ورلڈ ہاکی لیگ میں شرمناک کارکردگی قومی کھیل کی تباہی کا نوحہ کب تک

پی ایچ ایف کے سابق و موجودہ عہدیدار اورسابق اولمپئنز اس حقیقت سے کیوں نظریں چرائے بیٹھے ہیں۔

پی ایچ ایف کے سابق و موجودہ عہدیدار اورسابق اولمپئنز اس حقیقت سے کیوں نظریں چرائے بیٹھے ہیں۔ فوٹو : فائل

وہ گھر کی بالکونی میں اپنے اہلخانہ اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ کھڑا ہے، رہائشگاہ کے باہر ہزاروں افراد موجود ہیں جب وہ ٹرافی کو ہاتھوں میں تھامے بازو ہوا میں لہراتا ہے تو فضا اللہ اکبر، پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھتی ہے، واہ شہر قائد میں اس وقت کیا سماں اورکیا ماحول تھا،سب اپنے دکھ، رنج وغم، حکمرانوں کی من مانیاں اور عیاشیاں، غربت، بے روزگاری اوربھوک کو بھول کر ایک پرچم تلے کھڑے تھے، وہ نوجوان پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد تھے جو آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے ہمراہ لندن سے کراچی پہنچے تو ان کا ایسا استقبال ہوا جس کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔

سرفراز احمد کے استقبال کو دیکھ کر میں ماضی کی ان یادوں میں کھو گیا جب ایسا ہی فقید المثال استقبال ورلڈ کپ1982ء کی فاتح پاکستان ہاکی ٹیم کا بھی ہوا تھا، کپتان اختر رسول کو لاہور ایئرپورٹ سے جلوس کی صورت میں داتا دربار تک لایا گیا، 1994ء میں گرین شرٹس چوتھی بار عالمی چیمپئن بنے تو گورے شائقین پاکستانی کھلاڑیوں کے کھیل کو دیکھ کر عش عش کر اٹھے اور کہا کہ تم ہاکی کے لیجنڈ ہو، نہ جانے ہاکی کے کھیل کو کس کی نظر لگ گئی کہ عالمی اعزازات ہم سے روٹھ گئے ہیں،اگر کسی کو سمجھ نہ آئے تو لندن میں جاری ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ میں پاکستان ہاکی ٹیم کی حالیہ کارکردگی کو ہی دیکھ لیں۔

ہفتہ کو بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد قومی ٹیم آئندہ برس بھارت میں شیڈول ورلڈ کپ تک براہ راست رسائی کا موقع بھی کھو چکی ہے۔اب قومی ٹیم کی وطن واپسی پر ماضی کا رٹا رٹایا سبق دوبارہ دہرایا جائے گا، ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ میں ٹیم کی شرمناک شکستوں پرمگر مچھ کے آنسو بہائے جائیں گے، یورپی ممالک کے اربوں، کھربوں کے انفراسٹرکچر اور پاکستان میں گنتی کے چند آسٹروٹرف کی باتیں کی جائیں گی، قصہ مختصر ٹیم کی شکست کو اس انداز میں پیش کیا جائے گا کہ بھولی اور سیدھی سادھی قوم کو ورلڈ ہاکی لیگ میں شریک ٹیمیں ظالم اور قومی ٹیم مظلوم دکھائی دینے لگے گی۔

ملکی بیشتر محکموں کی طرح ہماری کھیلوں کا بھی اللہ ہی حافظ ہے لیکن یہ ہاکی کا کھیل ہی ہے جس نے ماضی میں ملک و قوم کی خوب لاج رکھی، ہمارے کھلاڑیوں نے دنیا بھر میں اپنے کھیل کی ایسی دھاک بٹھائی کہ گرین شرٹس انٹرنیشنل مقابلوں میں حصہ لینے کے لئے جاتے تو شریک ٹیموں کے پلیئرزکے ہاتھ پاؤں گراؤنڈ میں اترنے سے قبل ہی پھول جاتے، شائقین ابھی بھی وہ لمحات فراموش نہیں کر پائے جب قطرایشین گیمز1962ء کے فائنل مقابلے کے دوران بریگیڈیئرعاطف کی تیز ترین ہٹوں سے بھارتی گول کیپر لکشمن کا پورا جسم نیلا، پیلا ہو گیا تھا، جب گولی کی رفتار سے بھی تیز آنے والی گیند لگنے سے چرن سنگھ وہی ڈھیر ہو گیا اور جب ایک پاکستانی کھلاڑی کی ہٹ نے بھارتی گرونجش کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا اور اسے15 ٹانکے لگے۔

