھارتی کرکٹ ٹیم کا طے شدہ دورۂ پاکستان منسوخ کیا گیا۔ جس کے بعد سری لنکا ٹیم کو مدعو کیا گیا۔
3مارچ 2009 کو اس دورے کے دوسرے ٹیسٹ کے تیسرے روز لاہور میں ایک درجن مسلح افراد نے لبرٹی مارکیٹ کے نزدیک سری لنکن ٹیم پر گھات لگا کر حملہ کیا۔ باریک بینی کے ساتھ اس حملے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، فائرنگ اس طرح کی گئی کہ سری لنکا کے کسی کھلاڑی کا جانی نقصان نہ ہونے پائے۔ بس ڈرائیور محمد خلیل حاضر دماغی کا ثبوت دیتے ہوئے سری لنکن ٹیم کو حملہ آوروں کی زد سے نکال لے گیا جب کہ اس حملے میں آٹھ سیکیورٹی اہلکار اور شہری قتل ہوئے۔ حملہ آورں کے پاس جس مقدار میں کھانے پینے کی اشیا تھیں اس سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ وہ کھلاڑیوں کو قتل کرنے کے بجائے یرغمال بنانے آئے تھے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' نے لبریشن تامل ٹائیگرز آف ایلام کو جنم دیا۔ اُس وقت اسی تنظیم کا سربراہ پربھاکرن کلونچی کے علاقے میں سری لنکا کی فوج کے نرغے میں آچکا تھا۔
بھارتی وزیر خارجہ پرنب مکھر جی ہفتوں پربھاکرن کو محفوظ راستہ دینے کے لیے سری لنکا کو آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان حالات میں، حملے کا وقت اور ہدف محض اتفاق ہے؟ فروری 1971 میں گنگا طیارے کے اغوا کی طرح یہ حملہ ایک سازش تھا۔ اس کارروائی میں مقامی دہشتگرد استعمال کیے گئے اور اس کے چند بڑے مقاصد یہ سمجھ آتے ہیں کہ پربھاکرن کی بازیابی کے لیے سری لنکن ٹیم کو یرغمال بنایا جائے۔ دوسرا مقصد کھیل کے میدان میں پاکستان کو تنہا کرنا تھا۔
سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر پر میچ فکسنگ کے الزامات اور انٹرنیشنل کرکٹ میں ان پر پابندی بھی ایسا ہی ایک سازشی منصوبہ تھا۔ سلمان بٹ اور محمد آصف تو جان بوجھ کر اس کھیل کا حصہ تھے لیکن اس منصوبے کو اصل ہدف نوجوان محمد عامر تھا، جس کی آمد سے پاکستانی بالنگ اٹیک مضبوط ہوچکا تھا۔
جس بکی نے ان کھلاڑیوں پر الزامات لگائے اسے فراڈ کے دوسرے مقدمے میں سزا ہوئی، ''را'' پاکستان کے نوجوان ٹیلنٹ کو نشانہ بنانے کے لیے ایسے ہتھکنڈے آج بھی استعمال کرسکتی ہے۔ آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کے کھیلنے پر پابندی بھی ایسی ہی ایک کوشش تھی۔
انگلینڈ میں 2019کے ورلڈ کپ کے انعقاد سے قبل ہمارے پاس کام دوبرس ہیں جس میں خالص میرٹ پر ایک بہتری اسکواڈ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ ہماری ٹیم پوری قوم کے لیے ایک مثال ہے۔ جس طرح ان کھلاڑیوں کو موقع ملا تو انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور ٹیم پر ہونے والی تنقید کا عمل سے جواب دے کر ناقدین کو مداحوں میں تبدیل کردیا۔ اسی طرح اگر زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی میرٹ پر ٹیلنٹ کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے تو ہم اس ملک کو عظیم ترین اقوام کی صف میں لاکھڑا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ بس اس کا موقع ملنا چاہیے۔
چیمپئنز ٹرافی کا آغاز ہوا تو پاکستان آئی سی سی آئی کی ایک روزہ میچوں کی رینکنگ میں آٹھویں نمبر تھا اور اس ٹورنامنٹ میں اس کی فتح مندی کے امکانات معدوم دکھائی دیتے تھے۔ جب بھارت نے 124رن سے پچھاڑدیا تو پاکستانی ٹیم سے کسی کو کوئی امید باقی نہیں رہی۔ شکست خوردہ ٹیم جس طرح پورے قد سے کھڑی ہوگئی۔ یہ ایک حیرت انگیز منظر، ایک معجزہ تھا۔
