تسطیر اور پدرم سلطان بود
تازہ شمارے کا اداریہ ’’نیچریت، نصاب اور تقابلی ادب، بھی اسی سوچ کا غماز نظر آتا ہے
سب سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ 'تسطیر' ایک ادبی جریدے کا نام ہے جو برادرم نصیر احمد ناصر کئی برسوں سے مرتب اور شایع کرتے چلے آرہے ہیں اور ''پدرم سلطان بُود'' اردو کے نامور نقاد اور میری طرح ہزاروں کے براہ راست استاد سید وقار عظیم مرحوم کا ایک ''یاد نامہ'' ہے جو ان کے فرزند عزیز اختر وقار عظیم نے بڑی محبت اور محنت سے ترتیب دیا ہے۔
قارئین کی کتابوں کے ساتھ تیزی سے گھٹتی ہوئی اس دلچسپی کے دور میں یہ دونوں ادب پارے اس تصور کو مزید تلخ تر کررہے ہیں کہ ایسا عمدہ ادب تو شائد آیندہ بھی تخلیق ہوتا رہے مگر اس کے قارئین اسی طرح سے تلاشنے پڑیں گے جیسے مولانا روم کے مصداق وہ درویش جو آدھی رات کو شہر کے گرد چکر لگا کر وحوش کے ہجوم میں انسان کی تلاش کرتا رہا تھا کہ جو ڈگری یافتہ بچے اردو میں تین سطریں لکھ یا پڑھ نہیں سکیں گے ان کے لیے تسطیر ہو یا پدرم سلطان بود دونوں ہی کا تعلق کسی اجنبی اور غیر مانوس زبان سے ہوگا۔ اس تکلیف دہ مگر ضروری ذکر کے بعد آئیے اب کچھ دیر اس ادب کی صحبت میں گزارتے ہیں جو آدمی کو انسان بناتا ہے۔
اردو میں ضخیم ادبی پرچوں، خاص نمبروں اور سالناموں کی روایت بوجوہ بہت پرانی تو نہیں مگر اس کا تسلسل کسی نہ کسی حوالے سے ہمیشہ قائم رہا ہے۔ ماضی قریب میں مستقل چھپنے والے نقوش، اوراق، سیپ، نیادور، تخلیقی ادب، سوغات، شعر و حکمت اور گفتگو کے علاوہ بھی بہت سے ضخیم پرچے کم یا زیادہ مدت تک شایع ہوتے رہے ہیں۔ نسبتاً جدید پرچوں میں ''تسطیر'' اور ''لوح'' کے نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔
ہر اچھے ادبی پرچے کی طرح تسطیر کے مندرجات میں بھی اس کے مدیر نصیر احمد ناصر کی موجودگی قدم قدم پر دکھائی دیتی ہے بالخصوص شاعری کے حصے میں وہ نظم کے ایک خاص انداز کے لیے زیادہ نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ جدید نظم گو شاعروں کی حوصلہ افزائی بلاشبہ بہت ضروری ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ بعض اوقات ان شعراء کے ہاں ایسے موضوعات دیکھنے میں آتے ہیں جو نئے ہونے کے ساتھ ساتھ تخلیقی اُپج اور روح عصر کے بھی حامل ہوتے ہیں لیکن یہ تصویر مکمل اسی وقت ہوتی ہے جب اس کے پس منظر میں روائت کی موجودگی بھی محسوس ہوتی رہے جیسی کہ خود نصیر احمد ناصر کی شاعری میں دکھائی اور سنائی دیتی ہے۔
تازہ شمارے کا اداریہ ''نیچریت، نصاب اور تقابلی ادب، بھی اسی سوچ کا غماز نظر آتا ہے۔ اس کی ایک اضافی خوبی اس کی تزئین و اشاعت میں بک کارنر جہلم کے دوستوں امر اور گگن شاہد کا تعاون بھی ہے کہ ماضی میں بھی کئی اہم پرچے اشاعتی اداروں کے براہ راست یا بالواسطہ تعاون سے شایع ہوتے رہے ہیں۔ نظم اور نثر دونوں حصوں میں نئے اور پرانے لکھنے والوں کی تخلیقات شامل ہیں جن کا انتخاب بہت محنت اور توجہ سے کیا گیا ہے۔
چونکانے والا نام البتہ صرف ایک یعنی مستنصر حسین تارڑ کا ہے کہ اس بار وہ ایک شاعر کے طور پر سامنے آئے ہیں ان کی طویل نثری نظم ''موت کچھ توقف کر'' میری معلومات کی حد تک ان کی پہلی اور واحد شعری تخلیق ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان سے کسی مشاعرے میں بطور شاعر ملاقات کب ہوتی ہے۔
عجیب بات ہے کہ مستنصر کی نظم اور پرچے میں شامل ان کی نثری تخلیق ''عبداللہ حسین کے ساتھ بعدازمرگ ایک گفتگو'' دونوں میں موت ایک بنیادی استعارے کی شکل اختیار کرگئی ہے اور دونوں تحریروں میں اس کی معنویت کے کچھ نئے گوشے اجاگر ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر ''تسطیر'' کا یہ تازہ شمارہ ایک ارمغان سے کم نہیں اور نصیر احمد ناصر داد کے مستحق ہیں کہ ہوا کے رخ پر دیا جلانے کی اپنی سی کوشش کرتے چلے جا رہے ہیں۔
سید وقار عظیم جس قدر دھیمی طبیعت کے وضعدار اور عمومی طور پر دروں بین شخص تھے ان سے متعلق کتاب کا یہ بھاری بھرکم اور قدرے خود پرستانہ سا عنوان پہلی نظر میں عجیب سا لگتا ہے لیکن اس کی جو خوبصورت تاویل اور وضاحت اختر وقار عظیم نے کتاب کے ابتدائیے کے آخر میں کردی ہے وہ اتنی پر لطف اور دلچسپ ہے کہ یہ سارا معاملہ اس شاعرانہ تعلی کی طرح قبول اور روا ہوجاتا ہے کہ ''سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا... مستند ہے میرا فرمایا ہوا''۔
اس کتاب میں سید وقار عظیم کی ذات، حیات اور صفات سے متعلق مختلف آرا، مضامین اور تصاویر کی ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے اور یوں یہ ایک ایسی دستاویز بن ئی ہے جس کی وساطت سے ہم نہ صرف اردو ادب کے ایک عظیم استاد کی شخصیت اور علمیت کے مختلف پہلوؤں سے آشنا ہوسکتے ہیں بلکہ آنے والے زمانوں کے طالبان ادب اور تحقیق کے لیے بھی یہ ایک مصدقہ گواہی کا درجہ رکھتی ہے۔ آج تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد بھی جب میں اپنے اورینٹل کالج کی طالب علمی کے دنوں کو یاد کرتا ہوں تو سید وقار عظیم کی شخصیت ان کے کئی باکمال رفقائے کار کے ہجوم میں بھی ممتاز اور منفرد دکھائی دیتی ہے۔
سردی گرمی میں ایک ہی جیسا لباس، چہرے پر ایک دھیمی مگر دلنواز مسکراہٹ اور لیکچر کے دوران آواز کا مخصوص ٹھہراؤ اور آتار چڑھاؤ جو دل و دماغ میں روشنی سی کرتا جاتا تھا۔ آنکھوں کے سامنے مجسم ہوجاتے ہیں ان سے ایک اضافی تعلق پنجاب یونیورسٹی کے ادبی مجلے ''محور'' کے حوالے سے بھی تھا جس کا میں مدیراعلیٰ اور وہ نگران تھے۔ ''پدرم سلطان بود'' کے کئی مضامین میں ان کے بات سمجھانے کے بالواسطہ انداز کا ذکر کیا گیا ہے۔
میں خود بھی اس کا شاہد ہوں کہ پرچے کے مندرجات کے انتخاب اور ترتیب کے ضمن میں وہ اپنی تنقیدی رائے ہمیشہ اس انداز میں دیتے تھے کہ وہ تنقید کے بجائے ''تائید'' کا تاثر دینے لگتی تھی۔ اس نوع کی کتابوں کی ضرورت یوں تو ہمیشہ رہتی ہے مگر جس بے یقینی مایوسی اور ذہنی انتشار کے عالم سے ہم آج کل گزر رہے ہیں، اس میں ان کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ سید وقار عظیم جیسے لوگ کردار کی استقامت اور اقدار کی حفاظت کے زندہ استعارے ہوتے ہیں اور انہی دو باتوں کی اس وقت ہمارے معاشرے کو شاید سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
قارئین کی کتابوں کے ساتھ تیزی سے گھٹتی ہوئی اس دلچسپی کے دور میں یہ دونوں ادب پارے اس تصور کو مزید تلخ تر کررہے ہیں کہ ایسا عمدہ ادب تو شائد آیندہ بھی تخلیق ہوتا رہے مگر اس کے قارئین اسی طرح سے تلاشنے پڑیں گے جیسے مولانا روم کے مصداق وہ درویش جو آدھی رات کو شہر کے گرد چکر لگا کر وحوش کے ہجوم میں انسان کی تلاش کرتا رہا تھا کہ جو ڈگری یافتہ بچے اردو میں تین سطریں لکھ یا پڑھ نہیں سکیں گے ان کے لیے تسطیر ہو یا پدرم سلطان بود دونوں ہی کا تعلق کسی اجنبی اور غیر مانوس زبان سے ہوگا۔ اس تکلیف دہ مگر ضروری ذکر کے بعد آئیے اب کچھ دیر اس ادب کی صحبت میں گزارتے ہیں جو آدمی کو انسان بناتا ہے۔
اردو میں ضخیم ادبی پرچوں، خاص نمبروں اور سالناموں کی روایت بوجوہ بہت پرانی تو نہیں مگر اس کا تسلسل کسی نہ کسی حوالے سے ہمیشہ قائم رہا ہے۔ ماضی قریب میں مستقل چھپنے والے نقوش، اوراق، سیپ، نیادور، تخلیقی ادب، سوغات، شعر و حکمت اور گفتگو کے علاوہ بھی بہت سے ضخیم پرچے کم یا زیادہ مدت تک شایع ہوتے رہے ہیں۔ نسبتاً جدید پرچوں میں ''تسطیر'' اور ''لوح'' کے نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔
ہر اچھے ادبی پرچے کی طرح تسطیر کے مندرجات میں بھی اس کے مدیر نصیر احمد ناصر کی موجودگی قدم قدم پر دکھائی دیتی ہے بالخصوص شاعری کے حصے میں وہ نظم کے ایک خاص انداز کے لیے زیادہ نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ جدید نظم گو شاعروں کی حوصلہ افزائی بلاشبہ بہت ضروری ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ بعض اوقات ان شعراء کے ہاں ایسے موضوعات دیکھنے میں آتے ہیں جو نئے ہونے کے ساتھ ساتھ تخلیقی اُپج اور روح عصر کے بھی حامل ہوتے ہیں لیکن یہ تصویر مکمل اسی وقت ہوتی ہے جب اس کے پس منظر میں روائت کی موجودگی بھی محسوس ہوتی رہے جیسی کہ خود نصیر احمد ناصر کی شاعری میں دکھائی اور سنائی دیتی ہے۔
تازہ شمارے کا اداریہ ''نیچریت، نصاب اور تقابلی ادب، بھی اسی سوچ کا غماز نظر آتا ہے۔ اس کی ایک اضافی خوبی اس کی تزئین و اشاعت میں بک کارنر جہلم کے دوستوں امر اور گگن شاہد کا تعاون بھی ہے کہ ماضی میں بھی کئی اہم پرچے اشاعتی اداروں کے براہ راست یا بالواسطہ تعاون سے شایع ہوتے رہے ہیں۔ نظم اور نثر دونوں حصوں میں نئے اور پرانے لکھنے والوں کی تخلیقات شامل ہیں جن کا انتخاب بہت محنت اور توجہ سے کیا گیا ہے۔
چونکانے والا نام البتہ صرف ایک یعنی مستنصر حسین تارڑ کا ہے کہ اس بار وہ ایک شاعر کے طور پر سامنے آئے ہیں ان کی طویل نثری نظم ''موت کچھ توقف کر'' میری معلومات کی حد تک ان کی پہلی اور واحد شعری تخلیق ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان سے کسی مشاعرے میں بطور شاعر ملاقات کب ہوتی ہے۔
عجیب بات ہے کہ مستنصر کی نظم اور پرچے میں شامل ان کی نثری تخلیق ''عبداللہ حسین کے ساتھ بعدازمرگ ایک گفتگو'' دونوں میں موت ایک بنیادی استعارے کی شکل اختیار کرگئی ہے اور دونوں تحریروں میں اس کی معنویت کے کچھ نئے گوشے اجاگر ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر ''تسطیر'' کا یہ تازہ شمارہ ایک ارمغان سے کم نہیں اور نصیر احمد ناصر داد کے مستحق ہیں کہ ہوا کے رخ پر دیا جلانے کی اپنی سی کوشش کرتے چلے جا رہے ہیں۔
سید وقار عظیم جس قدر دھیمی طبیعت کے وضعدار اور عمومی طور پر دروں بین شخص تھے ان سے متعلق کتاب کا یہ بھاری بھرکم اور قدرے خود پرستانہ سا عنوان پہلی نظر میں عجیب سا لگتا ہے لیکن اس کی جو خوبصورت تاویل اور وضاحت اختر وقار عظیم نے کتاب کے ابتدائیے کے آخر میں کردی ہے وہ اتنی پر لطف اور دلچسپ ہے کہ یہ سارا معاملہ اس شاعرانہ تعلی کی طرح قبول اور روا ہوجاتا ہے کہ ''سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا... مستند ہے میرا فرمایا ہوا''۔
اس کتاب میں سید وقار عظیم کی ذات، حیات اور صفات سے متعلق مختلف آرا، مضامین اور تصاویر کی ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے اور یوں یہ ایک ایسی دستاویز بن ئی ہے جس کی وساطت سے ہم نہ صرف اردو ادب کے ایک عظیم استاد کی شخصیت اور علمیت کے مختلف پہلوؤں سے آشنا ہوسکتے ہیں بلکہ آنے والے زمانوں کے طالبان ادب اور تحقیق کے لیے بھی یہ ایک مصدقہ گواہی کا درجہ رکھتی ہے۔ آج تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد بھی جب میں اپنے اورینٹل کالج کی طالب علمی کے دنوں کو یاد کرتا ہوں تو سید وقار عظیم کی شخصیت ان کے کئی باکمال رفقائے کار کے ہجوم میں بھی ممتاز اور منفرد دکھائی دیتی ہے۔
سردی گرمی میں ایک ہی جیسا لباس، چہرے پر ایک دھیمی مگر دلنواز مسکراہٹ اور لیکچر کے دوران آواز کا مخصوص ٹھہراؤ اور آتار چڑھاؤ جو دل و دماغ میں روشنی سی کرتا جاتا تھا۔ آنکھوں کے سامنے مجسم ہوجاتے ہیں ان سے ایک اضافی تعلق پنجاب یونیورسٹی کے ادبی مجلے ''محور'' کے حوالے سے بھی تھا جس کا میں مدیراعلیٰ اور وہ نگران تھے۔ ''پدرم سلطان بود'' کے کئی مضامین میں ان کے بات سمجھانے کے بالواسطہ انداز کا ذکر کیا گیا ہے۔
میں خود بھی اس کا شاہد ہوں کہ پرچے کے مندرجات کے انتخاب اور ترتیب کے ضمن میں وہ اپنی تنقیدی رائے ہمیشہ اس انداز میں دیتے تھے کہ وہ تنقید کے بجائے ''تائید'' کا تاثر دینے لگتی تھی۔ اس نوع کی کتابوں کی ضرورت یوں تو ہمیشہ رہتی ہے مگر جس بے یقینی مایوسی اور ذہنی انتشار کے عالم سے ہم آج کل گزر رہے ہیں، اس میں ان کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ سید وقار عظیم جیسے لوگ کردار کی استقامت اور اقدار کی حفاظت کے زندہ استعارے ہوتے ہیں اور انہی دو باتوں کی اس وقت ہمارے معاشرے کو شاید سب سے زیادہ ضرورت ہے۔