آرٹ مسلسل دریافت کا نام ہے کسی فن پارے کی قیمت معاشرہ طے کرتا ہے پینٹر نہیں
فن کار کے لیے تلاش ذات شرط ہے، تخلیقی عمل کو گرفت میں لانے کے لیے ہمہ وقت بے قرار رہنا پڑتا ہے
مصور معاشرے کے دیگر کرداروں کے برعکس زیادہ حساس ہوتا ہے۔ فطری حسن اسے متاثر کرتا ہے۔ اُسے بارشوں میں سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں۔ بانسری کی دُھن پکارتی ہے۔ ندی کچھ کہتی ہے۔ یہی بے چینی خودشناسی کی جوت جگاتی ہے، انجان راہوں پر لے جاتی ہے۔
یہ مرحلہ طے ہونے کے بعد چاہے زمانہ ساتھ نہ دے، بس گرو مل جائے، ناؤ پار لگ جاتی ہے۔ چترا پرتیم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ نہ تو ماحول سازگار، نہ ہی درس گاہ میسر، مگر باطن میں موجود مصور، جو ذات کی تکمیل کے لیے بے چین، اسی بے کلی نے پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے میں رہنے والے نوجوان کو سفر پر اُکسایا، ایک ماں کی طرح اپنی آغوش میں سمیٹ لینے والے ساحلی شہر کراچی نے چترا پریتم پر بھی اپنی بانہیں وا کردیں۔
اس شہر نے ہی انہیں دنیا بھر میں ایک شناخت دی۔ اسی شہر نے انہیں اس شخص سے ملایا جس نے انہیں اپنی ذات کی تکمیل میں مدد دی۔ گرو کی راہ نمائی میں سفر شروع کیا، گیان کے پردے اٹھتے چلے گئے۔ بہ قول اُن کے،''زندگی سے ایک ہی خواہش تھی کہ میں مصور بنو۔ اور زندگی نے یہ خواہش پوری کردی!''
پینسل اسکیچز پر تو گرفت بچپن سے ہی تھی، مگر استاد کی راہ نمائی میں رنگوں سے آشنا ہونے کے بعد کتنے ہی قدرتی نظارے کینوس پر اترنے لگے۔ گاؤں میں جس درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کی اس فطری منظر میں رنگ بھرے۔ کراچی کا ساحل اِس مہارت سے پینٹ کیا کہ دیکھنے والے اش اش کر اٹھے۔ سچے بھکشو کی طرح بدھا کو کینوس پر اتارا۔ کرشن کے عشق سے مہکتی میرا میں رنگ بھرا۔ تجریدی تجربات بھی کیے۔ مذہب سے بالاتر ہوکر فن خطاطی میں کمال حاصل کیا۔
17 اگست 2000 میں نیشنل کلچرل ایوارڈ دیا گیا 23 مارچ 2013 کو اُنھیں تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں فن پاروں کی نمایش ہوچکی ہے۔ فن پارے برطانیہ، امریکا اور دبئی بھی پہنچے۔ گروپ ایگزیبیشن کا سلسلہ 91ء میں شروع ہوا تھا۔ 95ء میں پہلی بار اکیلے اپنی تصاویر کی نمائش کی، جس میں ان کے بنائے گئے لینڈ اسکیپ ہاتھوں ہاتھ بک گئے۔ فن مصوری میں ملکہ رکھنے والے چتراپریتم سے ایک ملاقات کو ایکسپریس کے صفحات کی زینت بنایا جارہا ہے۔
ایکسپریس: مصوری کا شوق کیسے ہوا؟ ابتدائی تربیت کہاں سے حاصل کی؟
چترا پریتم: میری پیدائش تحصیل صادق آباد کے ایک گاؤں سنجرپور کی ہے۔ سرکاری اسکول میں ٹاٹ پر بیٹھ کر پانچویں کلاس تک پڑھا۔ گاؤں میں بین المذاہب ہم آہنگی بہت زیادہ تھی لہذا اپنے ہم عصر مسلمان بچوں کی طرح اسکول میں دینیات کی تعلیم بھی حاصل کی۔ اس کے لیے میں اپنے والد پریتم داس کا شکر گذار ہوں جو آج اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن ان سے ہمیشہ بہت محبت ملی۔ خاندانی کام دست کاری تھا تو اس نسبت مصوری میں بچپن سے دلچسپی تھی، کیوں کہ جہاں دست کاری ختم ہوتی ہے وہاں سے آرٹ شروع ہوتا ہے۔ گاؤں کے حسین مناظر کو پینسل کی مدد سے تصویروں کی شکل میں ڈھالا۔ ہر اسکیچ کو مزید حسین بنانے کے لیے گھنٹوں بیٹھ کر سوچتا رہتا کہ کیا چیز اس تصویر میں مزید جدت پیدا کرسکتی ہے۔
لیکن دست کاری کی طرح اس فن میں بھی کسی اچھے استاد کی راہ نمائی بہت ضروری تھی۔ مصوری میں میرے جنوں کو دیکھتے ہوئے سنجرپور کے پہلو میں قائم محمد آبادمبارک اردولائبریری کے روح رواں سید علی انیس شاہ جیلانی نے شکیل عادل زادہ کے نام ایک رقعہ لکھ دیا۔ سولہ سال کی عمر میں عروس البلاد کراچی میں قدم رکھا۔ شکیل عادل زادہ کے 'سب رنگ' ڈائجسٹ کے دفتر میں گزرے ان لمحات نے مجھ پر ادب کے دروازے وا کیے۔ یہاں بیٹھ کر میں نے ملکی و عالمی ادب پڑھا۔ اُسی جگہ میں تصور گری (Illustration) کے اسرار ورموز سیکھے، فن کی اس جہت پر بہت سے تجربات کیے۔ گزر بسر کے لیے اخبارات و رسائل میں چھپنے والے افسانوں کے لیے اسکیچز بنانے لگا۔ لیکن ایک عجیب سی خلش مجھے بے قرار کیے دے رہی تھی، مجھ میں موجود فن کار محض تصور گری سے خوش نہیں تھا، اس کی منزل کچھ اور تھی، اس کا مقصد کچھ اور تھا جو میں سمجھ نہیں کر پارہا تھا۔
یہی بے چینی، منزل تک پہنچنے کی جستجو ممتاز ادیب، شاعر جمال احسانی سے ملاقات کا سبب بنی۔ جمال احسانی نے ہی اس شخص سے ملایا جس نے میری ذات کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا۔ اور وہ شخص تھا عبیداللہ علیم۔ انہوں نے میری ذات میں موجود مصور کو پہنچانا اور 88ء کے موسم سرما میں مصوری کے دیوتا جمیل نقش کے پاس لے گئے۔ وہ میری زندگی کا قیمتی لمحہ تھا، میں جمیل نقش کے روبرو تھا۔ جمیل نقش نے مشورہ دیا؛ Illustration کو پیشے تک محدود رکھیں، منزل نہ بنائیں۔ Still life پینٹ کرنے کی ہدایت کی گئی، تاکہ روشنی کے کھیل سمجھ سکیں۔ میں جمیل نقش کے گھر گھنٹوں بیٹھارہتا۔ اگر وہ ایک لائن دیتے، تو اس کے ڈھیر لگا دیتے۔ ذریعہ معاش کے ساتھ شوق کو برقرار رکھنے سے زندگی میں عدم توازن تو پیدا ہوا، مگر جب شوق عروج پر ہو اور جمیل نقش جیسا استاد تو پھر ساری رکاوٹیں ، پریشانیاں بے معنی سی ہوگئیں۔
یہ میرے گُرو، میرے محسن جمیل نقش ہی تھے جنہوں نے مجھے چترا پریتم بنایا۔ میری زندگی کی چاہ ہی مصور بننا تھی۔ اگر دیکھا جائے تو میرے نام کی معنویت کے حساب سے بھی میرا انتخاب یہی ہے، چترا چتر سے نکلا ہے جس کے معنی تصویر کے ہیں۔ اسی طرح میرے گرو کے نام کا مطلب بھی یہی ہے جمیل جمال سے ہے، نقش کے معنی بھی تصویر کے ہیں۔
ایکسپریس: آپ کے زیادہ تر فن پاروں میں کھیت، کھلیان، دیہی مناظر اور کراچی کے سمندری علاقے نظر آتے ہیں، ایک ایسے شہر میں جہاں دوسرے مسائل کا انبار موجود ہے صرف فطرتی مناظر کو کینوس میں قید کرنے کی کوئی خاص وجہ؟
چترا پریتم: ایک چھوٹے سے گاؤں سے آنے والے کو اس شہر نے وہ کچھ دیا جو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ مجھے اس شہر نے بنایا ہے۔ جمیل نقش نے بنایا ہے ان کی وجہ سے میں ایک پینٹر بنا ہوں۔ پنجاب سے تعلق ہونے کے باوجود راوی سے میرا تعلق اتنا گہرا نہیں جو کراچی سے ہے۔ کراچی نے مجھے جو کچھ دیا، اُسے لوٹانے کا یہی طریقہ تھا کہ میں سمندر کو پینٹ کروں۔ ''سمندر کو پینٹ کرنے سے آرٹسٹ میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ کشتیاں جب واپس لوٹتی ہیں، تو بہت سے پیغامات لاتی ہیں۔ لہریں کتنی ہی کہانیاں سناتی ہیں۔ سدھارتھ نے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر دریا سے کتنی باتیں کیں۔ یوں تو اور آرٹسٹوں نے بھی کراچی کے سمندر کو پینٹ کیا، مگر جب لوگ تذکرہ کرتے ہیں، تو چترا پریتم ہی کا کرتے ہیں۔''
اسی طرح جب ہم کسی سبجیکٹ کو لے کر چلتے ہیں تو مصوری، مصوری نہیں رہتی وہ ڈیزائن بن جاتا ہے، جس کا ایک پہلو تصویر گری ہے۔ پینٹنگ وہی ہے جو آپ کو اسی طرح نظر آرہی ہے جس طرح قدرت نے تخلیق کی ہے۔ تصویر گری کچھ اور چیز ہے، مصوری کچھ اور۔ مصوری میں ڈیزائن کا عمل دخل اتنا زیادہ نہیں ہوتا جیسے آپ فشری پر جائیں تو بے شمار کشتیاں کھڑی ہوتی ہیں وہاں اتنی قدرتی خوب صورتی ہے کہ وہ خود بہ خود بہت سارے منظر پیش کرتی ہے۔ میں اگر اپنے رول ماڈل تاثُر پسند (Impressionist) پینٹر جوزف میلورڈ ٹرنر کی بات کروں تو ٹرنر نے سمندر کو بہت زیادہ پینٹ کیا ہے اسی طرح دوسرے یورپی تاثُر پسند مصوروں نے سمندر کو بہت پینٹ کیا ہے۔
دنیا میں ہر علاقے کی اپنی ایک قدرتی خوب صورتی ہوتی ہے اور کراچی کی خوب صورتی سمندر ہے جسے میں نے بہت اچھے طریقے سے پینٹ کیا۔ جب میں نے کلر لگانا شروع کیے تو یورپی پینٹر کو دیکھا، سمجھا اور انہی کو دیکھ کر میں نے کلر لگانے کا سینس پیدا کیا جس میں میری راہ نمائی جمیل نقش نے کی۔ علم جو بھی ہو لیکن اگر گرو قابل اور معتبر ہے تو چیلے کی زندگی آسان ہوجاتا ہے، وقت کا زیاں نہیں ہوتا۔ لینڈ اسکیپ بنانے کی وجہ صرف یہ ہے کہ میرا تعلق گاؤں سے ہے تو میں نے جو بھی لینڈ اسکیپ پینٹ کیا وہ اپنے گاؤں سنجر پور کا کیا۔ مصوری میں سب سے اہم کردار لکیر کا ہے۔
اگر ہمارا تعلق فطرت سے ہے اور ہم جب ہم ایک لکیر کھینچتے ہیں تو وہ درخت بن جاتا ہے۔ اسی طرح آپ کے ذہن میں اپنے محبوب کا خیال ہے تو وہی لکیر ایک محبوبہ کی شبیہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح آپ کا رجحان صوفی ازم، مذہب سے ہے تو پھر اسی لکیر سے اللہ کی وحدانیت پھوٹٰتی ہے۔ مصوری میں لکیر ایک بنیادی عمل ہے، ایک عنصر ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصور نے خیال کہاں سے لیا ہے۔لیکن جمالیاتی حسن مصور کے اندر کا ہوتا ہے۔ جس چیز کا علم نہیں رکھتا، اس سے اجتناب برتتا ہوں اسی لیے مصوری میں تجریدی تجربات نہیں کیے۔ آپ کو میری پینٹنگ میں کمرشل ازم نہیں ملے گا۔ میں احساسات کو پینٹ کرتا ہوں۔ بے شمار لوگ ہیں جو کہتے ہو کہ جی فلاں جگہ خوب صورت ہے۔ لیکن خو ب صورتی تو انسان کے اپنے اندر ہوتی ہے، جن گلیوں، علاقوں ، میں اپنے اٹھا بیٹھا میرے لیے تو وہی سب سے خوب صورت ہے۔ آپ کی محبوبہ چاہے دنیا کی بدصورت عورت ہو لیکن آپ کے لیے وہ دنیا کی حسین ترین عورت ہوگی، کیوں کہ یہ احساس یہ کیفیت اس نے آپ کو دی ہے۔
ایکسپریس: مذہب سے بالاتر ہوکر آپ نے اسلامی فن خطاطی کیلی گرافی کو منتخب کیا، کس بات نے آپ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی؟
چتراپریتم: مجھے کیلی گرافی کا مشورہ دینے والے پہلے شخص حنیف رامے تھے، جو خود فن خطاطی میں بلند مقام رکھتے تھے۔ لیکن اس وقت مجھ میں وہ جذبہ، ہمت یا قابلیت نہیں تھی، کیوں کہ میں ڈرتا تھا کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ ایک ہندو نے قرآن پاک کو ہاتھ لگانے کی جسارت کیسے کی۔ اسی خوف نے مجھے کافی عرصے کیلی گرافی سے دور رکھا۔ لیکن آج میں یہ کہتا ہوں کہ قران مجید اللہ کی کتاب ہے، اسے سب کو پڑھنا چاہیے۔ حنیف رامے کے بعد جمیل نقش نے مجھے کہا کہ تم کیلی گرافی کرو۔ آدمی ہوش و حواس میں، علم کی بنیاد پر کوئی کام کرے، تب ہی مطلوبہ نتائج سامنے آتے ہیں۔ اسکول میں دینیات کا مضمون پڑھا تھا، بعد میں بھی یہ موضوع مطالعے میں رہا۔ عربی اسکرپٹ سے واقفیت تھی۔
جب جمیل نقش نے کیلی گرافی کا حکم دیا، تو آغاز سے قبل مودودی صاحب کی تفسیر پڑھی، تاکہ اس کام کو گہرائی سے سمجھ سکوں۔ اوائل میں مَیں نے Motif کی صورت لفظ اللہ لکھا۔ جب بھی کیلی گرافی شروع کرتا ہو ں تواپنے گرو کا ایک ہی جملہ یاد آتا ہے کہ دنیا کچھ بھی کہے تمہیں کیلی گرافی کرنی ہے۔ اس وقت میرے اور کیلی گرافی کے درمیان میرا گرو کھڑا ہوتا ہے۔ میں دوسری تصویر اتنے جذبے کے ساتھ پینٹ نہیں کرتاجس جذبے کے ساتھ کیلی گرافی کرتا ہوں۔یہ کام میں پورے تقدس و احترام کے ساتھ کرتا ہوں۔
ایکسپریس: فطری مناظر اور کیلی گرافی کے علاوہ آپ نے بدھا کو بھی تفصیل کے ساتھ اپنی مصوری کا موضوع بنایا ہے، بدھا کی مختلف کیفیات آپ کے فن پاروں میں نمایاں ہیں، لیکن آپ کے اپنے مذہب کے بارے میں تصاویر نہ ہونے کی وجہ؟
چتراپریتم: گوتم کو میں نے پڑھا بہت ہے۔ میں نے اس کی مختلف کیفیات کو پینٹ کیا ہے۔ اسے پینٹ کرنے سے میری روح کو سکون ملتا ہے۔ میں اس کو پینٹ کرکے اپنے اندر کا غبار نکالتا ہوں۔ کبھی کبھی خود کو بدھا محسوس کرتا ہوں جس کی وجہ سے میری لائنیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ گوتم ذات کے سفر کی تکمیل کا نام ہے۔ بدھا کے لفظی معنی ' بدھی' یعنی عقل کے ہیں۔
نام تو اس کا سدہارتھ تھا لیکن جب اسے نروان حاصل ہوا، گیان حاصل ہوا تو وہ تب بدھا بنا۔ جس کو ہم بدھا کہتے ہیں وہ بدھا ہے نہیں اس کا نام توسدہارتھ ہے۔ گوتم کو پینٹ کرنے کا مقصد اپنے اندر کے گوتم کی تلاش ہے۔ ہندو مت میں میرا بائی کو بھی بدھا سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھی اپنی ذات کو پاگئی۔ میں نے میرا بائی کو تو پینٹ کیا لیکن کرشن کو نہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ میں اپنے مذہب کی زیادہ تفصیل میں نہیں جاتا۔ جتنا میں نے پڑھا ہے اس کے مطابق میرا علم بہت کم ہے، لیکن جتنا میں سمجھتا ہوں ہندو ازم کے تین ادوار ہیں۔ پہلا دور شیوا کا ہے جس میں مار دھاڑاور راکشس ہے، دوسرا دور شری رام چندر کا ہے جن کی وجہ سے ہندو مذہب میں فیملی سسٹم وجود میںآیا، تیسرا دور سری کرشن کا ہے جنہوں نے محبت اور رومانس کا تصور دیا، عورت کو عزت دی۔
روحانیت کی جانب میرا جھکاؤ بچپن سے ہے، لیکن میں مذہب کے حوالے سے پیدا نہیں ہوا، ہاں اگر میں پنڈت ہوتا تو پھر میں اس پر کُھل کر بات کرتا۔ جہاں تک کیلی گرافی اور گوتم کو پینٹ کرنے کی بات ہے تو بدھا ایک بین الاقوامی موضوع ہے جب کہ کیلی گرافی اسلامی ورثے میں آتی ہے جس کی ایک عظیم تاریخ ہے۔ فن خطاطی اسلامی ثقافت کا عظیم ورثہ ہے۔ موجودہ دور میں مصورانہ خطاطی پر بہت کام ہوا ہے۔ مصورانہ خطاطی کو مصوری میں بلند درجہ ملناچاہیے۔
ایکسپریس: آئل پینٹنگ، ایکریلیک یا واٹر کلر آپ کو کس میڈیم میں کام کرنا زیادہ اچھا لگتا ہے؟
چترا پریتم: ابتدا میں سب ہی میڈیم پر کام کیا لیکن سفر آئل پینٹ پر آ کر تمام ہوا۔ دیگر رنگوں کی بھی اپنی دنیا ہے، مگر آئل پینٹ سے کسی کا موازنہ ممکن نہیں۔ آئل پینٹنگ میں جو چاشنی، احساس ہے وہ کسی اور میڈیم میں نہیں، اسی لیے دنیا بھر میں آئل پینٹنگ میں زیادہ کام ہوا ہے، کیوں کہ اس میڈیم میں آپ اپنے احساس کو بہت اچھے طریقے سے پیش کر سکتے ہیں۔ پینٹ لگاتے وقت مصور اپنے احساس کو کینوس پر اتار سکتا ہے۔ اگر اس نے برف کھائی ہے تو وہ ٹھنڈ کے احساس کو اپنی پینٹنگ میں لاسکتا ہے، اگر مصری کھائی ہے تو اس کی مٹھاس ، اگر شہد کھایا ہے تو اس کا احساس وہ اپنی تصویر میں اُجاگر کرسکتا ہے۔ جتنے بڑے مصور گزرے ہیں، اُن میں اکثریت آئل پینٹ آرٹسٹوں ہی کی تھی۔
