عیدالفطر اور اس کے تقاضے

ہم مسلمانوں نے در اصل اپنے مذہب، دین، روایات، عقائد اور تعلیم وتربیت سبھی فراموش کردی ہیں


شاہد سردار June 25, 2017

عیدالفطر کو مسلمانوں کے سب سے بڑے تہوارکی حیثیت اورانفرادیت حاصل ہے۔ یہ انعام اﷲ اپنے ان بندوں کے لیے مختص کرتا ہے جنھوں نے رمضان المبارک میں قرآن پاک تمام کیا پڑھ کر اور نماز و نماز تراویح ادا کرکے پورے روزے رکھنے کا اہتمام کیا۔

عیدالفطر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی خوشیاں صرف با وسیلہ اور متمول طبقات وافراد تک محدود نہیں بلکہ ہر امیروغریب کے لیے عام ہیں۔آج سے کئی دہائیاں قبل بچپن میں عید منانے والوں کو آج کی عید میں وہ والہانہ پن، خلوص اور اپنائیت نظر نہیں آتی، ان کے نزدیک نئی نسل عیدکا انتظار اور خریداری تو اسی طرح جوش وجذبے سے کرتی ہے مگر جدید سہولتوں نے ان سے عیدکی اصل روح کو چھین لیا ہے اور محبت، والہانہ پن، اخلاص اور سادگی کی جگہ ظاہر داری، تکبر، بناوٹ اور ریا کاری نے لے لی ہے۔

بلاشبہ گزری دہائیوں میں عید کا جو مزہ ، جو انتظار اور جو اہتمام تھا وہ اب کہیں دیکھنے میں نہیں آتا۔ بچے سارا دن عیدی اکٹھے کرتے، انھیں خوب خرچ کرتے لیکن پھر بھی وہ بچ جاتے تھے۔ واقعی وہ بڑا سادہ زمانہ تھا اس دور میں رزقِ حلال واقعی عین عبادت تھا اور اس میں برکت بھی بہت ہوتی تھی۔ آج وہ سب خواب و خیال ہوکر رہ گیا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہماری معاشرتی اقدار بہت بدل گئی ہے۔ دلوں میں وسعتیں ختم ہوکر ان کی جگہ کینہ اور حسد نے لے لی ہے۔ عیدین کے مواقعے پر لوگوں کی رشتے داروں کے ہاں آمد ورفت بھی محدود ہوگئی ہے۔ سگے رشتے ذاتی اختلافات کو عید پر بھی ترک نہیں کرتے اور گلے ملنے سے گریزاں رہتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ عید صرف فرد کی خوشی کا نام نہیں، معاشرے کی اجتماعی مسرت کا نام ہے اور اس میں معاشرے کے ہر فرد کا حصہ شامل ہے۔ افسوس! ہمارا معاشرہ حقیقی مسرتوں کے مفہوم سے بہت دور چلا گیا ہے، اگر ہم خوشیاں مناتے ہیں تو ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ معاشرے میں لاکھوں افراد خوشیوں سے ہمکنار رہتے ہیں تو اسی معاشرے میں لاکھوں افراد خوشیوں اور مسرتوں سے محروم بھی ہیں، اگر ہم ان کے دکھ درد میں شریک نہیں ہوسکتے تو کم ازکم ان کی تکلیفوں اور مصائب کا احساس ضرور کرسکتے ہیں۔کیونکہ کسی کو خدمت میں پیش کیے جانے والے تحفوں میں سب سے بہترین تحفہ احترام ہوتا ہے، لیکن یہ احترام فی زمانہ ہم کسی کو دینے پر ذرا تیار نہیں ہیں۔ ہم نے یہ فراموش کردیا ہے کہ ہم اپنے لیے جو کچھ کرتے ہیں وہ ہمارے ساتھ ہی دفن ہوجاتا ہے لیکن جو کچھ ہم دوسروں کے لیے کرتے ہیں وہ تا دیر زندہ رہتا ہے۔

ہم مسلمانوں نے در اصل اپنے مذہب، دین، روایات، عقائد اور تعلیم وتربیت سبھی فراموش کردی ہیں۔ ہم انسان بہت ناشکرے ہوگئے ہیں بس دکھ تکلیف و مصائب کی گنتی کرنے کے ماہر ہیں، لیکن نعمتوں، برکتوں اور رحمتوں کا حساب رکھنا بھول جاتے ہیں۔ دراصل ہم خاکی اور مطلبی انسان اپنے دل کے اندر پیدا ہونے والے ننھے منے فعال یا احسن جذبوں کو کبھی سن نہیں سکتے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ٹیلی فون کے تاروں پر بیٹھے ہوئے پرندے،ان کے اندر دوڑتی آوازوں کو نہیں سن پاتے۔

ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم میں سے کسی کے پاس بھی کوئی حسن عمل موجود نہیں جس سے ہم اپنے پیاروں اور اپنے پروفیشن کو فائدہ پہنچاسکیں اور یہی وہ امر ہے جس کی وجہ سے ہم بے چہرہ ہوچکے ہیں، اپنی پہچان تک کھو بیٹھے ہیں اور اسی وجہ سے موجودہ عہد میں طمانیت، سکون سب ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ افرا تفری، نفسا نفسی، بدنظمی، مادہ پرستی عام ہوگئی ہے، اپنے کام کو فرض یا مشن سمجھنا ہم نے ترک کرکے اسے محض ٹالنا یا بھگتانا شروع کردیا ہے۔

اب تو ہم اس قدر ابن الوقت ہوگئے ہیں کہ خوشی، غمی، تہوار، مبارکباد، سراہنے یا کسی کی خوشی میں خوش ہونے کی دیرینہ روایات بھی ہم نے ترک کردی ہے اور ان جیتے جاگتے دھڑکتے جذبوں کو ہم نے جذبات، احساسات، اور زبان سے یکسر عاری مشینوں (انٹرنیٹ اور موبائل) اسکرین کی بھینٹ چڑھادیا ہے۔ ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس سیلاب بلاخیز میں ہماری وہ خوبصورت اور اپنائیت کو حاصل روایات تک بہہ گئی جوکبھی ہماری تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی زندگی کا حسن تھیں۔

ہمیں اپنی روایت، اقدار اور اس سے جڑی قدروں کی پاسداری کرنی چاہیے، کچھ نہ ملے تو بچھڑنے والے اچھے انسانوں کے قدموں کے نشانوں سے ہی کھوج شروع کردینی چاہیے ورنہ اپنوں اور اپنی روایات کی دوریاں سینے کا ناسور بن جائیںگی۔ کیونکہ بعض دفعہ زندگی میں پیار سے زیادہ خیال کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ پیار میں گو بہت سا وقت اچھا گزرتا ہے لیکن خیال میں عمر اچھی گزرجاتی ہے۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ انسان کا مقدر تاریخیں، کلینڈر اور گھڑیاں بدلنے سے نہیں بدلاکرتا اس کے لیے ارادے، عزم، دل اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم لوگ محنت اور ارادے کا کام بھی گھڑیوں سے لینا چاہتے ہیں ، حالانکہ وقت کسی کے کہنے پر نہ رکتا ہے اور نہ ہی تھمتھا ہے اور دنیا میں صرف وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو وقت کی قدم کے ساتھ قدم ملاکر چلتی ہیں، جو وقت کی دوست بن جاتی ہیں یا پھر وقت کو اپنا دوست بنالیتی ہیں اورگھڑیوں اورکلینڈروں سے دشمنی کرنے والی قومیں وقت کی دھول میں گم ہوجاتی ہیں اور ہم اگر وقت کی دھول میں گم ہونے سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی وقت کو دھوکے دینے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا ہمیں بھی وقت کے ساتھ بھاگنا ہوگا ورنہ وقت کا ریلا ہمیں اپنے ساتھ بہالے جائے گا اور ہم تاریخ کے جوھڑ میں کائی بن کر تیرتے رہیںگے، ایک ایسی کائی جو صرف مچھر اور مکھیاں پیدا کرسکتی ہے۔

ہمیں یہ آفاقی سچائی بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام دنیا کا واحد نظام ہے جو محروموں، ناداروں، بے کسوں، بے بسوں کو امرا پر ترجیح دیتا ہے۔ اسلام میں جو شخص جتنا محروم ملے اس شخص کو اتنی ہی فوقیت اور ترجیح دی جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ اپنے کندھے پر آٹے کی بوری اٹھاکر راتوں کو بھوکوں کے گھر جاتے تھے۔

ﷲ تعالیٰ غریب کے دل میں بستا ہے اور جب تک ہم یا ہمارے ارباب اختیار غریب کے دل تک نہیں پہنچیں گے۔ اس وقت تک ہم پر اس کی برکت کے دروازے نہیں کھلیںگے اور جب تک کسی اسلامی ملک پر اﷲ کی برکت و رحمت کے دروازے نہیں کھلتے اس وقت تک وہ ملک خوشحال نہیں ہوتا یہ ہے وہ فارمولا اور یہی ہے وہ کام جو ہمارے حکمرانوں اور حکومت کوکرنا چاہیے۔

عیدالفطر جہاں اخوت، مسرتوں کا پیغام دیتی ہے وہیں انسانیت اور بھائی چارے کی اہمیت پر زور دیتی ہے، اس دن اپنوں سے والہانہ محبت، انسیت کا قدرتی جذبہ دلوں میں موجزن ہونا چاہیے۔ واقعی انسان نیکیوں میں پڑے تو فرشتوںکے قریب کھینچ جاتا ہے مگر بدی میں پڑنے سے شیطان کو پیچھے چھوڑجاتا ہے، عید کے دن ہمیں عید کا شکرانہ پڑھتے ہی اپنے اپنے دلوں کو کدورتوں، رنجشوں اور عداوتوں سے پاک کرلینا چاہیے کہ یہ عیدکے خطبے کا بنیادی وصف ہے۔

ویسے بھی انسانیت فطرت ہے کہ وہ خواہ کتنے ہی بڑے صدمے اور رنج و الم سے دوچار کیوں نہ ہو،گزرتے وقت کے ساتھ اس کے زخم بھرجاتے ہیں۔ زندگی کی نت نئی الجھنوں اور مسائل میں رفتہ رفتہ ہر سنگین حادثے کی یادیں دھندلانے لگتی ہیں۔ اگر ہم آٹے میں نمک کے برابر بھی مندرجہ بالا حقائق کو تسلیم کرکے اس کا اطلاق خود پرکرلیں تو ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے میں بھی اس کے اچھے اور خوشگوار اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

کیونکہ نمک کسی بھی ڈش یا سالن کا سب سے سستا اور سب سے کم استعمال ہونے والا عنصر ہوتا ہے لیکن سب سے زیادہ فیصلہ کُن اور ہم ترین جزو ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں