شاداب خان کی دریافت کیسے ہوئی

ابتدائی کوچ نصیراحمد نے ماضی کی یادیں بیان کر دیں

ابتدائی کوچ نصیراحمد نے ماضی کی یادیں بیان کر دیں۔ فوٹو: فائل

شاداب خان پاکستان کے ایک ابھرتے ہوئے لیگ اسپنر ہیں، جونیئر لیول کے بعد انھوں نے پی ایس ایل میں اچھی کارکردگی دکھائی اور اب قومی ٹیم کے لیے کارنامے انجام دے رہے ہیں۔

2 برس پہلے کی بات ہے، میں انگلینڈ کے دورے پر گیا، لندن میں میری ایک پاکستانی نژاد کوچ نصیر احمد سے ملاقات ہوئی،وہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں 5711 رنز بنا چکے مگر بدقسمتی سے باصلاحیت ہونے کے باوجود قومی ٹیم کی نمائندگی کا موقع نہ پا سکے تھے، اب وہ انگلینڈ میں کوچنگ کر رہے ہیں،انھوں نے مجھے بتایا کہ ''ایک اسپنر شاداب خان بہت باصلاحیت ہے اور آپ یہ بات لکھ لیں وہ جلد نہ صرف پاکستان کی نمائندگی کرے گا بلکہ خوب نام بھی کمائے گا، میں نے اس کی کوچنگ کی اور اس میں چھپا ٹیلنٹ جانچ لیا ہے''۔

عموماً کوچز اپنے شاگردوں کے بارے میں ایسی ہی باتیں کرتے ہیں، میں سمجھا وہ بھی ایسے ہی کہہ رہے ہیں لہذا بات آئی گئی ہو گئی، مگر پی ایس ایل میں جب شاداب کو ایکشن میں دیکھا تو میں نے محسوس کیا کہ واقعی وہ بولر تو اچھا ہے، پھر اسپنر نے ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں اپنی کارکردگی کا لوہا منوا لیا،پاکستان کی گرین ٹیسٹ کیپ بھی سر پر سج چکی، چیمپئنز ٹرافی میں بھی شاداب کی بولنگ بہتر رہی۔

ایونٹ کی کوریج کے لیے لندن آنا ہوا تو پھر نصیر احمد سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ آپ کا دعویٰ تو درست ثابت ہوا، کوچ سے شاداب کی دریافت کے حوالے سے کچھ باتیں ہوئیں ، نصیر احمد نے بتایا کہ2010 میں میانوالی سے شاداب خان کی فیملی راولپنڈی کے علاقے ڈھوک منگٹال منتقل ہوئی، اس وقت وہ12 سال کا بچہ تھا، وہاں اس نے ہمارے کلب صدیق اکبر میموریل کے ساتھ ریلوے گراؤنڈ پر پریکٹس شروع کی۔

ابتدا میں شاداب ٹینس گیند سے میڈیم فاسٹ بولنگ کیا کرتا تھا،کلب کے صدر و کپتان سجاد احمد نے اس کی رہنمائی شروع کی اور لیگ اسپن کرنے کا مشورہ دیا، وہ بہت محنتی بچہ تھا اور نیٹ پریکٹس کے لیے ہمیشہ سب سے پہلے آتا، میں بھی اس دوران کوچنگ کرتا رہا، پھر شاداب نے انڈر 16،19 کرکٹ بھی کھیلی اور صلاحیتوں کا لوہا منوا کر آگے بڑھتا رہا، میں انگلینڈ چلا گیا تھا مگر جب بھی پاکستان جاتا شاداب کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتا۔


2 برس پہلے صبح 6 بجے ریس کورس گراؤنڈ پر بھی اس کے ساتھ کوچنگ سیشنز کیے، اس دوران اسے فرنٹ فٹ کی وجہ سے سائیڈ اسٹرین کا مسئلہ ہوا جسے میں نے حل کرایا تو فٹنس ٹھیک ہو گئی، ہمارا فون پر بھی رابطہ رہتا تھا،پی ایس ایل ون کے دوران میں دبئی گیا تو وہاں معین خان اور ڈاکٹر نعمان نیاز نے میری ویوین رچرڈز سے ملاقات کرائی، انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ ''کیا پاکستان میں کوئی اچھا نوجوان لیگ اسپنر ہے جو گگلی، فلپر وغیرہ کرتا ہو۔

میں نے انھیں شاداب کا بتایا اور یہ بھی کہا کہ وہ اگلے سال اس لیگ میں کارنامے انجام دے رہا ہو گا، میری یہ بات درست ثابت ہوئی، نصیر احمد کے مطابق شاداب خان اچھا بیٹسمین بھی ہے اور جلد اس شعبے میں بھی صلاحیتوں کا لوہا منوا لے گا، فیلڈنگ سے تو پہلے ہی اس نے سب کو متاثر کر دیا ہے، گزشتہ دنوں میری چیئرمین پی سی بی شہریارخان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بھی کہا تھا کہ ''شاداب بہت اچھا فیلڈر ہے اور ہم اسے جونٹی رہوڈز کہہ کر پکارتے ہیں''۔

شاداب خان کے بارے میں نصیر احمد نے یہ بھی بتایا کہ وہ بہت اچھا انسان ہے، ضرورت مند کرکٹرز کو کرکٹ کا سامان وغیرہ دے کر خاموشی سے مدد کرتے رہتا ہے، سینئرز کی بھی بے حد عزت کرتا ہے، اس میں اعتماد بھی بہت زیادہ ہے، چیمپئنز ٹرافی کے دوران میں شاداب سے ملاقات کے لیے برمنگھم گیا تو کہا کہ میچز کے دوران وقفے میں ایک دن کے لیے لندن چلے آؤ تو اس نے کہا کہ ''ایسا ممکن نہیں ہو گا''۔

میں نے ازرائے مذاق کہا تو پھر تو کارڈف سے ہی واپس چلے جاؤ گے تو جواب دیا کہ ''نہیں فائنل کھیلنے آئیں گے لندن اور پھر ٹرافی جیتنے کے بعد آپ سے پھر ملاقات ہو گی''، بعد میں ایسا ہی ہوا، جب ہماری ملاقات ہوئی تو اس نے کہا ''دیکھا نصیر بھائی میں نے صحیح کہا تھا ناں'' نصیر احمد نے مزید بتایا کہ ایک اور اچھا کھلاڑی زید خان ہے جو دو، تین برس میں پاکستان کی نمائندگی کر سکتا ہے، وہ لیفٹ ہینڈڈ بیٹسمین، آف اسپنر اور اچھا فیلڈر ہے۔

 
Load Next Story