نا تجربے کاری اور خام مگر بھرپور صلاحیتوں کی حامل اس ٹیم کے کھلاڑیوں نے واقعی حقیقی زندگی میں کرشمہ کر دکھایا۔ پاکستانی ٹیم، مدمقابل نمبر ایک جنوبی افریقہ کو شکست دیتی اس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا، لیکن ڈک ورتھ اینڈ لوئیس فارمولا لگا تو 19رنز کی برتری پاکستان کو مل گئی۔ سری لنکا کے خلاف 162پر سات وکٹیں گر چکیں تھی تو سرفراز نے کپتانی کا حق ادا کیا اور 61رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلی، دوسری جانب محمد عامر چٹان کی طرح جمے رہے اور انتہائی اہم 28اسکور کا اضافہ کیا۔
ناقابل شکست اور ٹورنامنٹ کے لیے سب سے فیورٹ ٹیم قرار پانے والی انگلیڈ کو ہوم گراؤنڈ پر سیمی فائنل میں پاکستان کے ہاتھوں شکست اس ٹورنامنٹ کا سب سے بڑا اپ سیٹ تھا۔پاکستان واضح برتری کے ساتھ فتح یاب ہوا، آٹھ وکٹوں سے جیت ہوئی جب کہ ابھی 13اوور باقی تھے۔ ٹیم کی بہتر ہوتی کارکردگی ماہرین کی نظر میں آچکی تھی اور بعضے اس میں تسلسل بھی دیکھ رہے تھے، اس کے باوجود کوئی ایک بھی کوہلی، دھونی، یوراج، جدیجا، اشون، روہت اور دھون جیسے کھلاڑیوں کی ٹیم بھارت کے خلاف پاکستان کی فتح کا موہوم سا امکان تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔
بھارتی ٹیم ہدف کے تعاقب کا شان دار ریکارڈ رکھتی ہے، اسی لیے جب کوہلی ٹاس جیتنے کے بعد پاکستان کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی، توبذات خود وہ اور روہت شرما کو جو پوری فارم میں تھے انھیں دنیا کے بہترین بلے باز تسلیم کیا جارہا تھا، اسی لیے پاکستان کے پہلے کھیلنے کو شکست سے تعبیر کیا گیا۔
پاکستان نیوی کے سابق سیلر فخر زمان نے 114رنز کی ناقابل فراموش اننگز کھیلی۔ مصباح کے محتاط انداز کے اثر سے نکل کر اظہر رن آؤٹ ہونے تک کُھل کر کھیلے۔ بابر اعظم اور حفیظ کی ذمے دارانہ شراکت نے پاکستان کو ایک بڑے اسکور 338تک پہنچایا۔
ابتدائی 5 اوورز کے اندر محمد عامر نے روہت شرما، کوہلی اور شیکھر دھون کی وکٹیں گرا کر بھارتی بیٹنگ لائن کی کمر توڑ دی۔ پانڈیا کی زوردار بلے بازی بھی زیادہ دیر جاری نہیں رہے سکی۔ کوئی ایک بھارتی بلے باز عامر، حسن علی، جنید خان اور شاداب خان کی بالنگ کے سامنے ٹھہر نہیں سکا۔ یہ سب کسی بھی آئی سی سی فائنل میں کھیلنے والے نوجوان ترین کھلاڑی تھے۔ کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھنے والے ہمارے ملک میں اس کھیل کی تاریخ ''تنازعات''، ''اقربا پروری''، ''بدعنوانی''، ''من مانی'' جیسے حوالوں سے بھری ہوئی ہے۔ پاکستان میں قابلیت ہی کسی کی سب سے بڑی نااہلی ہے۔ شاذ ہی ایسے نوجوان اوپر آتے ہیں جو واقعی باصلاحیت بھی ہوں۔ ہونہار نوجوان کھلاڑیوں کی طویل فہرست ہے، جنھیں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہیں دیا گیا۔ٹیسٹ کے بہترین کیپٹن مصباح الحق کے ''ٹک ٹک'' اثرات ون ڈے اور ٹی ٹوینٹی ٹیم کی سلیکشن پر بھی پڑے۔ کسی کو دائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والے سمیع اسلم کا نام یاد ہے، جس نے گزشتہ برس انگلیڈ کے خلاف اچھے خاصے اسکور کیے تھے؟ شرجیل خان کو ''میچ فکسنگ'' کے ناکافی شواہد کے باوجود کیوں کنارے کردیا گیا؟
شعیب ملک اور وہاب ریاض کی جگہ ٹیم میں کیسے بنتی ہے جب کہ حارث سہیل اور فہیم اشرف جیسے آل راؤنڈرز کو میدان سے باہر بٹھا رکھا گیا ہے؟ کرکٹ میں زوال کا سبب یہ بھی ہے کہ پی سی بی کے چلانے والے کھیل کا براہ راست فہم نہیں رکھتے۔ شہریار خان کو اب آرام کرنا چاہیے۔ نجم سیٹھی کی کاروباری سوجھ بوجھ کا کرشمہ پی ایس ایل میں دیکھا جاچکا لیکن اس کے باجود ہمیں پاکستان کرکٹ بورڈ سنبھالنے کے لیے اس کھیل سے وابستہ افراد کی ضرورت ہے۔ پہلے بھارت نے ''اصول پسندی'' کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا، چونکہ پاکستان دہشتگردی کا ''مرکز'' ہے اس لیے وہ اس کی ٹیم سے کسی تیسرے ملک میں بھی کھیلنے کے لیے تیار نہیں۔
بھارت کی منافقانہ روش کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کے اس موقف کے باوجود چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان سے کھیلتے ہوئے اس کے ضمیر پر کوئی ''بوجھ'' نہیں آیا۔ اگر اوول میں ہونے والے مقابلے کے لیے بھی بھارت ''اصول پسندی'' کی آڑ لے لیتا تو شکست کے نتیجے میں ہونے والی ہزیمت نہ اٹھانی پڑتی۔ بہر حال ، کوہلی کی اسپورٹس مین اسپرٹ قابل تعریف ہے کہ شکست کے بعد دل و دماغ پر چھا جانے والی مایوسی کے باوجود، اس نے پاکستانی ٹیم کی دل کھول کر تعریف کی۔
بھارت مصروف رہا ہے کہ کرکٹ میں بالخصوص اور کھیل کے میدان میں بالعموم پاکستان کو تنہا کر دیا جائے۔ 2008کے ممبئی حملوں کو بنیاد بنا کر بھارتی کرکٹ ٹیم کا طے شدہ دورۂ پاکستان منسوخ کیا گیا۔ جس کے بعد سری لنکا ٹیم کو مدعو کیا گیا۔
3مارچ 2009 کو اس دورے کے دوسرے ٹیسٹ کے تیسرے روز لاہور میں ایک درجن مسلح افراد نے لبرٹی مارکیٹ کے نزدیک سری لنکن ٹیم پر گھات لگا کر حملہ کیا۔ باریک بینی کے ساتھ اس حملے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، فائرنگ اس طرح کی گئی کہ سری لنکا کے کسی کھلاڑی کا جانی نقصان نہ ہونے پائے۔ بس ڈرائیور محمد خلیل حاضر دماغی کا ثبوت دیتے ہوئے سری لنکن ٹیم کو حملہ آوروں کی زد سے نکال لے گیا جب کہ اس حملے میں آٹھ سیکیورٹی اہلکار اور شہری قتل ہوئے۔ حملہ آورں کے پاس جس مقدار میں کھانے پینے کی اشیا تھیں اس سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ وہ کھلاڑیوں کو قتل کرنے کے بجائے یرغمال بنانے آئے تھے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' نے لبریشن تامل ٹائیگرز آف ایلام کو جنم دیا۔ اُس وقت اسی تنظیم کا سربراہ پربھاکرن کلونچی کے علاقے میں سری لنکا کی فوج کے نرغے میں آچکا تھا۔
بھارتی وزیر خارجہ پرنب مکھر جی ہفتوں پربھاکرن کو محفوظ راستہ دینے کے لیے سری لنکا کو آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان حالات میں، حملے کا وقت اور ہدف محض اتفاق ہے؟ فروری 1971 میں گنگا طیارے کے اغوا کی طرح یہ حملہ ایک سازش تھا۔ اس کارروائی میں مقامی دہشتگرد استعمال کیے گئے اور اس کے چند بڑے مقاصد یہ سمجھ آتے ہیں کہ پربھاکرن کی بازیابی کے لیے سری لنکن ٹیم کو یرغمال بنایا جائے۔ دوسرا مقصد کھیل کے میدان میں پاکستان کو تنہا کرنا تھا۔
سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر پر میچ فکسنگ کے الزامات اور انٹرنیشنل کرکٹ میں ان پر پابندی بھی ایسا ہی ایک سازشی منصوبہ تھا۔ سلمان بٹ اور محمد آصف تو جان بوجھ کر اس کھیل کا حصہ تھے لیکن اس منصوبے کو اصل ہدف نوجوان محمد عامر تھا، جس کی آمد سے پاکستانی بالنگ اٹیک مضبوط ہوچکا تھا۔
جس بکی نے ان کھلاڑیوں پر الزامات لگائے اسے فراڈ کے دوسرے مقدمے میں سزا ہوئی، ''را'' پاکستان کے نوجوان ٹیلنٹ کو نشانہ بنانے کے لیے ایسے ہتھکنڈے آج بھی استعمال کرسکتی ہے۔ آئی پی ایل میں پاکستانی کھلاڑیوں کے کھیلنے پر پابندی بھی ایسی ہی ایک کوشش تھی۔
انگلینڈ میں 2019کے ورلڈ کپ کے انعقاد سے قبل ہمارے پاس کام دوبرس ہیں جس میں خالص میرٹ پر ایک بہتری اسکواڈ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ ہماری ٹیم پوری قوم کے لیے ایک مثال ہے۔ جس طرح ان کھلاڑیوں کو موقع ملا تو انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور ٹیم پر ہونے والی تنقید کا عمل سے جواب دے کر ناقدین کو مداحوں میں تبدیل کردیا۔ اسی طرح اگر زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی میرٹ پر ٹیلنٹ کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے تو ہم اس ملک کو عظیم ترین اقوام کی صف میں لاکھڑا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ بس اس کا موقع ملنا چاہیے۔