نئے صوبے کی رپورٹ تدبر کی متقاضی

جنوبی پنجاب کے 3 ڈویژنوں اور بھکر و میانوالی پر مشتمل نئے صوبے کا نام ’’بہاولپور جنوبی پنجاب‘‘ تجویز کیا گیا ہے

ن لیگ نے بہاولپور جنوبی پنجاب صوبہ کے خلاف تحریک استحقاق قومی اسمبلی میں جمع کرا دی ہے۔ فوٹو: اے پی پی/ فائل

قومی اسمبلی میں جمعے کو بہاولپور جنوبی پنجاب صوبہ پر پارلیمانی کمیشن کی رپورٹ پیش کر دی گئی جس پر مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے شدید احتجاج کیا اور ایوان سے واک آئوٹ کیا، میانوالی سے رکن قومی اسمبلی حمیر حیات روکھڑی نے رپورٹ کی کاپی پھاڑ ڈالی۔ کمیشن کی رپورٹ میں جنوبی پنجاب کے 3 ڈویژنوں اور بھکر و میانوالی اضلاع پر مشتمل نئے صوبے کا نام ''بہاولپور جنوبی پنجاب'' تجویز کیا گیا ہے جس کا دارالحکومت بہاولپور ہو گا۔ اس حوالے سے 24 ویں ترمیم بھی لائے جانے کی تجویز دی گئی ہے۔

تاہم کمیشن کی رپورٹ کے آتے ہی ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، مجوزہ صوبہ کے خلاف ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان اور دیگر علاقوں میں ریلیاں نکالی گئیں۔ امیر آف بہاولپور نواب صلاح الدین عباسی نے کہا کہ صوبہ ہر صورت بحال کرائیں گے، جب کہ سردار یوسف کا کہنا ہے کہ حکومت ہزارہ صوبہ کے وعدہ سے مکر گئی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ارباب اختیار صورتحال کو انتظامی سطح پر افہام و تفہیم کے ساتھ کنٹرول کرنے کی جلد کوشش کریں تا کہ اس حساس معاملہ پر نا تدبیری سے کوئی پینڈورا بکس نہ کھل جائے۔ اصولی بات تو یہ ہے کہ نئے صوبوں کے قیام اور ان کی انتظامی بنیادوں پر تشکیل کی آئینی باریکیوں سے پیدا ہونے والے ایشوز غیر متوقع نہیں ہیں۔ یہ حساس معاملہ ہے۔

آئین کی 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری، اکائیوں کے عوام کو درپیش روز مرہ کے مسائل اور صوبوں کے قیام کے مطالبوں کی ایک تاریخ رکھنے والی مختلف تنظیموں اور تحریکوں کا اضطراب اور جاری احتجاجی مظاہرے بلاشبہ ان کے فطری ردعمل کا اظہار ہیں، یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہم ان ہی سطور میں مجوزہ انتظامی یونٹوں کے قانونی و آئینی پہلوئوں، سیاسی جماعتوں کے مطالبات، نئے صوبوں کے حامیوں اور مخالفین کے احساسات و جذبات کا قومی سیاسی صورتحال کے تناظر میں وقتاً فوقتاً تجزیہ بھی کرتے رہے ہیں جس کا مقصد صوبوں کے قیام کے مسئلہ کو مہم جوئی، یا ہنگامی بنیادوں پر الیکشن اسٹنٹ بنانے سے اجتناب کی ضرورت کا احساس دلانا ہے۔


انتظامی بنیادوں پر آئین کے تحت نئے صوبے بنانے میں کوئی ہرج نہیں، حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں نے جنوبی پنجاب، ہزارہ اور بہاولپور کو نئے انتظامی یونٹ کے طور پر تشکیل کو وقت کا تقاضا قرار دیا تھا اور بہاولپور صوبہ کی بحالی پر اتفاق بھی کیا تھا تاہم اس ضمن میں اب آئینی، قانونی اور انتظامی موشگافیوں میں الجھنے کے بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھنا ضروری ہے، دنیا بھر میں انتظامی بنیادوں پر نئے یونٹوں کی تشکیل ہوتی رہی ہے اور پاکستان میں بھی نئے صوبوں کا مطالبہ انوکھا نہیں ہے، اس لیے اس کام کو پیدا شدہ سخت امتحانی صورتحال میں مہم جوئی کے انداز میں عجلت میں انجام دینا مناسب نہیں۔ آئینی آپشنز کو پیش نظر رکھا جائے۔

ن لیگ نے بہاولپور جنوبی پنجاب صوبہ کے خلاف تحریک استحقاق قومی اسمبلی میں جمع کرا دی ہے جب کہ لاہور ہائیکورٹ نے میانوالی کو ممکنہ بہاولپور جنوبی پنجاب صوبے میں شامل کرنے کے خلاف درخواست پر پارلیمانی کمیشن کے قیام کا نوٹیفکیشن اور سفارشات کا ریکارڈ آیندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ پنجاب اسمبلی نے جب کمیشن کو مسترد کر دیا تو نیا صوبہ کیسے بن سکتا ہے، موجودہ پارلیمنٹ اور کسی سیاسی جماعت کے پاس نئے صوبے بنانے کا مینڈیٹ نہیں، چند سو ارکان اسمبلی عوام پر زبردستی فیصلے تھوپنا چاہتے ہیں، اگر زبردستی فیصلے تھوپے گئے تو انارکی پھیلے گی۔ عدالت عالیہ کا یہ انداز نظر قومی سیاسی صورتحال کی نزاکت اور تشویش ناک ملک گیر سیاسی افراط و تفریط کی عکاسی کرتا ہے۔

ہماری تمام جمہوری اور صوبوں کے قیام کی اصولی جدوجہد میں شریک قوتوں ٕ کے زعما سے استدعا ہے کہ وہ تدبر سے کام لیں۔ ملک کو دہشت گردی، فرقہ واریت، داخلی عدم استحکام، معاشی بحران، ٹارگٹ کلنگ، عدم رواداری، بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا سامنا ہے۔ بلوچستان اور کراچی میں امن و امان کی صورتحال اندوہناک ہے، فاٹا میں ڈرون حملے ہو رہے ہیں، مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر جمہوریت پر شب خون مارنے پر تلے ہوئے ہیں، حکومتی میعاد ختم ہونے کو ہے، الیکشن سر پر ہیں۔ خدارا یہ نئے صوبے بنانے کا موقع نہیں، یہ کام آنیوالوں پر چھوڑ دیا جائے۔ اسی میں ملک و قوم کا مفاد ہے۔
Load Next Story