عید سعید اور کسی کی دید

دنیا دار عید کو بھی کسی دنیوی تہوار (تیوہار) کی طرح اور کسی بھی دین دار سے کہیں زیادہ جوش و خروش سے مناتے ہیں۔


دنیا دار عید کو بھی کسی دنیوی تہوار (تیوہار) کی طرح اور کسی بھی دین دار سے کہیں زیادہ جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ فوٹو : فائل

عیدالفطر یا عرف عام میں میٹھی عید یا چھوٹی عید ہمارے لیے دینی و دنیوی ہر لحاظ سے باعث مسرت ہے۔

(ضمنی نکتہ: درست لفظ دُنیَوی ہے ، 'ے' پر زبر کے ساتھ، دنیاوی نہیں)۔ اصل خوشی تو خدا کے اُن نیک بندوں کی ہوتی ہے جو رمضان المبارک کے پورے روزے، پورے اہتمام سے رکھتے ہیں، فرائض وسُنَن و نوافل کا خوب خوب التزام کرتے ہیں اور ہمہ وقت اپنے رب کو راضی کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔

دینی حوالے سے تو یہ تصور مستحکم ہے، مگر دنیا دار عید کو بھی کسی دنیوی تہوار (تیوہار) کی طرح اور کسی بھی دین دار سے کہیں زیادہ جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ جو روزہ نہیں رکھتے، عبادت سے کوسوں دور ہوتے ہیں، اُنھی کی خریداری اور ہر طرح کی شوشا، سب سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ ان سطور کا راقم ایک شاعر ہے۔ ہمارے یہاں شاعر کا روایتی تصور اب بھی بہت سے اذہان میں یہی ہے کہ ''بالکل فارغ، عیش پرست، فقط داد و شہرت کے طالب ....'' سو جب عید کی بات ہوتی ہے تو اُن کا حوالہ بھی اس قسم کے اشعار ہوا کرتے ہیں:

ع: ہر شب ، شب ِبرات ہے، ہرروز عید ہے
سوتا ہوں ہاتھ گردن ِ مِینا میں ڈال کر
(آتشؔ)
(پہلا مصرع یوں غلط مشہور ہے: ہر روز، روز ِعید ہے، ہر شب ، شبِ برات)

اب شرعی اعتراض تو وارد ہوتا ہے، مگر شاعر کو اِس سے کیا۔ ویسے بھی اُس نے کون سا 'شب برأت ' کہا تھا۔ اور بات یہیں پر نہیں رکتی، بلکہ لمس (اور قرب )کی اہمیت عاشق کی نظر میں اتنی اہم ہوتی ہے کہ وہ کہتا ہے :
ہے روز عید، رنجش خاطر کو دو سلام
آؤ گلے لگو مِرے ، کیسی نہیں نہیں
(مفتی صدرالدین آزُردہؔ)

]لطف کی بات یہ ہے کہ انگریز کے ہاتھوں معتوب ہونے والے، میرزاغالبؔ کے یہ دوست، مفتی صاحب اپنے وقت کے ممتاز سخنور، اردو میں جدید علوم کے ابتدائی مباحث میں شریک اور جَیّد عالم دین تھے[۔ یہ وہی بات ہے جو دیگر شعراء نے قدرے فرق سے بیا ن کی:
عید کادن ہے، گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے

( پہلا مصرع یوں بھی مشہور ہے، مگر غلط ہے: عید کا دن ہے ، گلے ہنس کے لگا کر ملیے)
عید کے دن جب عاشق ِزار کو کسی غیر سے یا رقیب سے گلے ملنا پڑجائے تو وہ بے اختیار پکار اٹھتا ہے:
ع : محفل میں تیری عید کے دن ، میرے گلے سے
وہ کون سا 'فتنہ' ہے جو اُٹھ کر نہیں ملتا