قومی ٹیم کے 1952ء کے دورئہ انگلینڈ کے دوران میزبان پلیئرکونرائے نے نجی تقریب میں پاکستان کے خلاف نازیبا الفاظ کہے تو اگلے ہی روز گرین شرٹس نے اس سے ایسا انتقام لیا کہ زخموں سے چور کونرائے کو میچ کے ابتدائی 15 منٹوں میں ہی اٹھا کر گراؤنڈ سے باہر لے جانا پڑا۔ پرستاروں کو اب بھی وہ چھوٹی ٹانگ اورٹیرھی بازو والے کھلاڑی محمد اشفاق اور رشید جونیئر یاد ہیں، جنہوں نے جسمانی معذوریوں کے باوجود میکسیکو اولمپکس1968ء کا طلائی میڈل قومی ٹیم کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔

قوم وہ دن بھی نہیں بھولے ہوں گے جب میونخ اولمپکس 1972ء میں چاندی کا تمغہ جیتنے کے باوجود ناخوش قومی کھلاڑیوں نے میڈلز وصول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔وہ سنہری لمحات اب بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہیں جب قومی ٹیم نے تہران ایشین گیمز کے فائنل میں روایتی حریف بھارت کا غرور خاک میں ملا کر سقوط ڈھاکہ کے بعد پہلی بار عالمی سطح پر قوم کوخوشخبری دی تھی، سیکریٹری پی ایچ ایف شہباز احمد سینئر صاحب ابھی یہ کل ہی کی بات لگتی ہے جب گرین شرٹس نے آپ کی قیادت میں ورلڈ کپ 1994ء کا ٹائٹل اپنے نام کیا تو عوام کے ٹھاٹھے مارتے سمندر نے ٹیم کا شاندار استقبال کیا تھا۔


پی ایچ ایف کے سابق و موجودہ عہدیدار اورسابق اولمپئنز اس حقیقت سے کیوں نظریں چرائے بیٹھے ہیں کہ یہ ہاکی کا کھیل ہی ہے جس نے آپ سب کو معاشرے میں بلند مقام دیا، کروڑوں روپے کے بینک بیلنس اور قیمتوں پلاٹس کا مالک بنایا، رہنے کے لئے باعزت روزگار دیا، کینیڈا، انگلینڈ، روس، آسٹریلیا سمیت دنیا بھر کی نیشنلٹیز دلوائیں، پھر بھی آپ سب نے اس کھیل کی حقیقی معنوں میں خدمت کرنے کی بجائے اپنے ذاتی فائدوں کو ترجیح دینے کی پالیسی کو کیوں اپنا لیا۔

ملکی کھیلوں کا جو حال ہے وہ تو سب کے سامنے ہے، کتنے افسوس کی بات ہے کہ 20 کروڑ سے زائد باسیوں کی سرزمین باصلاحیت کھلاڑ ی پیدا کرنے میں بانجھ دکھائی دیتی ہے جبکہ 50 ،60 اور ایک کروڑ تک کے آبادی کے بیشتر ممالک اولمپکس سمیت دنیا کے بڑے ایونٹس میں میڈلز جیت کر اپنے ملک کی نیک نامی کا سبب بنتے ہیں، واحد گیم ہاکی ہی بچتی تھی جس سے قوم کو عالمی ایونٹس میں میڈلز کی امید ہوتی تھی، سو اس کا بھی بیڑہ غرق کر دیا گیا، شنید ہے کہ ورلڈ لیگ میں بھارت کے ہاتھوں شکست پر کھلاڑی ہوٹل میں جا کر چھپ چھپ کر آنسو بہاتے رہے۔

افسوس صد افسوس جب سانپ ہی گزر گیا ہو تو لکیر پیٹنے کاکیا فائدہ، تم نے اس وقت ہوش کے ناخن لئے ہوتے جب لیگ کا حصہ بننے کے لئے پاکستان سے روانہ ہوئے تھے، اس وقت اپنے غلطیوں سے سبق سیکھا ہوتا جب تم نے حریف سائیڈز کے خلاف میدان میں ایکشن میں دکھائی دینا تھا،کاش تم نے قومی کرکٹرز سے ہی سبق سیکھا ہوتا جو ابتدائی ناکامی کے باوجود آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی پاکستان لے آئے، کاش تم نے پاکستان کی کروڑوں عوام کو دیکھا ہوتا جو رات بھر جاگ جاگ کر تمہاری کامیابی کے لئے دعائیں کرتی رہیں لیکن ہاکی کی بھاگ ڈور سنبھالنے والوں اور پلیئرز کو اس سے کیا غرض۔

قوم ہاکی کی بے بسی پر روتی ہے تو روتی رہے، پلیئرز اور ارباب اختیار کو تو نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، آئرلینڈ، انگلینڈ کے سیر سپاٹے اوردل کھول کر سیلفیاں بنوانے کے مواقع میسر آئے، میں پوچھتا ہوں کہ دیوار چین، فلائنگ ہارس کے القاب سے پکارے جانے والے کھلاڑی کہاں گئے، کہاں ہیں وہ اے جی خان، شاہ رخ، بریگیڈیئر حمیدی، ڈاکٹر غلام رسول چوہدری، نصیر بندہ، انوار خان، منیر ڈار، ذاکر سید، خالد محمود، استاد سعید انور، اشفاق احمد، رشید جونیئر، شہناز شیخ، منظورالحسن، اختر رسول، منظور جونیئر، سمیع اللہ، حسن سردار، شاہد علی خان، حنیف خان، اصلاح الدیں صدیقی، شہباز سینئر،سہیل عباس کہاں گئے وہ دن جب میچ کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں کے اللہ اکبر کے نعرے سٹیڈیم میں موجود ہزاروں تماشائیوں اور ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھے کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کو گرما دیتے تھے۔

کہاں گئے وہ دن جب مخالف ٹیموں کے کھلاڑی تمہارا رعب و دبدبہ دیکھ کر مقابلے سے پہلے ہی ہمت ہار بیٹھتے تھے، کہاں گئے وہ دن جب دنیا فخر سے کہتی تھی کہ اگر ہاکی سیکھنی ہو تو پاکستان جاؤ۔جب نیتوں میں ہی کھوٹ ہو، جب اولین مقصد ہی دنیا بھر کے سیر سپاٹے کرنا ، ڈالرز اور پاؤنڈز کمانا ہو تو غیبی مدد بھی کس طرح آئے گی۔

کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ جب باڑ ہی فصل کو کھانے لگے، جب چوکیدار ہی چور بن جائے، مسجد کا رکھوالا اینٹیں، سیمنٹ، بجری اور سریا بیچنے لگے، پولیس ڈاکو بن جائے، جج بے انصافی کرنے لگے، فوج اپنے ہی شہروں کو فتح کرنے لگے، قانون ساز قانون توڑنے لگیں، سیاستدان سیاست کو کاروبار بنانے لگیں، عوام ملک کو لوٹنے اور برباد کرنے لگیں۔

جب کھلاڑیوں کی ترجیحات ملک وقوم کی نیک نامی کی بجائے پیسہ اور صرف پیسہ رہ جائے تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے، ہاکی کا بھی اس وقت کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ قومی کھیل کی مزید تنزلی کا سفر کہاں تک جاری رہتا ہے، اس کا ہمیں اور آپ کو انتظار رہے گا۔
Load Next Story