آئل پینٹنگ میں کینوس پر لگنے والا کوئی رنگ حادثہ نہیں ہوتا۔ آپ نے محسوس کیا ہے، تب ہی تو وہ اسٹروک لگایا ہے۔ واٹر کلر پینٹنگ میں پیلا اور نیلا لگائیں گے، تو وہ آپ کے نہ چاہتے ہوئے بھی سبز بن جائے گا۔ یعنی جس رنگ کا آپ نے منصوبہ نہیں بنایا تھا، وہ آگیا۔ میرا مقصد واٹر کلر کی حیثیت اور اہمیت کم کرنا نہیں۔ لوگ اِسے پسند کرتے ہیں۔ ایک معنوں میں یہ مشکل میڈیم بھی ہے۔ اسی طرح منی ایچر مشکل سبجیکٹ ہے۔ منی ایچر سیکھا ہوا آرٹسٹ قدم بہ قدم آگے بڑھتا ہے، چھلانگیں نہیں لگاتا۔ لیکن آرٹسٹ کی فیلنگ کی تکمیل کے لیے آئل پینٹنگ ایک معتبر میڈیم ہے۔
ایکسپریس: آپ کی تصاویر میں اسٹروکس اور گہرے رنگوں کا استعمال بہت زیادہ نظر آتا ہے، آپ بہت ساری لیئرز پر کام کرتے ہیں، یہ تیکنیک کہاں سے سیکھی؟
چترا پریتم: میں اپنی پینٹنگز پر انتھک محنت کرتا ہوں۔ میری تصاویر میں بے پناہ لیئرز ہوتی ہیں۔ یہ میری اپنی تیکنیک نہیں ہے ماڈرن تیکنیک کے جتنے بھی تاثُر پسند (Impressionist) پینٹر ہیں انہوں نے اسی طرح تہہ در تہہ کام کیا ہے۔ اور انہی سے میں نے اس تیکنیک کو برتنے کا سلیقہ سیکھا ۔ کلاؤڈے مونے، الفریڈ سسلی، پسارو اور ونسیٹ وین گاگ جیسے ممتاز مشہور پینٹرز نے اسی تیکینک پر کام کیا، سب کا اس کلر کو لگانے کا طریقہ ایک ہے بس احساس اپنا اپناہوتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے لکھنے میں ادب ویلیو کرتا ہے، آپ خرافات بھی لکھ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے آپ کو لکھنے کا ڈھنگ و سلیقہ ہو نا چاہیے۔
ایکسپریس: جمیل نقش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کو اپنا شاگرد نہیں بناتے پھرآپ کی کس بات نے انہیں آپ کو اپنا شاگرد بنانے پر مجبور کیا؟
چتراپریتم: بات بھی بالکل درست ہے کہ جمیل نقش صاحب کسی کو اپنا شاگرد نہیں بناتے مجھے اپنی شاگردی میں کیوں لیا اس کی وجہ کچھ یوں ہے: الہامی فن خون و پسینے کی آمیزش ہوا کرتا ہے۔ میری اس محنت او ر لگن نے جمیل نقش کی ذات میں دل چسپی و ہم دردی پیدا کردی۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ تناور درخت اپنے سائے میں چیلوں، کوؤں کو برداشت نہیں کرتا مجھ میں کبوتر جیسی خصلت تھی جو مجھے سالہاسال اپنے سائے میں رکھا۔ اپنے گُرو کی چلمیں بھرنا، جوتیاں سیدھی کرنا میرے ایمان کا حصہ رہا ہے ۔ مجھ میں بازگشت گونجتی رہی کہ میری زندگی جسے عذاب کہوں یا ثواب، کہ مجسم پتھر بنا گیا ایک شخص!
میں بچپن سے ہی صوفی ازم کی جانب مائل تھا۔ بلھے شاہ اور دیگر صوفیوں کو پڑھ کر میں نے دھرتی پر چلنا سیکھا، اس کی وجہ یہی تھی کہ میں اپنی عزت کرتا تھا میں اپنی عزت و احترام کا بہت خیال کرتا تھا، کسی کو کچھ کہنے ، کوئی کام کرنے سے پہلے سوچتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری عزت نفس متاثر ہو۔ میں بچن سے ہی یہی دعا مانگتا تھاکہ یا تو مجھے اس صوفی سے ملا دے جس سے میری ذات کی تکمیل ہوسکے اور میں بدھا بن سکوں یا میری مصور بننے کی خواہش پوری کردے۔ بدھا بننے کی خواہش تو پوری نہیں ہوسکی۔ لیکن مصور بنانے کے لیے اللہ نے مجھے جمیل نقش جیسے مصوری کے دیوتا سے ملادیا۔
ایکسپریس: ہم عصر مصوروں میں کس کا کام زیادہ پسند ہے؟
چترا پریتم: فن مصوری میں جمیل نقش کے کام کو عطر کے طور پر دیکھتا ہوں۔ کام تو مجھے نجمی سورہ کا بھی پسند ہے، ان کا احترام ہمیشہ دل میں رہتا ہے۔کیلی گرافی میں تو حنیف رامے کا بھی بہت بڑا مداح ہوں، شاکر علی کا کام بہت پسند ہے، لیکن اس سب کو دیکھنے کے بعد تسلی مجھے جمیل نقش کا کام دیکھ کر ہی ہوتی ہے۔ غیرملکی مصوروں میں امریکی آرٹسٹ اینڈریو ویتھ کے کام سے بہت زیادہ متاثر ہوں۔دنیا کے بڑے بڑے لوگ اس کے دروازے پر کھڑے ہوتے تھے۔ اس کا کا م ہی اتنا کمال کا ہے کہ بندہ دیکھ کر ہی ششدر رہ جاتا ہے کہ کائنات میں ایسے لوگ بھی آکر چلے گئے۔ ایسا آرٹسٹ تو صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔
ایکسپریس: آپ جمیل نقش کو اپنا مرشد گردانتے ہیں، بہ حیثیت مصور، بہ حیثیت استاد آپ نے انہیں کیسا پایا؟
چترا پریتم : ان سے لوگوں کو بڑی شکایات ہیں، بے پناہ شکایات ہیں لیکن جب میں اس بارے میں سوچتا ہوں تو وہ بے معنی ہوجاتی ہیں، کیوں کہ انہوں نے وقت کی قدر کی۔ انہوں نے اپنی ذات کے لیے، اپنی اولاد کے لیے اتنا وقت نہیں نکالا جتنا مصوری کو دیا۔ میری ان کے ساتھ رفاقت کو 28سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مجھے انہوں نے وقت اس لیے دیا کہ مجھ میں مصوری سیکھنے کی لگن تھی ۔ تو بات صرف اتنی ہے کہ ہر شخص کے بارے میں ہر کسی کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ بات آپ کے دیکھنے کے زاویے کی ہے۔ میں نے جمیل نقش کو ہر زاویے سے ایک بہترین شخص پایا۔ ایک ایسا شخص جس نے مصوری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔
ایکسپریس: کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ آپ کو اپنے استاد جمیل نقش کی پیروی کرنی چاہیے لیکن ان کے کام کی نہیں، اس بارے میں کیا کہیں گے؟
چترا پریتم: ایسا نہیں ہے دیکھیں اولاد میں اپنے ماں باپ کا عکس تو ہوتا ہی ہے۔ اور اگر میرے کام میں میرے گرو کا عکس آتا ہے تو اس میں کوئی بری بات نہیں ہے کیوں کہ میں اس شخص سے متاثر ہوں تو میرے کام میں کہیں نہ کہیں اس کا عکس تو آئے گا۔
یہ ایک نارمل بات ہے۔ اور مجھے اس بات پر فخر ہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرے گرو کے علاوہ کسی اور مصور کا عکس میرے کام میں نظر آتا ہے، لیکن مجھ پر جمیل نقش کے کام کی چھاپ نہیں ہے۔ آرٹ کوئی تماشا نہیں ہے یہ ایک تسلسل کا نام ہے۔ یہ مسلسل دریافت ہونے کا عمل ہے۔ مائیکل اینجیلو سے لے کر چترا پریتم تک مصور کڑی در کڑی جڑا ہوا ہے اگر ہم اسے ختم کردیں گے تو دریافت کا یہ عمل رُک جائے گا۔ کلاکار کے لیے تلاش ذات شرط ہے، تخلیقی عمل کو گرفت میں لانے کے لیے ہمہ وقت بے قراررہنا پڑتا ہے۔ تخلیقی عمل کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ راستہ ظاہر ہوتا ہے، آرٹسٹ تمام رکاوٹوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آگے بڑھتا چلاجاتا ہے۔ وہ اپنے فن پاروں کے اندر سفر کرتا ہے۔ فن پارے ہی اُسے منزل تک لے جاتے ہیں۔
ایکسپریس: آپ کا شمار پاکستان کے ان مصوروں میں کیا جاتا ہے جو ہیئت کے عالمی مسائل سے نبرد آزما ہیں، آپ کے نزدیک تصویر اب اظہار سے زیادہ ایجاد کا مسئلہ بن چکی ہے، اس کے اسباب کیا ہیں؟
چترا پریتم: اظہار تو آپ کرتے ہی ہیں۔ ایجاد تو ایک بنیادی نقطہ ہے جو آپ نے دریافت کیا ہے۔ اگر ہم اس نقطے کو ہی ہٹا دیں تو قصہ تمام ہوجائے گا۔ آپ کو اپنا کام ہی پیش کرنا ہوگا۔ آپ میر کو پڑھتے ہیں، غالب کو پڑھتے ہیں، اقبال کو پڑھتے ہیں لیکن لکھتے تو آپ اپنا ہی ہیں۔ جب جوش ملیح آبادی سے پوچھا گیا کہ جی بڑا شاعر کون ہے تو انہوں نے کہا کہ فیض آگیا ہے بھئی۔ جوش خود ایک بڑے آدمی تھے۔ اب دونوں میں غلط کوئی نہیں ہے یہ اپنے اپنے نقطۂ نظر کی بات ہے۔
ایکسپریس: ایک مصور معاشرے میں بہتری کے لیے اپنا کردار کس طرح ادا کر سکتا ہے؟