آگے بڑھنے سے پہلے عرض کردوں کہ عید کا عُود سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ یہ وہی عُود ہے جس کا شمار آج بھی بیش قیمت عطور (عطر کی جمع) میں ہوتا ہے ۔ عُود کالغوی مطلب ہے، لَوٹ کر واپس آنے والی چیز، چونکہ عید سال پورا ہونے پر دوبارہ آتی ہے ، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا۔ اور عید کی خوشیاں مناتے مناتے یہ بھی یاد رہے کہ جو لوگ سنت رسول (ﷺ) کی ہمہ وقت اتباع کرتے ہیں ، وہ دیگر خوشبوؤں کی طرح ، عُود بھی استعمال کرتے ہیں۔

عیدالفطر اَب اس طرح کم منائی جاتی ہے جس طرح آج سے بہت سال قبل منائی جاتی تھی۔ عید کا چاند دیکھنے کا اہتمام کیا جاتا تھا ، ہلال کی دید کے بعد، بزرگوں کو سلام کرتے ہوئے دعائیں لی جاتیں اور پھر عید کے لباس ، پکوان سمیت تمام امور کا سلسلہ جاری ہوتا۔ رمضان المبارک میں ایک مصروفیت، عمدہ نمونے اور اچھے اشعار سے مزین ، مرصع عید کارڈ کی تلاش اور اسے اپنے احباب، اعزہ اور واقفین کو ڈاک سے ارسال کرنے کی بھی ہوا کرتی تھی جو انٹرنیٹ، موبائل فون اور وہاٹس ایپ جیسے جدید طریقہ ہائے ربط و ضبط نے تقریباً ختم کردی۔ ڈاک کا محکمہ بھی اس قدر بدنام ہوچکا ہے کہ لوگ اتنی زحمت اٹھانا پسند نہیں کرتے۔ دوسروں کی بات ہی کیا یہ خاکسار بھی اس ضمن میں 'جدت پسند' یا 'جدیدیت زدہ ہوچکا ہے۔ بات کی بات ہے کہ اَب عید کارڈ بھی پہلے جیسے نہیں رہے، بس سب کچھ بدل گیا ہے۔ پیار کا سلسلہ بھی Fast forwardہے اور اظہار کا طریقہ بھی۔ اب تو لوگ ''سب کچھ '' کرکے ، اخلاقاً ILU=I love youکہہ دیتے ہیں اور ایسا تو زندگی میں باربار بھی ہوتا رہتا ہے۔ اب وہ پہلے جیسا دقیانوسی ، You know....Out datedکتابی عشق تو رہا نہیں کہ اظہارالفت کو بھی اک عمر درکارہوتی، اور تو اور، کچھ کا تو یہ حال ہوتا:

ع: کٹ گئی احتیاط ِ عشق میں عُمر
ہم سے اظہار ِ مدعا نہ ہوا
(حسرتؔ موہانی)

اب تو اکثر لوگ ، رمضان شریف کے اواخر میں، رات گئے یا ساری رات بازاروں میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں، تھکن سے چُور گھر آتے ہیں تو عالَم یہ ہوتا ہے کہ بعض تو عید کی نماز پڑھے بغیر ہی سوجاتے ہیں اور دن چڑھے سوکر اٹھتے ہیں۔ رہا چاند تو اَب اُس کا وہ دینی کیا رومانوی تصور بھی کتابوں میں رہ گیا جس پر ہر چھوٹا بڑا شاعر ، حتیٰ کہ تُک بند بھی طبع آزمائی ضرورکرتا۔ ایسے اشعار تو اَب کتابوں کی زینت ہیں:

دیکھا ہلا ل عید تو احساس یہ ہوا
لو ایک سال اور جدائی میں کٹ گیا
۔۔٭۔۔۔
ہلال عید کا ہم باہم دیکھتے ہیں
گلے مِل رہی ہیں ہماری نگاہیں
۔۔٭۔۔۔
ہلال عید کو دیکھو تو روک لو آنسو
جو ہوسکے تو محبت کا احترام کرو
۔۔٭۔۔۔
تیری پیشانی پہ تحریر پیام عید ہے
شام تیری کیا ہے ، صبح عیش کی تمہید ہے

]عموماً پہلی تاریخ کے چاند کو ہلال کہا جاتا ہے ، مگر اہل عرب کے نزدیک، ابتدائی دو اور آخری دو راتوں کا چاند ہلا ل ہوتا ہے، جب کہ پورے چاند کو بَدر اور دیگر تاریخوں میں قمر کہتے ہیں۔ ہلال کے لیے لفظ 'غرّہ ' بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ علامہ اقبال نے استعمال کیا[

غرّہ شوال! اے نورنگاہ روزہ دار
آکہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار

اور علامہ اقبال نے کسی اور موقع پر کسی کی فرمائش پر عید کی مناسبت سے ایسے اشعار بھی لکھے تھے:
پیام عیش ومسرت ہمیں سناتا ہے
ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے
]تعجب کی بات ہے کہ اردو کا دامن اس قدروسیع ہے کہ پورے چاند کے لیے تو ہمارے پاس بدر، بدرِکامل، ماہ ِکامل، پُونَم اور ماہِ تمام جیسے الفاظ موجود ہیں، مگر پہلی کے چاند کے لیے ہلال اور غرّہ کے سوا کچھ نہیں[
جدید اردو شاعری میں عید کے چاند پر شاید ہی کسی نے ساغرؔ صدیقی سے بہتر اور مؤثر کلام پیش کیا ہو۔ ساغرؔ صدیقی نے کہا تھا:
چاک دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند
اپنی تصویر کہاں بھول گیا عید کا چاند
اُن کے اَبروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے
اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چُبھا عید کا چاند
جانے کیوں آپ کے رُخسار مہک اُٹھتے ہیں
جب کبھی کان میں چُپکے سے کہا عید کا چاند
دُور ویران بسیرے میں دیا ہو جیسے
غم کی دیوار سے دیکھا تو لگا عید کا چاند*
لے کے حالات کے صحراؤں میں آجاتا ہے
آج بھی خُلد کی رنگین فضاء عید کا چاند
تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں
گھول کر دَرد کے ماروں نے پیا عید کا چاند
چشم تو وُسعت ِ افلاک میں کھوئی ساغرؔ
دل نے اک اور جگہ ڈھونڈ لیا عید کا چاند
*راقم کو یہاں حمایت علی شاعرؔ کے مشہور فلمی نغمے کے بول یاد آگئے؎
دُور ویرانے میں اِک شمع ہے روشن کب سے
کوئی پروانہ اِدھر آئے تو کچھ بات بنے
رمضان شریف میں سرعام کھانے پینے کی پابندی سے کوئی مسئلہ ہو نہ ہو ، اکثر نام نہاد ''روشن خیال'' اس سے بہت چڑِتے ہیں کہ یہ اُن کے خیال میں زیادتی ہے۔ وہ تو صرف پینے ہی میں اتنا آگے جانا چاہتے ہیں کہ ''کھُل کر'' پییں، نام کے مسلمان بھی کہلائیں اور Liberalsمیں بھی شمار ہوتا رہے، گویا وہی معاملہ ہے کہ بقول جلالؔلکھنوی
شب کو مئے خوب سی پی ، صبح کو توبہ کرلی
رِند کے رِند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی
(گستاخی معاف ، ابھی پچھلے دنوں ٹیلی وژن پر یہ اندوہ ناک خبر چلی تھی کہ رمضان شریف کے مقدس مہینے میں بھی 'پارلیمانی گھروں' سے مئے ناب، خانہ خراب کی خالی بوتلوں کی بہت بڑی مقدار برآمد ہوئی ہے۔ اب اگر ہم یہ کہیں کہ حضور! یہ بھی یکے ازاقسام بدعنوانی ہے، یعنی Corruptionتو بہ زَعم ِ خویش، خود کو دودھ سے دُھلا ہوا سمجھنے والے اہل ِسیاست بُرا مانیں گے۔ ایک غیرسیاسی ذکر اُس شخصیت کا بھی ہوسکتا ہے جس کی حج کی ادائی کے فوری بعد، ایک غیرملکی سربراہ کے ساتھ ، جام تجویز اور نوش کرتے ہوئے تصاویر بھی منظر عام پر آئی تھیں اور وہ اس وقت، ماورائے قانون، بیرون ملک مقیم ہے)۔
عید کے رسم و رواج میں بھلے ہی کمی بیشی ہوگئی ہو، عیدی کا تصور اَبھی برقرار ہے، یہ اور بات کہ اَب عیدی کا بڑا حصہ فقط بچوں ہی کی نذر ہوتا ہے۔ لغات پر نظر ڈالیں تو عیدی کی یہ تعریف سامنے آتی ہے:
عیدی۔ اسم مؤنث: (۱)۔ عید کا انعام، عید کا خرچ جو بچوں کو دیا جائے۔ (۲)۔ وہ نظم جو استاد لوگ بچوں کو عید سے ایک روز قبل، کسی خوش نما کاغذ پر لکھ کر عید کی مبارک باد دیتے ہیں اور اس میں حق استادی وصول کرتے ہیں۔ (۳)۔ وہ مٹھائی اور نقدی وغیرہ جو عید کے دن سسرال سے آئے یا سسرال میں بھیجی جائے۔ (۴)۔ وہ خوش نما کاغذ جس پر عید کے اشعار یا قطعہ لکھتے ہیں۔
میں وہ مجنوں ہوں کہ میرا کاغذِ تصویر بھی
مثلِ عیدی باعثِ خوشنودی ٔ اطفال ہے
(ذوقؔ)
مغل تاجدار نورالدین محمد جہانگیر کی بلانوشی بہت مشہور ہے، مگر یہ بات مشہور نہیں کہ وہ پہلا بادشاہ تھا جس نے شراب کی تجارت پر ٹیکس لگایا تھا۔ تذکرہ عید کا ہو تو جہانگیر اور ملکہ نورجہاں کا مشہور مکالمہ بھی نقل کرتا چلوں۔ ہرچند کہ جہانگیر خالص دنیا دار بادشاہ تھا ، مگر آج کے 'روشن خیال' حضرات سے بہتر... اور وہ یوں کہ رمضان شریف میں 'پینے' سے گریز کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ اپنی محبوب اور ذہین مَلِکہ نورجہاں کے ساتھ محل کے جھروکے سے ہلال عید کا نظارہ کرتے ہوئے بے اختیار کہہ اٹھا:
ع: ہلال عید بَر اَوج ِ ثریا ہوید اشد
(عید کا چاند، آسمان کی بلندی پر نمودار ہوا، گویا اب شراب پینے کی کھلی چھوٹ ہوگی)
نورجہاں نے اپنے عاشق صادق کی ذہنی کیفیت بھانپ کر برجستہ دوسرا مصرع کہہ کر شعر مکمل کیا:
ع: کلید میکدہ گم گشتہ بُود، پیداشد
(یہ تو تمھارے شراب خانے کی وہ چابی ہے جو گم ہوگئی تھی اور اَب مل گئی ہے)
اب عوام کیا خواص کیا، رمضان شریف کی رخصت کے ساتھ ہی سب کچھ رَوا ہوجانے کا خیال عام ہے اور آج سے نہیں، بلکہ صدیوں سے ایسے لو گ ہر دور میں موجود رہے جو عید کی آمد پر سب کچھ کرنا درست سمجھتے، یا، کم از کم عملاً ایسا ظاہر کرتے تھے۔ فارسی غزل کے اتباع میں ہمارے اساتذہ سخن (قُدَماء، متقدمین اور متأخرین سمیت) ایسے مضامین بھی نظم کرتے آئے ہیں:
آج بھی منع بادہ اے زاہد
تِرے نزدیک عید، عید نہیں
(شیفتہؔ)
زمانہ ہوغم گیں بلا سے تِری
تِرے گھر میں تو عید قاتل ہوئی
(رندؔلکھنوی)
(خالص تغزل کی خاطر عید کا مثبت تصور ہی غارت کردیا)
مگر اس سے قطع نظر بعض ایسے عمدہ اشعار بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں:
اللہ رے صبح ِعید کی، اُس شوخ کو خوشی
شانہ ہے اور زلف ِ مُعَنبر تمام رات
(آتش)
سب لوگ دیکھتے ہیں کھڑے چاند عید کا
مشتاق ہوں میں رشک قمر تیری دید کا
(بہادرشاہ ظفرؔ)
اب ہم لغات سے استفادہ کرتے ہوئے عید کا ذکرکرتے ہیں۔ عید سے متعلق اشعارکی طرح، محاورے بھی بہت ہیں، مگر یہاں صرف عیدالفطر کی نسبت سے ہی محاورے نقل ہوں گے:
محاورے میں عید کا چاند ہونا سے مراد وہ شخص جسے مدت دراز کے بعد، عین حالت انتظار یا حالت اشتیاق میں دیکھا جائے:
کبھی دکھاتا ہے صورت میں برسویں دن
غرض وہ مہر ِ لقا، چاند عید کا ٹھہرا
(اسیرؔلکھنوی)
کب سے شب فراق ہوں مشتاق دید کا
خورشید ہوگیا ہے مجھے چاند عید کا
(داغؔ)
آپ تو حق میں مِرے ہوگئے اب عید کا چاند
کہ برس دن میں ادھر آج کرم تم نے کیا
(معروفؔ)
عید منانا: گر میکدے میں عید منائی تو کیا ہوا
ایسا ہی شیخ تیر ا دوگانہ قضا ہوا
(داغؔ)
عید ہونا یا ہوجانا۔ فعل لازم: عید کا تہوار ہونا۔ نیز انتہائی خوشی ہونا، مراد برآنا
خدا شاہد ہے مجھ کو عید ہوتی
گلے سے تو نے لپٹایا تو ہوتا
(ممتازؔ)
یقیں جاں اس کو اے قاتل اسی دن عید ہوجائے
گلا جس روز رکھ دوں مَیں تِری تیغ ہلالی پر
(اسیرؔلکھنوی)
ماتم ِ غیر میں تمھیں دیکھا
ورنہ یہ عید کس کے گھر نہ ہوئی
(داغؔ)
۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوتی تھی مجھ کو عید سمندر میں اُس گھڑی
ٹھیرا جہاز جب کوئی ٹاپو نظر پڑا
۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قتل کی سُن کے خبر، عید منائی مَیں نے
آج جس سے مجھے ملنا تھا گلے مل آیا
۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید کے پیچھے چاند مبارک۔ کہاوت: تہوار گزرنے کے بعد مبارک باد دینا
عید کے پیچھے ٹر۔ کہاوت: برات کے پیچھے دھونسا۔ وقت گزر جانے کے بعد، یا ، بے موقع کسی کام کا کرنا، کیوں کہ جب تہوار نکل گیا تو خوشی کیسی اور جب برات چڑھ چکی تو باجے کس کام کے۔ (ٹر پنجاب کا ایک میلہ تھا جو عید کے دوسرے روز باغوں میں منایا جاتا تھا، یہ بعد میں دہلی میں بھی ہونے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ اہل پنجاب باسی عید کو ''ٹرو'' کہتے ہیں۔)
ہمارے یہاں گاؤ ں دیہات میں یہ روا ج بھی عام ہے کہ عید کے دن پیدا ہونے والے بچے کا نام عید یا عیدو رکھ دیا جائے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ دروغ برگردن راوی، یوگینڈا کے سابق صدرعیدی امین (مرحوم) کا یہ نام اسی لیے تجویز ہوا کہ وہ عید کے دن پیدا ہوئے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں