بند دروازے
’’پندرہ دن پہلے شروع ہوئی ہے نئی جاب۔ 80 ھزار تنخواہ ہے۔‘‘
WELLINGTON:
''دو دن ہوگئے ہیں۔ میں جاب پر نہیں گیا۔ دل ہی نہیں چاہ رہا۔ دِل ہی نہیں لگ رہا کسی چیز میں۔ جاب بھی نئی ہے۔ کچھ کریں۔ نہیں تو مسئلہ ہوجائے گا۔''
28 سالہ سکندر دونوں ہاتھوں میں سر دبائے، نظریں جھکائے میرے سامنے بیٹھا تھا۔ حسب عادت وہ اپنی اپائنٹمنٹ کی تاریخ سے تین ماہ بعد آیا تھا۔ گذشتہ تین سالوں میں شروع شروع میں تو سکندر سے باقاعدہ وقت پر ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ جب اُس نے میرے پاس آ نا شروع کیا تو تعلیم، ہنر اور ڈگری کے باوجود اُس کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی۔ وہ فری لانس کام کرتا تھا اور اللہ کے فضل سے اچھا کماتا تھا۔
وہ اپنے کام سے مطمئن تھا۔ مگر فری لانس کام ملنے کی باقاعدگی اور درمیانی فراغت کے وقفوں سے تنگ تھا۔
''سر! باقاعدہ جاب ہونی چاہیے۔ فکس اِنکم۔ اور میرا کام تو 24 گھنٹے والا ہے۔ اِدھر اُدھر کے کام تو میں راتوں میں بھی کرسکتا ہوں اور ابھی بھی راتوں میں ہی کرتا ہوں۔ دس پندرہ دن میں ایک پروجیکٹ مکمل کرکے دے دیتا ہوں۔ لیکن گھر کے خرچے کی ذمّہ داری میری ہے۔ والد صاحب ریٹائرڈ ہیں۔ بڑی بہن شادی شدہ ہیں۔ چھوٹے بہن بھائیوں اور دیگر خرچوں کے لیے مجھے ہی کمانا پڑتا ہے۔ جاب ضروری ہے۔''
تین سال پہلے سکندر یہی باتیں کرتا تھا۔ سوفٹ ویئر اور کمپیوٹر پروگرامنگ میں ماسٹرز کی ڈگری اور شارپ ذہن کے مالک سکندر کو دورانِ طالب علمی سے ہی چھوٹے بڑے پروجیکٹ ملنا شروع ہوگئے تھے اور اُس نے اپنی فیلڈ میں کام نام کمالیا تھا۔ لیکن راتوں کو جاگ جاگ کر ان کی ذہنی اور اعصابی قوّت مدافعت جواب دے چکی تھی۔
خوف، وہم، وسوسے، گھبراہٹ، اداسی، مایوسی، نیند اور بھوک کی کمی اور کام میں دل چسپی ختم ہوجانے والی علامات کے ساتھ وہ علاج کے لیے آیا تھا۔ تین چار ماہ کے مستقل Sessionاور ادویات کے باقاعدہ استعمال نے بہت حد تک اُس کی تکالیف دور کردیں۔ مگر خوداعتمادی کی کمی، بائیک چلانے کا ڈر اور لوگوں کے سامنے اپنے پروجیکٹ کی Presentation کا خوف اگلے کئی ماہ تک بھی اُس کے ساتھ رہا۔ لیکن کاؤنسلنگ اور سائیکو ٹراپک ادویات کے باقاعدہ استعمال نے اُس کے یہ مسئلے بھی Resolve کردیے۔ پھر وہی ہوا جو عام طور پر ہوتا ہے۔
کچھ ماہ کے لیے اچانک سکندر غائب ہوگیا۔ دوبارہ آنے پر پھر وہی علامات۔ مگر کم شدّت کے ساتھ۔ تین برس میں دہ تین بار ایسا ہوا۔ اس دوران سکندر کے والد کا انتقال بھی ہوا۔ اس نے تین چار باز کے بچّے جو پالے تھے۔ وہ بھی ایک ایک کرکے مرگئے۔ اُس کو پرائیویٹ کام ملنے بھی بند ہوگئے۔ لیکن اُس کی برسوں پرانی خواہش پوری ہوگئی۔ ایک اچھی پرائیویٹ فرم میں اُس کی نوکری پکّی ہوگئی۔43 ہزار ماہانہ تنخواہ پلس بونس، کل ملا کر 50 - 55 ہزار۔ ہیلتھ انشورنس میڈیکل وغیرہ مفت اور چند ایک دیگر سہولیات۔
لیکن سکندر کے ساتھ بھی ویسا ہی ہوا، جو اس عُمر کے ہر Fast Moving نوجوان کے ساتھ ہوتا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ ہر اُس فرد کے ساتھ ہوتا ہے، خواہ اُس کی عُمر کچھ بھی ہو، جو فوراً اور ہر وقت اپنے آپ کو، اپنی صلاحیتوں کو، اپنی ڈگریوں کو Cash کرانا چاہتاہے، جو ایک اوور میں 36 رنز اور چار اوورز میںسنچری اسکور کرنا چاہتا ہو۔
جاب کے تیسرے مہینے سے ہی سکندر کو کَھلنے لگا تھا کہ اس کی تنخواہ اُس کی ذہنی قابلیت اور کام سے کم ہے اور یہ جاب اُس کے معیار کی نہیں ہے۔ اُسے کوئی اور ''اچھی جاب'' چاہیے اور اُس نے جاب پر رہتے ہوئے اِدھر اُدھر C.V. ڈالنا شروع کری تھی اور کبھی کبھی انٹرویو دینے بھی چلاجاتا۔ ساتھ ہی پھر اُسے پرائیویٹ پروجیکٹ بھی ملنا شروع ہوگئے۔ ہُنر، محنت اور کام کے اچھا ہونے کی وجہ سے کمپنی میں بھی اُس کی اہمیت بڑھتی گئی۔ اُسے یہ احساس تنگ کرنے لگا کہ وہ اتنے کام کا آدمی ہے اور اُس کے کام میں کمپنی والے اضافہ بھی کرتے جارہے ہیں، لیکن اُس کی تنخواہ اتنے مہینوں بعد بھی اُتنی ہی ہے۔
اور پھر وہی ہوا جو عام طور پر ہوتا ہے۔ جب ہماری خواہش کی شدّت ہمارے حواس پر غالب آجاتی ہے تو قدرت ہمارے لیے دور کے وہ در بھی کھول دیتی ہے جو بظاہر تو اپنے اندر بڑی کشش رکھتے ہیں، لیکن اُن دروازوں کے پیچھے ہمارے لیے زیادہ بڑی آزمائش کے سازوسامان چُھپے ہوتے ہیں۔ ہمیں علم نہیں ہوتا، لیکن خواہش کی شدّت کے پریشر سے کُھلنے والے یہ دروازے عموماََone way ہوتے ہیں۔ ایک بار اِن کو کھول کر اپنی پسند کی راہ چُنتے ہی یہ بند ہوجاتے ہیں۔ اور واپسی کا راستہ ہمیشہ کے لیے مقفل کریا جاتا ہے۔ شاید اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی پسند اور اپنی خواہش کا راستہ بہت سوچ بچار کے بعد ہی منتخب کرنا چاہیے۔
