ورلڈ الیون کا دورہ انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھولنے میں مدد دے گا شہریار خان
چیئرمین پی سی بی شہریار خان کا لندن میں ایڈیٹر اسپورٹس سلیم خالق کو خصوصی انٹرویو
لاہور:
چیئرمین پی سی بی شہریار خان کا دور کئی تلخ اور شیریں یادیں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے لیکن کارکردگی میں عدم تسلسل کے باوجود قومی ٹیسٹ ٹیم کا تاریخ میں پہلی بار عالمی رینکنگ میں نمبر ون بننا، سرفراز احمد کی قیادت میں کئی نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل سکواڈ کا حیران کن کارکردگی دکھاتے ہوئے ٹائٹل پر قبضہ جمانا اور آئی سی سی ''بگ تھری'' کا خاتمہ ایسی کامیابیاں ہیں جن پر سابق سفارتکار بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں،''ایکسپریس'' نے لندن میں ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس: آپ کی رخصتی سے قبل ٹیم چیمپئنز ٹرافی جیت گئی یقینا اسے اپنی بھی بڑی کامیابی تصور کر رہے ہوں گے؟
شہریار خان: قومی ٹیم کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے جو رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے حاصل ہوئی، ٹائٹل جیتنے کی بالکل بھی امید نہیں تھی، سیمی فائنل میں رسائی بھی بڑی بات نظر آرہی تھی لیکن کھلاڑیوں نے لاجواب پرفارمنس دی،ان کا میدان کے اندر اور باہر رویہ بھی شاندار رہا، بھارت سے شکست کے بعد ہر میچ سپرٹ کے ساتھ کھیلے، ہمت نہیں ہاری اور ہر مقابلے کو ناک آؤٹ سمجھ کر فتح کا عزم لیے میدان میں اترے،اس شاندار کارکردگی میں ہیڈکوچ مکی آرتھر کا بہت کردار ہے، انہوں نے جس طرح پلیئرز کو ہر میچ کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا وہ قابل تعریف ہے،وہ سختی بھی کرتے رہے لیکن وہ ٹیم اور کھلاڑیوں کے فائدے کے لیے ہی تھی، انہوں نے فٹنس اور فیلڈنگ پر کوئی سمجھوتہ نہیںکیا اور اس حوالے سے اپنی پالیسی پر قائم رہے، عمر اکمل کو فٹنس مسائل کی وجہ سے واپس بھیجا گیا،میرے خیال میں چیمپئنز ٹرافی کی فتح نے پاکستان کرکٹ کو جدت کی راہ پر ڈال دیا ہے۔
ایکسپریس:گرین شرٹس کی کس صلاحیت نے سب سے زیادہ متاثر کیا؟
شہریارخان: کھلاڑیوں میں سپورٹس مین سپرٹ مصباح الحق کے دور سے چل رہی ہے، اس کا عملی مظاہرہ فخر زمان نے کیا، اوپنر نے انگلینڈ کیخلاف میچ میںنصف سنچری بنائی اور اسٹمپڈ ہونے کے بعد تھرڈ امپائر کے فیصلہ کا انتظار کئے بغیر خود ہی پویلین کی طرف لوٹ گئے، یہ قابل تعریف بات ہے، فتح کے بعد پلیئرز کے اعزاز میں ضیافت کے موقع پر میں نے فخر زمان کی اس رویے کو بہت سراہا، ایک کھلاڑی کی جانب سے ایسا اقدام پوری ٹیم کے لیے مثال بن جاتا ہے، میں گرین شرٹس کے جذبے، اعتماد اور عزم سے بہت متاثر ہوا، ایک ناکامی کے بعد پاکستان نے عالمی نمبر ون جنوبی افریقہ کو شکست دی، اس کے بعد بھارت کو ہرانے والی سری لنکن ٹیم کو بھی زیر کرلیا، سیمی فائنل میں ہوم گراؤنڈ پر کھیلنے والی اور ایونٹ کی ناقابل شکست انگلینڈ کی ٹیم کو مات دی تو یقین ہونے لگا تھا کہ اب کوئی بھی ٹیم نہیں ٹھہر سکتی، فائنل میں بھارت کو بھی زیر کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، بالآخر کھلاڑی قوم کی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب ہوئے،ایک ملاقات میں بھارتی ٹیم کے کوچ انیل کمبلے نے پاکستانی کرکٹرز کی فائٹنگ سپرٹ کو سراہا۔
ایکسپریس:کوچنگ سٹاف کی کارکردگی کا جائزہ لے کر کنٹریکٹس کا فیصلہ کرنے کی بات ہورہی تھی،اب کیا حکمت عملی ہوگی؟
شہریارخان: مکی آرتھر معاہدہ کے مطابق 2سال پورے کرینگے، بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ میں دیگر سٹاف کے کنٹریکٹس میں توسیع کئے جانے کا قوی امکان ہے،کھلاڑی اور مکی آرتھر بھی ان کی خدمات سے مزید فائدہ اٹھانے کے حق میں ہیں، فیلڈنگ کوچ سٹیو رکسن نے شاندار کارکردگی دکھائی، 60 سال سے کبھی پاکستان ٹیم کی ایسی شاندار اور جارحانہ انداز میں فیلڈنگ نہیں دیکھی، میرا ووٹ تو وکوچنگ سٹاف کو توسیع دینے کے حق میں ہوگا۔
ایکسپریس: سرفراز احمد کو تینوں فارمیٹ کا کپتان بنانے کے تجویز کس حد تک قابل عمل قرار دی جاسکتی ہے؟
شہریارخان: وکٹ کیپر بیٹسمین پہلے ہی ٹیسٹ ٹیم کے نائب کپتان ہیں، اگلی ٹیسٹ سیریز اکتوبر میں سری لنکا کیخلاف ہے، اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے رخصتی سے قبل میں خود سے قبل کپتان کا اعلان کر کے جاؤں گا، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میں کس کو کپتان بناؤں گا، سرفراز نے واقعی بہت محنت کی اور کھلاڑیوں کو بڑے اچھے انداز میں کارکردگی دکھانے کے موقع فراہم کئے ہیں، ہر میچ کے بعد اس کی میچیورٹی میں اضافہ ہو رہا ہے، بھارت سے میچ میں ہردیک پانڈیا نے شاداب خان کو لگاتار 3 چھکے لگائے لیکن سرفراز نے لیگ سپنر کو اعتماد دیتے ہوئے اگلا اوور پھر ان سے کرایا، یہ ذہنی پختگی کی علامت ہے،انہوں نے اچھی قیادت کرتے ہوئے بولنگ اور بیٹنگ میں بروقت تبدیلیاں کیں، فائنل میں محمد حفیظ کو بیٹنگ کے لیے بھیجا گیا تو میں تھوڑا فکر مند ہوا لیکن انہوں نے بھی تیز رفتاری سے رنز بنائے، کپتان کی درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہی ٹیم کو اٹھاتی ہے۔ میں ہیڈ کوچ مکی آرتھر، چیف سلیکٹر انضما م الحق، ڈائریکٹر اکیڈمیز مدثر نذر،نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے ہیڈ کوچ مشتاق احمد اور کوچز سے مشورہ کرنے کے بعد فیصلے کرتا ہوں، مصباح سے بھی بات چیت کروں گا، سرفراز احمد کو ٹیسٹ قیادت سپرد کرنے کے بارے میں بھی ان سب سے مشاورت ہوگی،امکان یہی ہے کہ ان کو تیسرے فارمیٹ میں بھی ذمہ داری سونپ دی جائے گی۔
ایکسپریس: کیا مصباح الحق اور یونس خان کو پی سی بی کیساتھ کام کرنے کے لیے موقع دیئے جانے کا کوئی امکان اب بھی باقی ہے؟
شہریارخان: دونوں سے بات کی تھی، انہوں نے سوچنے کے لیے وقت مانگا ہے، واپس جا کر دوبارہ بات کروں گا، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے دونوں ہماری مدد کریں،چاہے مینٹور بنیں، کوچ بنیں یا بورڈ میں آئیں، جیسے بھی ہوا ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔
ایکسپریس: سپاٹ فکسنگ کیس کے فیصلے میں غیر معمولی تاخیر کی کیا وجہ ہے؟
شہریارخان: انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے،کئی قانونی پیچیدگیاں ہوتی ہیں، کارروائی کے دوران وکلاء کے دلائل سننا پڑتے ہیں تاکہ بعد میں کوئی یہ نہ کہے کہ صفائی کا موقع نہیں دیا گیا،میرے خیال میں کیس اختتام کے قریب پہنچ چکا، سزا کا فیصلہ تو ٹریبیونل کوکرنا ہے لیکن میری ذاتی سوچ یہ ہے کہ اگر کسی نے ملک کی ساکھ تباہ کرنے والا کوئی کام کیا ہے تو اس کو معاف نہیں کرنا چاہیے۔
ایکسپریس: آپ کی رخصتی کا وقت قریب آتا جارہا ہے، نئے چیئرمین کی تقرری کے بارے میں کیا کہیں گے؟
شہریارخان: نئے چیئرمین کا تقرر آئین کے مطابق ہی ہو گا، موجودہ گورننگ بورڈ بھی 17 اگست سے ختم ہو جائے گا، نیا سیٹ اپ بن جانے کے بعد ہی اس حوالے سے صورتحال واضح ہو گی، ڈپارٹمنٹل ٹیمیں 4ہوں گی، ریجنل نمائندوں کو روٹیشن پالیسی کے تحت لانا ہوگا،4 کو موقع مل چکا،دیگر میں سے 4لینے ہوں گے، جغرافیائی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ریجنز کو نمائندگی دی جائے گی،اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم کو اختیار حاصل ہے کہ وہ 2لوگوں کو بورڈ میں شامل کر سکتے ہیں، اس سے قبل مجھ کو شامل کیا گیا اور بعد ازاں میں پہلی بار ہونے والے الیکشن میں مجھے چیئرمین منتخب کیا گیا، اس سے قبل بورڈ کا سربراہ نامزد کیا جاتا تھا، اب دوبارہ الیکشن ہو گا ، وزیر اعظم بورڈ میں جن کو اپنا نمائندہ بنائیں گے انہی میں سے ایک چیئرمین ہو گا۔
ایکسپریس: اگر وزیر اعظم دوبارہ آپ کو نامزد کرنانا چاہیں تو کیا فیصلہ ہوگا؟
شہریارخان: اگر وزیر اعظم کہیں بھی تو دوبارہ نہیں آنا چاہتا کیونکہ میری صحت اجازت نہیں دیتی، کرکٹ کا بہت شوق ہے لیکن اب انرجی باقی نہیں رہی، پہلے پڑھاتا رہا ہوں اب بھی یہی کروں گا۔
ایکسپریس: کیا نجم سیٹھی بھی چیئرمین بننے کی انرجی ہے؟
شہریارخان: (قہقہہ) ہاں وہ عمر رسیدہ نہیں ہیں، ان میں بہت انرجی ہے۔
ایکسپریس: چیمپئنز ٹرافی آپ کے موجودہ دورمیں اہم ترین کامیابی ثابت ہوئی،کیا کوئی خواب پورا نہ کرنے کا ملال بھی ہے؟
شہریارخان: بھرپور کوشش کے باوجود بھارت سے سیریز نہ کرانے کا افسوس ہے،ہم باہمی مقابلوں کے بہت قریب پہنچ چکے تھے، ششانک منوہر کھرے آدمی ہیں،انہوں نے بطور صدر بی سی سی آئی رضامندی ظاہر کی لیکن کہا کہ یواے ای میں نہیں کھیل سکتے، اس کے علاوہ کسی نیوٹرل مقام پر سیریز ہوسکتی ہے، پی سی بی نے سری لنکا سے رابطہ کیا تو بڑا مثبت جواب آیا لیکن ششانک منوہر نے آگاہ کیا کہ حکومت اجازت نہیں دے رہی۔
ایکسپریس: آپ نے بی سی سی آئی کو نوٹس بھی جاری کیا تھا، اس کا کیا بنا؟
