ہر سال دنیا بھر کے سمندروں میں 64 ملین میٹرک ٹن کچرا پھینکا جاتا ہے
پاکستانی ساحلی علاقوں میں آلودگی بڑھنے سے سمندری حیات کو خطرہ درپیش
ہر سال دنیا بھر کے سمندروں میں6.4 ملین میٹرک ٹن کچرا پھینکا جاتا ہے جوکہ زیادہ تر پلاسٹک پر مشتمل ہوتا ہے جس سے آبی حیات کی زندگی کو خطرہ درپیش ہیں۔
پاکستان کے ساحلی علاقوں میں آلودگی بڑھنے کی وجہ سے سمندری حیات کی زندگی کو خطرہ درپیش ہیں، گزشتہ روز کراچی کے ساحل سے270کلومیٹر دور ماہی گیروں کے جال میں ایک نایاب مچھلی (Ablennes hians) پھنس گئی، اس مچھلی کو مقامی زبان میں ''Alore'' کے نام سے پکارا جاتا ہے، کپ میں پھنسی مچھلی کو ورلڈ وائڈ لائف فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے تربیت یافتہ ماہی گیر نے پکڑی اور اس کی جان بچانے کی بھرپور کوشش کی لیکن مچھلی جانبر نہ ہوسکی۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق کلفٹن پر50فیصد سے زائد کچرا پلاسٹک پر مشتمل ہے جبکہ پلاسٹک آلودگی کے باعث پاکستان کے ساحلی علاقوں میں کراچی کے ساحل، کند ملیر، ابراہیم حیدری، گوادر و دیگر علاقے شدید متاثر ہورہے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ہر 3میں سے ایک آبی ممالیہ پلاسٹک کی وجہ سے موت کا شکار ہوتے ہیں اور90فیصد سمندری پرندے پلاسٹک کو ثابت نگل جانے سے مرجاتے ہیں،اسی طرح مچھلیاں و دیگر آبی حیات پلاسٹک ملبے سے پلاسٹک کو کھانے سے موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔
پاکستان کے ساحلی علاقوں میں آلودگی بڑھنے کی وجہ سے سمندری حیات کی زندگی کو خطرہ درپیش ہیں، گزشتہ روز کراچی کے ساحل سے270کلومیٹر دور ماہی گیروں کے جال میں ایک نایاب مچھلی (Ablennes hians) پھنس گئی، اس مچھلی کو مقامی زبان میں ''Alore'' کے نام سے پکارا جاتا ہے، کپ میں پھنسی مچھلی کو ورلڈ وائڈ لائف فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے تربیت یافتہ ماہی گیر نے پکڑی اور اس کی جان بچانے کی بھرپور کوشش کی لیکن مچھلی جانبر نہ ہوسکی۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق کلفٹن پر50فیصد سے زائد کچرا پلاسٹک پر مشتمل ہے جبکہ پلاسٹک آلودگی کے باعث پاکستان کے ساحلی علاقوں میں کراچی کے ساحل، کند ملیر، ابراہیم حیدری، گوادر و دیگر علاقے شدید متاثر ہورہے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ہر 3میں سے ایک آبی ممالیہ پلاسٹک کی وجہ سے موت کا شکار ہوتے ہیں اور90فیصد سمندری پرندے پلاسٹک کو ثابت نگل جانے سے مرجاتے ہیں،اسی طرح مچھلیاں و دیگر آبی حیات پلاسٹک ملبے سے پلاسٹک کو کھانے سے موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