چترا پریتم: ایک مصور امن کا پیام بر ہوتا ہے، معاشرے میں خوب صورتی پیدا کرنا ہی اس کا اہم کردار ہے۔ مصور تو بنیادی طور پر ہے ہی صوفی ، وہ ایک چھوٹی کٹیا میں ہی اپنی پوری زندگی گزاردیتا ہے، وہ تو باتیں ہی رنگوں سے کرتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ دنیا بھر میں ملک کی نمائندگی مصور ہی کرتے ہیں۔ ہمارے پروموٹر ہمیں پوری دنیا میں لے جاتے ہیں ۔ جہاں ہم اپنی ذات کی نہیں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ایکسپریس: پاکستان میں فنون لطیفہ کے دوسرے شعبوں کی طرح مصوری کا شعبہ بھی حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے، آپ کے خیال میں اس شعبے کے فروغ کے لیے حکومتی اور نجی سطح پر کیا اقدامات کیے جانے چاہیں؟
چترا پریتم: پاکستان میں مصوری کی مجموعی صورت حال زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ آرٹسٹ سیکھتا تو خود ہی ہے لیکن اس کی راہ نمائی اچھی طرح ہونی چاہیے۔ مصوروں سے ورک شاپس کرائی جائیں۔ مصوری کے بنیادی گُر سکھائے جائیں۔ برش پکڑنے کا طریقہ سلیقہ سکھایا جائے۔ اداروں کے ساتھ ساتھ سنیئر مصوروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ گملے میں رہنے والا پودا کبھی تناور درخت نہیں بن سکتا۔ اس کے لیے اسے گملے سے نکال کر باہر کھُلی زمین میں لگانا ہوگا۔ اسی طرح اگر ہم نے نوآموز مصوروں کو محدودیت کے دائرے سے باہر نہیں نکالا تو وہ کبھی بڑے مصور نہیں بن سکیں گے۔ پاکستان میں تو اس وقت آرٹسٹ پر اس فن کے اسرار و رموز کھلنے لگتے ہیں، جب اس کے پیر قبر میں ہوتے ہیں۔
نئے تجربات کے لیے وقت ہی نہیں بچتا۔ آرٹ ان معنوں میں تو پھل پھول رہا ہے کہ آج ہر دوسرا شخص پینٹنگ کر رہا ہے، ہر گھر میں فن پارے سجے ہیں۔ البتہ معیار کا فقدان ہے، پرکھنے والی نظر نہیں۔ آرٹسٹ، اساتذہ اور آرٹ پرموٹرز، تینوں فن سے زیادہ خود سے مخلص ہیں۔ ''جو آرٹسٹ فقط فروخت کرنے کے لیے فن پارہ بناتا ہے، وہ مادیت پرست ہوجاتا ہے۔ اور آرٹسٹ مادیت پرست ہوجائے، تو اس کا کام زیادہ دیر زندہ نہیں رہتا۔ پیسے کے لیے کیا جانے والا کام تاریخ کا حصہ نہیں بن سکتا۔'' جہاں تک آرٹ کی درس گاہوں کی بات ہے ''درس گاہیں سازگار ماحول پیدا کرتی ہیں، وہاں اساتذہ ہوتے ہیں، لیکن سیکھنا آپ کو خود ہی پڑے گا۔'' اسی طرح آرٹ گیلریز نے آرٹ کو گھر گھر تو پہنچا دیا، مگر حقیقی معنوں میں پروموٹ نہیں کیا۔ ہمارے یہاں مصوری میں ایک بھیڑچال کا رجحان بھی سامنے آرہا ہے۔ نئی نسل کو جو کام سکھایا جا رہا ہے وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے افسانہ نویس بننے کے خواہش مند کو آپ خطوط نویسی سکھا دیں، اب ایک اچھا خط لکھنے والا اچھا افسانہ نگار تو نہیں بن سکتا۔ افسانہ لکھنے کے لیے سچے اور کھرے ماحول میں رہنا پڑے گا۔
ایکسپریس: مصوری آپ کا شوق ہے، لیکن کیا یہ شوق آپ کی معاشی ضروریات کو پورا کردیتا ہے ؟
چتراپریتم: اس کے لیے بڑی جنگ لڑی ہے۔ تخلیق، جدت میرا کام کا خاصہ ہے۔ تخلیق کے لیے میں مسلسل حالت جنگ میں رہتا ہو۔ 1989 میں میری پہلی پینٹنگ دو ہزار روپے میں فروخت ہوئی۔ جس میں گیلریز کا کمیشن وغیرہ نکال کر ہزار روپے ہی ہاتھ آئے۔ لیکن میں اپنے کام کو بہتر سے بہتر بنانے کی دھن میں مگن رہا۔ کسی بھی پینٹنگ کی قیمت کا تعین اسے بنانے والا نہیں کرتا۔ میرے چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ ایک کڑی در کڑی سلسلہ ہے۔ معاشرہ اور وقت آپ کے کام کی قیمت کا تعین کرتا ہے۔ اگر کام اچھا ہے تو اس کی قیمت بھی اچھی ہوگی۔
معیشت کا طلب و رسد کا قانون صحیح معنوں میں اس فن پر لاگو ہوتا ہے۔ گو کہ میں بہت امیر نہیں ہوں لیکن میں لاکھوں لوگوں سے زیادہ خوش حال زندگی گذار رہا ہوں۔ میری ایک بیٹی ایم بی بی ایس کر رہی ہے، ایک بیٹی بزنس مینجمنٹ پڑھ رہی ہے۔ بیٹا منہگے اسکول میں پڑھ رہا ہے یہ سب خرچے میں اسی کام سے تو کر رہا ہوں، میرا تو اوڑھنا بچھونا ہی مصوری ہے۔ میں تو خواب میں بھی پینٹنگ کرتا ہو۔ تو بات صرف اتنی ہے کہ ایک آرٹسٹ صرف بیچنے کے لیے پینٹنگ بناتا ہے، وہ دو مہینے میں دس پینٹنگز بنا دے گا، دوسرا ایک کے بعد دوسری پینٹنگ بناتا ہے، تو مقصد اپنی گروتھ ہوتا ہے۔ پہلا شخص سطحی کام کررہا ہے، دوسرے کا ایک فن پارہ اُس کے دس فن پاروں پر بھاری ہوگا۔ ہر آرٹسٹ جانتا ہے کہ وہ کس معیار کا کام کررہا ہے، اس میں کتنی قابلیت ہے۔ میں بھی اپنے بارے میں جانتا ہوں۔ اس کے لیے کسی سے موازنے کی ضرورت نہیں۔''
ایکسپریس: مصوری کے نئے طریقے تھری ڈی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
چترا پریتم: تھری ڈی پینٹنگ کچھ نہیں ہوتی۔ پینٹنگ صرف وہی ہے جو آپ کو نظر آرہی ہے۔ یہ بس اوور لیپنگ ورک ہوتا ہے یعنی ایک لیئر کے بعد دوسری، تیسری ، چوتھی لیئر بنانا۔ یہ پینٹنگ کی لیئرز ہیں۔ جو وحدانیت میں جاتے ہیں وہ اوور لیپنگ کرتے ہیں جیسے میں نے بدھا کی پینٹنگز پر کیا۔ لیکن اس کے لیے بہت زیادہ علم ہونا ضروری ہے۔ آپ کو لائٹ کے سورس کا پتا ہونا چاہے کیوں کہ پینٹنگ میں لائٹ سورس (روشنی کا منبع) کا بہت اہم کردار ہے۔
ایکسپریس: کن موضوعات پر کتابیں پڑھنا پسند ہے؟
چترا پریتم: نثر مجھے بہت پسند ہے لیکن شاعری میری روح میں ہے۔ شاعری میں عبید اللہ علیم اور فکشن میں میکسم گورکی، رسل برٹینڈر، دوستوفسکی، ٹالسٹائی میری پسندیدہ شخصیت ہیں۔ نثر میں جوش ملیح آبادی کو بہت پڑھا۔ منٹو کو پڑھنے کے بعد میں عصمت چغتائی کو نہیں پڑھ سکا۔ میں نئے آرٹسٹوں کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ وہ صدیق سالک کی کتاب ''پریشر ککر'' لازمی پڑھیں۔
ایکسپریس: پسندیدہ گلوگار، گلوگارہ، اداکار؟
چترا پریتم: مہدی حسن، لتا، ،محمد رفیع، آشا بھوسلے، جگجیت سنگھ کو بہت سنا۔ اداکاروں میں دلیپ کمار، راج کپور اورامیتابھ بچن کی اداکاری کا کوئی جواب نہیں۔ کسی بھی فن کار کی پسندیدگی کا دارومدار اس کلچر پر ہوتا ہے جہاں سے اس کا تعلق ہوتا ہے۔ اگر ہم پنجاب کے کلچر میں جائیں تو اداکارہ انجمن اور نورجہاں کی کوئیی دوسری مثال نہیں ہے۔
یہ مرحلہ طے ہونے کے بعد چاہے زمانہ ساتھ نہ دے، بس گرو مل جائے، ناؤ پار لگ جاتی ہے۔ چترا پرتیم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ نہ تو ماحول سازگار، نہ ہی درس گاہ میسر، مگر باطن میں موجود مصور، جو ذات کی تکمیل کے لیے بے چین، اسی بے کلی نے پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے میں رہنے والے نوجوان کو سفر پر اُکسایا، ایک ماں کی طرح اپنی آغوش میں سمیٹ لینے والے ساحلی شہر کراچی نے چترا پریتم پر بھی اپنی بانہیں وا کردیں۔
اس شہر نے ہی انہیں دنیا بھر میں ایک شناخت دی۔ اسی شہر نے انہیں اس شخص سے ملایا جس نے انہیں اپنی ذات کی تکمیل میں مدد دی۔ گرو کی راہ نمائی میں سفر شروع کیا، گیان کے پردے اٹھتے چلے گئے۔ بہ قول اُن کے،''زندگی سے ایک ہی خواہش تھی کہ میں مصور بنو۔ اور زندگی نے یہ خواہش پوری کردی!''
پینسل اسکیچز پر تو گرفت بچپن سے ہی تھی، مگر استاد کی راہ نمائی میں رنگوں سے آشنا ہونے کے بعد کتنے ہی قدرتی نظارے کینوس پر اترنے لگے۔ گاؤں میں جس درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کی اس فطری منظر میں رنگ بھرے۔ کراچی کا ساحل اِس مہارت سے پینٹ کیا کہ دیکھنے والے اش اش کر اٹھے۔ سچے بھکشو کی طرح بدھا کو کینوس پر اتارا۔ کرشن کے عشق سے مہکتی میرا میں رنگ بھرا۔ تجریدی تجربات بھی کیے۔ مذہب سے بالاتر ہوکر فن خطاطی میں کمال حاصل کیا۔
17 اگست 2000 میں نیشنل کلچرل ایوارڈ دیا گیا 23 مارچ 2013 کو اُنھیں تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں فن پاروں کی نمایش ہوچکی ہے۔ فن پارے برطانیہ، امریکا اور دبئی بھی پہنچے۔ گروپ ایگزیبیشن کا سلسلہ 91ء میں شروع ہوا تھا۔ 95ء میں پہلی بار اکیلے اپنی تصاویر کی نمائش کی، جس میں ان کے بنائے گئے لینڈ اسکیپ ہاتھوں ہاتھ بک گئے۔ فن مصوری میں ملکہ رکھنے والے چتراپریتم سے ایک ملاقات کو ایکسپریس کے صفحات کی زینت بنایا جارہا ہے۔
ایکسپریس: مصوری کا شوق کیسے ہوا؟ ابتدائی تربیت کہاں سے حاصل کی؟
چترا پریتم: میری پیدائش تحصیل صادق آباد کے ایک گاؤں سنجرپور کی ہے۔ سرکاری اسکول میں ٹاٹ پر بیٹھ کر پانچویں کلاس تک پڑھا۔ گاؤں میں بین المذاہب ہم آہنگی بہت زیادہ تھی لہذا اپنے ہم عصر مسلمان بچوں کی طرح اسکول میں دینیات کی تعلیم بھی حاصل کی۔ اس کے لیے میں اپنے والد پریتم داس کا شکر گذار ہوں جو آج اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن ان سے ہمیشہ بہت محبت ملی۔ خاندانی کام دست کاری تھا تو اس نسبت مصوری میں بچپن سے دلچسپی تھی، کیوں کہ جہاں دست کاری ختم ہوتی ہے وہاں سے آرٹ شروع ہوتا ہے۔ گاؤں کے حسین مناظر کو پینسل کی مدد سے تصویروں کی شکل میں ڈھالا۔ ہر اسکیچ کو مزید حسین بنانے کے لیے گھنٹوں بیٹھ کر سوچتا رہتا کہ کیا چیز اس تصویر میں مزید جدت پیدا کرسکتی ہے۔
لیکن دست کاری کی طرح اس فن میں بھی کسی اچھے استاد کی راہ نمائی بہت ضروری تھی۔ مصوری میں میرے جنوں کو دیکھتے ہوئے سنجرپور کے پہلو میں قائم محمد آبادمبارک اردولائبریری کے روح رواں سید علی انیس شاہ جیلانی نے شکیل عادل زادہ کے نام ایک رقعہ لکھ دیا۔ سولہ سال کی عمر میں عروس البلاد کراچی میں قدم رکھا۔ شکیل عادل زادہ کے 'سب رنگ' ڈائجسٹ کے دفتر میں گزرے ان لمحات نے مجھ پر ادب کے دروازے وا کیے۔ یہاں بیٹھ کر میں نے ملکی و عالمی ادب پڑھا۔ اُسی جگہ میں تصور گری (Illustration) کے اسرار ورموز سیکھے، فن کی اس جہت پر بہت سے تجربات کیے۔ گزر بسر کے لیے اخبارات و رسائل میں چھپنے والے افسانوں کے لیے اسکیچز بنانے لگا۔ لیکن ایک عجیب سی خلش مجھے بے قرار کیے دے رہی تھی، مجھ میں موجود فن کار محض تصور گری سے خوش نہیں تھا، اس کی منزل کچھ اور تھی، اس کا مقصد کچھ اور تھا جو میں سمجھ نہیں کر پارہا تھا۔
یہی بے چینی، منزل تک پہنچنے کی جستجو ممتاز ادیب، شاعر جمال احسانی سے ملاقات کا سبب بنی۔ جمال احسانی نے ہی اس شخص سے ملایا جس نے میری ذات کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا۔ اور وہ شخص تھا عبیداللہ علیم۔ انہوں نے میری ذات میں موجود مصور کو پہنچانا اور 88ء کے موسم سرما میں مصوری کے دیوتا جمیل نقش کے پاس لے گئے۔ وہ میری زندگی کا قیمتی لمحہ تھا، میں جمیل نقش کے روبرو تھا۔ جمیل نقش نے مشورہ دیا؛ Illustration کو پیشے تک محدود رکھیں، منزل نہ بنائیں۔ Still life پینٹ کرنے کی ہدایت کی گئی، تاکہ روشنی کے کھیل سمجھ سکیں۔ میں جمیل نقش کے گھر گھنٹوں بیٹھارہتا۔ اگر وہ ایک لائن دیتے، تو اس کے ڈھیر لگا دیتے۔ ذریعہ معاش کے ساتھ شوق کو برقرار رکھنے سے زندگی میں عدم توازن تو پیدا ہوا، مگر جب شوق عروج پر ہو اور جمیل نقش جیسا استاد تو پھر ساری رکاوٹیں ، پریشانیاں بے معنی سی ہوگئیں۔
یہ میرے گُرو، میرے محسن جمیل نقش ہی تھے جنہوں نے مجھے چترا پریتم بنایا۔ میری زندگی کی چاہ ہی مصور بننا تھی۔ اگر دیکھا جائے تو میرے نام کی معنویت کے حساب سے بھی میرا انتخاب یہی ہے، چترا چتر سے نکلا ہے جس کے معنی تصویر کے ہیں۔ اسی طرح میرے گرو کے نام کا مطلب بھی یہی ہے جمیل جمال سے ہے، نقش کے معنی بھی تصویر کے ہیں۔
ایکسپریس: آپ کے زیادہ تر فن پاروں میں کھیت، کھلیان، دیہی مناظر اور کراچی کے سمندری علاقے نظر آتے ہیں، ایک ایسے شہر میں جہاں دوسرے مسائل کا انبار موجود ہے صرف فطرتی مناظر کو کینوس میں قید کرنے کی کوئی خاص وجہ؟
چترا پریتم: ایک چھوٹے سے گاؤں سے آنے والے کو اس شہر نے وہ کچھ دیا جو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ مجھے اس شہر نے بنایا ہے۔ جمیل نقش نے بنایا ہے ان کی وجہ سے میں ایک پینٹر بنا ہوں۔ پنجاب سے تعلق ہونے کے باوجود راوی سے میرا تعلق اتنا گہرا نہیں جو کراچی سے ہے۔ کراچی نے مجھے جو کچھ دیا، اُسے لوٹانے کا یہی طریقہ تھا کہ میں سمندر کو پینٹ کروں۔ ''سمندر کو پینٹ کرنے سے آرٹسٹ میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ کشتیاں جب واپس لوٹتی ہیں، تو بہت سے پیغامات لاتی ہیں۔ لہریں کتنی ہی کہانیاں سناتی ہیں۔ سدھارتھ نے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر دریا سے کتنی باتیں کیں۔ یوں تو اور آرٹسٹوں نے بھی کراچی کے سمندر کو پینٹ کیا، مگر جب لوگ تذکرہ کرتے ہیں، تو چترا پریتم ہی کا کرتے ہیں۔''
اسی طرح جب ہم کسی سبجیکٹ کو لے کر چلتے ہیں تو مصوری، مصوری نہیں رہتی وہ ڈیزائن بن جاتا ہے، جس کا ایک پہلو تصویر گری ہے۔ پینٹنگ وہی ہے جو آپ کو اسی طرح نظر آرہی ہے جس طرح قدرت نے تخلیق کی ہے۔ تصویر گری کچھ اور چیز ہے، مصوری کچھ اور۔ مصوری میں ڈیزائن کا عمل دخل اتنا زیادہ نہیں ہوتا جیسے آپ فشری پر جائیں تو بے شمار کشتیاں کھڑی ہوتی ہیں وہاں اتنی قدرتی خوب صورتی ہے کہ وہ خود بہ خود بہت سارے منظر پیش کرتی ہے۔ میں اگر اپنے رول ماڈل تاثُر پسند (Impressionist) پینٹر جوزف میلورڈ ٹرنر کی بات کروں تو ٹرنر نے سمندر کو بہت زیادہ پینٹ کیا ہے اسی طرح دوسرے یورپی تاثُر پسند مصوروں نے سمندر کو بہت پینٹ کیا ہے۔
دنیا میں ہر علاقے کی اپنی ایک قدرتی خوب صورتی ہوتی ہے اور کراچی کی خوب صورتی سمندر ہے جسے میں نے بہت اچھے طریقے سے پینٹ کیا۔ جب میں نے کلر لگانا شروع کیے تو یورپی پینٹر کو دیکھا، سمجھا اور انہی کو دیکھ کر میں نے کلر لگانے کا سینس پیدا کیا جس میں میری راہ نمائی جمیل نقش نے کی۔ علم جو بھی ہو لیکن اگر گرو قابل اور معتبر ہے تو چیلے کی زندگی آسان ہوجاتا ہے، وقت کا زیاں نہیں ہوتا۔ لینڈ اسکیپ بنانے کی وجہ صرف یہ ہے کہ میرا تعلق گاؤں سے ہے تو میں نے جو بھی لینڈ اسکیپ پینٹ کیا وہ اپنے گاؤں سنجر پور کا کیا۔ مصوری میں سب سے اہم کردار لکیر کا ہے۔
اگر ہمارا تعلق فطرت سے ہے اور ہم جب ہم ایک لکیر کھینچتے ہیں تو وہ درخت بن جاتا ہے۔ اسی طرح آپ کے ذہن میں اپنے محبوب کا خیال ہے تو وہی لکیر ایک محبوبہ کی شبیہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح آپ کا رجحان صوفی ازم، مذہب سے ہے تو پھر اسی لکیر سے اللہ کی وحدانیت پھوٹٰتی ہے۔ مصوری میں لکیر ایک بنیادی عمل ہے، ایک عنصر ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصور نے خیال کہاں سے لیا ہے۔لیکن جمالیاتی حسن مصور کے اندر کا ہوتا ہے۔ جس چیز کا علم نہیں رکھتا، اس سے اجتناب برتتا ہوں اسی لیے مصوری میں تجریدی تجربات نہیں کیے۔ آپ کو میری پینٹنگ میں کمرشل ازم نہیں ملے گا۔ میں احساسات کو پینٹ کرتا ہوں۔ بے شمار لوگ ہیں جو کہتے ہو کہ جی فلاں جگہ خوب صورت ہے۔ لیکن خو ب صورتی تو انسان کے اپنے اندر ہوتی ہے، جن گلیوں، علاقوں ، میں اپنے اٹھا بیٹھا میرے لیے تو وہی سب سے خوب صورت ہے۔ آپ کی محبوبہ چاہے دنیا کی بدصورت عورت ہو لیکن آپ کے لیے وہ دنیا کی حسین ترین عورت ہوگی، کیوں کہ یہ احساس یہ کیفیت اس نے آپ کو دی ہے۔
ایکسپریس: مذہب سے بالاتر ہوکر آپ نے اسلامی فن خطاطی کیلی گرافی کو منتخب کیا، کس بات نے آپ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی؟
چتراپریتم: مجھے کیلی گرافی کا مشورہ دینے والے پہلے شخص حنیف رامے تھے، جو خود فن خطاطی میں بلند مقام رکھتے تھے۔ لیکن اس وقت مجھ میں وہ جذبہ، ہمت یا قابلیت نہیں تھی، کیوں کہ میں ڈرتا تھا کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ ایک ہندو نے قرآن پاک کو ہاتھ لگانے کی جسارت کیسے کی۔ اسی خوف نے مجھے کافی عرصے کیلی گرافی سے دور رکھا۔ لیکن آج میں یہ کہتا ہوں کہ قران مجید اللہ کی کتاب ہے، اسے سب کو پڑھنا چاہیے۔ حنیف رامے کے بعد جمیل نقش نے مجھے کہا کہ تم کیلی گرافی کرو۔ آدمی ہوش و حواس میں، علم کی بنیاد پر کوئی کام کرے، تب ہی مطلوبہ نتائج سامنے آتے ہیں۔ اسکول میں دینیات کا مضمون پڑھا تھا، بعد میں بھی یہ موضوع مطالعے میں رہا۔ عربی اسکرپٹ سے واقفیت تھی۔
جب جمیل نقش نے کیلی گرافی کا حکم دیا، تو آغاز سے قبل مودودی صاحب کی تفسیر پڑھی، تاکہ اس کام کو گہرائی سے سمجھ سکوں۔ اوائل میں مَیں نے Motif کی صورت لفظ اللہ لکھا۔ جب بھی کیلی گرافی شروع کرتا ہو ں تواپنے گرو کا ایک ہی جملہ یاد آتا ہے کہ دنیا کچھ بھی کہے تمہیں کیلی گرافی کرنی ہے۔ اس وقت میرے اور کیلی گرافی کے درمیان میرا گرو کھڑا ہوتا ہے۔ میں دوسری تصویر اتنے جذبے کے ساتھ پینٹ نہیں کرتاجس جذبے کے ساتھ کیلی گرافی کرتا ہوں۔یہ کام میں پورے تقدس و احترام کے ساتھ کرتا ہوں۔
ایکسپریس: فطری مناظر اور کیلی گرافی کے علاوہ آپ نے بدھا کو بھی تفصیل کے ساتھ اپنی مصوری کا موضوع بنایا ہے، بدھا کی مختلف کیفیات آپ کے فن پاروں میں نمایاں ہیں، لیکن آپ کے اپنے مذہب کے بارے میں تصاویر نہ ہونے کی وجہ؟
چتراپریتم: گوتم کو میں نے پڑھا بہت ہے۔ میں نے اس کی مختلف کیفیات کو پینٹ کیا ہے۔ اسے پینٹ کرنے سے میری روح کو سکون ملتا ہے۔ میں اس کو پینٹ کرکے اپنے اندر کا غبار نکالتا ہوں۔ کبھی کبھی خود کو بدھا محسوس کرتا ہوں جس کی وجہ سے میری لائنیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ گوتم ذات کے سفر کی تکمیل کا نام ہے۔ بدھا کے لفظی معنی ' بدھی' یعنی عقل کے ہیں۔
نام تو اس کا سدہارتھ تھا لیکن جب اسے نروان حاصل ہوا، گیان حاصل ہوا تو وہ تب بدھا بنا۔ جس کو ہم بدھا کہتے ہیں وہ بدھا ہے نہیں اس کا نام توسدہارتھ ہے۔ گوتم کو پینٹ کرنے کا مقصد اپنے اندر کے گوتم کی تلاش ہے۔ ہندو مت میں میرا بائی کو بھی بدھا سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھی اپنی ذات کو پاگئی۔ میں نے میرا بائی کو تو پینٹ کیا لیکن کرشن کو نہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ میں اپنے مذہب کی زیادہ تفصیل میں نہیں جاتا۔ جتنا میں نے پڑھا ہے اس کے مطابق میرا علم بہت کم ہے، لیکن جتنا میں سمجھتا ہوں ہندو ازم کے تین ادوار ہیں۔ پہلا دور شیوا کا ہے جس میں مار دھاڑاور راکشس ہے، دوسرا دور شری رام چندر کا ہے جن کی وجہ سے ہندو مذہب میں فیملی سسٹم وجود میںآیا، تیسرا دور سری کرشن کا ہے جنہوں نے محبت اور رومانس کا تصور دیا، عورت کو عزت دی۔
روحانیت کی جانب میرا جھکاؤ بچپن سے ہے، لیکن میں مذہب کے حوالے سے پیدا نہیں ہوا، ہاں اگر میں پنڈت ہوتا تو پھر میں اس پر کُھل کر بات کرتا۔ جہاں تک کیلی گرافی اور گوتم کو پینٹ کرنے کی بات ہے تو بدھا ایک بین الاقوامی موضوع ہے جب کہ کیلی گرافی اسلامی ورثے میں آتی ہے جس کی ایک عظیم تاریخ ہے۔ فن خطاطی اسلامی ثقافت کا عظیم ورثہ ہے۔ موجودہ دور میں مصورانہ خطاطی پر بہت کام ہوا ہے۔ مصورانہ خطاطی کو مصوری میں بلند درجہ ملناچاہیے۔
ایکسپریس: آئل پینٹنگ، ایکریلیک یا واٹر کلر آپ کو کس میڈیم میں کام کرنا زیادہ اچھا لگتا ہے؟
چترا پریتم: ابتدا میں سب ہی میڈیم پر کام کیا لیکن سفر آئل پینٹ پر آ کر تمام ہوا۔ دیگر رنگوں کی بھی اپنی دنیا ہے، مگر آئل پینٹ سے کسی کا موازنہ ممکن نہیں۔ آئل پینٹنگ میں جو چاشنی، احساس ہے وہ کسی اور میڈیم میں نہیں، اسی لیے دنیا بھر میں آئل پینٹنگ میں زیادہ کام ہوا ہے، کیوں کہ اس میڈیم میں آپ اپنے احساس کو بہت اچھے طریقے سے پیش کر سکتے ہیں۔ پینٹ لگاتے وقت مصور اپنے احساس کو کینوس پر اتار سکتا ہے۔ اگر اس نے برف کھائی ہے تو وہ ٹھنڈ کے احساس کو اپنی پینٹنگ میں لاسکتا ہے، اگر مصری کھائی ہے تو اس کی مٹھاس ، اگر شہد کھایا ہے تو اس کا احساس وہ اپنی تصویر میں اُجاگر کرسکتا ہے۔ جتنے بڑے مصور گزرے ہیں، اُن میں اکثریت آئل پینٹ آرٹسٹوں ہی کی تھی۔
آئل پینٹنگ میں کینوس پر لگنے والا کوئی رنگ حادثہ نہیں ہوتا۔ آپ نے محسوس کیا ہے، تب ہی تو وہ اسٹروک لگایا ہے۔ واٹر کلر پینٹنگ میں پیلا اور نیلا لگائیں گے، تو وہ آپ کے نہ چاہتے ہوئے بھی سبز بن جائے گا۔ یعنی جس رنگ کا آپ نے منصوبہ نہیں بنایا تھا، وہ آگیا۔ میرا مقصد واٹر کلر کی حیثیت اور اہمیت کم کرنا نہیں۔ لوگ اِسے پسند کرتے ہیں۔ ایک معنوں میں یہ مشکل میڈیم بھی ہے۔ اسی طرح منی ایچر مشکل سبجیکٹ ہے۔ منی ایچر سیکھا ہوا آرٹسٹ قدم بہ قدم آگے بڑھتا ہے، چھلانگیں نہیں لگاتا۔ لیکن آرٹسٹ کی فیلنگ کی تکمیل کے لیے آئل پینٹنگ ایک معتبر میڈیم ہے۔
ایکسپریس: آپ کی تصاویر میں اسٹروکس اور گہرے رنگوں کا استعمال بہت زیادہ نظر آتا ہے، آپ بہت ساری لیئرز پر کام کرتے ہیں، یہ تیکنیک کہاں سے سیکھی؟
چترا پریتم: میں اپنی پینٹنگز پر انتھک محنت کرتا ہوں۔ میری تصاویر میں بے پناہ لیئرز ہوتی ہیں۔ یہ میری اپنی تیکنیک نہیں ہے ماڈرن تیکنیک کے جتنے بھی تاثُر پسند (Impressionist) پینٹر ہیں انہوں نے اسی طرح تہہ در تہہ کام کیا ہے۔ اور انہی سے میں نے اس تیکنیک کو برتنے کا سلیقہ سیکھا ۔ کلاؤڈے مونے، الفریڈ سسلی، پسارو اور ونسیٹ وین گاگ جیسے ممتاز مشہور پینٹرز نے اسی تیکینک پر کام کیا، سب کا اس کلر کو لگانے کا طریقہ ایک ہے بس احساس اپنا اپناہوتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے لکھنے میں ادب ویلیو کرتا ہے، آپ خرافات بھی لکھ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے آپ کو لکھنے کا ڈھنگ و سلیقہ ہو نا چاہیے۔
ایکسپریس: جمیل نقش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کو اپنا شاگرد نہیں بناتے پھرآپ کی کس بات نے انہیں آپ کو اپنا شاگرد بنانے پر مجبور کیا؟
چتراپریتم: بات بھی بالکل درست ہے کہ جمیل نقش صاحب کسی کو اپنا شاگرد نہیں بناتے مجھے اپنی شاگردی میں کیوں لیا اس کی وجہ کچھ یوں ہے: الہامی فن خون و پسینے کی آمیزش ہوا کرتا ہے۔ میری اس محنت او ر لگن نے جمیل نقش کی ذات میں دل چسپی و ہم دردی پیدا کردی۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ تناور درخت اپنے سائے میں چیلوں، کوؤں کو برداشت نہیں کرتا مجھ میں کبوتر جیسی خصلت تھی جو مجھے سالہاسال اپنے سائے میں رکھا۔ اپنے گُرو کی چلمیں بھرنا، جوتیاں سیدھی کرنا میرے ایمان کا حصہ رہا ہے ۔ مجھ میں بازگشت گونجتی رہی کہ میری زندگی جسے عذاب کہوں یا ثواب، کہ مجسم پتھر بنا گیا ایک شخص!
میں بچپن سے ہی صوفی ازم کی جانب مائل تھا۔ بلھے شاہ اور دیگر صوفیوں کو پڑھ کر میں نے دھرتی پر چلنا سیکھا، اس کی وجہ یہی تھی کہ میں اپنی عزت کرتا تھا میں اپنی عزت و احترام کا بہت خیال کرتا تھا، کسی کو کچھ کہنے ، کوئی کام کرنے سے پہلے سوچتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری عزت نفس متاثر ہو۔ میں بچن سے ہی یہی دعا مانگتا تھاکہ یا تو مجھے اس صوفی سے ملا دے جس سے میری ذات کی تکمیل ہوسکے اور میں بدھا بن سکوں یا میری مصور بننے کی خواہش پوری کردے۔ بدھا بننے کی خواہش تو پوری نہیں ہوسکی۔ لیکن مصور بنانے کے لیے اللہ نے مجھے جمیل نقش جیسے مصوری کے دیوتا سے ملادیا۔
ایکسپریس: ہم عصر مصوروں میں کس کا کام زیادہ پسند ہے؟
چترا پریتم: فن مصوری میں جمیل نقش کے کام کو عطر کے طور پر دیکھتا ہوں۔ کام تو مجھے نجمی سورہ کا بھی پسند ہے، ان کا احترام ہمیشہ دل میں رہتا ہے۔کیلی گرافی میں تو حنیف رامے کا بھی بہت بڑا مداح ہوں، شاکر علی کا کام بہت پسند ہے، لیکن اس سب کو دیکھنے کے بعد تسلی مجھے جمیل نقش کا کام دیکھ کر ہی ہوتی ہے۔ غیرملکی مصوروں میں امریکی آرٹسٹ اینڈریو ویتھ کے کام سے بہت زیادہ متاثر ہوں۔دنیا کے بڑے بڑے لوگ اس کے دروازے پر کھڑے ہوتے تھے۔ اس کا کا م ہی اتنا کمال کا ہے کہ بندہ دیکھ کر ہی ششدر رہ جاتا ہے کہ کائنات میں ایسے لوگ بھی آکر چلے گئے۔ ایسا آرٹسٹ تو صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔
ایکسپریس: آپ جمیل نقش کو اپنا مرشد گردانتے ہیں، بہ حیثیت مصور، بہ حیثیت استاد آپ نے انہیں کیسا پایا؟
چترا پریتم : ان سے لوگوں کو بڑی شکایات ہیں، بے پناہ شکایات ہیں لیکن جب میں اس بارے میں سوچتا ہوں تو وہ بے معنی ہوجاتی ہیں، کیوں کہ انہوں نے وقت کی قدر کی۔ انہوں نے اپنی ذات کے لیے، اپنی اولاد کے لیے اتنا وقت نہیں نکالا جتنا مصوری کو دیا۔ میری ان کے ساتھ رفاقت کو 28سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مجھے انہوں نے وقت اس لیے دیا کہ مجھ میں مصوری سیکھنے کی لگن تھی ۔ تو بات صرف اتنی ہے کہ ہر شخص کے بارے میں ہر کسی کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ بات آپ کے دیکھنے کے زاویے کی ہے۔ میں نے جمیل نقش کو ہر زاویے سے ایک بہترین شخص پایا۔ ایک ایسا شخص جس نے مصوری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔
ایکسپریس: کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ آپ کو اپنے استاد جمیل نقش کی پیروی کرنی چاہیے لیکن ان کے کام کی نہیں، اس بارے میں کیا کہیں گے؟
چترا پریتم: ایسا نہیں ہے دیکھیں اولاد میں اپنے ماں باپ کا عکس تو ہوتا ہی ہے۔ اور اگر میرے کام میں میرے گرو کا عکس آتا ہے تو اس میں کوئی بری بات نہیں ہے کیوں کہ میں اس شخص سے متاثر ہوں تو میرے کام میں کہیں نہ کہیں اس کا عکس تو آئے گا۔
یہ ایک نارمل بات ہے۔ اور مجھے اس بات پر فخر ہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرے گرو کے علاوہ کسی اور مصور کا عکس میرے کام میں نظر آتا ہے، لیکن مجھ پر جمیل نقش کے کام کی چھاپ نہیں ہے۔ آرٹ کوئی تماشا نہیں ہے یہ ایک تسلسل کا نام ہے۔ یہ مسلسل دریافت ہونے کا عمل ہے۔ مائیکل اینجیلو سے لے کر چترا پریتم تک مصور کڑی در کڑی جڑا ہوا ہے اگر ہم اسے ختم کردیں گے تو دریافت کا یہ عمل رُک جائے گا۔ کلاکار کے لیے تلاش ذات شرط ہے، تخلیقی عمل کو گرفت میں لانے کے لیے ہمہ وقت بے قراررہنا پڑتا ہے۔ تخلیقی عمل کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ راستہ ظاہر ہوتا ہے، آرٹسٹ تمام رکاوٹوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آگے بڑھتا چلاجاتا ہے۔ وہ اپنے فن پاروں کے اندر سفر کرتا ہے۔ فن پارے ہی اُسے منزل تک لے جاتے ہیں۔
ایکسپریس: آپ کا شمار پاکستان کے ان مصوروں میں کیا جاتا ہے جو ہیئت کے عالمی مسائل سے نبرد آزما ہیں، آپ کے نزدیک تصویر اب اظہار سے زیادہ ایجاد کا مسئلہ بن چکی ہے، اس کے اسباب کیا ہیں؟
چترا پریتم: اظہار تو آپ کرتے ہی ہیں۔ ایجاد تو ایک بنیادی نقطہ ہے جو آپ نے دریافت کیا ہے۔ اگر ہم اس نقطے کو ہی ہٹا دیں تو قصہ تمام ہوجائے گا۔ آپ کو اپنا کام ہی پیش کرنا ہوگا۔ آپ میر کو پڑھتے ہیں، غالب کو پڑھتے ہیں، اقبال کو پڑھتے ہیں لیکن لکھتے تو آپ اپنا ہی ہیں۔ جب جوش ملیح آبادی سے پوچھا گیا کہ جی بڑا شاعر کون ہے تو انہوں نے کہا کہ فیض آگیا ہے بھئی۔ جوش خود ایک بڑے آدمی تھے۔ اب دونوں میں غلط کوئی نہیں ہے یہ اپنے اپنے نقطۂ نظر کی بات ہے۔
ایکسپریس: ایک مصور معاشرے میں بہتری کے لیے اپنا کردار کس طرح ادا کر سکتا ہے؟
چترا پریتم: ایک مصور امن کا پیام بر ہوتا ہے، معاشرے میں خوب صورتی پیدا کرنا ہی اس کا اہم کردار ہے۔ مصور تو بنیادی طور پر ہے ہی صوفی ، وہ ایک چھوٹی کٹیا میں ہی اپنی پوری زندگی گزاردیتا ہے، وہ تو باتیں ہی رنگوں سے کرتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ دنیا بھر میں ملک کی نمائندگی مصور ہی کرتے ہیں۔ ہمارے پروموٹر ہمیں پوری دنیا میں لے جاتے ہیں ۔ جہاں ہم اپنی ذات کی نہیں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ایکسپریس: پاکستان میں فنون لطیفہ کے دوسرے شعبوں کی طرح مصوری کا شعبہ بھی حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے، آپ کے خیال میں اس شعبے کے فروغ کے لیے حکومتی اور نجی سطح پر کیا اقدامات کیے جانے چاہیں؟
چترا پریتم: پاکستان میں مصوری کی مجموعی صورت حال زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ آرٹسٹ سیکھتا تو خود ہی ہے لیکن اس کی راہ نمائی اچھی طرح ہونی چاہیے۔ مصوروں سے ورک شاپس کرائی جائیں۔ مصوری کے بنیادی گُر سکھائے جائیں۔ برش پکڑنے کا طریقہ سلیقہ سکھایا جائے۔ اداروں کے ساتھ ساتھ سنیئر مصوروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ گملے میں رہنے والا پودا کبھی تناور درخت نہیں بن سکتا۔ اس کے لیے اسے گملے سے نکال کر باہر کھُلی زمین میں لگانا ہوگا۔ اسی طرح اگر ہم نے نوآموز مصوروں کو محدودیت کے دائرے سے باہر نہیں نکالا تو وہ کبھی بڑے مصور نہیں بن سکیں گے۔ پاکستان میں تو اس وقت آرٹسٹ پر اس فن کے اسرار و رموز کھلنے لگتے ہیں، جب اس کے پیر قبر میں ہوتے ہیں۔
نئے تجربات کے لیے وقت ہی نہیں بچتا۔ آرٹ ان معنوں میں تو پھل پھول رہا ہے کہ آج ہر دوسرا شخص پینٹنگ کر رہا ہے، ہر گھر میں فن پارے سجے ہیں۔ البتہ معیار کا فقدان ہے، پرکھنے والی نظر نہیں۔ آرٹسٹ، اساتذہ اور آرٹ پرموٹرز، تینوں فن سے زیادہ خود سے مخلص ہیں۔ ''جو آرٹسٹ فقط فروخت کرنے کے لیے فن پارہ بناتا ہے، وہ مادیت پرست ہوجاتا ہے۔ اور آرٹسٹ مادیت پرست ہوجائے، تو اس کا کام زیادہ دیر زندہ نہیں رہتا۔ پیسے کے لیے کیا جانے والا کام تاریخ کا حصہ نہیں بن سکتا۔'' جہاں تک آرٹ کی درس گاہوں کی بات ہے ''درس گاہیں سازگار ماحول پیدا کرتی ہیں، وہاں اساتذہ ہوتے ہیں، لیکن سیکھنا آپ کو خود ہی پڑے گا۔'' اسی طرح آرٹ گیلریز نے آرٹ کو گھر گھر تو پہنچا دیا، مگر حقیقی معنوں میں پروموٹ نہیں کیا۔ ہمارے یہاں مصوری میں ایک بھیڑچال کا رجحان بھی سامنے آرہا ہے۔ نئی نسل کو جو کام سکھایا جا رہا ہے وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے افسانہ نویس بننے کے خواہش مند کو آپ خطوط نویسی سکھا دیں، اب ایک اچھا خط لکھنے والا اچھا افسانہ نگار تو نہیں بن سکتا۔ افسانہ لکھنے کے لیے سچے اور کھرے ماحول میں رہنا پڑے گا۔
ایکسپریس: مصوری آپ کا شوق ہے، لیکن کیا یہ شوق آپ کی معاشی ضروریات کو پورا کردیتا ہے ؟
چتراپریتم: اس کے لیے بڑی جنگ لڑی ہے۔ تخلیق، جدت میرا کام کا خاصہ ہے۔ تخلیق کے لیے میں مسلسل حالت جنگ میں رہتا ہو۔ 1989 میں میری پہلی پینٹنگ دو ہزار روپے میں فروخت ہوئی۔ جس میں گیلریز کا کمیشن وغیرہ نکال کر ہزار روپے ہی ہاتھ آئے۔ لیکن میں اپنے کام کو بہتر سے بہتر بنانے کی دھن میں مگن رہا۔ کسی بھی پینٹنگ کی قیمت کا تعین اسے بنانے والا نہیں کرتا۔ میرے چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ ایک کڑی در کڑی سلسلہ ہے۔ معاشرہ اور وقت آپ کے کام کی قیمت کا تعین کرتا ہے۔ اگر کام اچھا ہے تو اس کی قیمت بھی اچھی ہوگی۔
معیشت کا طلب و رسد کا قانون صحیح معنوں میں اس فن پر لاگو ہوتا ہے۔ گو کہ میں بہت امیر نہیں ہوں لیکن میں لاکھوں لوگوں سے زیادہ خوش حال زندگی گذار رہا ہوں۔ میری ایک بیٹی ایم بی بی ایس کر رہی ہے، ایک بیٹی بزنس مینجمنٹ پڑھ رہی ہے۔ بیٹا منہگے اسکول میں پڑھ رہا ہے یہ سب خرچے میں اسی کام سے تو کر رہا ہوں، میرا تو اوڑھنا بچھونا ہی مصوری ہے۔ میں تو خواب میں بھی پینٹنگ کرتا ہو۔ تو بات صرف اتنی ہے کہ ایک آرٹسٹ صرف بیچنے کے لیے پینٹنگ بناتا ہے، وہ دو مہینے میں دس پینٹنگز بنا دے گا، دوسرا ایک کے بعد دوسری پینٹنگ بناتا ہے، تو مقصد اپنی گروتھ ہوتا ہے۔ پہلا شخص سطحی کام کررہا ہے، دوسرے کا ایک فن پارہ اُس کے دس فن پاروں پر بھاری ہوگا۔ ہر آرٹسٹ جانتا ہے کہ وہ کس معیار کا کام کررہا ہے، اس میں کتنی قابلیت ہے۔ میں بھی اپنے بارے میں جانتا ہوں۔ اس کے لیے کسی سے موازنے کی ضرورت نہیں۔''
ایکسپریس: مصوری کے نئے طریقے تھری ڈی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
چترا پریتم: تھری ڈی پینٹنگ کچھ نہیں ہوتی۔ پینٹنگ صرف وہی ہے جو آپ کو نظر آرہی ہے۔ یہ بس اوور لیپنگ ورک ہوتا ہے یعنی ایک لیئر کے بعد دوسری، تیسری ، چوتھی لیئر بنانا۔ یہ پینٹنگ کی لیئرز ہیں۔ جو وحدانیت میں جاتے ہیں وہ اوور لیپنگ کرتے ہیں جیسے میں نے بدھا کی پینٹنگز پر کیا۔ لیکن اس کے لیے بہت زیادہ علم ہونا ضروری ہے۔ آپ کو لائٹ کے سورس کا پتا ہونا چاہے کیوں کہ پینٹنگ میں لائٹ سورس (روشنی کا منبع) کا بہت اہم کردار ہے۔
ایکسپریس: کن موضوعات پر کتابیں پڑھنا پسند ہے؟
چترا پریتم: نثر مجھے بہت پسند ہے لیکن شاعری میری روح میں ہے۔ شاعری میں عبید اللہ علیم اور فکشن میں میکسم گورکی، رسل برٹینڈر، دوستوفسکی، ٹالسٹائی میری پسندیدہ شخصیت ہیں۔ نثر میں جوش ملیح آبادی کو بہت پڑھا۔ منٹو کو پڑھنے کے بعد میں عصمت چغتائی کو نہیں پڑھ سکا۔ میں نئے آرٹسٹوں کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ وہ صدیق سالک کی کتاب ''پریشر ککر'' لازمی پڑھیں۔
ایکسپریس: پسندیدہ گلوگار، گلوگارہ، اداکار؟
چترا پریتم: مہدی حسن، لتا، ،محمد رفیع، آشا بھوسلے، جگجیت سنگھ کو بہت سنا۔ اداکاروں میں دلیپ کمار، راج کپور اورامیتابھ بچن کی اداکاری کا کوئی جواب نہیں۔ کسی بھی فن کار کی پسندیدگی کا دارومدار اس کلچر پر ہوتا ہے جہاں سے اس کا تعلق ہوتا ہے۔ اگر ہم پنجاب کے کلچر میں جائیں تو اداکارہ انجمن اور نورجہاں کی کوئیی دوسری مثال نہیں ہے۔