شہریارخان: یہ معاملہ ابھی چل رہا ہے،ابھی آئی سی سی اجلاس کے دوران بھی بی سی سی آئی حکام سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہ ہم تو کھیلنا چاہتے ہیں، حکومت اجازت نہیں دے رہی،ہمارا موقف تھا کہ معاہدے کے تحت بھارت سیریز کھیلنے کا پابند ہے،آپ اپنی حکومت کو بتائیں اور منائیں کیونکہ کرکٹ کی دنیا میں دونوں ملکوں کے مقابلوں سے زیادہ توجہ کسی میچ کو نہیں ملتی،اس بات کا اعتراف آئی سی سی بھی کرتی ہے۔
ایکسپریس: آئی سی سی الیون کی پاکستان آمد کے کیا امکانات ہیں؟
شہریارخان: آئی سی سی میٹنگ میں ٹاسک فورس کے سربراہ جائلز کلارک سے بات چیت ہوئی،ستمبر کے تیسرے ہفتے میں ورلڈالیون پاکستان آئے گی، صرف بجٹ کا معاملہ باقی ہے،اس کے لیے سپانسرز تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں،امید ہے کہ یہ ٹور کامیاب ہوگا اور ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے راستے کھلیں گے،ہمیں بتدریج لیکن ثابت قدمی سے اس مقصد کے لیے کام کرنا ہوگا۔
ایکسپریس: ''بگ تھری'' کو ختم کرنے کے لیے مہم کی کامیابی میں آپ کا بھی اہم کردار ہے،آئی سی سی کے ترمیم شدہ آئین کے عالمی کرکٹ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
شہریارخان: آئی سی سی کو جمہوری بنیادوں پر استوار کرنے کی تحریک میں پی سی بی پیش پیش رہا، ایک متوازن اور مضبوط نظام لانے کے لیے ممبر ملکوں کو قائل کرنے میں ہمارا کردار اہم تھا، متفقہ فیصلہ انٹرنیشنل کرکٹ کی بہتری کے لیے اہم قدم ثابت ہوگا،بھارت کو بھی اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ مالی طاقت کے بل بوتے پر اجارہ داری قائم کرنے کا منصوبہ دیرپا نہیں تھا،بہرحال بگ تھری کے منطقی انجام تک پہنچنا صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر ممبر ملکوں کے لیے بھی اطمینان کا باعث ہے۔
چیئرمین پی سی بی شہریار خان کا دور کئی تلخ اور شیریں یادیں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے لیکن کارکردگی میں عدم تسلسل کے باوجود قومی ٹیسٹ ٹیم کا تاریخ میں پہلی بار عالمی رینکنگ میں نمبر ون بننا، سرفراز احمد کی قیادت میں کئی نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل سکواڈ کا حیران کن کارکردگی دکھاتے ہوئے ٹائٹل پر قبضہ جمانا اور آئی سی سی ''بگ تھری'' کا خاتمہ ایسی کامیابیاں ہیں جن پر سابق سفارتکار بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں،''ایکسپریس'' نے لندن میں ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس: آپ کی رخصتی سے قبل ٹیم چیمپئنز ٹرافی جیت گئی یقینا اسے اپنی بھی بڑی کامیابی تصور کر رہے ہوں گے؟
شہریار خان: قومی ٹیم کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے جو رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے حاصل ہوئی، ٹائٹل جیتنے کی بالکل بھی امید نہیں تھی، سیمی فائنل میں رسائی بھی بڑی بات نظر آرہی تھی لیکن کھلاڑیوں نے لاجواب پرفارمنس دی،ان کا میدان کے اندر اور باہر رویہ بھی شاندار رہا، بھارت سے شکست کے بعد ہر میچ سپرٹ کے ساتھ کھیلے، ہمت نہیں ہاری اور ہر مقابلے کو ناک آؤٹ سمجھ کر فتح کا عزم لیے میدان میں اترے،اس شاندار کارکردگی میں ہیڈکوچ مکی آرتھر کا بہت کردار ہے، انہوں نے جس طرح پلیئرز کو ہر میچ کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا وہ قابل تعریف ہے،وہ سختی بھی کرتے رہے لیکن وہ ٹیم اور کھلاڑیوں کے فائدے کے لیے ہی تھی، انہوں نے فٹنس اور فیلڈنگ پر کوئی سمجھوتہ نہیںکیا اور اس حوالے سے اپنی پالیسی پر قائم رہے، عمر اکمل کو فٹنس مسائل کی وجہ سے واپس بھیجا گیا،میرے خیال میں چیمپئنز ٹرافی کی فتح نے پاکستان کرکٹ کو جدت کی راہ پر ڈال دیا ہے۔
ایکسپریس:گرین شرٹس کی کس صلاحیت نے سب سے زیادہ متاثر کیا؟
شہریارخان: کھلاڑیوں میں سپورٹس مین سپرٹ مصباح الحق کے دور سے چل رہی ہے، اس کا عملی مظاہرہ فخر زمان نے کیا، اوپنر نے انگلینڈ کیخلاف میچ میںنصف سنچری بنائی اور اسٹمپڈ ہونے کے بعد تھرڈ امپائر کے فیصلہ کا انتظار کئے بغیر خود ہی پویلین کی طرف لوٹ گئے، یہ قابل تعریف بات ہے، فتح کے بعد پلیئرز کے اعزاز میں ضیافت کے موقع پر میں نے فخر زمان کی اس رویے کو بہت سراہا، ایک کھلاڑی کی جانب سے ایسا اقدام پوری ٹیم کے لیے مثال بن جاتا ہے، میں گرین شرٹس کے جذبے، اعتماد اور عزم سے بہت متاثر ہوا، ایک ناکامی کے بعد پاکستان نے عالمی نمبر ون جنوبی افریقہ کو شکست دی، اس کے بعد بھارت کو ہرانے والی سری لنکن ٹیم کو بھی زیر کرلیا، سیمی فائنل میں ہوم گراؤنڈ پر کھیلنے والی اور ایونٹ کی ناقابل شکست انگلینڈ کی ٹیم کو مات دی تو یقین ہونے لگا تھا کہ اب کوئی بھی ٹیم نہیں ٹھہر سکتی، فائنل میں بھارت کو بھی زیر کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، بالآخر کھلاڑی قوم کی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب ہوئے،ایک ملاقات میں بھارتی ٹیم کے کوچ انیل کمبلے نے پاکستانی کرکٹرز کی فائٹنگ سپرٹ کو سراہا۔
ایکسپریس:کوچنگ سٹاف کی کارکردگی کا جائزہ لے کر کنٹریکٹس کا فیصلہ کرنے کی بات ہورہی تھی،اب کیا حکمت عملی ہوگی؟
شہریارخان: مکی آرتھر معاہدہ کے مطابق 2سال پورے کرینگے، بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ میں دیگر سٹاف کے کنٹریکٹس میں توسیع کئے جانے کا قوی امکان ہے،کھلاڑی اور مکی آرتھر بھی ان کی خدمات سے مزید فائدہ اٹھانے کے حق میں ہیں، فیلڈنگ کوچ سٹیو رکسن نے شاندار کارکردگی دکھائی، 60 سال سے کبھی پاکستان ٹیم کی ایسی شاندار اور جارحانہ انداز میں فیلڈنگ نہیں دیکھی، میرا ووٹ تو وکوچنگ سٹاف کو توسیع دینے کے حق میں ہوگا۔
ایکسپریس: سرفراز احمد کو تینوں فارمیٹ کا کپتان بنانے کے تجویز کس حد تک قابل عمل قرار دی جاسکتی ہے؟
شہریارخان: وکٹ کیپر بیٹسمین پہلے ہی ٹیسٹ ٹیم کے نائب کپتان ہیں، اگلی ٹیسٹ سیریز اکتوبر میں سری لنکا کیخلاف ہے، اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے رخصتی سے قبل میں خود سے قبل کپتان کا اعلان کر کے جاؤں گا، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میں کس کو کپتان بناؤں گا، سرفراز نے واقعی بہت محنت کی اور کھلاڑیوں کو بڑے اچھے انداز میں کارکردگی دکھانے کے موقع فراہم کئے ہیں، ہر میچ کے بعد