کراچی اور سیاسی خلا
یہ الگ بات ہے کہ وارثوں کو بے اختیار کیا جارہا ہے
KARACHI:
عوام کو بنیادی سہولتیں ملیں یا نہ ملیں، انسانی حقوق کی کیسی ہی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں لیکن ان عوامل سے نجات کے راستے بنانے کے بجائے لوگوں کے ذہنوں کو مصروف رکھنے کے نت نئے طریقے مہیا کیے جارہے ہیں۔ کچھ قلیل مدت کے لیے، تو کچھ طویل مدت کا احاطہ کیے نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ 4 برس کے دورانیے پر محیط شور شرابے سے بھرپور دھرنے، ریلیاں حکومت کے خلاف 'گو گو' کے نعرے اور ساتھ ہی پاناما کی کہانیوں کی گتھیاں عوام کے ہاتھوں میں تھما کر سروں پر فکر کا تاج سجادیا گیا ہے۔
جن پر الزام، وہ بھی پریشان اور جو بے قصور، وہ ان سے زیادہ پریشان اور حکومت کے انکار، اپوزیشن کے اصرار، کے علاوہ عدالتی فیصلوں کا انتظار کیے بغیر ہی عوام اس کے دروازوں پر کان لگائے ذہن کو انتظار کے کرب میں مبتلا رکھ کر ہر کونے میں تبصرے اور اپنے اپنے ذہن کے مطابق فیصلے بھی قبل از وقت صحیح اور غلط کی گردان کے ساتھ رواں دواں ہیں، ساتھ ہی ڈان لیگ کے ڈرم کو بجاکر ذہنوں کو الجھائے رکھا۔ دیگر معاملات کی ابھی دھول بھی نہیں بیٹھی تھی کہ کراچی کا شوشہ چھوڑ کر ایک تاثر پیدا کرنا شروع کردیا ہے کہ کراچی کے بحران کا باعث سیاسی خلا ہے اور پھر اپنے اپنے جلسوں، تجزیوں اور تبصروں میں بھی زمانے کو یہی بات بارآور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جیسے کراچی ایک لاوارث شہر ہو اور اس کی حیثیت اس رئیس یتیم بچے کی سی بنا دی گئی ہے کہ جس کی دولت کا حساب کتاب رکھنے والے لاتعداد وہ نام نہاد، جو اسے OWN بھی نہیں کرتے اور نہ اس کی ضرورتوں، پرورش اور مستقبل کی فکر سے انھیں کوئی سروکار ہے جب کہ روز روشن کی طرح اصل حقیقت یہ ہے کہ اس کے وارث وہ ہی اسٹیک ہولڈرز ہیں جو صرف رجسڑڈ ووٹرز کی حیثیت سے اس شہر سے ایک فطری وابستگی رکھتے ہیں۔ ان میں ہجرت کرکے آنے والوں کے علاوہ مقامی سندھی اور دوسری قومیتوں کے ابتدائی ادوار میں آکر بسنے والے لوگ بھی شامل ہیں اور اگر کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو اس کو درست کرنے کی یہی لوگ کوشش کرتے رہے ہیں اور آیندہ بھی کرتے رہیں گے۔
جن نام نہاد فکر کرنے والوں کا بالائی سطروں میں ذکر کیا وہ تو ہمیشہ ٹیکس کی وصولی کے لیے ہی پیش پیش نظر آتے ہیں اور ٹیکس ادا کرنے والے اس میٹھے کیک جیسے شہر کو چند غیر مقامی سیاستدان اپنی ضیافت میں شامل کرنے کے لیے اپنے جلسوں، ریلیوں، دھرنوں میں کراچی کی واویلا کرتے نظر آتے ہیں، جب کہ اس شہر کے مسائل کے حل سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہی جب اپنے اجتماعات جن میں تمام افراد غیر مقامی ہوتے ہیں اور ان پروگراموں کوکراچی کے عوام سے مستثنیٰ پاتے ہیں تو اس شہر میں سیاسی خلا کا رونا روتے ہیں۔ جب کہ مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں خلا اس وقت ہوا تھا جب ایک کمیونٹی تقسیم برصغیر کے وقت اس خطے سے ہجرت کرگئی تھی لیکن اس خلا کو ہجرت کرکے آنے والوں نے نہ صرف پر کیا بلکہ اپنی حکمت عملی اور کاوشوں سے اس طرح آگے بڑھایا کہ پسماندہ مچھیروں کی یہ بستی کلانچی بڑھتے بڑھتے ایک بڑے کاروباری اور صنعتی شہر کراچی کی صورت سامنے آئی۔ جس کا سہرا ہندوستان سے آنے والے ان اکابرین کے سر ہے جو اپنے قدموں کے ساتھ ساتھ دولت کے انبار بھی لے کر آئے، جن کی نسلیں آج بھی سرمایہ کاری، صنعت و تجارت میں اپنا نام رکھتی ہیں، جن میں حبیب، ولیکا، داؤد، اصفہانی، آدم جی و دیگر گروپ شامل ہیں جن کے نام آپ سب ہی جانتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی لاوارث کیسے اور کیونکر ہے؟ اس شہر کے وارث تو اس کے وہ مقامی لوگ ہیں جنھوں نے ایک بار پھر 2016 میں بھی ان ہی نمایندوں کو کامیاب کروایا جن کی کارکردگی 1987 کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں دیکھ چکے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اس فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا، جو چند دھائی سے قابض چلا آرہا تھا اور دولت و اختیار کی سوئی وڈیرہ شاہی پہ اٹک کر رہ گئی تھی۔ ایسے وقت میں متوسط طبقے اور غربت کی لکیر پر کھڑے لوگوں کو ایوانوں تک پہنچادیا تھا۔
گوکہ یہ کام بڑا کٹھن تھا اور آج بھی اپنے حقوق کے حصول کے لیے سرگرداں ضرور ہیں، لیکن حوصلہ نہیں ہارے۔ بکھیرنے کی کوششوں کے باوجود وہ ماضی کی اس نسل کے احسان کو جو انھوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کرکے پاکستان کی صورت میں دیا، اسے سنبھالنے اور سنوارنے کے لیے سرگرداں ہیں۔ اس بات کو دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی اس سازش کے تحت اس گنجان آباد شہر کراچی میں سات برس تک بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے اور پھر عدالت کے حکم سے جب انتخابات کا انعقاد کیا گیا تو پھر اس کے نتیجے میں وہ ہی لوگ منتخب ہوکر آئے جن سے عوام اپنے مسائل حل ہونے کی امیدیں رکھتے ہیں اور یہی نہیں، درمیان کے عرصے میں ہونے والے تمام ضمنی انتخابات میں ملنے والی جیت کا مظہر عزم و حوصلے کی دلیل ہے تو پھر اس شہر میں خلا کیسے اور کہاں؟
یہ الگ بات ہے کہ وارثوں کو بے اختیار کیا جارہا ہے۔ وہ شہر جو اس ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہو، اس کے ساتھ یہ سوتیلا اور خجالت بھرا سلوک اس شہر کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ لہٰذا ضرورت ملی یکجہتی کے فروغ کے لیے یکساں عمل، صوبوں اور ان کے عوام کو دیے گئے حقوق کو دینے میں گریز نہ کرنے کی ہے۔