دو اہم کتابیں
یہ وہ ضروری باتیں تھیں جن کے ذریعے مصنف نے نو آموز شعرا کو ایک سبق دیا ہے
حال ہی میں دو اہم کتابیں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی ہیں، پہلی کتاب ''عروض اور تقطیع'' اور دوسری کتاب کا نام ''بے قراری سی بے قراری ہے''۔ اول الذکر کتاب کا تعارف مصنف نے دو جملوں میں خود ہی کروا دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ''ہماری کتاب عروض اور تقطیع کا تعلق نظم ہے، ہم اسی علم کے ذریعے شعر کی اصلیت سے واقف ہوتے ہیں، شعر کا پوسٹ مارٹم ہی تقطیع کہلاتا ہے۔
دوم میں کہانیاں، افسانے اور فکاہیے شامل ہیں، دونوں کتابوں کے مصنف پروفیسر عزیز جبران انصاری ہیں۔ مجھ جیسا کم علم قاری عروض اور تقطیع جیسی کتاب کو پڑھ کر حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے کہ بھائی عزیز جبران انصاری نے علم کے سمندر کو جوکہ شاعری کی گرامر کی شکل میں ہے، کوزے میں بند کردیا ہے۔ انھوں نے بذات خود شاعرانہ روش کو اختیار کرتے ہوئے کتاب کی اہمیت اور افادیت سے اس طرح آگاہ کیا ہے اور ایک قطعہ تاریخ لکھ دیا ہے۔
چودہ سو اڑتیس ہجری، بیس سو سترہ عزیز
اہل فن کے واسطے بے مثل ہے تحفہ عزیز
نام ہی سے نفس مضمون ہورہا ہے آشکار
ہے رموز شاعری کا یہ نیا چہرہ عزیز
ایک سو پینتالیس گر اس نام میں شامل کریں
خود بخود سال اشاعت پائیں گے عمدہ عزیز
عروض =1076 اور 207+تقطیع=589
1872-2017=145-1872=2017ء
انصاری کی اب تک 21 کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جب کہ چار کتابیں زیر طبع ہیں، ان کی تمام کتابیں مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان کی تخلیقات میں شعری اور افسانوی مجموعے شامل ہیں، مختلف پرچوں اور اخبارات میں 1978 سے کالم نگاری، میگزین ایڈیٹر، سب ایڈیٹر اور (نگران ادبی صفحہ) ادبی کالم نگار کی حیثیت سے ادبی خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور آج بھی جب کہ وہ کافی عرصے سے علیل ہیں، ان کے صاحبزادے بھی کئی سال سے تکلیف دہ مرض میں مبتلا ہیں، ان حالات میں بھی ان کا قلم اور قرطاس سے رشتہ کل کی طرح آج بھی مضبوط ہے۔
ادبی امور کے حوالے سے انھیں اعزازات اور ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا اور 2000 میں شاخ ادب پنجاب کی جانب سے ان کی تاج پوشی کرکے ان کی تخلیقی و تعمیری خوبیوں کا اعتراف کیا گیا۔عزیز جبران انصاری نے اپنی کتاب پر خود ہی مقدمہ بھی لکھا ہے، یقیناً وہ خاصے کی چیز ہے، جس کا مطالعہ ہر صاحب علم اور خصوصاً ان شعرا کیلیے بے حد ضروری ہے، جنھوں نے شعر و سخن کے میدان میں قدم رکھے ہیں، جمائے نہیں، اس بات کی وضاحت پروفیسر عزیز جبران انصاری نے اپنے مضمون میں بے حد خلوص کے ساتھ کی ہے۔
''میں ان طالبان علم و فن کو خوش آمدید کہتا ہوں، جو شاعری سے شغف رکھتے ہیں، شاعر بننا چاہتے ہیں یا رموز شاعری سے آگہی کے طلب گار ہیں، اس میں شک نہیں کہ شاعری عطیہ الٰہی ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ فن سے آگاہی اس عطیہ کو جلا بخشتی ہے اور اگر ہم فن شاعری سے ناواقف ہیں، ہمیں الفاظ برتنے کا سلیقہ نہیں آتا اور اگر ہم مشاہدے اور مطالعے سے محروم ہیں، اگر ہم شعر کے محاسن و مصائب سے واقفیت نہیں رکھتے، اگر ہمیں بحروں کا علم نہیں ہے اور اگر ہم وزن کی کسوٹی پر اسے نہیں پرکھ سکتے تو یہ عطیہ الٰہی خودبخود دم توڑ دے گا یا پھر صرف چند الفاظ کے گرد گھومتا رہے گا، لیکن بحر و وزن کے بغیر یہ محدود دائرہ بھی قائم نہیں رہ سکتا، اگر ہم شاعری کے لیے سنجیدہ ہیں، تو ہمیں محنت کرنی ہوگی، شاعری کے لیے ضروری چیزیں سیکھنی ہوں گی۔ مگر افسوس آج ہم اس جانب توجہ نہیں دیتے، ہم بحر و وزن کے جھنجھٹ میں پڑنا نہیں چاہتے، مگر شعر کہنا ضروری خیال کرتے ہیں اور کامل شاعر بھی کہلانا چاہتے ہیں۔''
یہ وہ ضروری باتیں تھیں جن کے ذریعے مصنف نے نوآموز شعرا کو ایک سبق دیا ہے۔ نوآموز ہونا اپنی جگہ لیکن ہم نے بے شمار شعرا و ادبا کو دیکھا، پڑھا اور سنا ہے جو بے وزن اشعار بڑے اعتماد سے سناتے اور رسالوں میں چھپواتے ہیں، اپنی اصلاح کرنا گویا توہین سمجھتے ہیں، نہ وزن کا پتا اور نہ بحر کا، عمریں یوں ہی گزار دیں۔ بقول ناقدین کے ایک ڈھنگ کا شعر نہ کہہ سکے یا فلاں کے مجموعے میں ایک مصرعہ ایسا نہیں جو قاری کی توجہ مبذول کراسکے۔
عزیز جبران انصاری کی ایک کتاب رموز شاعری کے عنوان سے 31 سال پہلے شایع ہوئی تھی اور اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کتاب کے اب تک تین ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں اور بقول جبران انصاری کے یہ کتاب ہی میری پہچان بنی اور یہ بات میرے لیے نہایت قابل فخر ہے۔
بے شک ہونا بھی چاہیے، جب اللہ کا کرم شامل ہو تو محنت ضرور رنگ لاتی ہے اور بات آگے بڑھتی ہے اور مثل گل تازہ کے خوشبو دور دور تک بکھرتی ہے۔ مصنف کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس وقت بھی عروض کے حوالے سے کئی کتابیں مارکیٹ میں ہیں لیکن ان کتابوں کے خریدار اپنی رقم کے زیاں پر افسوس کرتے ہیں اور بالآخر وہ ''رموز شاعری'' کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
شاعری کی اہمیت سے مصنف نے اس طرح آگاہ کیا ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کا قول ہے کہ شاعری خود ایک کمال ہے، اگر کسی شخص میں صحیح طور پر موجود ہو تو اس کے سامنے دوسرے تمام کمال ہیچ ہیں۔ شیلے کا کہنا ہے کہ اخلاقیات کی بنیادیں واعظوں کے ہاتھوں نہیں بلکہ شاعروں کے ہاتھوں رکھی جاتی ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے فرمایا ہے کہ شریفانہ اخلاق پیدا کرنے کا شاعری سے بہتر کوئی آلہ نہیں ہوسکتا، علم اخلاق ایک مستقل فن ہے اور فلسفہ ایک جزو عظیم ہے۔
مولانا حالی نے شاعری پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک اچھے شاعر میں تین صفات ضرور ہونی چاہئیں۔ نمبر ایک تخیل، نمبر دو کائنات کا مطالعہ، نمبر تین تفحص (مطالعہ) ہے۔ مصنف نے عروض کی تعریف اس طرح کی ہے کہ عروض اسم مذکر ہے اور عربی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی مکہ معظمہ، بیت اللہ، کعبۃ اللہ، کعبہ عروض کے دوسرے معنی میں یہ اسم مونث ہے اور وہ علم جس سے بحور اشعار کے اوزان معلوم ہوتے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ کے مطابق تقطیع اسم مونث ہے اور اس کے معنی ہیں ٹکڑے ٹکڑے کرنا، بیت (شعر) کے اجزا کو بحر کے اجزا کے ساتھ برابر کرکے تولنا۔
کتاب میں 18 ابواب میں، ہر باب مکمل طور پر اور مفکرین کی آرا کے حوالے سے شاعری کے رموز پر روشنی ڈالتا ہے۔ باب ایک میں عروض کی ابتدا اور شعر کے اوزان کی ابتدا کو موضوع بناکر شعرا کے لیے اہم معلومات کے خزانے کا منہ کھول دیا گیا ہے۔ دلیل اور حوالوں کے ساتھ یہی حال دوسرے اسباق کا ہے۔
باب نمبر 2 میں زحاف کی تعریف اس طرح کی ہے کہ علم عروض میں زحاف سے مراد وہ تبدیلیاں ہیں جو کسی بحر کے رکن میں معین قواعد کے مطابق عمل میں لائی جاتی ہیں۔ باب 17 میں ''بے لاگ'' (تیکھا کالم) کے عنوان سے 2013 سے 2017 میں پیش کی گئیں غزلیات کی تقطیع اور غزلیات کے محاسن اور مصائب کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے، جو قابل تحسین ہے۔
''بے قراری سی بے قراری'' نامی کتاب میں عزیز جبران انصاری کی بے قراریاں اور بے چینیاں ان کی تحریروں سے عیاں ہیں، انھوں نے معاشرتی تلخیوں اور سچائیوں کو افسانوں کے پیکر میں بے حد عمدہ طریقے سے ڈھالا ہے۔ یہ افسانے قاری کو متاثر کرتے ہیں اور غور و فکر کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان کی دونوں کتابوں کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ہمارے ملک میں علم و ادب کے حوالے سے کیسے کیسے لعل و گوہر ہیں جو بہت سے لوگوں سے پوشیدہ ہیں۔ اس کی وجہ اقربا پروری ادبی بددیانتی کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اہل علم ان کی قابلیت اور صلاحیت سے بخوبی واقف ہیں۔
دوم میں کہانیاں، افسانے اور فکاہیے شامل ہیں، دونوں کتابوں کے مصنف پروفیسر عزیز جبران انصاری ہیں۔ مجھ جیسا کم علم قاری عروض اور تقطیع جیسی کتاب کو پڑھ کر حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے کہ بھائی عزیز جبران انصاری نے علم کے سمندر کو جوکہ شاعری کی گرامر کی شکل میں ہے، کوزے میں بند کردیا ہے۔ انھوں نے بذات خود شاعرانہ روش کو اختیار کرتے ہوئے کتاب کی اہمیت اور افادیت سے اس طرح آگاہ کیا ہے اور ایک قطعہ تاریخ لکھ دیا ہے۔
چودہ سو اڑتیس ہجری، بیس سو سترہ عزیز
اہل فن کے واسطے بے مثل ہے تحفہ عزیز
نام ہی سے نفس مضمون ہورہا ہے آشکار
ہے رموز شاعری کا یہ نیا چہرہ عزیز
ایک سو پینتالیس گر اس نام میں شامل کریں
خود بخود سال اشاعت پائیں گے عمدہ عزیز
عروض =1076 اور 207+تقطیع=589
1872-2017=145-1872=2017ء
انصاری کی اب تک 21 کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جب کہ چار کتابیں زیر طبع ہیں، ان کی تمام کتابیں مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان کی تخلیقات میں شعری اور افسانوی مجموعے شامل ہیں، مختلف پرچوں اور اخبارات میں 1978 سے کالم نگاری، میگزین ایڈیٹر، سب ایڈیٹر اور (نگران ادبی صفحہ) ادبی کالم نگار کی حیثیت سے ادبی خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور آج بھی جب کہ وہ کافی عرصے سے علیل ہیں، ان کے صاحبزادے بھی کئی سال سے تکلیف دہ مرض میں مبتلا ہیں، ان حالات میں بھی ان کا قلم اور قرطاس سے رشتہ کل کی طرح آج بھی مضبوط ہے۔
ادبی امور کے حوالے سے انھیں اعزازات اور ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا اور 2000 میں شاخ ادب پنجاب کی جانب سے ان کی تاج پوشی کرکے ان کی تخلیقی و تعمیری خوبیوں کا اعتراف کیا گیا۔عزیز جبران انصاری نے اپنی کتاب پر خود ہی مقدمہ بھی لکھا ہے، یقیناً وہ خاصے کی چیز ہے، جس کا مطالعہ ہر صاحب علم اور خصوصاً ان شعرا کیلیے بے حد ضروری ہے، جنھوں نے شعر و سخن کے میدان میں قدم رکھے ہیں، جمائے نہیں، اس بات کی وضاحت پروفیسر عزیز جبران انصاری نے اپنے مضمون میں بے حد خلوص کے ساتھ کی ہے۔
''میں ان طالبان علم و فن کو خوش آمدید کہتا ہوں، جو شاعری سے شغف رکھتے ہیں، شاعر بننا چاہتے ہیں یا رموز شاعری سے آگہی کے طلب گار ہیں، اس میں شک نہیں کہ شاعری عطیہ الٰہی ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ فن سے آگاہی اس عطیہ کو جلا بخشتی ہے اور اگر ہم فن شاعری سے ناواقف ہیں، ہمیں الفاظ برتنے کا سلیقہ نہیں آتا اور اگر ہم مشاہدے اور مطالعے سے محروم ہیں، اگر ہم شعر کے محاسن و مصائب سے واقفیت نہیں رکھتے، اگر ہمیں بحروں کا علم نہیں ہے اور اگر ہم وزن کی کسوٹی پر اسے نہیں پرکھ سکتے تو یہ عطیہ الٰہی خودبخود دم توڑ دے گا یا پھر صرف چند الفاظ کے گرد گھومتا رہے گا، لیکن بحر و وزن کے بغیر یہ محدود دائرہ بھی قائم نہیں رہ سکتا، اگر ہم شاعری کے لیے سنجیدہ ہیں، تو ہمیں محنت کرنی ہوگی، شاعری کے لیے ضروری چیزیں سیکھنی ہوں گی۔ مگر افسوس آج ہم اس جانب توجہ نہیں دیتے، ہم بحر و وزن کے جھنجھٹ میں پڑنا نہیں چاہتے، مگر شعر کہنا ضروری خیال کرتے ہیں اور کامل شاعر بھی کہلانا چاہتے ہیں۔''
یہ وہ ضروری باتیں تھیں جن کے ذریعے مصنف نے نوآموز شعرا کو ایک سبق دیا ہے۔ نوآموز ہونا اپنی جگہ لیکن ہم نے بے شمار شعرا و ادبا کو دیکھا، پڑھا اور سنا ہے جو بے وزن اشعار بڑے اعتماد سے سناتے اور رسالوں میں چھپواتے ہیں، اپنی اصلاح کرنا گویا توہین سمجھتے ہیں، نہ وزن کا پتا اور نہ بحر کا، عمریں یوں ہی گزار دیں۔ بقول ناقدین کے ایک ڈھنگ کا شعر نہ کہہ سکے یا فلاں کے مجموعے میں ایک مصرعہ ایسا نہیں جو قاری کی توجہ مبذول کراسکے۔
عزیز جبران انصاری کی ایک کتاب رموز شاعری کے عنوان سے 31 سال پہلے شایع ہوئی تھی اور اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کتاب کے اب تک تین ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں اور بقول جبران انصاری کے یہ کتاب ہی میری پہچان بنی اور یہ بات میرے لیے نہایت قابل فخر ہے۔
بے شک ہونا بھی چاہیے، جب اللہ کا کرم شامل ہو تو محنت ضرور رنگ لاتی ہے اور بات آگے بڑھتی ہے اور مثل گل تازہ کے خوشبو دور دور تک بکھرتی ہے۔ مصنف کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس وقت بھی عروض کے حوالے سے کئی کتابیں مارکیٹ میں ہیں لیکن ان کتابوں کے خریدار اپنی رقم کے زیاں پر افسوس کرتے ہیں اور بالآخر وہ ''رموز شاعری'' کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
شاعری کی اہمیت سے مصنف نے اس طرح آگاہ کیا ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کا قول ہے کہ شاعری خود ایک کمال ہے، اگر کسی شخص میں صحیح طور پر موجود ہو تو اس کے سامنے دوسرے تمام کمال ہیچ ہیں۔ شیلے کا کہنا ہے کہ اخلاقیات کی بنیادیں واعظوں کے ہاتھوں نہیں بلکہ شاعروں کے ہاتھوں رکھی جاتی ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے فرمایا ہے کہ شریفانہ اخلاق پیدا کرنے کا شاعری سے بہتر کوئی آلہ نہیں ہوسکتا، علم اخلاق ایک مستقل فن ہے اور فلسفہ ایک جزو عظیم ہے۔
مولانا حالی نے شاعری پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک اچھے شاعر میں تین صفات ضرور ہونی چاہئیں۔ نمبر ایک تخیل، نمبر دو کائنات کا مطالعہ، نمبر تین تفحص (مطالعہ) ہے۔ مصنف نے عروض کی تعریف اس طرح کی ہے کہ عروض اسم مذکر ہے اور عربی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی مکہ معظمہ، بیت اللہ، کعبۃ اللہ، کعبہ عروض کے دوسرے معنی میں یہ اسم مونث ہے اور وہ علم جس سے بحور اشعار کے اوزان معلوم ہوتے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ کے مطابق تقطیع اسم مونث ہے اور اس کے معنی ہیں ٹکڑے ٹکڑے کرنا، بیت (شعر) کے اجزا کو بحر کے اجزا کے ساتھ برابر کرکے تولنا۔
کتاب میں 18 ابواب میں، ہر باب مکمل طور پر اور مفکرین کی آرا کے حوالے سے شاعری کے رموز پر روشنی ڈالتا ہے۔ باب ایک میں عروض کی ابتدا اور شعر کے اوزان کی ابتدا کو موضوع بناکر شعرا کے لیے اہم معلومات کے خزانے کا منہ کھول دیا گیا ہے۔ دلیل اور حوالوں کے ساتھ یہی حال دوسرے اسباق کا ہے۔
باب نمبر 2 میں زحاف کی تعریف اس طرح کی ہے کہ علم عروض میں زحاف سے مراد وہ تبدیلیاں ہیں جو کسی بحر کے رکن میں معین قواعد کے مطابق عمل میں لائی جاتی ہیں۔ باب 17 میں ''بے لاگ'' (تیکھا کالم) کے عنوان سے 2013 سے 2017 میں پیش کی گئیں غزلیات کی تقطیع اور غزلیات کے محاسن اور مصائب کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے، جو قابل تحسین ہے۔
''بے قراری سی بے قراری'' نامی کتاب میں عزیز جبران انصاری کی بے قراریاں اور بے چینیاں ان کی تحریروں سے عیاں ہیں، انھوں نے معاشرتی تلخیوں اور سچائیوں کو افسانوں کے پیکر میں بے حد عمدہ طریقے سے ڈھالا ہے۔ یہ افسانے قاری کو متاثر کرتے ہیں اور غور و فکر کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان کی دونوں کتابوں کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ہمارے ملک میں علم و ادب کے حوالے سے کیسے کیسے لعل و گوہر ہیں جو بہت سے لوگوں سے پوشیدہ ہیں۔ اس کی وجہ اقربا پروری ادبی بددیانتی کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اہل علم ان کی قابلیت اور صلاحیت سے بخوبی واقف ہیں۔