اپنی پسند اور اپنی خواہش کے راستے میں اگر طمع اور لالچ بھی شامل ہو تو راستے کی طوالت اور صعوبتیں ہزار گنا زیادہ ہوجاتی ہیں۔ ہزار گُنا زیادشدّت سے محسوس ہونے لگتی ہیں اور ہم پر ایسے Negative نقش اور اثرات ڈالنے لگتی ہیں کہ ہم بے اختیار یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اپنی پسند کا دروازہ کھولنے سے پہلے ہم نے لاکھ بار سوچا کیوں نہیں تھا۔ ہماری عقل پر کیسا پردہ پڑگیا تھا۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ لالچ، حرص اور طمع ہماری عقل، ہمارے فہم پر تالے ڈال دیتی ہے۔ ایسا ہی کچھ سکندر کے ساتھ ہوا۔ اور اُس سے بھی کہیں زیادہ بُرا راحیل کے ساتھ ہوا۔
سکندر میرے سامنے نظریں جھکائے، دونوں ہاتھوں میں اپنا سردبائے بیٹھا تھا۔ ''کیوں یار! اچانک یہ طبیعت پھر کیوں خراب ہوگئی۔ اب تو سب set تھا۔ تمھاری دوائیاں بھی کم ہوچکی تھیں۔ گنتی کی تین گولیاں کھارہے تھے۔ کیا دوا میں کوئی ناغہ کیا ہے؟ یا کوئی اور ٹینشن ہے؟'' میں نے پوچھا۔ ''نہیں سر! طبیعت بالکل ٹھیک چل رہی تھی۔ دوا میں بھی کوئی ناغہ نہیں ہو۔ دس دن پہلے بھی ایک دن کے لیے ایسے ہی طبیعت گِری گِری سی ہوگئی تھی۔ لیکن خود ہی ٹھیک ہوگئی۔ مگر ابھی چار دِن سے پھر کچھ کرنے کو دل نہیں چاہ رہا۔ اور پچھلے دو دِن سے تو آفس بھی نہیں جارہا۔ نئی جاب ہے۔ مسئلہ ہوجائے گا اور اب تو منگنی بھی ہو گئی ہے''۔ سکندر نے بجھی ہوئی آواز میں کہا۔
تو پھر تو تمھیں خوش ہونا چاہیے تھا۔ منگنی بھی ہوگئی ماشاء اللہ جاب بھی نئی مِل گئی۔ اب یہ جاب تو تمھارے مطلب کی ہوگی ناں!۔'' مجھے حیرت ہورہی تھی۔ سکندر کی دوبارہ طبیعت کی خرابی کی بظاہر کوئی وجہ دِکھائی نہیں دے رہی تھی۔
''پندرہ دن پہلے شروع ہوئی ہے نئی جاب۔ 80 ھزار تنخواہ ہے۔''
''بھائی میرے! تنخواہ ڈبل ہوگئی تمہاری۔ مسئلہ کیا آرہا ہے پھر۔''
''میرا دِل نہیں لگ رہا۔ نئی جاب میں۔ پُرانی کمپنی Linnex یہ کام کررہی تھی۔ اِس کمپنی میں Microsoft کا کام ہے۔ کام مجھے دونوں آتے ہیں۔ لیکن پُرانی کمپنی میں، میں ایک طرح اپنے ڈپارٹمنٹ کا ہیڈ بن چکا تھا۔ اِس کمپنی میں پتا نہیں اُس status پر پہنچنے کے لیے کتنے مہینے لگیں اور گھر سے زیادہ دور ہے اِس کا آفس۔ آنے جانے میں ہی چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ حالاںکہ یہاں 10 - 6 ٹائم ہے۔ پُرانی کمپنی میں 9-6 تھا اور پھراِس کمپنی میں کوئی میڈیکل نہیں۔ کوئی انشورنس نہیں۔ چار ماہ بعد شادی ہوجانی ہے میری۔ پھر خرچے بڑھیں گے۔ بیوی بچوں کی ذمّہ داری اور میڈیکل کا خرچہ۔ یہ سب سوچ کر مجھے Tension ہو رہی ہے اور شاید اِسی وجہ سے میری طبیعت دوبارہ خراب ہورہی ہے۔''
سکندر نظریں جھکائے بتارہا تھا۔ مجھے اُس کی معصومیت پر ترس بھی آرہا تھا۔ دُکھ بھی ہو رہا تھا۔ اور غصّہ بھی آرہا تھا۔
''تو یار! تم نے جاب بدلنے سے پہلے کِسی سے مشورہ کیا تھا۔ میرے پاس آجاتے۔ ہم Plus Minus ڈسکس کر لیتے دونوں جابز کے۔ پھر تم بہتر فیصلہ کرسکتے۔'' میں نے کہا۔
''بس غلطی ہوگئی۔ انٹرویو دیا تھا۔ آفر آگئی۔ ڈبل salary تھی۔ اور بیچ میں فلاں سرکاری کمپنی میں بھی دہ انٹرویو ہوگئے تھے میرے۔ میں نے 65 کی ڈیمانڈ کی تھی۔ وہ انہوں نے Accept کر لی تھی، مگر جب فائنل انٹرویو تھا وہاں تیسری سرکاری کمپنی میں، تو میں نے ان سے کہا کہ میرے پاس 80 کا آفر لیٹر ہے۔ آپ اگر بڑھاتے ہیں کچھ تو ٹھیک ہے۔ انہوں نے Refuse کردیا۔ وہ بھی اچھی جاب تھی۔ secured۔ '' سکندر کے لہجے سے تاسف ٹپک رہا تھا۔
''وہ زیادہ بہتر جاب تھی بھائی! تمھیں وہ کرلینی چاہیے تھی۔ اس میں بھی تمہیں سب سہولیات مِل جاتیں اور سرکاری چٹھیاں بھی اور پروموشن کے بھی امکانات روشن تھے اور پہلی جاب سے 25 - 20 اوپر ہی مِل رہے تھے۔ پھر یہ حماقت کیوں کی۔'' میں نے سکندر کو گھورا۔
''یہی تو میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ مجھ سے یہ غلطی بھی ہوگئی۔ اب اِس کا خیال بھی آرہا ہوتا ہے ذہن میں۔ ذہن بالکل ماؤف ہوکر رہ گیا ہے۔ کچھ کریں سر! پہلے بھی آپ نے دوا بڑھائی تھی۔ سب صحیح ہوگیا تھا۔'' سکندر نے بیچارگی سے کہا۔
''وہ تو انشاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ دواؤں کا dose بڑھانے سے تم Relax ہوجاؤ گے۔ لیکن یہ تو مسئلے کا حل نہیں۔ آخر ہم کب بک اِس طرح دوائیاں کم زیادہ کرکے کام چلائیں گے۔ اب ماشاء اللہ تمھاری شادی ہونے والی ہے۔ میری خواہش اور کوشش یہی تھی کہ تمھاری دوائیاں ختم ہوجائیں۔ اور تم اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤ اور تم اتنے عرصے سے پیسے بچانے کے چکر میں Food Supplements اور Anti Oxidants بھی نہیں کھا رہے۔ وہ لیتے رہتے تو تمھارے اعصابی نظام میں ایک Parallel قوّت مدافعت پیدا ہوچکی ہوتی اب تک۔ جو اِس طرح کے Stress کو Bear کرلیتی اور تمھارے دماغ کے Cells دوبارہ سے ڈسٹرب نہ ہوتے۔''
ڈیڑھ گھنٹے کی گفتگو کے بعد مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں سکندر کو اِس صورت حال سے نمٹنے کے دواؤں کا ساتھ کیا مشورہ دوں جو اُسے اِس مشکل وقت سے نکال سکے۔ پہلی جاب پر واپس جانے کے option پر بھی بات ہوئی۔ لیکن اُس صورت میں اُسے کمپنی کے ڈائریکٹرز کے Mistrust کا سامنا کرنا پڑتا اور ازسرِ تو اپنا Image بنانا پڑتا اور پھر یہ کہ ایک بار جاب چھوڑ کرجانے والے اگر دوبارہ اُسی جاب پر آبھی جائیں تو وہ اپنی قدروقیمت کھو بیٹھتے ہیں۔ سرکاری کمپنی میں Re apply وہ کر نہیں سکتا تھا۔ یہی طے پایا تاوقتیکہ اُسے گھر سے کم فاصلے پر کوئی اچھی نوکری مِلے تو وہ وہاں درخواست دے۔ جب تک اُسے یہیں جاب کرنی چاہیے۔ جو اُس نے اپنی پسند اور خواہش کے دروازے کو کھول کر حاصل کی ہے۔
راحیل نے بھی برسوں پہلے اپنی پسند اور خواہش کے دروازے کو کھول لیا تھا۔20 برس ہوگئے گذشتہ 7 - 8 سالوں سے وہ واپسی کا راستہ ڈھونڈ رہا ہے، مگر نہیں مِل پارہا۔ سکندر تو اپنی معصومیت کے ہاتھوں لالچ کی لپیٹ میں آیا۔ راحیل کو تو پہلے دن سے اپنی لالچ کا علم تھا۔38 سالہ راحیل سے 18 - 19 برس پہلے، پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ بہت بُری حالت میں اُس کے بہن بھائی اُسے میرے پاس لائے تھے۔ اﷲ کے فضل و کرم نے جلد ہی اُس کی بیماری کی بڑی بڑی علامات کو ختم کروادیا۔
بچپن سے راحیل پرندوں سے محبت کرتا تھا۔ لڑکپن میں یہ محبت کاروبار میں بدل گئی۔ اور وہ تعلیم کی کمی کے باوجود اپنے پرندوں کے کاروبار کو Establish کرتا چلا گیا۔ چار چھے سال میں پرندوں کی خریدوفروخت کی ایک مارکیٹ میں کرائے کی دکان بھی لے لی۔
جوں جوں آمدنی میں اضافہ ہوتا گیا۔ کُھلے خرچے کے ساتھ راحیل کی اور کمانے اور اپنے کاروبار کو بڑھانے کی لالچ بھی بڑھتی گئی۔ اِسی دوران اُس کی شادی ہوگئی۔ بیوی بچوں سمیت میں بھی اس کی شادی کی تقریب میں مدعو تھا۔ مجھے بہت زیادہ خوشی بھی کہ اللہ نے اُس کی بیماری کی علامات ختم کردی ہیں اور وہ گنتی کی چند ادویات پر آگیا ہے۔ اور اپنے پاؤں پر کھڑا اپنے گھر اور بھائیوں کے اخراجات کے ساتھ اب اِس قابل ہوگیا ہے کہ اپنا گھر بھی بسالے۔
مگر اُس وقت تک لالچ اُس کے دِل میں گھر کرچکی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ مجھے اِس کا پتا بہت بعد میں چلا۔ جب شادی کے کچھ عرصے بعد اُس کی طبیعت اچانک دوبارہ خراب ہونے لگی اور سال میں ایک دو دفع ملنے کی بجائے اُسے دوبارہ باربار مجھ سے مِلنے اور دواؤں کے dose کو ایڈجسٹ کروانے آنا پڑا۔
باہر سے shipment آتیں۔ اور سرد موسم میں رہنے والے پرندے گرمی برداشت نہ کرپاتے یا کِسی virus کی نذر ہوجاتے۔ اور پورا Flock دیکھتے ہی دیکھتے مرجاتا اور نقصان راحیل کے گلے پڑتا۔
پھر اُس نے Investment کے نام پر لوگوں سے پیسے لینے شروع کردیے۔ یہ کہہ کر کہ ماہانہ پرافٹ ہوگا۔ دس لاکھ لے کر پانچ لاکھ سے Loss کی رقم بھرتا اور 5 لاکھ دوبارہ کِسی شپمنٹ میں پھنسا دیتا۔
دوستوں رشتہ داروں نے اُس کے پاس لاکھوں کی ریل پیل دیکھی اور کچھ اُسے بھی ہر سال قربانی کے اعلیٰ ترین اور منہگے ترین جانور اللہ کی راہ میں ذبیحہ کرنے کا شوق تھا۔ تو اُسے نظریں لگنا شروع ہوگئیں۔
دس لاکھ کماتا تو 20 لاکھ کا نقصان ہوجاتا، مگر جوئے کے عادی کِسی شخص کی طرح وہ پے درپے نقصانات کے باوجود قدرت کے اشارے نہیں سمجھ سکا۔ بجائے اِس کے کہ وہ ایکسپورٹ امپورٹ کا کام چھوڑدیتا یا کم از کم اِس کام کے لیے ادھار لینا بند کردیتا یا انوسٹمنٹ کے نام پر لوگوں سے پیسے لینے کا سلسلہ ختم کردیتا اور خاموشی سے پہلے کی طرح اپنی دکان پر توجہ دیتا۔ تو اُس کے بُرے دن شروع نہ ہوتے۔ اِس دوران اَس کی توجہ اپنی دکان اور پرندوں کی افزائش پر سے بھی ختم ہوگئی تھی۔ تو وہاں سے بھی کمائی کم ہوگئی تھی۔ لاکھوں روپوں کی لین دین میں آدمی کی توجہ ہزار روپوں سے ہٹ ہی جاتی ہے۔
راحیل کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا۔ پہلے اُس نے اپنے کام کا ایک نظام بنایا ہواتھا۔ بڑا بھائی اور دو لڑکے دکان پر صبح سے ہوتے تھے۔ راحیل گیارہ بارہ بجے اٹھ کر پہلے گھر کے پرندوں کو دانہ پانی دیتا۔ پھر مختلف گھروں کے چکر لگا کر پرندے خریدتا اور شام پانچ بجے تک دکان پر پہنچ جاتا۔ اور رات دس بجے تک سکون سے اپنا کاروبار دیکھتا۔
لیکن امپورٹ ایکسپورٹ، انوسٹمنٹ، قرض لیکر کام کرنے کی لالچ نے نہ صِرف اُس کا روزانہ کا شیڈول ختم کردیا بل کہ اُس کا ذہنی سکون بھی غائب ہوگیا۔ لالچ کا سب سے بڑا المیہ سکون اور طمانیت کا خاتمہ ہوتا ہے اور سکون کا خاتمہ، ابتدا ہوتی ہے ذہنی، اعصابی اور نفیساتی بیماریوں کی۔ راحیل بھی اِس گورکھ دھندے میں ایسا پھنسا کہ پھر نکل نہ سکا۔
گھنٹوں کے سیشن، کاؤنسلنگ، گفتگو، مشاورت بھی اُس کا کچھ نہ بگاڑسکے۔ لالچ نے اُس کے دِل میں اِس بُری طرح پنجے گاڑ لیے تھے کہ کوئی ہدایت، کوئی نصیحت، کوئی بات اُس پر اثر نہ کرسکی۔ میرے سامنے وہ روتا رہتا۔ توبہ تلافی کرتا رہتا۔ ہر بات پر یہی کہتا کہ ''آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ مگر مجھے نہیں پتا۔ مجھے کیا ہوجاتا ہے۔ میرا دماغ ماؤف ہوجاتا ہے۔ سوچنا سمجھنا ختم ہوجاتا۔ میں یہ سوچ کر ایک اور شپمنٹ اٹھا لیتا ہوں کہ بس یہ آخری ہے۔ اِس سے کما کر قرضہ اتاروں گا۔ لیکن پتا نہیں کیا ہوتا ہے۔ راتوں رات پرندے مرجاتے ہیں۔ لاکھوں کا نقصان ہوجاتا ہے۔''
ہر بار اُسے سمجھاتا کہ اب بس کردو۔ ہر بار اُسے نئے کاموں کے Ideas دیتا۔ پلان بناکر دیتا۔ ہر بار وہ ہاں کرتا، مگر جونہی اُس کی طبیعت سنبھلتی۔ وہ اسکرین سے غائب ہوجاتا۔ اُس کے غائب ہوتے ہی میں سمجھ جاتا کہ اب پھر کسی نئی گڑ بڑ نئے قرضے کے بوجھ تلے دب کر وہ واپس آئے گا اور ایسا ہی ہوتا۔
زیادہ بڑی گڑبڑ اُس وقت ہوئی جب اُس نے کسی صاحب سے بزنس پرافٹ کی مد میں 20 لاکھ لیے اور دو تین پھیروں میں ڈبودیے۔ وہ پیسے اُن صاحب کے اپنے نہیں تھے۔ اُنہوں نے بھی کسی سے سود پر لیے تھے۔ کئی ماہ تک تو راحیل اُن کو پرافٹ دیتا رہا، مگر پھر ادائیگی میں وقفے آنے لگے۔ دوسروں کے پیسوں سے کمانے، قرضے پر مال اٹھانے اور پھر سود کے پیسے کاروبار میں لگانے سے راحیل کا کام آخرکار بُری طرح بیٹھ گیا۔
بیوی کے تمام زیور بک گئے۔ والدہ اور بھائیوں کی جمع پونجی قرض داروں کی نظر ہوئی۔ مگر وہ عادی جواری کی طرح ایک سے پیسے لے کر دوسرے کو اکا کرتا اور دوسرے کے پیسوں سے تیسرے کی شپمنٹ اٹھاتا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پرندوں کی دکان بند ہوچکی ہے۔ کِسی موبائیل مارکیٹ میں موبائیل فون Accessories کی چھوٹی سی دکان کھولی ہوئی ہے۔ آخری خبروں تک انوسمنٹ اور شپمنٹ کے تمام کام بند ہیں۔ 60 - 70 لاکھ کا قرضہ ہے اور قرض خواہ اُس کے گھر کے چکر لگارہے ہیں۔ کبھی اُسے اٹھانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، کبھی FIR کٹوانے کی۔
دوائیاں بھی اُسے سکون نہیں دے پارہیں۔ رات چار بجے تک جاگتا رہتا ہے۔ مختلف آیات اور سورتوں کی تسبیحات پڑھتا رہتا ہے۔ کولیسٹرول اور بلڈپریشر بڑھارہتا ہے۔ بچوں کے اسکول کی Fees تین ماہ late ہوجاتی ہے۔
اور کوئی سبیل دِکھائی نہیں دیتی کہ اتنا بڑا قرضہ کیسے ادا ہوگا۔38 سال کی زندگی میں راحیل نے اپنی لالچ اور طمع کے ہاتھوں اتنے تھپیڑے کھالیے۔
اب چوںکہ وہ پھر کافی عرصے سے غائب ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ پھر کوئی حماقت نہ کربیٹھے۔ اتنے سالوں کے ساتھ نے میرے دِل میں راحیل کے لیے بڑی محبت اور شفقت پیدا کردی ہے۔ دِل سے اُسے دعائیں دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اُسے لالچ سے بچاکر رکھے، اُس کے دِل سے طمع نکال دے۔
لیکن دوا اور دُعا کے بعد اور باوجود Last Factor ہماری اپنی سچّی خواہش اور کوشش کا ہوتا ہے۔ ہماری استقامت اور ثابت قدمی کا ہوتا ہے۔ ہمارے صبر، شُکر اور قناعت کا ہوتا ہے۔ جب تک یہ سب ہمارے وجود کا حصّہ نہیں بنتے۔ ہم یونہی بھٹکتے رہتے ہیں۔ تمام دواؤں، تمام دعاؤں، تمام باتوں، تمام مشوروں، تمام ہدایتوں، تمام نصیحتوں کے باوجود طمع اور لالچ کا جال میں گرفتار ہو کر اپنی پسند اور اپنی خواہش کے One Way بند دروازے کھو لتے رہتے ہیں۔ اور پھر دیواروں سے سر پھوڑ تے رہتے ہیں۔
''دو دن ہوگئے ہیں۔ میں جاب پر نہیں گیا۔ دل ہی نہیں چاہ رہا۔ دِل ہی نہیں لگ رہا کسی چیز میں۔ جاب بھی نئی ہے۔ کچھ کریں۔ نہیں تو مسئلہ ہوجائے گا۔''
28 سالہ سکندر دونوں ہاتھوں میں سر دبائے، نظریں جھکائے میرے سامنے بیٹھا تھا۔ حسب عادت وہ اپنی اپائنٹمنٹ کی تاریخ سے تین ماہ بعد آیا تھا۔ گذشتہ تین سالوں میں شروع شروع میں تو سکندر سے باقاعدہ وقت پر ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ جب اُس نے میرے پاس آ نا شروع کیا تو تعلیم، ہنر اور ڈگری کے باوجود اُس کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی۔ وہ فری لانس کام کرتا تھا اور اللہ کے فضل سے اچھا کماتا تھا۔
وہ اپنے کام سے مطمئن تھا۔ مگر فری لانس کام ملنے کی باقاعدگی اور درمیانی فراغت کے وقفوں سے تنگ تھا۔
''سر! باقاعدہ جاب ہونی چاہیے۔ فکس اِنکم۔ اور میرا کام تو 24 گھنٹے والا ہے۔ اِدھر اُدھر کے کام تو میں راتوں میں بھی کرسکتا ہوں اور ابھی بھی راتوں میں ہی کرتا ہوں۔ دس پندرہ دن میں ایک پروجیکٹ مکمل کرکے دے دیتا ہوں۔ لیکن گھر کے خرچے کی ذمّہ داری میری ہے۔ والد صاحب ریٹائرڈ ہیں۔ بڑی بہن شادی شدہ ہیں۔ چھوٹے بہن بھائیوں اور دیگر خرچوں کے لیے مجھے ہی کمانا پڑتا ہے۔ جاب ضروری ہے۔''
تین سال پہلے سکندر یہی باتیں کرتا تھا۔ سوفٹ ویئر اور کمپیوٹر پروگرامنگ میں ماسٹرز کی ڈگری اور شارپ ذہن کے مالک سکندر کو دورانِ طالب علمی سے ہی چھوٹے بڑے پروجیکٹ ملنا شروع ہوگئے تھے اور اُس نے اپنی فیلڈ میں کام نام کمالیا تھا۔ لیکن راتوں کو جاگ جاگ کر ان کی ذہنی اور اعصابی قوّت مدافعت جواب دے چکی تھی۔
خوف، وہم، وسوسے، گھبراہٹ، اداسی، مایوسی، نیند اور بھوک کی کمی اور کام میں دل چسپی ختم ہوجانے والی علامات کے ساتھ وہ علاج کے لیے آیا تھا۔ تین چار ماہ کے مستقل Sessionاور ادویات کے باقاعدہ استعمال نے بہت حد تک اُس کی تکالیف دور کردیں۔ مگر خوداعتمادی کی کمی، بائیک چلانے کا ڈر اور لوگوں کے سامنے اپنے پروجیکٹ کی Presentation کا خوف اگلے کئی ماہ تک بھی اُس کے ساتھ رہا۔ لیکن کاؤنسلنگ اور سائیکو ٹراپک ادویات کے باقاعدہ استعمال نے اُس کے یہ مسئلے بھی Resolve کردیے۔ پھر وہی ہوا جو عام طور پر ہوتا ہے۔
کچھ ماہ کے لیے اچانک سکندر غائب ہوگیا۔ دوبارہ آنے پر پھر وہی علامات۔ مگر کم شدّت کے ساتھ۔ تین برس میں دہ تین بار ایسا ہوا۔ اس دوران سکندر کے والد کا انتقال بھی ہوا۔ اس نے تین چار باز کے بچّے جو پالے تھے۔ وہ بھی ایک ایک کرکے مرگئے۔ اُس کو پرائیویٹ کام ملنے بھی بند ہوگئے۔ لیکن اُس کی برسوں پرانی خواہش پوری ہوگئی۔ ایک اچھی پرائیویٹ فرم میں اُس کی نوکری پکّی ہوگئی۔43 ہزار ماہانہ تنخواہ پلس بونس، کل ملا کر 50 - 55 ہزار۔ ہیلتھ انشورنس میڈیکل وغیرہ مفت اور چند ایک دیگر سہولیات۔
لیکن سکندر کے ساتھ بھی ویسا ہی ہوا، جو اس عُمر کے ہر Fast Moving نوجوان کے ساتھ ہوتا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ ہر اُس فرد کے ساتھ ہوتا ہے، خواہ اُس کی عُمر کچھ بھی ہو، جو فوراً اور ہر وقت اپنے آپ کو، اپنی صلاحیتوں کو، اپنی ڈگریوں کو Cash کرانا چاہتاہے، جو ایک اوور میں 36 رنز اور چار اوورز میںسنچری اسکور کرنا چاہتا ہو۔
جاب کے تیسرے مہینے سے ہی سکندر کو کَھلنے لگا تھا کہ اس کی تنخواہ اُس کی ذہنی قابلیت اور کام سے کم ہے اور یہ جاب اُس کے معیار کی نہیں ہے۔ اُسے کوئی اور ''اچھی جاب'' چاہیے اور اُس نے جاب پر رہتے ہوئے اِدھر اُدھر C.V. ڈالنا شروع کری تھی اور کبھی کبھی انٹرویو دینے بھی چلاجاتا۔ ساتھ ہی پھر اُسے پرائیویٹ پروجیکٹ بھی ملنا شروع ہوگئے۔ ہُنر، محنت اور کام کے اچھا ہونے کی وجہ سے کمپنی میں بھی اُس کی اہمیت بڑھتی گئی۔ اُسے یہ احساس تنگ کرنے لگا کہ وہ اتنے کام کا آدمی ہے اور اُس کے کام میں کمپنی والے اضافہ بھی کرتے جارہے ہیں، لیکن اُس کی تنخواہ اتنے مہینوں بعد بھی اُتنی ہی ہے۔
اور پھر وہی ہوا جو عام طور پر ہوتا ہے۔ جب ہماری خواہش کی شدّت ہمارے حواس پر غالب آجاتی ہے تو قدرت ہمارے لیے دور کے وہ در بھی کھول دیتی ہے جو بظاہر تو اپنے اندر بڑی کشش رکھتے ہیں، لیکن اُن دروازوں کے پیچھے ہمارے لیے زیادہ بڑی آزمائش کے سازوسامان چُھپے ہوتے ہیں۔ ہمیں علم نہیں ہوتا، لیکن خواہش کی شدّت کے پریشر سے کُھلنے والے یہ دروازے عموماََone way ہوتے ہیں۔ ایک بار اِن کو کھول کر اپنی پسند کی راہ چُنتے ہی یہ بند ہوجاتے ہیں۔ اور واپسی کا راستہ ہمیشہ کے لیے مقفل کریا جاتا ہے۔ شاید اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی پسند اور اپنی خواہش کا راستہ بہت سوچ بچار کے بعد ہی منتخب کرنا چاہیے۔
اپنی پسند اور اپنی خواہش کے راستے میں اگر طمع اور لالچ بھی شامل ہو تو راستے کی طوالت اور صعوبتیں ہزار گنا زیادہ ہوجاتی ہیں۔ ہزار گُنا زیادشدّت سے محسوس ہونے لگتی ہیں اور ہم پر ایسے Negative نقش اور اثرات ڈالنے لگتی ہیں کہ ہم بے اختیار یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اپنی پسند کا دروازہ کھولنے سے پہلے ہم نے لاکھ بار سوچا کیوں نہیں تھا۔ ہماری عقل پر کیسا پردہ پڑگیا تھا۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ لالچ، حرص اور طمع ہماری عقل، ہمارے فہم پر تالے ڈال دیتی ہے۔ ایسا ہی کچھ سکندر کے ساتھ ہوا۔ اور اُس سے بھی کہیں زیادہ بُرا راحیل کے ساتھ ہوا۔
سکندر میرے سامنے نظریں جھکائے، دونوں ہاتھوں میں اپنا سردبائے بیٹھا تھا۔ ''کیوں یار! اچانک یہ طبیعت پھر کیوں خراب ہوگئی۔ اب تو سب set تھا۔ تمھاری دوائیاں بھی کم ہوچکی تھیں۔ گنتی کی تین گولیاں کھارہے تھے۔ کیا دوا میں کوئی ناغہ کیا ہے؟ یا کوئی اور ٹینشن ہے؟'' میں نے پوچھا۔ ''نہیں سر! طبیعت بالکل ٹھیک چل رہی تھی۔ دوا میں بھی کوئی ناغہ نہیں ہو۔ دس دن پہلے بھی ایک دن کے لیے ایسے ہی طبیعت گِری گِری سی ہوگئی تھی۔ لیکن خود ہی ٹھیک ہوگئی۔ مگر ابھی چار دِن سے پھر کچھ کرنے کو دل نہیں چاہ رہا۔ اور پچھلے دو دِن سے تو آفس بھی نہیں جارہا۔ نئی جاب ہے۔ مسئلہ ہوجائے گا اور اب تو منگنی بھی ہو گئی ہے''۔ سکندر نے بجھی ہوئی آواز میں کہا۔
تو پھر تو تمھیں خوش ہونا چاہیے تھا۔ منگنی بھی ہوگئی ماشاء اللہ جاب بھی نئی مِل گئی۔ اب یہ جاب تو تمھارے مطلب کی ہوگی ناں!۔'' مجھے حیرت ہورہی تھی۔ سکندر کی دوبارہ طبیعت کی خرابی کی بظاہر کوئی وجہ دِکھائی نہیں دے رہی تھی۔
''پندرہ دن پہلے شروع ہوئی ہے نئی جاب۔ 80 ھزار تنخواہ ہے۔''
''بھائی میرے! تنخواہ ڈبل ہوگئی تمہاری۔ مسئلہ کیا آرہا ہے پھر۔''
''میرا دِل نہیں لگ رہا۔ نئی جاب میں۔ پُرانی کمپنی Linnex یہ کام کررہی تھی۔ اِس کمپنی میں Microsoft کا کام ہے۔ کام مجھے دونوں آتے ہیں۔ لیکن پُرانی کمپنی میں، میں ایک طرح اپنے ڈپارٹمنٹ کا ہیڈ بن چکا تھا۔ اِس کمپنی میں پتا نہیں اُس status پر پہنچنے کے لیے کتنے مہینے لگیں اور گھر سے زیادہ دور ہے اِس کا آفس۔ آنے جانے میں ہی چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ حالاںکہ یہاں 10 - 6 ٹائم ہے۔ پُرانی کمپنی میں 9-6 تھا اور پھراِس کمپنی میں کوئی میڈیکل نہیں۔ کوئی انشورنس نہیں۔ چار ماہ بعد شادی ہوجانی ہے میری۔ پھر خرچے بڑھیں گے۔ بیوی بچوں کی ذمّہ داری اور میڈیکل کا خرچہ۔ یہ سب سوچ کر مجھے Tension ہو رہی ہے اور شاید اِسی وجہ سے میری طبیعت دوبارہ خراب ہورہی ہے۔''
سکندر نظریں جھکائے بتارہا تھا۔ مجھے اُس کی معصومیت پر ترس بھی آرہا تھا۔ دُکھ بھی ہو رہا تھا۔ اور غصّہ بھی آرہا تھا۔
''تو یار! تم نے جاب بدلنے سے پہلے کِسی سے مشورہ کیا تھا۔ میرے پاس آجاتے۔ ہم Plus Minus ڈسکس کر لیتے دونوں جابز کے۔ پھر تم بہتر فیصلہ کرسکتے۔'' میں نے کہا۔
''بس غلطی ہوگئی۔ انٹرویو دیا تھا۔ آفر آگئی۔ ڈبل salary تھی۔ اور بیچ میں فلاں سرکاری کمپنی میں بھی دہ انٹرویو ہوگئے تھے میرے۔ میں نے 65 کی ڈیمانڈ کی تھی۔ وہ انہوں نے Accept کر لی تھی، مگر جب فائنل انٹرویو تھا وہاں تیسری سرکاری کمپنی میں، تو میں نے ان سے کہا کہ میرے پاس 80 کا آفر لیٹر ہے۔ آپ اگر بڑھاتے ہیں کچھ تو ٹھیک ہے۔ انہوں نے Refuse کردیا۔ وہ بھی اچھی جاب تھی۔ secured۔ '' سکندر کے لہجے سے تاسف ٹپک رہا تھا۔
''وہ زیادہ بہتر جاب تھی بھائی! تمھیں وہ کرلینی چاہیے تھی۔ اس میں بھی تمہیں سب سہولیات مِل جاتیں اور سرکاری چٹھیاں بھی اور پروموشن کے بھی امکانات روشن تھے اور پہلی جاب سے 25 - 20 اوپر ہی مِل رہے تھے۔ پھر یہ حماقت کیوں کی۔'' میں نے سکندر کو گھورا۔
''یہی تو میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ مجھ سے یہ غلطی بھی ہوگئی۔ اب اِس کا خیال بھی آرہا ہوتا ہے ذہن میں۔ ذہن بالکل ماؤف ہوکر رہ گیا ہے۔ کچھ کریں سر! پہلے بھی آپ نے دوا بڑھائی تھی۔ سب صحیح ہوگیا تھا۔'' سکندر نے بیچارگی سے کہا۔
''وہ تو انشاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ دواؤں کا dose بڑھانے سے تم Relax ہوجاؤ گے۔ لیکن یہ تو مسئلے کا حل نہیں۔ آخر ہم کب بک اِس طرح دوائیاں کم زیادہ کرکے کام چلائیں گے۔ اب ماشاء اللہ تمھاری شادی ہونے والی ہے۔ میری خواہش اور کوشش یہی تھی کہ تمھاری دوائیاں ختم ہوجائیں۔ اور تم اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤ اور تم اتنے عرصے سے پیسے بچانے کے چکر میں Food Supplements اور Anti Oxidants بھی نہیں کھا رہے۔ وہ لیتے رہتے تو تمھارے اعصابی نظام میں ایک Parallel قوّت مدافعت پیدا ہوچکی ہوتی اب تک۔ جو اِس طرح کے Stress کو Bear کرلیتی اور تمھارے دماغ کے Cells دوبارہ سے ڈسٹرب نہ ہوتے۔''
ڈیڑھ گھنٹے کی گفتگو کے بعد مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں سکندر کو اِس صورت حال سے نمٹنے کے دواؤں کا ساتھ کیا مشورہ دوں جو اُسے اِس مشکل وقت سے نکال سکے۔ پہلی جاب پر واپس جانے کے option پر بھی بات ہوئی۔ لیکن اُس صورت میں اُسے کمپنی کے ڈائریکٹرز کے Mistrust کا سامنا کرنا پڑتا اور ازسرِ تو اپنا Image بنانا پڑتا اور پھر یہ کہ ایک بار جاب چھوڑ کرجانے والے اگر دوبارہ اُسی جاب پر آبھی جائیں تو وہ اپنی قدروقیمت کھو بیٹھتے ہیں۔ سرکاری کمپنی میں Re apply وہ کر نہیں سکتا تھا۔ یہی طے پایا تاوقتیکہ اُسے گھر سے کم فاصلے پر کوئی اچھی نوکری مِلے تو وہ وہاں درخواست دے۔ جب تک اُسے یہیں جاب کرنی چاہیے۔ جو اُس نے اپنی پسند اور خواہش کے دروازے کو کھول کر حاصل کی ہے۔
راحیل نے بھی برسوں پہلے اپنی پسند اور خواہش کے دروازے کو کھول لیا تھا۔20 برس ہوگئے گذشتہ 7 - 8 سالوں سے وہ واپسی کا راستہ ڈھونڈ رہا ہے، مگر نہیں مِل پارہا۔ سکندر تو اپنی معصومیت کے ہاتھوں لالچ کی لپیٹ میں آیا۔ راحیل کو تو پہلے دن سے اپنی لالچ کا علم تھا۔38 سالہ راحیل سے 18 - 19 برس پہلے، پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ بہت بُری حالت میں اُس کے بہن بھائی اُسے میرے پاس لائے تھے۔ اﷲ کے فضل و کرم نے جلد ہی اُس کی بیماری کی بڑی بڑی علامات کو ختم کروادیا۔
بچپن سے راحیل پرندوں سے محبت کرتا تھا۔ لڑکپن میں یہ محبت کاروبار میں بدل گئی۔ اور وہ تعلیم کی کمی کے باوجود اپنے پرندوں کے کاروبار کو Establish کرتا چلا گیا۔ چار چھے سال میں پرندوں کی خریدوفروخت کی ایک مارکیٹ میں کرائے کی دکان بھی لے لی۔
جوں جوں آمدنی میں اضافہ ہوتا گیا۔ کُھلے خرچے کے ساتھ راحیل کی اور کمانے اور اپنے کاروبار کو بڑھانے کی لالچ بھی بڑھتی گئی۔ اِسی دوران اُس کی شادی ہوگئی۔ بیوی بچوں سمیت میں بھی اس کی شادی کی تقریب میں مدعو تھا۔ مجھے بہت زیادہ خوشی بھی کہ اللہ نے اُس کی بیماری کی علامات ختم کردی ہیں اور وہ گنتی کی چند ادویات پر آگیا ہے۔ اور اپنے پاؤں پر کھڑا اپنے گھر اور بھائیوں کے اخراجات کے ساتھ اب اِس قابل ہوگیا ہے کہ اپنا گھر بھی بسالے۔
مگر اُس وقت تک لالچ اُس کے دِل میں گھر کرچکی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ مجھے اِس کا پتا بہت بعد میں چلا۔ جب شادی کے کچھ عرصے بعد اُس کی طبیعت اچانک دوبارہ خراب ہونے لگی اور سال میں ایک دو دفع ملنے کی بجائے اُسے دوبارہ باربار مجھ سے مِلنے اور دواؤں کے dose کو ایڈجسٹ کروانے آنا پڑا۔
باہر سے shipment آتیں۔ اور سرد موسم میں رہنے والے پرندے گرمی برداشت نہ کرپاتے یا کِسی virus کی نذر ہوجاتے۔ اور پورا Flock دیکھتے ہی دیکھتے مرجاتا اور نقصان راحیل کے گلے پڑتا۔
پھر اُس نے Investment کے نام پر لوگوں سے پیسے لینے شروع کردیے۔ یہ کہہ کر کہ ماہانہ پرافٹ ہوگا۔ دس لاکھ لے کر پانچ لاکھ سے Loss کی رقم بھرتا اور 5 لاکھ دوبارہ کِسی شپمنٹ میں پھنسا دیتا۔
دوستوں رشتہ داروں نے اُس کے پاس لاکھوں کی ریل پیل دیکھی اور کچھ اُسے بھی ہر سال قربانی کے اعلیٰ ترین اور منہگے ترین جانور اللہ کی راہ میں ذبیحہ کرنے کا شوق تھا۔ تو اُسے نظریں لگنا شروع ہوگئیں۔
دس لاکھ کماتا تو 20 لاکھ کا نقصان ہوجاتا، مگر جوئے کے عادی کِسی شخص کی طرح وہ پے درپے نقصانات کے باوجود قدرت کے اشارے نہیں سمجھ سکا۔ بجائے اِس کے کہ وہ ایکسپورٹ امپورٹ کا کام چھوڑدیتا یا کم از کم اِس کام کے لیے ادھار لینا بند کردیتا یا انوسٹمنٹ کے نام پر لوگوں سے پیسے لینے کا سلسلہ ختم کردیتا اور خاموشی سے پہلے کی طرح اپنی دکان پر توجہ دیتا۔ تو اُس کے بُرے دن شروع نہ ہوتے۔ اِس دوران اَس کی توجہ اپنی دکان اور پرندوں کی افزائش پر سے بھی ختم ہوگئی تھی۔ تو وہاں سے بھی کمائی کم ہوگئی تھی۔ لاکھوں روپوں کی لین دین میں آدمی کی توجہ ہزار روپوں سے ہٹ ہی جاتی ہے۔
راحیل کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا۔ پہلے اُس نے اپنے کام کا ایک نظام بنایا ہواتھا۔ بڑا بھائی اور دو لڑکے دکان پر صبح سے ہوتے تھے۔ راحیل گیارہ بارہ بجے اٹھ کر پہلے گھر کے پرندوں کو دانہ پانی دیتا۔ پھر مختلف گھروں کے چکر لگا کر پرندے خریدتا اور شام پانچ بجے تک دکان پر پہنچ جاتا۔ اور رات دس بجے تک سکون سے اپنا کاروبار دیکھتا۔
لیکن امپورٹ ایکسپورٹ، انوسٹمنٹ، قرض لیکر کام کرنے کی لالچ نے نہ صِرف اُس کا روزانہ کا شیڈول ختم کردیا بل کہ اُس کا ذہنی سکون بھی غائب ہوگیا۔ لالچ کا سب سے بڑا المیہ سکون اور طمانیت کا خاتمہ ہوتا ہے اور سکون کا خاتمہ، ابتدا ہوتی ہے ذہنی، اعصابی اور نفیساتی بیماریوں کی۔ راحیل بھی اِس گورکھ دھندے میں ایسا پھنسا کہ پھر نکل نہ سکا۔
گھنٹوں کے سیشن، کاؤنسلنگ، گفتگو، مشاورت بھی اُس کا کچھ نہ بگاڑسکے۔ لالچ نے اُس کے دِل میں اِس بُری طرح پنجے گاڑ لیے تھے کہ کوئی ہدایت، کوئی نصیحت، کوئی بات اُس پر اثر نہ کرسکی۔ میرے سامنے وہ روتا رہتا۔ توبہ تلافی کرتا رہتا۔ ہر بات پر یہی کہتا کہ ''آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ مگر مجھے نہیں پتا۔ مجھے کیا ہوجاتا ہے۔ میرا دماغ ماؤف ہوجاتا ہے۔ سوچنا سمجھنا ختم ہوجاتا۔ میں یہ سوچ کر ایک اور شپمنٹ اٹھا لیتا ہوں کہ بس یہ آخری ہے۔ اِس سے کما کر قرضہ اتاروں گا۔ لیکن پتا نہیں کیا ہوتا ہے۔ راتوں رات پرندے مرجاتے ہیں۔ لاکھوں کا نقصان ہوجاتا ہے۔''
ہر بار اُسے سمجھاتا کہ اب بس کردو۔ ہر بار اُسے نئے کاموں کے Ideas دیتا۔ پلان بناکر دیتا۔ ہر بار وہ ہاں کرتا، مگر جونہی اُس کی طبیعت سنبھلتی۔ وہ اسکرین سے غائب ہوجاتا۔ اُس کے غائب ہوتے ہی میں سمجھ جاتا کہ اب پھر کسی نئی گڑ بڑ نئے قرضے کے بوجھ تلے دب کر وہ واپس آئے گا اور ایسا ہی ہوتا۔
زیادہ بڑی گڑبڑ اُس وقت ہوئی جب اُس نے کسی صاحب سے بزنس پرافٹ کی مد میں 20 لاکھ لیے اور دو تین پھیروں میں ڈبودیے۔ وہ پیسے اُن صاحب کے اپنے نہیں تھے۔ اُنہوں نے بھی کسی سے سود پر لیے تھے۔ کئی ماہ تک تو راحیل اُن کو پرافٹ دیتا رہا، مگر پھر ادائیگی میں وقفے آنے لگے۔ دوسروں کے پیسوں سے کمانے، قرضے پر مال اٹھانے اور پھر سود کے پیسے کاروبار میں لگانے سے راحیل کا کام آخرکار بُری طرح بیٹھ گیا۔
بیوی کے تمام زیور بک گئے۔ والدہ اور بھائیوں کی جمع پونجی قرض داروں کی نظر ہوئی۔ مگر وہ عادی جواری کی طرح ایک سے پیسے لے کر دوسرے کو اکا کرتا اور دوسرے کے پیسوں سے تیسرے کی شپمنٹ اٹھاتا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پرندوں کی دکان بند ہوچکی ہے۔ کِسی موبائیل مارکیٹ میں موبائیل فون Accessories کی چھوٹی سی دکان کھولی ہوئی ہے۔ آخری خبروں تک انوسمنٹ اور شپمنٹ کے تمام کام بند ہیں۔ 60 - 70 لاکھ کا قرضہ ہے اور قرض خواہ اُس کے گھر کے چکر لگارہے ہیں۔ کبھی اُسے اٹھانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، کبھی FIR کٹوانے کی۔
دوائیاں بھی اُسے سکون نہیں دے پارہیں۔ رات چار بجے تک جاگتا رہتا ہے۔ مختلف آیات اور سورتوں کی تسبیحات پڑھتا رہتا ہے۔ کولیسٹرول اور بلڈپریشر بڑھارہتا ہے۔ بچوں کے اسکول کی Fees تین ماہ late ہوجاتی ہے۔
اور کوئی سبیل دِکھائی نہیں دیتی کہ اتنا بڑا قرضہ کیسے ادا ہوگا۔38 سال کی زندگی میں راحیل نے اپنی لالچ اور طمع کے ہاتھوں اتنے تھپیڑے کھالیے۔
اب چوںکہ وہ پھر کافی عرصے سے غائب ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ پھر کوئی حماقت نہ کربیٹھے۔ اتنے سالوں کے ساتھ نے میرے دِل میں راحیل کے لیے بڑی محبت اور شفقت پیدا کردی ہے۔ دِل سے اُسے دعائیں دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اُسے لالچ سے بچاکر رکھے، اُس کے دِل سے طمع نکال دے۔
لیکن دوا اور دُعا کے بعد اور باوجود Last Factor ہماری اپنی سچّی خواہش اور کوشش کا ہوتا ہے۔ ہماری استقامت اور ثابت قدمی کا ہوتا ہے۔ ہمارے صبر، شُکر اور قناعت کا ہوتا ہے۔ جب تک یہ سب ہمارے وجود کا حصّہ نہیں بنتے۔ ہم یونہی بھٹکتے رہتے ہیں۔ تمام دواؤں، تمام دعاؤں، تمام باتوں، تمام مشوروں، تمام ہدایتوں، تمام نصیحتوں کے باوجود طمع اور لالچ کا جال میں گرفتار ہو کر اپنی پسند اور اپنی خواہش کے One Way بند دروازے کھو لتے رہتے ہیں۔ اور پھر دیواروں سے سر پھوڑ تے رہتے ہیں۔