پارا چنار کوئٹہ میں دہشت گردی اور چین کا پیغام

دہشتگردی کے حالیہ واقعات کے بعد ملک بھر میں سیکیورٹی سخت کردی گئی ہے،آئی ایس پی آر


Editorial June 25, 2017
دہشتگردی کے حالیہ واقعات کے بعد ملک بھر میں سیکیورٹی سخت کردی گئی ہے،آئی ایس پی آر ۔ فوٹو : فائل

دہشتگردی کے عالمی عفریت نے انسانیت کے مشترکہ آفاقی اقدار کو سنگین خطرات سے دوچار کیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے سیاسی و عدالتی نظام دہشتگردی کی طے شدہ تعریف پر متفق نہیں ہو سکے ہیں، کیونکہ کسی ایک ملک کا حریت پسند دوسرے کیلیے دہشتگرد اور کوئی دہشتگرد کسی ریاست کا انقلابی ہیرو یا نجات دہندہ بن جاتا ہے، ایسے کتنے ہی دہشتگرد تھے جنہیں ان کے عوام نے ظلم، استعمار، سامراج اور استحصال کے خلاف آزادی کا علمبردار اور طوق غلامی سے نجات کا استعارہ قرار دیا۔

تاہم پاکستان جس انسانیت سوز دہشتگردی کا شکار ہے اس کے ذی شعور عوام میں ایسی کوئی تقسیم موجود نہیں، دہشتگرد کو صرف ننگ وطن دہشتگرد سمجھا اور کہا جاتا ہے، اور نہ ہی پاکستانی قوم ظلم و بربریت کی نئی لہر کے ذمے داروں کے سامنے سرینڈر ہو گی، اگرچہ ریاستی رٹ کو مسلسل چیلنج کرنے والی باطل قوتوں نے ایک بار پھر پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور قومی عزم کو للکارا ہے اور دہشتگردی کی وارداتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے مگر ان کا آخری دم تک تعاقب جاری رہے گا۔

امن، بھائی چارہ، جمہوریت اور رواداری کے ان چھپے ہوئے دشمنوں نے گزشتہ روز پارا چنار میں 2 بم دھماکوں اور کوئٹہ میں خودکش حملے میں47 افراد شہید اور 100 سے زائد زخمی کر دیئے، دہشتگردی کے بار بار شکار پارا چنار میں یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے جس میں 34 افراد شہید اور 100 سے زائد افراد زخمی ہو گئے، 20 زخمیوں کی حالت تشویشناک بیان کی جاتی ہے۔

پولیٹیکل حکام کے مطابق پرہجوم طوری بازار میں پہلا دھماکا اس وقت ہوا جب لوگ عید کی خریداری میں مصروف تھے، دھماکے کے بعد لوگ موقع پر امدادی کاموں میں مصروف تھے تو تین منٹ کے بعد ایک اور دھماکا ہو گیا، پارا چنار اور کوئٹہ میں دہشتگردی کے واقعات اور کراچی میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد پشاور میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی، پولیس نے عوام کی حفاظت کیلیے اہم شاہراہوں پر ناکہ بندی کر کے گاڑیوں کی چیکنگ شروع کردی۔

پارا چنار و کوئٹہ بم دھماکوں اور کراچی میں پولیس موبائل پر فائرنگ کے واقعات کے بعد حیدرآباد پولیس کو ہائی الرٹ کر دیا گیا لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ حکمراں اس بات کی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ دہشگردوں کو پبلسٹی کے آکسیجن سے محروم کر دیا جائے جس پر ان کے پورے نیٹ ورک کا انحصار ہے، عوام دہشتگردی کے ہر واقعہ پرکنفیوژن کا شکار جب کہ غم، صدمہ، خوف، غصہ اور انتقام لینے کی تمنا ہی انہیں اعصابی جھنجھلاہٹ میں ڈال دیتی ہے، دہشتگرد واردات جب کہ شہری اخبارات اور ٹی وی چینلز پر واقعہ کی تفصیلات سے سہم کر دوسرے سانحہ کا انتظار کرتے ہیں، آخر نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے۔

بارودی گاڑیاں لے کر شہر میں داخل ہونے والوں کی گردن کیوں نہیں دبوچی جاتی، وہ گنجان آبادی اور مصروف بازاروں میں لوگوں کی جان لینے کے بعد فرار کیسے ہو جاتے ہیں، کیا وہ ''سلیمان کے جن'' ہیں؟ ایک مذہبی رہنما کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کا وائرس ہمارے قومی جسد میں ہے، اس بات کی تہہ میں جانے کی ضرورت ہے، دہشتگردی کے تاریخی عوامل اور ان کی جڑوں کی نشاندہی ناگزیر ہے۔

دہشتگردی کا ایک المناک واقعہ کراچی میں ہوا جس میں4 نامعلوم موٹر سائیکل دہشتگردوں کی فائرنگ سے اے ایس آئی سمیت چار پولیس اہلکار شہید ہو گئے، پولیس کے مطابق فائرنگ کا واقعہ سائٹ ایریا میں سیمنز چورنگی کے قریب افطار کے وقت پیش آیا، چاروں اہلکار اے ایس آئی محمد یوسف اور 3 کانسٹیبل راجہ شبیر، محمد خالد اور ڈرائیور اسرار جو سنیپ چیکنگ پر مامور تھے افطاری کے لیے ہوٹل پر بیٹھے تھے کہ اسی اثنا میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی۔

ایس پی سائٹ آصف احمد کے مطابق فائرنگ کرنے والے نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ہیلمٹ پہن رکھے تھے، اہلکاروں کے سروں میں گولیاں ماری گئیں، ملزم فرار بھی ہو گئے جب کہ شہر قائد کی ہر بڑی سڑک پر ناکے لگے ہوئے ہیں، ٹریفک پولیس اور رینجرز کی گاڑیاں گشت کرتی نظر آتی ہیں، یہ بے بسی ناقابل فہم ہے۔

حکام ادراک کریں کہ کراچی آپریشن ختم نہیں ہوا، سرچ آپریشن ملک گیر پیمانہ پر جاری ہے، کراچی پولیس افسر کے مطابق دہشتگرد پولیس اہلکاروں کو شہید کرنے کے بعد فرار ہوئے اور اتنے دیدہ دلیر تھے کہ دوبارہ جائے وقوعہ پر آ کر جامعۃ انصار الشریعہ پاکستان کا پمفلٹ پھینک کر فرار ہو گئے، چہ دلاور است دزدے!! قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ اسلام کے نام پر بے گناہوں کو قتل کرنے والے مسلمان نہیں بلکہ اسلام کے دشمن ہیں، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک، گورنر اقبال ظفر جھگڑا، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفند یار ولی خان اور دیگر رہنماؤں نے پاراچنار اور کوئٹہ میں بم دھماکوں کی شدید مذمت کی اور اس سانحہ میں قیمتی انسانوں کے ضیاع پر انتہائی دکھ کا اظہار کیا ہے۔

ادھر کوئٹہ دھماکے میں مبینہ طور پر کراچی کی گاڑی استعمال ہونے کی میڈیا رپورٹ پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے ڈی آئی جی ایسٹ سے گاڑی کی مکمل تفصیلات طلب کر لیں۔ پارا چنار و کوئٹہ بم دھماکوں اور کراچی میں پولیس موبائل پر فائرنگ کے واقعات کے بعد حیدرآباد پولیس کو ہائی الرٹ کر دیا گیا جب کہ ضرورت دہشتگردی کے جن کے بوتل سے باہر آنے کے بعد سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا، گلگت و بلتستان میں ناقابل شکست سکیورٹی اقدامات کو یقینی بنانے کی ہے۔

صدر مملکت، وزیراعظم، اپوزیشن لیڈر اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے کوئٹہ اور پاراچنار میں ہونے والے دہشتگرد حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگرد آخری سانس لے رہے ہیں اور ایسے عناصرکسی طور پر قابل رحم نہیں، پوری قوم کے غیرمتزلزل اور متفقہ عزم کی بدولت دہشتگرد جلد اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے کہا ہے کہ دشمن بزدلانہ کارروائیوں سے قوم کی خوشیوں کو خراب کرنا چاہتا ہے جس میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کے حالیہ واقعات کے بعد ملک بھر میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ تاہم سیاسی زعما اور ارباب اقتدار دہشتگردوں کے آخری سانس لینے کو کافی نہ سمجھیں بلکہ اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں کہ دہشتگرد کتنی معصوم سانسوں کی ڈروریوں کو زندگی کے چلتے پھرتے وجود سے کاٹ چکے ہیں۔ پلیز قوم کو دہشتگردی کے رسیونگ اینڈ پر نہ رکھا جائے، اب وقت آ گیا ہے کہ خود کش بمباروں، بم دھماکے کرنے والوں کیلیے سانس لینا دوبھر کیا جائے، ان کے بچے کچھے ٹھکانے اور سہولت کار ٹھکانے لگا دیئے جائیں، کسی اچھے برے دہشتگرد اور نام نہاد اثاثوں کی تمیز روا نہ رکھی جائے، بہت ہو چکا۔

چین ہی ہمارا وہ واحد بے لوث دوست اور دم ساز ہے جس نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ انسداد دہشتگردی کے سلسلے میں پاکستان کی کوششوںکو تسلیم کرے اور ان کوششوں کی حمایت کرے۔ بیجنگ میں پریس کانفرنس کے دوران چینی دفترخارجہ کے ترجمان نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف عالمی لڑائی میں پاکستان صف اول میں ہے۔ پاکستان نے دہشتگردی کے مقابلے اور علاقائی امن و استحکام کی خاطر اہم قربانیاں دی ہیں۔ عالمی ضمیر کو چین کے اس انسانیت نواز پیغام کا مثبت و صائب جواب دینا چاہیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں