عید نام ہے خوشی کا
کیا ہر خوشی عید ہوتی ہے؟…کیا عید ہر ایک کے لیے خوشی ہوتی ہے؟ ہر خوشی تو عید ہو سکتی ہے
آپ سب کو عید اور عید کی ڈھیروں خوشیاں مبارک ہوں!بچپن میں اور آج کی عیدوں میں کتنا نمایاں فرق ہے... وہ عمر بے فکری اور لاپروائی کی تھی، کوئی ذمے داری تھی نہ کوئی فکر و فاقہ۔ عمر چھوٹی، خواہشات چھوٹی، جھگڑے چھوٹے، غم چھوٹے اور خوشیاں بھی چھوٹی۔ چھوٹی باتوں پر جھگڑ پڑتے اور جلد ہی مان جاتے، یہ بچپن کی سب سے اچھی بات تھی، اب تو دل و دماغ پر بڑا پن اس قدر سوار ہو گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر لمبی لمبی ناراضگیاں چلتی ہیں، عمروں کے سفر ختم ہو جاتے ہیں مگر ناراضگیاں ساتھ ہی چلتی ہیں، مرنے مرانے پر بھی نہ ملنے کی نوبت آ جاتی ہے۔
غم بھی کیا تھے، چڑیا کے گھونسلے سے اس کا بچہ گر جانا، اسکول کی چھٹیوں کا ایک دن کے لیے مختصر ہو جانا، کسی سرکاری چھٹی کی تاریخ اتوار کے دن آ جانا، اسکول کا ہوم ورک مکمل نہ ہونا، سب سے اچھے دوست کا کسی وجہ سے اسکول سے چھٹی کر لینا اور ہمارا تفریح کا گھنٹہ بوریت میں گزارنا، کسی سنگی ساتھی کا ہم سے ایک نمبر زیادہ لے کر امتحان پاس کر لینا۔
کسی دوست کا ناراض ہو جانا سب سے بڑا غم ہوتا تھا، دونوں فریقین کوشش کرتے کہ کسی طرح دوستی بھی ہوجائے، یوں کہ چھوٹی سی ناک بھی بلند رہے، دوست کا دل بھی صاف ہو جائے اور دوستی پہلے سے بھی مضبوط ہو جائے۔ کبھی کسی حیلے سے اور کبھی کسی بہانے سے ناراض دوستوں کو چوری چھپے تکنا اور مسکرانا!
بچپن وہ عہد ہے جب انسان زندگی کے ہر لمحے سے یادیں کشید کرتا ہے، عمر کے ہر حصے میں ہمیں بارہا بچپن یاد آتا ہے۔ ہم اپنے بچوں اور پھر ان کے بچوں کو بھی بتاتے ہیںکہ ہم بچپن میں یوں کرتے تھے ، یوں کھیلتے تھے، یوں پڑھتے تھے۔ آج کل فرصت انتہا کی ہے اور سوچوں کے سمندر میں غوطے کھاتے ہوئے وقت گزرتا ہے۔ پردیس میں عید آئی ہے، وطن جیسا خوشی کا احساس تو نہیں ہے مگر یہ معلوم ہے کہ ماہ رمضان کے اختتام پر اللہ تعالی کی طرف سے جو دن انعام کی صورت عطا ہوا ہے، اسے روز عید کہتے ہیں، عید کا مطلب ہے خوشی۔
...کیا ہر خوشی عید ہوتی ہے؟...کیا عید ہر ایک کے لیے خوشی ہوتی ہے؟ ہر خوشی تو عید ہو سکتی ہے مگر عید ہر ایک کے لیے خوشی کا باعث نہیں ہو سکتی۔ اللہ کی تقسیم ہے، وہ بے نیاز ہے اور سارے بھید وہ جانتا ہے، کسی کو دے کر آزماتا ہے اور کسی کو نہ دے کر اور کسی سے دیا ہوا چھین کر۔ بڑے بڑے نامی اس دنیا میں آئے اور چلے گئے، عام انسان بھی ابتدائے حیات سے اربوں کھربوں کے حساب سے آ کر جا چکے مگر کسی کا نام اگر آج تک زندہ ہے یا رہتی دنیا تک زندہ رہے گا تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی حیات کے مقصد کو پا لیا، اپنے خالق کے پیغام کو سمجھا اور دوسروں کی خوشی اپنی حیات کا مقصد بنا لیا۔ اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں، اپنے پیٹ کی خاطر تو ہر کوئی کام کرتا ہے اور اپنی خوشی تو ہر ایک کو مقدم ہے۔
غم بانٹنے سے کم ہوتے ہیں اور خوشیاں بانٹنے سے زیادہ۔ جب آپ اپنی خوشی میں کسی کو حصہ دار بناتے ہیں اور کسی کے ہونٹوں پر آپ کی وجہ سے مسکراہٹ آتی ہے تو وہ مسکراہٹ ہی آپ کو اصل خوشی دیتی ہے۔ کینیڈا میں قیام کے دوران جس قسم کی دلچسپ خبروں اور تجزیوں سے آگاہی ہو رہی ہے وہ شئیر کرنے کے قابل ہیں۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جو اپنے ساتھوں اور رفقاء کے ساتھ مل کر اپنے ہاتھوں سے شامی پناہ گزینوں کے لیے افطار اور عید کے پیکٹ بنا کر تقسیم کے لیے تیار کر رہے ہیں، جس طریقے سے انھوں نے شام سے آنے والے لٹے پٹے قافلوں کا ائیر پورٹ پر استقبال کیا تھا اور ان کی فلاح اور بحالی کے لیے ہنگامی طور پر احکامات جاری کیے، ان کے لیے فوری رہائشوں کا بندوبست کیا، ملازمتوں میں اس کے لیے گنجائش نکالی گئی۔
اسی طرح اس کا مساجد میں جا کر مسلمانوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر افطاری کرنا، خطبات سننا، لوگوں میں گھل مل جانا، ان کے ساتھ تصاویر بنوانا۔ بلاشبہ وہ ایک ایسا حکمران ہے جس کے بارے میں اس کے اپنے ملک کے لوگ بھی مثبت رائے رکھتے ہیں۔ یہی ایک کامیاب لیڈر کے اوصاف اور حکومت کرنے والے کے طور اطوار ہونا چاہئیں۔ ہمارے ملک کے سیاسی کارکنان اور حکمرانوں کے لیے ایسی مثالیں قابل تقلید ہیں۔ ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ صرف وہ کلمہ پڑھ لے تو جنتی ہے... ہم جانے کہاں سے جنت اور جہنم کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں!! خود جیسے تیسے بھی مسلمان ہوں دوسروں کو روبہ اسلام کرنے کو ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔
ایسی مثالیں ہمیں ماضی کے وہ ادوار یاد دلا دیتی ہیں جب ہجرت کر کے لٹے پٹے قافلے مدینہ پہنچے تو ان کی مدد کو انصار کس طرح تیار تھے، ان لوگوں کی مثال تاریخ میں ڈھونڈنا مشکل ہے کہ اپنے محدود وسائل میں بھی انھوں نے اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو شامل کیا۔ انھیں گھر، مال دولت اور ہر چیز میں سے حصہ دیا تا کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔
رمضان میں غریبوں کی مدد کے لیے ہمارے مذہب نے جو طریقہء کار یعنی زکوۃ رکھا ہے، اس کی فرضیت ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کے بیچ کے عرصے میں ہمارے پاس موجود نصاب کی ہے، اگرچہ ہم زکوۃ کو سال کے کسی بھی حصے میں ادا کر سکتے ہیں یا سال بھر پر پھیلا کر بھی ادا کر سکتے ہیں مگر اس کی عین رمضان سے پہلے نصاب کے حساب کتاب سے اس بات کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ رمضان اور پھر اس کے بعد عید کے وقت ہمارے مستحق بہن بھائی سب سے زیادہ ہماری توجہ چاہتے ہیں۔
انھیں بھی اپنی خوشیوں میں شریک کرنا لازم ہے، اس کی مثال آج سے چودہ سو برس پہلے آنحضور ﷺ نے قائم کی تھی جنہوں نے عید کے موقع پر یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر انھیں کہا تھا کہ وہ محمد کو اپنا باپ سمجھیں، صرف اس لیے کہ وہ بچے لاوارث اور بے سہارا تھے، ان کے سروں پر دست شفقت رکھ دینے سے بڑھ کر عید کی خوشی اور کیا ہو سکتی تھی۔ ہم اب عمر کے اس حصے میں ہیں جب عید کی خوشیاں اس طرح محسوس نہیں ہوتیں، بچے پاس ہوں تو ہر دن عید کا سا لگنے لگتا ہے مگر ایسے دن بھی زندگی میں اب قسمت سے ہی آتے ہیں کہ اپنے سارے بچے اکٹھے ہمارے پاس ہوں۔
عید کے لیے نئے کپڑے، ہاتھوں کی ہتھیلیوں میں سجی مہندی، کلائیوں میں دھنک رنگوں کی چوڑیاں ، عید کے روز صبح سویرے اٹھ کر تیار ہو کر مردوں اور لڑکوں کا نماز عید کے لیے مسجد جانا اور عورتوں اور لڑکیوںکا ان کی واپسی کا انتظار کرنا... گلے مل کر اپنے پیاروں کو عید مبارک کہنا، شیر خورمے سے ناشتے کا آغاز کرنا اور پھر دن بھر رنگ برنگے پکوان کھانا۔ اڑوس پڑوس میں کھانے کی تھالیوں اور پلیٹوں کے ہوتے ہوئے تبادلے... ایک دوسرے کی عید کی تیاریوں کو سراہنا، مانگ مانگ کر عیدی وصول کرنا، ( اب تو بچے جھجک جاتے ہیں، مانگ کر عیدی نہیں لیتے کیونکہ اس سے ان کی عزت کم ہوتی ہے) ، دوستوں سے ملنے کو جانا، ان کے عید کے کپڑوں سے اپنے کپڑوں کا مقابلہ، عیدی سے اپنی عیدی کا موازنہ...عید کے خصوصی میلوں پر اپنے بڑوں کے ساتھ جانا اور جھولے جھولنا۔ عیدی کے بچے ہوئے پیسوں کے خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کرنا!!
اب یہ سب ماضی ہوا اور ایسا ماضی کہ لگتا ہے ہمارے بعد سب کچھ تبدیل ہو گیا ہے، عید ویسی نہیں رہی، نہ ہمارے لیے نہ ہمارے بچوں کے لیے۔ بچوں کو تو اب کوئی چیز خوش نہیں کرتی، نہ کوئی رقم ، نہ کوئی لباس، نہ کہیں کی سیر، نہ کہیں کاکھانا ۔ ہم اپنے بچوں کو خوش کرنے کی کوششوں میں نڈھال ہوئے جاتے ہیں، بلکہ یہ مسئلہ ہمارے بچوں کے ساتھ زیادہ ہے، ہمارے بچے تو اب بھی کسی حد تک بہتر ہیں، اس سے اگلی نسل کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہم نے ان کو شروع دن سے جن تعیشات کا عادی بنا دیا ہے اس سے آگے خوشیوں کی کوئی اور حد نہیں ہے۔
اس کا سب سے بہتر حل یہ ہے کہ اپنے ارد گرد ایسے بچوں کو ڈھونڈیں جو ضرورت مند اور اللہ تعالی کی طرف سے کم مراعات یافتہ ہیں، آپ کی وہ کم رقم جو آپ کے بچوں کو خوشی نہیں دے سکتی، وہی رقم ممکن ہے کہ ایسے ایک نہیں بلکہ کئی بچوں کو وہ خوشیاں دے دے، وہ خوشیاں جو عید کہلاتی ہیں اور عید کی اصل روح ہیں!!
غم بھی کیا تھے، چڑیا کے گھونسلے سے اس کا بچہ گر جانا، اسکول کی چھٹیوں کا ایک دن کے لیے مختصر ہو جانا، کسی سرکاری چھٹی کی تاریخ اتوار کے دن آ جانا، اسکول کا ہوم ورک مکمل نہ ہونا، سب سے اچھے دوست کا کسی وجہ سے اسکول سے چھٹی کر لینا اور ہمارا تفریح کا گھنٹہ بوریت میں گزارنا، کسی سنگی ساتھی کا ہم سے ایک نمبر زیادہ لے کر امتحان پاس کر لینا۔
کسی دوست کا ناراض ہو جانا سب سے بڑا غم ہوتا تھا، دونوں فریقین کوشش کرتے کہ کسی طرح دوستی بھی ہوجائے، یوں کہ چھوٹی سی ناک بھی بلند رہے، دوست کا دل بھی صاف ہو جائے اور دوستی پہلے سے بھی مضبوط ہو جائے۔ کبھی کسی حیلے سے اور کبھی کسی بہانے سے ناراض دوستوں کو چوری چھپے تکنا اور مسکرانا!
بچپن وہ عہد ہے جب انسان زندگی کے ہر لمحے سے یادیں کشید کرتا ہے، عمر کے ہر حصے میں ہمیں بارہا بچپن یاد آتا ہے۔ ہم اپنے بچوں اور پھر ان کے بچوں کو بھی بتاتے ہیںکہ ہم بچپن میں یوں کرتے تھے ، یوں کھیلتے تھے، یوں پڑھتے تھے۔ آج کل فرصت انتہا کی ہے اور سوچوں کے سمندر میں غوطے کھاتے ہوئے وقت گزرتا ہے۔ پردیس میں عید آئی ہے، وطن جیسا خوشی کا احساس تو نہیں ہے مگر یہ معلوم ہے کہ ماہ رمضان کے اختتام پر اللہ تعالی کی طرف سے جو دن انعام کی صورت عطا ہوا ہے، اسے روز عید کہتے ہیں، عید کا مطلب ہے خوشی۔
...کیا ہر خوشی عید ہوتی ہے؟...کیا عید ہر ایک کے لیے خوشی ہوتی ہے؟ ہر خوشی تو عید ہو سکتی ہے مگر عید ہر ایک کے لیے خوشی کا باعث نہیں ہو سکتی۔ اللہ کی تقسیم ہے، وہ بے نیاز ہے اور سارے بھید وہ جانتا ہے، کسی کو دے کر آزماتا ہے اور کسی کو نہ دے کر اور کسی سے دیا ہوا چھین کر۔ بڑے بڑے نامی اس دنیا میں آئے اور چلے گئے، عام انسان بھی ابتدائے حیات سے اربوں کھربوں کے حساب سے آ کر جا چکے مگر کسی کا نام اگر آج تک زندہ ہے یا رہتی دنیا تک زندہ رہے گا تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی حیات کے مقصد کو پا لیا، اپنے خالق کے پیغام کو سمجھا اور دوسروں کی خوشی اپنی حیات کا مقصد بنا لیا۔ اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں، اپنے پیٹ کی خاطر تو ہر کوئی کام کرتا ہے اور اپنی خوشی تو ہر ایک کو مقدم ہے۔
غم بانٹنے سے کم ہوتے ہیں اور خوشیاں بانٹنے سے زیادہ۔ جب آپ اپنی خوشی میں کسی کو حصہ دار بناتے ہیں اور کسی کے ہونٹوں پر آپ کی وجہ سے مسکراہٹ آتی ہے تو وہ مسکراہٹ ہی آپ کو اصل خوشی دیتی ہے۔ کینیڈا میں قیام کے دوران جس قسم کی دلچسپ خبروں اور تجزیوں سے آگاہی ہو رہی ہے وہ شئیر کرنے کے قابل ہیں۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جو اپنے ساتھوں اور رفقاء کے ساتھ مل کر اپنے ہاتھوں سے شامی پناہ گزینوں کے لیے افطار اور عید کے پیکٹ بنا کر تقسیم کے لیے تیار کر رہے ہیں، جس طریقے سے انھوں نے شام سے آنے والے لٹے پٹے قافلوں کا ائیر پورٹ پر استقبال کیا تھا اور ان کی فلاح اور بحالی کے لیے ہنگامی طور پر احکامات جاری کیے، ان کے لیے فوری رہائشوں کا بندوبست کیا، ملازمتوں میں اس کے لیے گنجائش نکالی گئی۔
اسی طرح اس کا مساجد میں جا کر مسلمانوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر افطاری کرنا، خطبات سننا، لوگوں میں گھل مل جانا، ان کے ساتھ تصاویر بنوانا۔ بلاشبہ وہ ایک ایسا حکمران ہے جس کے بارے میں اس کے اپنے ملک کے لوگ بھی مثبت رائے رکھتے ہیں۔ یہی ایک کامیاب لیڈر کے اوصاف اور حکومت کرنے والے کے طور اطوار ہونا چاہئیں۔ ہمارے ملک کے سیاسی کارکنان اور حکمرانوں کے لیے ایسی مثالیں قابل تقلید ہیں۔ ہمارے لوگ کہتے ہیں کہ صرف وہ کلمہ پڑھ لے تو جنتی ہے... ہم جانے کہاں سے جنت اور جہنم کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں!! خود جیسے تیسے بھی مسلمان ہوں دوسروں کو روبہ اسلام کرنے کو ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔
ایسی مثالیں ہمیں ماضی کے وہ ادوار یاد دلا دیتی ہیں جب ہجرت کر کے لٹے پٹے قافلے مدینہ پہنچے تو ان کی مدد کو انصار کس طرح تیار تھے، ان لوگوں کی مثال تاریخ میں ڈھونڈنا مشکل ہے کہ اپنے محدود وسائل میں بھی انھوں نے اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو شامل کیا۔ انھیں گھر، مال دولت اور ہر چیز میں سے حصہ دیا تا کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔
رمضان میں غریبوں کی مدد کے لیے ہمارے مذہب نے جو طریقہء کار یعنی زکوۃ رکھا ہے، اس کی فرضیت ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کے بیچ کے عرصے میں ہمارے پاس موجود نصاب کی ہے، اگرچہ ہم زکوۃ کو سال کے کسی بھی حصے میں ادا کر سکتے ہیں یا سال بھر پر پھیلا کر بھی ادا کر سکتے ہیں مگر اس کی عین رمضان سے پہلے نصاب کے حساب کتاب سے اس بات کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ رمضان اور پھر اس کے بعد عید کے وقت ہمارے مستحق بہن بھائی سب سے زیادہ ہماری توجہ چاہتے ہیں۔
انھیں بھی اپنی خوشیوں میں شریک کرنا لازم ہے، اس کی مثال آج سے چودہ سو برس پہلے آنحضور ﷺ نے قائم کی تھی جنہوں نے عید کے موقع پر یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر انھیں کہا تھا کہ وہ محمد کو اپنا باپ سمجھیں، صرف اس لیے کہ وہ بچے لاوارث اور بے سہارا تھے، ان کے سروں پر دست شفقت رکھ دینے سے بڑھ کر عید کی خوشی اور کیا ہو سکتی تھی۔ ہم اب عمر کے اس حصے میں ہیں جب عید کی خوشیاں اس طرح محسوس نہیں ہوتیں، بچے پاس ہوں تو ہر دن عید کا سا لگنے لگتا ہے مگر ایسے دن بھی زندگی میں اب قسمت سے ہی آتے ہیں کہ اپنے سارے بچے اکٹھے ہمارے پاس ہوں۔
عید کے لیے نئے کپڑے، ہاتھوں کی ہتھیلیوں میں سجی مہندی، کلائیوں میں دھنک رنگوں کی چوڑیاں ، عید کے روز صبح سویرے اٹھ کر تیار ہو کر مردوں اور لڑکوں کا نماز عید کے لیے مسجد جانا اور عورتوں اور لڑکیوںکا ان کی واپسی کا انتظار کرنا... گلے مل کر اپنے پیاروں کو عید مبارک کہنا، شیر خورمے سے ناشتے کا آغاز کرنا اور پھر دن بھر رنگ برنگے پکوان کھانا۔ اڑوس پڑوس میں کھانے کی تھالیوں اور پلیٹوں کے ہوتے ہوئے تبادلے... ایک دوسرے کی عید کی تیاریوں کو سراہنا، مانگ مانگ کر عیدی وصول کرنا، ( اب تو بچے جھجک جاتے ہیں، مانگ کر عیدی نہیں لیتے کیونکہ اس سے ان کی عزت کم ہوتی ہے) ، دوستوں سے ملنے کو جانا، ان کے عید کے کپڑوں سے اپنے کپڑوں کا مقابلہ، عیدی سے اپنی عیدی کا موازنہ...عید کے خصوصی میلوں پر اپنے بڑوں کے ساتھ جانا اور جھولے جھولنا۔ عیدی کے بچے ہوئے پیسوں کے خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کرنا!!
اب یہ سب ماضی ہوا اور ایسا ماضی کہ لگتا ہے ہمارے بعد سب کچھ تبدیل ہو گیا ہے، عید ویسی نہیں رہی، نہ ہمارے لیے نہ ہمارے بچوں کے لیے۔ بچوں کو تو اب کوئی چیز خوش نہیں کرتی، نہ کوئی رقم ، نہ کوئی لباس، نہ کہیں کی سیر، نہ کہیں کاکھانا ۔ ہم اپنے بچوں کو خوش کرنے کی کوششوں میں نڈھال ہوئے جاتے ہیں، بلکہ یہ مسئلہ ہمارے بچوں کے ساتھ زیادہ ہے، ہمارے بچے تو اب بھی کسی حد تک بہتر ہیں، اس سے اگلی نسل کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہم نے ان کو شروع دن سے جن تعیشات کا عادی بنا دیا ہے اس سے آگے خوشیوں کی کوئی اور حد نہیں ہے۔
اس کا سب سے بہتر حل یہ ہے کہ اپنے ارد گرد ایسے بچوں کو ڈھونڈیں جو ضرورت مند اور اللہ تعالی کی طرف سے کم مراعات یافتہ ہیں، آپ کی وہ کم رقم جو آپ کے بچوں کو خوشی نہیں دے سکتی، وہی رقم ممکن ہے کہ ایسے ایک نہیں بلکہ کئی بچوں کو وہ خوشیاں دے دے، وہ خوشیاں جو عید کہلاتی ہیں اور عید کی اصل روح ہیں!!