اس کی میچیورٹی میں اضافہ ہو رہا ہے، بھارت سے میچ میں ہردیک پانڈیا نے شاداب خان کو لگاتار 3 چھکے لگائے لیکن سرفراز نے لیگ سپنر کو اعتماد دیتے ہوئے اگلا اوور پھر ان سے کرایا، یہ ذہنی پختگی کی علامت ہے،انہوں نے اچھی قیادت کرتے ہوئے بولنگ اور بیٹنگ میں بروقت تبدیلیاں کیں، فائنل میں محمد حفیظ کو بیٹنگ کے لیے بھیجا گیا تو میں تھوڑا فکر مند ہوا لیکن انہوں نے بھی تیز رفتاری سے رنز بنائے، کپتان کی درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہی ٹیم کو اٹھاتی ہے۔ میں ہیڈ کوچ مکی آرتھر، چیف سلیکٹر انضما م الحق، ڈائریکٹر اکیڈمیز مدثر نذر،نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے ہیڈ کوچ مشتاق احمد اور کوچز سے مشورہ کرنے کے بعد فیصلے کرتا ہوں، مصباح سے بھی بات چیت کروں گا، سرفراز احمد کو ٹیسٹ قیادت سپرد کرنے کے بارے میں بھی ان سب سے مشاورت ہوگی،امکان یہی ہے کہ ان کو تیسرے فارمیٹ میں بھی ذمہ داری سونپ دی جائے گی۔
ایکسپریس: کیا مصباح الحق اور یونس خان کو پی سی بی کیساتھ کام کرنے کے لیے موقع دیئے جانے کا کوئی امکان اب بھی باقی ہے؟
شہریارخان: دونوں سے بات کی تھی، انہوں نے سوچنے کے لیے وقت مانگا ہے، واپس جا کر دوبارہ بات کروں گا، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے دونوں ہماری مدد کریں،چاہے مینٹور بنیں، کوچ بنیں یا بورڈ میں آئیں، جیسے بھی ہوا ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔
ایکسپریس: سپاٹ فکسنگ کیس کے فیصلے میں غیر معمولی تاخیر کی کیا وجہ ہے؟
شہریارخان: انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے،کئی قانونی پیچیدگیاں ہوتی ہیں، کارروائی کے دوران وکلاء کے دلائل سننا پڑتے ہیں تاکہ بعد میں کوئی یہ نہ کہے کہ صفائی کا موقع نہیں دیا گیا،میرے خیال میں کیس اختتام کے قریب پہنچ چکا، سزا کا فیصلہ تو ٹریبیونل کوکرنا ہے لیکن میری ذاتی سوچ یہ ہے کہ اگر کسی نے ملک کی ساکھ تباہ کرنے والا کوئی کام کیا ہے تو اس کو معاف نہیں کرنا چاہیے۔
ایکسپریس: آپ کی رخصتی کا وقت قریب آتا جارہا ہے، نئے چیئرمین کی تقرری کے بارے میں کیا کہیں گے؟
شہریارخان: نئے چیئرمین کا تقرر آئین کے مطابق ہی ہو گا، موجودہ گورننگ بورڈ بھی 17 اگست سے ختم ہو جائے گا، نیا سیٹ اپ بن جانے کے بعد ہی اس حوالے سے صورتحال واضح ہو گی، ڈپارٹمنٹل ٹیمیں 4ہوں گی، ریجنل نمائندوں کو روٹیشن پالیسی کے تحت لانا ہوگا،4 کو موقع مل چکا،دیگر میں سے 4لینے ہوں گے، جغرافیائی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ریجنز کو نمائندگی دی جائے گی،اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم کو اختیار حاصل ہے کہ وہ 2لوگوں کو بورڈ میں شامل کر سکتے ہیں، اس سے قبل مجھ کو شامل کیا گیا اور بعد ازاں میں پہلی بار ہونے والے الیکشن میں مجھے چیئرمین منتخب کیا گیا، اس سے قبل بورڈ کا سربراہ نامزد کیا جاتا تھا، اب دوبارہ الیکشن ہو گا ، وزیر اعظم بورڈ میں جن کو اپنا نمائندہ بنائیں گے انہی میں سے ایک چیئرمین ہو گا۔
ایکسپریس: اگر وزیر اعظم دوبارہ آپ کو نامزد کرنانا چاہیں تو کیا فیصلہ ہوگا؟
شہریارخان: اگر وزیر اعظم کہیں بھی تو دوبارہ نہیں آنا چاہتا کیونکہ میری صحت اجازت نہیں دیتی، کرکٹ کا بہت شوق ہے لیکن اب انرجی باقی نہیں رہی، پہلے پڑھاتا رہا ہوں اب بھی یہی کروں گا۔
ایکسپریس: کیا نجم سیٹھی بھی چیئرمین بننے کی انرجی ہے؟
شہریارخان: (قہقہہ) ہاں وہ عمر رسیدہ نہیں ہیں، ان میں بہت انرجی ہے۔
ایکسپریس: چیمپئنز ٹرافی آپ کے موجودہ دورمیں اہم ترین کامیابی ثابت ہوئی،کیا کوئی خواب پورا نہ کرنے کا ملال بھی ہے؟
شہریارخان: بھرپور کوشش کے باوجود بھارت سے سیریز نہ کرانے کا افسوس ہے،ہم باہمی مقابلوں کے بہت قریب پہنچ چکے تھے، ششانک منوہر کھرے آدمی ہیں،انہوں نے بطور صدر بی سی سی آئی رضامندی ظاہر کی لیکن کہا کہ یواے ای میں نہیں کھیل سکتے، اس کے علاوہ کسی نیوٹرل مقام پر سیریز ہوسکتی ہے، پی سی بی نے سری لنکا سے رابطہ کیا تو بڑا مثبت جواب آیا لیکن ششانک منوہر نے آگاہ کیا کہ حکومت اجازت نہیں دے رہی۔
ایکسپریس: آپ نے بی سی سی آئی کو نوٹس بھی جاری کیا تھا، اس کا کیا بنا؟
شہریارخان: یہ معاملہ ابھی چل رہا ہے،ابھی آئی سی سی اجلاس کے دوران بھی بی سی سی آئی حکام سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہ ہم تو کھیلنا چاہتے ہیں، حکومت اجازت نہیں دے رہی،ہمارا موقف تھا کہ معاہدے کے تحت بھارت سیریز کھیلنے کا پابند ہے،آپ اپنی حکومت کو بتائیں اور منائیں کیونکہ کرکٹ کی دنیا میں دونوں ملکوں کے مقابلوں سے زیادہ توجہ کسی میچ کو نہیں ملتی،اس بات کا اعتراف آئی سی سی بھی کرتی ہے۔
ایکسپریس: آئی سی سی الیون کی پاکستان آمد کے کیا امکانات ہیں؟
شہریارخان: آئی سی سی میٹنگ میں ٹاسک فورس کے سربراہ جائلز کلارک سے بات چیت ہوئی،ستمبر کے تیسرے ہفتے میں ورلڈالیون پاکستان آئے گی، صرف بجٹ کا معاملہ باقی ہے،اس کے لیے سپانسرز تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں،امید ہے کہ یہ ٹور کامیاب ہوگا اور ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے راستے کھلیں گے،ہمیں بتدریج لیکن ثابت قدمی سے اس مقصد کے لیے کام کرنا ہوگا۔
ایکسپریس: ''بگ تھری'' کو ختم کرنے کے لیے مہم کی کامیابی میں آپ کا بھی اہم کردار ہے،آئی سی سی کے ترمیم شدہ آئین کے عالمی کرکٹ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
شہریارخان: آئی سی سی کو جمہوری بنیادوں پر استوار کرنے کی تحریک میں پی سی بی پیش پیش رہا، ایک متوازن اور مضبوط نظام لانے کے لیے ممبر ملکوں کو قائل کرنے میں ہمارا کردار اہم تھا، متفقہ فیصلہ انٹرنیشنل کرکٹ کی بہتری کے لیے اہم قدم ثابت ہوگا،بھارت کو بھی اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ مالی طاقت کے بل بوتے پر اجارہ داری قائم کرنے کا منصوبہ دیرپا نہیں تھا،بہرحال بگ تھری کے منطقی انجام تک پہنچنا صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر ممبر ملکوں کے لیے بھی اطمینان کا باعث ہے۔