کرکٹ کے میدان ویران۔۔۔ذمہ دار کون

پی سی بی عہدیداربھول گئے کہ پاکستانی کرکٹ کو عالمی سطح پر روشناس کرانے میں میڈیا سے وابستہ لوگ بھی پیش پیش رہے۔


Mian Asghar Saleemi February 02, 2013
بنگلہ دیش اپنے آقا بی سی سی آئی کی جھولی میں بیٹھ کر سپر لیگ میں اپنے کھلاڑی بجھوانے سے انکاری ہے۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں کہ کھانے کے دوران ایک نواب نے بینگن کی تعریف کر دی، مصاحب یہ موقع ہاتھ سے کیسے جانے دیتا، بولا کہ حضور بینگن واقعی لذیز ہیں، اللہ نے اسے سبزیوں کا بادشاہ بنایا ہے، دیکھیں، اس کے سر پر تاج بھی ہے، نواب بہت خوش ہوا اور زیادہ شوق سے بینگن کھانے لگا۔

ملازم نے مزید تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جناب بینگن کی کیا بات ہے، باہر سے چمکتا ہے اور کاٹیں تو اندر سے ہیرے جواہرات اور موتیوں کی لڑیاں نکلتی ہیں۔نواب صاحب نے جوش میں آ کر مزید بینگن کھا لئے اور بدہضمی کا شکار ہو گیا۔ صبح انہوں نے اسی مصاحب کو طلب کیا جس نے بینگن کی تعریفیں کر کے نواب کو اس مصیبت تک پہنچایا تھا۔ ملازم بولا کہ جناب بینگن بھی کوئی کھانے کی چیز ہے، رنگ کا کالا اور خدا جانے کس بات پر غرورکرتا ہے اور اللہ نے بطور سزا اس کے سر پر کیل بھی ٹھونک رکھی ہے۔ نواب نے حیران ہو کر مصاحب سے پوچھا کہ رات کو تو تم بینگن کی تعریفیں کر رہے تھے، اب اسے برا بھلا کہہ رہے ہو۔ مصاحب نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی کہ حضور میں آپ کا ملازم ہوں بینگن کا نہیں۔

نواب صاحب کے مصاحب کی طرح بیشتر ملکی محکموںکی طرح پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی ایسے خوش آمدیوں اور درباریوں کی کمی نہیں جو صرف اور صرف اپنے فائدے کے لئے کسی کو بھی بلیدان چڑھا سکتے ہیں۔ یہ ارباب اختیار کو خوش کرنے کے لئے ان کے ہر فیصلے پر واری واری جاتے ہیں، واہ واہ ماشاء اللہ چشم بددور،کیا خم ہے، کیا چال ہے، کیا دانش ہے، کیا پینترا بدلا ہے، کیا ذہانت ہے،کیا دبدبہ ہے،کیا پیادہ چلا ہے حالانکہ شیخ سعدی نے ایسے لوگوں سے دور رہنے ہی کا مشورہ دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ''خبردار کسی مفاد پرست سے اپنی تعریف نہ سننا وہ کنگال تجھ سے نفع کا امیدوار ہے، اگر تو کسی دن اس کی حاجت پوری نہ کر سکا تو تجھ میں سو عیب نکالے گا''۔ پی سی بی میں موجود اس خوشامدی ٹولے کی وجہ سے پاکستان کرکٹ کے میدان میں عالمی سطح پر تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ دنیائے کرکٹ کا ایک بھی بورڈ یا انٹرنیشنل تنظیم ایسی نہیں جو پاکستان کے ویران اور سنسنان گرائونڈز آباد کرنے میں سنجیدہ نظر آتی ہو۔

پاکستان سپر لیگ ہی کی مثال لے لیں، ہمسایہ ملکوں بھارت، سری لنکا یہاں تک کہ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ بھی اپنے کھلاڑی پاکستان بجھوانے کے لئے تیار نہیں، اور تو اور آسٹریلین کرکٹرز ایسوسی ایشن'' فیکا'' کے بعد اب توآسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور انگلش کرکٹ بورڈز نے بھی اپنے کھلاڑیوں کو پاکستان بجھوانے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے، اس سے پہلے بھی انٹرنیشنل ٹیموں کو پاکستان لانے کے لئے کیاکیا پاپڑ نہیں بیلے گئے، بنگلہ دیش کے عہدیداروں کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے قذافی سٹیڈیم کو جنگی محاذ میں تبدیل کر دیاگیا، مہمان ٹیم کی پاکستان آمد کی صورت میں اسے سربراہان مملکت کے برابر سکیورٹی فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی یہاں تک کہ آئی سی سی کی نائب صدارت کی اہم نشست بھی طشتری میں رکھ کر تحفہ میں دے دی گئی۔

لیکن بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم نے آنا تھا اور نہ ہی وہ ٹیم پاکستان کھیلنے کے لئے آئی، بی سی سی آئی وہ دن بھول گیا جب اس نے پی سی بی کے کندھے پر ہی سوار ہو کر ٹیسٹ اسٹیٹس کا کٹھن اور مشکل سفر طے کیا تھا۔ اب وہی بنگلہ دیش اپنے آقا بی سی سی آئی کی جھولی میں بیٹھ کر ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے اور سپر لیگ میں اپنے کھلاڑی بجھوانے سے انکاری ہے۔بھارت کو ہی لے لیں، حال ہی میں پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان سیریز کی وجہ سے اربوں روپے بی سی سی آئی کے خزانے میں گئے اس کے باوجود وہ بدستور اپنی ٹیم پاکستان بجھوانے میں ٹال مٹول کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے ۔

ورلڈ کپ میں ہماری خواتین کرکٹ ٹیم امن کی سفیر بن کر بھارت جاتی ہے تو انتہا پسند تنظیموں کے خوف اور ڈر کی وجہ سے میزبان ملک کا ایک بھی فائیو اسٹار ہوٹل انہیں مہمان بنانے کے لئے تیار نظر نہیں آتا۔ ہمیں یہ ماننا اور تسلیم کرنا پڑے گا کہ 7 ارب اور 10 لاکھ افراد کے اس جنگل میں شاید ہم اکیلے ہوتے جا رہے ہیں اورکوئی بھی ہمارا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں۔ مصیبت کے اس وقت میں اگر کوئی پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے تو وہ ہمارا ملکی میڈیا ہے جو ملکی کرکٹ کیخلاف ہونے والے عالمی پروپیگنڈہ کے سامنے نہ صرف سیسہ پلائی دیوار بنتا ہے بلکہ اپنے قلم کی طاقت سے ایک ماہر اور منجھے ہوئے سپاہی کی طرح اس کا بھر پور جواب بھی دیتا ہے لیکن اس مخلص طبقے کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔

انہیں این سی اے کے باہر بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے، پریس کانفرنس کے دوران من پسند سوال نہ پوچھنے والوں کوتڑیاں لگائی جاتی ہیں۔ابھی چند دن پہلے ہی کی بات ہے کہ جب غیر ملکی خبر رساں ادارے کی خاتون صحافی کو پی سی بی میں داخلے پر پابندی لگانے کی دھمکی دی گئی، اس کا قصور صرف اور صرف اتنا تھا کہ اس نے آئی سی سی کے سابق چیف ایگزیکٹو ہارون لوگارٹ سے سوال پوچھنے کی جسارت کی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر میڈیا سے وابستہ لوگ سوال نہیں پوچھیں گے تواورکون پوچھے گا۔کیا پی سی بی عہدیدار یہ بھول گئے کہ پاکستانی کرکٹ کو عالمی سطح پر روشناس کرانے، اس کی شناخت اور پہچان بنانے میں کھلاڑیوں کے ساتھ میڈیا سے وابستہ لوگ بھی پیش پیش رہے۔ اگر سن سکتے ہیں تو سنیں، صحافی برادری نے ملکی کرکٹ کو اپنے خون کے قلم کی نوک سے سینچا ہے، موسم گرما کی کڑکتی دھوپ ہو یا سردیوں کی ٹھٹھرتے دن اور راتیں، طوفانی آندھیاں ہو یا موسلا دھار بارشیں، یہ پڑھے لکھے مزدور ان مصیبتوں، پریشانیوں اور رکاوٹوںکو توڑتے ہوئے ملکی کرکٹ کی نیک نامی میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔

سچ پوچھیں تو قذافی سٹیڈیم اور کھیلوں سے وابستہ دوسرے ادارے ہی ہمارے اصلی گھر ہیں، دن بھر کی مزدوری کے بعد جب رات کو تھکے ہارے گھر پہنچتے ہیں تو ہمارے بچے ابو ابو کرتے سو چکے ہوتے ہیں اور صبح اٹھتے ہی اسکولوں کی راہ لے چکے ہوتے ہیں،اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے یہ مخلوق اپنے گھر والوں کے لئے اجنبی اور بیگانی ہو چکی ہے، کام کی زیادتی اور ڈپریشن کی وجہ سے السر، بلڈ پریشر، شوگر، دمہ اس طبقے کا مقدر بن چکا ہے۔اب آپ جو بھی سلوک کرنا چاہیے کر لیں، آپ کا راج ہے، آپ کا دور ہے، وقت کی لگامیں آپ کے ہاتھ میں ہیں، لیکن یاد رکھیں، تاریخ کا پہیہ بہت ظالم ہوتا ہے، یہ جب چلتا ہے تو سب کچھ الٹ دیتا ہے۔ نجانے کتنے آئے اور چلے گئے اور رہ گئی عبرت کی نشانیاں، وقت کا ریفرنس بہت کڑا ہوتا ہے، اس کی سماعت کبھی ٹھہرتی نہیں، اس کا فیصلہ بھی اٹل ہوتا ہے، اس بورڈ میں ایک ایسا بھی چیئرمین آیا، طاقت اور خوف ناک حد تک طاقت اس کے گھر کی باندی تھی، جس کا شاہکار نیشنل کرکٹ اکیڈمی کی صورت میں اب بھی لاہور میں موجود ہے۔

مفاد پرستوں نے اسے گھیرے میں لیا تو پھر ناکامیاں، مایوسیاں اس کا مقدر بن گئیں اور اسے اسی عالم میںگھر کی راہ لینا پڑی۔ ایک اور سربراہ بورڈ ایسا بھی تھا جس کی بدولت پی سی بی کے خالی خزانے لبا لب بھر گئے اور جس کے خیالات، نظریات، آئیڈیاز، دانشمندی، حکمت عملی اور کامیاب سفارتکاری کی مثالیں پوری دنیا دیتی تھی لیکن اس کے قریبی ساتھی ہی اسے لے ڈوبے، اپنی ذہانت، فطانت اور گھمنڈ میں قومی ٹیم کے ایک کپتان کو تین گھنٹے کمرے کے باہر بٹھائے رکھا، اسے وہ عزت نہ دی جو اس کا حق تھا جس کے بعد سفارتکاری کے تمام تر حربے اور نسخے ناکام رہے اور اسے بھی پی سی بی کو خیر باد کہنا پڑا۔اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس ملک کا ایک وزیر اعظم ایسا بھی ہوتا تھا جس کی شیروانی کے نیچے کرتا تک نہیں ہوتا تھا اور خاتون اول کے ہاتھ برتن مانجھتے مانجھتے پھٹ گئے تھے۔

ایک صدر ایسا بھی تھا جس کو آخری زندگی لندن کے ایک کرائے کے فلیٹ میں گزاری تھی، ایک حکمران عام مسافروں کے ساتھ نیویارک جاتا، ایک ایسا بھی نگران وزیراعظم تھا جو اقتدار میں آنے کے بعد لاہور میں اپنے اسی پرانے گھر میں مقیم رہا جہاں پر کال بیل نہیں تھی اور لوگ کنڈی بجا کر اپنی آمد کی اطلاع دیا کرتے۔کوئی ان سب کا ذکر اس لئے نہیں کرتا کہ ان کے کھاتے میں کوئی بڑا کارنامہ نہیں، انہوں نے کوئی نیا نظام نہیں دیا، کوئی اصلاح نہیں کی، اس لئے تاریخ نے انہیں بھلا دیا اور انسانی حافظے نے اسے فراموش کر دیا۔

جناب چیئرمین!آپ کی نیت پر کسی کو کوئی شک نہیں،آپ پی سی بی میں آئے ہیں تو بہت معاملات درست ہوئے ہیں۔ آپ کی انتھک کوششوں، کاوشوں کو دیکھتے ہوئے طویل عرصے کے بعد شائقین کرکٹ کو سونے گرائونڈز آباد ہونے کی کرن نظر آرہی ہے۔چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد کی قابلیت پر بھی کسی کو کوئی شک نہیں، یہ بورڈ کے وہی عہدیدار ہیں جنہوں نے اپنی دنیا آپ بنائی ہے اور جن کی صلاحیتوں کی قدر آئی سی سی اور دنیا کے دوسرے بورڈز آج بھی کرتے ہیں۔ آپ کی اگلی صفوں میں 70سالہ انتخاب عالم بھی موجود ہیں جن کی وطن اور کرکٹ سے محبت انہیں بوڑھا نہیں ہونے دیتی، بریٖگیڈیئر ساجد جیسے قابل، محنتی اور مخلص ساتھی بھی آپ کومیسر ہیں۔

سلام ہے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ان سپوتوں پر جو سال بھر میں زیادہ تراپنے چاہنے والوں، محبت کرنے والوں اور اپنے جگر گوشوں سے دور رہ کر دیار غیر میں پاکستان کا نام روشن کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، آئی سی سی کی عالمی رینکنگ میں ٹاپ پوزیشن پر آتے ہیں اوردنیا بھر میں پاکستان کی نیک نامی کے ساتھ مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور کرپشن کی ماری قوم کو خوشخبریاں سناتے ہیں۔ جناب چیئرمین، یہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ کمزوری دنیا کا سب سے بڑا جرم ہوتا ہے، اس دنیا میں صرف اور صرف وہ جاندار زندہ رہتے ہیں جن کے پنجے، دانت اور کھال مضبوط ہوتی ہے یا پھر وہ دوسرے درندوں سے تیز بھاگ سکتے ہیں، یہی اصول انسانوں، قوموں اور اداروں پربھی لاگو ہوتا ہے۔ ہم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری عاجزی، ہماری کمزوری اور ہماری خوش فہمی ہمیں بچا لے گی تو یہ محض ہماری خام خیالی ہے۔

آپ اچھے اور برے ساتھیوں میں تمیز کر کے نئے عزم، نئی ہمت، نئے ارادے کے ساتھ اٹھیں، شکست کو سر پر سوار نہ ہونے دیں بلکہ اسے پیروں تلے کچل دیں، پھر آپ خود دیکھیں گے کہ کل تک جو زمین بنجر تھی، وہاں لہلہاتے کھیت ہوں گے، کل تک جس دریا میں پانی کی کمی تھی وہاں طوفان آیا ہوگا، جو گرائونڈز سنسان، بیابان اور ویران ہیں وہاں عالمی کرکٹ میلے سجے ہوں گے اور شائقین کرکٹ اپنے ملکی اور غیر ملکی اسٹارکرکٹرز کے فلک بوس چوکوں اور چھکوں کو دیکھ کر تالیاں بجا رہے ہوں گ اور ہنستے مسکراتے چہروں اور روشن پیشانیوں کیساتھ انہیں داد دے رہے ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں