حقیقت کیا ہے
جہاں تک طبقاتی کشمکش کی بات ہے تو وہ رہے گی
QUETTA:
دنیا بھر میں پھر ایک بارمزدورطبقہ اورپیداواری قوتیں منظم اور باعمل ہورہی ہیں۔ جس کا برملا اظہاردنیا کے ہرخطے میں نظر آرہا ہے۔ ترکی میں بائیں بازوکی مضبوط حزب اختلاف، جنوبی کوریا میں کمیونسٹ پارٹی کی پیش قدمی، ہندوستان میں نکسلائیٹ ماؤ نوازکمیونسٹوں کا پھیلاؤ، چین میں مزدوروں کسانوں کی بڑھتی ہوئی تحریک، امریکا میں سوشلسٹ رہنما برنی سینڈرز اور برطانیہ میں سوشلسٹ حزب اختلاف کے لیڈرجیریمی کوربن کا ابھار اس کی مثالیں ہیں۔
اس صورتحال میں یہ کہنا کہ کمیونزم ختم ہوگیا ہے ایک انتہائی غیرحقیقت پسندانہ سوچ ہے۔گزشتہ دنوں ایک روزنامہ میں ''عرب دنیا اور جماعت اسلامی'' کے عنوان سے ایک مضمون چھپا جس میں کالم نگار لکھتے ہیں کہ ''سوشلزم اورکمیونزم کا نظریہ چونکہ اب نہیں رہا اس لیے ان کے پیروکار سرمایہ داری کو اپنا رہے ہیں۔'' جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ چند برس پہلے بی بی سی نے عوام سے را ئے مانگی تھی کہ دورجدیدکا مقبول فلسفی کون ہے؟
جس پر اکثریت نے کارل مارکس کو ووٹ دیا۔ جس پر سرمایہ داروں کے نمائندے اخبارات ورسائل اکانومسٹ، ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمزاور آبزرور لندن نے اس رائے شماری پر نہ صرف پتھراؤکیا بلکہ اسے جعلی قراردیا ۔ چند سال قبل جرمنی میں سب سے زیادہ شایع ہونے والی اورفروخت ہونے وا لی کارل مارکس کی کتاب''داس کیپٹل '' ہے۔
کارل مارکس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا '' ایں کلیم بے تجلی ایں مسیح اے صلیب، نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب '' یعنی یہ وہ موسیٰ نہیں جسے معجزہ حاصل ہوا، یہ عیسیٰ نہیں جسے مصلوب کیا گیا، نہ پیغمبر ہے مگر اس کے بغل میں کتاب ہے'' اور وہ ہے ''سرمایہ '' ۔سوشلسٹ بلاک کے وجود نہ ہونے کے باوجود اب بھی درجن بھر ممالک اپنے آپ کو سوشلسٹ کہتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ کیوبا وہ واحد ملک ہے جہاں سو فیصد لوگ خواندہ ہیں ۔ پا کستان میں زلزلہ آ یا تھا تو سیکڑوں کیوبن ڈاکٹروں نے لا کھوں مریضوں کا علاج کیا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ تعلیم کا بجٹ کیوبا کا ہے۔
شمالی کوریا (سوشلسٹ کوریا) جو واحد ملک ہے اورامریکی سامراج کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے ۔ یہاں کوئی بے روزگار ہے اورنہ کوئی گدا گر، یہاں شرح خواندگی سوفیصد ہے، جب کہ عالمی سرمایہ داری انحطاط پزیری کی جانب گامزن ہے، یورپ کی اوسط شرح نمو دو فیصد ہے۔کالم نگارلکھتے ہیں کہ ''چونکہ کمیونزم نہیں رہا اس لیے مذہبی جماعتوں کی ضرورت نہیں '' کمیونزم مزدور طبقے کا نظریہ ہے جو عالمی سرمایہ داری کے خلاف نبرد آزما ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ عالمی سامراج مذہبی جماعتوں کوکمیونزم کے خلاف استعمال کرتا ہے لیکن صرف یہ ہی نہیں بلکہ نوکر شاہی، مقامی حکومتیں، فوج، ملکوں کے سرمایہ دار، جاگیردار اور صاحب جائیداد طبقات کو بھی استعمال کرتا ہے ۔کالم نویس کو یہ جاننا چاہیے کہ سوشل ازم گذرگاہ ہے کوئی نظام نہیں ۔ نظام ہے کمیونزم ۔ اگر آپ منزل کی جانب روانگی میں دیرکردیں گے اور اسٹیشن پر ہی کھڑے رہ جا ئیں گے تو سرمایہ دار سازش کرکے رد انقلاب لائے گا اورکمیو نزم تک نہیں پہنچ پائیں گے۔
جہاں تک طبقاتی کشمکش کی بات ہے تو وہ رہے گی ۔ اس لیے کہ جہاں طبقات ہوں گے وہاں استحصال بھی ہوگا اور استحصال ہوگا تو اس کے خلاف محنت کش (خواہ جسمانی ہو یا ذہنی ) اور پیداواری قوتیں رد عمل بھی کریں گی ۔ جیسا کہ ستمبر 2016 میں ہندوستان کی بائیں بازوکی پارٹیوں کے کال پر کروڑوں لو گوں نے ہڑتال کیں جس میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ ''کشمیر سے انڈین فوج کو واپس بلاؤ ''۔
ہاں مگر امریکی سی آ ئی اے نے عالم عرب میں اخوان المسلمون اور دیگر ممالک میں بھی تنظیمیں تشکیل دی گئیں اور منتخب حکومتوں کو گراکر جنرل سوہارتو، جنرل ضیاالحق، جنرل ضیاالرحمن اور ملا عمرکو برسراقتدار لائے۔ اب سامراج کو ان کی ضرورت نہیں رہی، پھر بھی جہاں جہاں جیسے چیچنیا،کوسووو،داعش، یمن وغیرہ میں ضرورت پڑتی ہے تو آج بھی امریکا انھیں کام میں لاتا ہے ۔ جب افغانستان میں طالبان حکومت بنی تو سعودی عرب نے اسے تسلیم کیا اور اب طالبان کے خلاف ہے ۔اس لیے کہ یہ عالمی سامراج کے مفادات کی خاطر سب کچھ کرجاتے ہیں۔
اس وقت عالمی کمیو نسٹ تحریک اٹھ کھڑی ہوئی ہے،گزشتہ تیس برسوں میں مزدوروں کے عالمی دن کے موقعے پر جلسے جلوس اتنی بڑی تعداد اور اتنے ملکوں میں نہیں ہوئے جتنے اس سال 2017 میں ہوئے ۔ صرف روس میں پندرہ لاکھ کا جلوس کمیونسٹ پارٹی نے نکالا۔
ایشیا کا سب سے بڑا جلوس جنوبی کوریا کے دارالخلافہ سول میں کمیونسٹ پارٹی نے نکالا۔ انڈیا میں، کرالا میں مزدوروں نے سرخ لباس پہن کر مارچ کیا اوروزیر اعلیٰ نے سلامی لی ۔ یونان، اسپین، واشنگٹن، شیکاگو، لندن، ہانگ کا نگ، سنگا پور، عراق، تیونس، لبنان، یوکرائن، ویتنام، منگولیہ، شمالی کوریا اور فلپائن میں ٓلا کھوں کے جلوس نکلے۔ فرانس، برازیل اورترکی میں پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ یعنی دنیا بھر میں یوم مئی کے موقعے پرکروڑوں مزدوروں نے شرکت کی۔
آج بھی بلا روس سے تاجکستان تک اور چیچنیا سے کرغستان تک 97 فیصد سے 99 فیصد لوگ خواندہ ہیں، یہ بھی سوشلزم کی ہی برکات ہیں ۔ امریکا کی بار بار دھمکیوں کے باوجود سوشلسٹ کوریا اپنا میزائل ٹیسٹ جا ری رکھا ہوا ہے ۔کریمیا، یوکرائن سے الگ ہوکراپنے اثاثوں کو قومی ملکیت میں لے لیا ہے، اسپین کا صوبہ کیٹا لونیہ میں خود مختارعلاقے کے قیام کے لیے وہاں کے عوام اپنے طور پر ریفرنڈم کرانے جارہے ہیں، جس کی رہنمائی کمیونسٹ اور انارکسٹ کررہے ہیں۔
شام کا علاقہ کوبانی سے بائیں بازو کے کردکمیونسٹوں نے داعش کو شکست دیکر آزاد کرالیا ہے ۔ ہندوستان کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کے اعتراف کے مطابق کہ ہندوستان کے 92 ہزاراسکوائرکلومیٹر جنگلات پرکمیونسٹ باغیوں کا قبضہ ہے۔ ابھی قطر نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ہٹ کر موقف اختیارکیا ہے، ہر چندکہ مزدوروں کا استحصال جوں کا توں ہے مگر خواتین آزاد ہیں اور میڈیا بھی آزاد ہے ۔ لہٰذا یہ کہنا کہ کمیونزم ختم ہوگیا ہے قطعی غلط اور بے بنیاد ہے۔
دنیا بھر میں پھر ایک بارمزدورطبقہ اورپیداواری قوتیں منظم اور باعمل ہورہی ہیں۔ جس کا برملا اظہاردنیا کے ہرخطے میں نظر آرہا ہے۔ ترکی میں بائیں بازوکی مضبوط حزب اختلاف، جنوبی کوریا میں کمیونسٹ پارٹی کی پیش قدمی، ہندوستان میں نکسلائیٹ ماؤ نوازکمیونسٹوں کا پھیلاؤ، چین میں مزدوروں کسانوں کی بڑھتی ہوئی تحریک، امریکا میں سوشلسٹ رہنما برنی سینڈرز اور برطانیہ میں سوشلسٹ حزب اختلاف کے لیڈرجیریمی کوربن کا ابھار اس کی مثالیں ہیں۔
اس صورتحال میں یہ کہنا کہ کمیونزم ختم ہوگیا ہے ایک انتہائی غیرحقیقت پسندانہ سوچ ہے۔گزشتہ دنوں ایک روزنامہ میں ''عرب دنیا اور جماعت اسلامی'' کے عنوان سے ایک مضمون چھپا جس میں کالم نگار لکھتے ہیں کہ ''سوشلزم اورکمیونزم کا نظریہ چونکہ اب نہیں رہا اس لیے ان کے پیروکار سرمایہ داری کو اپنا رہے ہیں۔'' جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ چند برس پہلے بی بی سی نے عوام سے را ئے مانگی تھی کہ دورجدیدکا مقبول فلسفی کون ہے؟
جس پر اکثریت نے کارل مارکس کو ووٹ دیا۔ جس پر سرمایہ داروں کے نمائندے اخبارات ورسائل اکانومسٹ، ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمزاور آبزرور لندن نے اس رائے شماری پر نہ صرف پتھراؤکیا بلکہ اسے جعلی قراردیا ۔ چند سال قبل جرمنی میں سب سے زیادہ شایع ہونے والی اورفروخت ہونے وا لی کارل مارکس کی کتاب''داس کیپٹل '' ہے۔
کارل مارکس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا '' ایں کلیم بے تجلی ایں مسیح اے صلیب، نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب '' یعنی یہ وہ موسیٰ نہیں جسے معجزہ حاصل ہوا، یہ عیسیٰ نہیں جسے مصلوب کیا گیا، نہ پیغمبر ہے مگر اس کے بغل میں کتاب ہے'' اور وہ ہے ''سرمایہ '' ۔سوشلسٹ بلاک کے وجود نہ ہونے کے باوجود اب بھی درجن بھر ممالک اپنے آپ کو سوشلسٹ کہتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ کیوبا وہ واحد ملک ہے جہاں سو فیصد لوگ خواندہ ہیں ۔ پا کستان میں زلزلہ آ یا تھا تو سیکڑوں کیوبن ڈاکٹروں نے لا کھوں مریضوں کا علاج کیا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ تعلیم کا بجٹ کیوبا کا ہے۔
شمالی کوریا (سوشلسٹ کوریا) جو واحد ملک ہے اورامریکی سامراج کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے ۔ یہاں کوئی بے روزگار ہے اورنہ کوئی گدا گر، یہاں شرح خواندگی سوفیصد ہے، جب کہ عالمی سرمایہ داری انحطاط پزیری کی جانب گامزن ہے، یورپ کی اوسط شرح نمو دو فیصد ہے۔کالم نگارلکھتے ہیں کہ ''چونکہ کمیونزم نہیں رہا اس لیے مذہبی جماعتوں کی ضرورت نہیں '' کمیونزم مزدور طبقے کا نظریہ ہے جو عالمی سرمایہ داری کے خلاف نبرد آزما ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ عالمی سامراج مذہبی جماعتوں کوکمیونزم کے خلاف استعمال کرتا ہے لیکن صرف یہ ہی نہیں بلکہ نوکر شاہی، مقامی حکومتیں، فوج، ملکوں کے سرمایہ دار، جاگیردار اور صاحب جائیداد طبقات کو بھی استعمال کرتا ہے ۔کالم نویس کو یہ جاننا چاہیے کہ سوشل ازم گذرگاہ ہے کوئی نظام نہیں ۔ نظام ہے کمیونزم ۔ اگر آپ منزل کی جانب روانگی میں دیرکردیں گے اور اسٹیشن پر ہی کھڑے رہ جا ئیں گے تو سرمایہ دار سازش کرکے رد انقلاب لائے گا اورکمیو نزم تک نہیں پہنچ پائیں گے۔
جہاں تک طبقاتی کشمکش کی بات ہے تو وہ رہے گی ۔ اس لیے کہ جہاں طبقات ہوں گے وہاں استحصال بھی ہوگا اور استحصال ہوگا تو اس کے خلاف محنت کش (خواہ جسمانی ہو یا ذہنی ) اور پیداواری قوتیں رد عمل بھی کریں گی ۔ جیسا کہ ستمبر 2016 میں ہندوستان کی بائیں بازوکی پارٹیوں کے کال پر کروڑوں لو گوں نے ہڑتال کیں جس میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ ''کشمیر سے انڈین فوج کو واپس بلاؤ ''۔
ہاں مگر امریکی سی آ ئی اے نے عالم عرب میں اخوان المسلمون اور دیگر ممالک میں بھی تنظیمیں تشکیل دی گئیں اور منتخب حکومتوں کو گراکر جنرل سوہارتو، جنرل ضیاالحق، جنرل ضیاالرحمن اور ملا عمرکو برسراقتدار لائے۔ اب سامراج کو ان کی ضرورت نہیں رہی، پھر بھی جہاں جہاں جیسے چیچنیا،کوسووو،داعش، یمن وغیرہ میں ضرورت پڑتی ہے تو آج بھی امریکا انھیں کام میں لاتا ہے ۔ جب افغانستان میں طالبان حکومت بنی تو سعودی عرب نے اسے تسلیم کیا اور اب طالبان کے خلاف ہے ۔اس لیے کہ یہ عالمی سامراج کے مفادات کی خاطر سب کچھ کرجاتے ہیں۔
اس وقت عالمی کمیو نسٹ تحریک اٹھ کھڑی ہوئی ہے،گزشتہ تیس برسوں میں مزدوروں کے عالمی دن کے موقعے پر جلسے جلوس اتنی بڑی تعداد اور اتنے ملکوں میں نہیں ہوئے جتنے اس سال 2017 میں ہوئے ۔ صرف روس میں پندرہ لاکھ کا جلوس کمیونسٹ پارٹی نے نکالا۔
ایشیا کا سب سے بڑا جلوس جنوبی کوریا کے دارالخلافہ سول میں کمیونسٹ پارٹی نے نکالا۔ انڈیا میں، کرالا میں مزدوروں نے سرخ لباس پہن کر مارچ کیا اوروزیر اعلیٰ نے سلامی لی ۔ یونان، اسپین، واشنگٹن، شیکاگو، لندن، ہانگ کا نگ، سنگا پور، عراق، تیونس، لبنان، یوکرائن، ویتنام، منگولیہ، شمالی کوریا اور فلپائن میں ٓلا کھوں کے جلوس نکلے۔ فرانس، برازیل اورترکی میں پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ یعنی دنیا بھر میں یوم مئی کے موقعے پرکروڑوں مزدوروں نے شرکت کی۔
آج بھی بلا روس سے تاجکستان تک اور چیچنیا سے کرغستان تک 97 فیصد سے 99 فیصد لوگ خواندہ ہیں، یہ بھی سوشلزم کی ہی برکات ہیں ۔ امریکا کی بار بار دھمکیوں کے باوجود سوشلسٹ کوریا اپنا میزائل ٹیسٹ جا ری رکھا ہوا ہے ۔کریمیا، یوکرائن سے الگ ہوکراپنے اثاثوں کو قومی ملکیت میں لے لیا ہے، اسپین کا صوبہ کیٹا لونیہ میں خود مختارعلاقے کے قیام کے لیے وہاں کے عوام اپنے طور پر ریفرنڈم کرانے جارہے ہیں، جس کی رہنمائی کمیونسٹ اور انارکسٹ کررہے ہیں۔
شام کا علاقہ کوبانی سے بائیں بازو کے کردکمیونسٹوں نے داعش کو شکست دیکر آزاد کرالیا ہے ۔ ہندوستان کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کے اعتراف کے مطابق کہ ہندوستان کے 92 ہزاراسکوائرکلومیٹر جنگلات پرکمیونسٹ باغیوں کا قبضہ ہے۔ ابھی قطر نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ہٹ کر موقف اختیارکیا ہے، ہر چندکہ مزدوروں کا استحصال جوں کا توں ہے مگر خواتین آزاد ہیں اور میڈیا بھی آزاد ہے ۔ لہٰذا یہ کہنا کہ کمیونزم ختم ہوگیا ہے قطعی غلط اور بے بنیاد ہے۔