اقبال کوثر
مجھے تو گھر کے اندھیروں نے بانٹ رکھا ہے
زندگی کے سفر میں کئی طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ بیشتر کے ساتھ تو راہگیروں والی ملاقات ہوتی ہے کہ نظر ملی تو مسکرا دیے یا زیادہ سے زیادہ حال چال پوچھ لیا لیکن ہر شخص کی زندگی میں کچھ ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جنھیں اس کا حلقۂ احباب کہا جا سکے۔ اب یہ اور بات ہے کہ اس حلقہ احباب میں رشتوں کی گہرائی اور ملاقاتوں کی تعداد کی نسبت سے خاصا فرق ہوتا ہے اور پھر اس حلقۂ احباب کے اپنے بھی کئی طرح کے دائرے ہوتے ہیں۔ بچپن کے دوست' اسکول و کالج کے زمانے کے دوست' دفتر کے دوست' دوستوں کے دوست' کھیل کے میدان کے ساتھی' تاش پارٹی اور کسی مخصوص شوق سے متعلق دوست وغیرہ وغیرہ وغیرہ' لیکن ان سب سے الگ ہم لکھنے والوں کا ایک اپنا حلقہ بھی ہوتا ہے جسے عرفِ عام میں ادبی برادری کہا جاتا ہے اور یہی وہ حوالہ ہے جس کی معرفت میری اقبال کوثر مرحوم سے پہلی ملاقات تقریباً چالیس برس قبل ہوئی تھی۔
وہ ساری زندگی جہلم میں رہے اور میں لاہور میں' سو اس جغرافیائی دوری کے سبب عین ممکن تھا کہ ان سے یہ ادبی تعلق دور دور کی اور مشاعراتی سلام دعا تک ہی محدود رہتا لیکن ہوا یوں کہ آج سے تقریباً 32 سال قبل آنجہانی راجندر ملہوترہ کے شام بہار ٹرسٹ انبالہ والے مشاعرے میں بھی ہم دونوں ایک ساتھ مدعو ہو گئے اور یوں چند دن اکٹھے گزارنے کا موقع مل گیا اور یہی وہ زمانہ تھا جب میں نے اقبال کوثر کو نزدیک سے نہ صرف دیکھا بلکہ ان کی شاعری اور شخصیت سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ وہ ایک دھیمے مزاج کے گوشہ نشین' حال مست اور دروں بین قسم کے انسان تھے جو کسی بھی محفل میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے سے حتیٰ الممکن گریز کرتے ہیں۔ ان کے مزاج کی فطری درویشی کا یہ رنگ آگے چل کر اور گہرا ہو گیا جس کی جھلک یوں تو ان کی ساری شاعری میں نظر آتی ہے مگر منڈی بہاؤ الدین سے برادرم ذاکر حسین ضیائی کی بھجوائی ہوئی یہ غزل تو گویا ان کا ٹریڈ مارک بن گئی ہے:
جس طرح لوگ خسارے میں بہت سوچتے ہیں
آج کل ہم ترے بارے میں بہت سوچتے ہیں
کون حالات کی سوچوں کے تموج میں نہیں
ہم بھی بہہ کر اسی دھارے میں' بہت سوچتے ہیں
ہنر کوزہ گری نے انھیں بخشی ہے تراش
یا یہ سب نقش تھے گارے میں' بہت سوچتے ہیں
دھیان دھرتی کا نکلتا ہی نہیں ہے دل سے
جب سے اترے ہیں ستارے میں بہت سوچتے ہیں
اب محبت میں بھی اقبالؔ ہماری اوقات
کیوں نہیں اپنے گزارے میں' بہت سوچتے ہیں
32 سال قبل کے اس سفر کے ہم سفروں میں سید ضمیر جعفری' قتیل شفائی' رفعت سلطان' عطاء الحق قاسمی' بسمل صابری' سلطان رشک اور اقبال کوثر شامل تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وہ صبح' دوپہر اور شام ملا کر تینوں وقتوں میں روزانہ پندرہ سے زیادہ جملے نہیں بولتے تھے جب کہ اس کارواں کے بیشتر ساتھی سونے کے وقفے سے قطع نظر زیادہ وقت بولنے ہی کا کام کرتے تھے۔ اس کے باوجود یہ بات بے حد تعجب خیز ہے کہ اقبال کوثر کی خاموشی کبھی گراں نہیں گزری۔ اس کی ایک وجہ وہ معصوم مسکراہٹ بھی ہو سکتی ہے جو ہر وقت ان کے چہرے پر کھلتی رہتی تھی۔ ان سے ہمارا ایک مشترکہ رشتہ احمد ندیم قاسمی مرحوم سے محبت کا بھی تھا کہ اس ''جمال ہم نشینی'' کا اثر اس حلقہ احباب کی جان بھی تھا اور پہچان بھی۔
اقبال کوثر اپنی طبیعت کی درویشی اور ادبی مراکز سے دوری کے باوجود مجید امجد مرحوم کی طرح اس بات کی زندہ دلیل تھے کہ مضافات میں رہائش کسی جینوئن لکھنے والے کے رستے میں معمولی سی رکاوٹ تو بن سکتی ہے مگر اس کو روک نہیں سکتی۔ گڑبڑ اس وقت ہوتی ہے جب پچھلے دروازے سے داخل ہونے اور شارٹ کٹ مارنے کے قائل کچھ نام نہاد ''متاثرین'' ان کے نام' کام اور مقام کی آڑ لے کر اپنے بوگس کلیموں کو کیش کرانا چاہتے ہیں۔ اچھا شعر تو اس سورج کی طرح ہوتا ہے جسے کوئی بھی رات نہ چھپا سکتی ہے اور نہ روک سکتی ہے۔
بہت زیادہ صحت مند تو وہ کبھی بھی نہیں مگر زندگی کے آخری چند برسوں میں وہ زیادہ اور مسلسل علیل رہنے لگے تھے۔ کچھ عرصہ قبل ایک ملاقات کے دوران عزیزی قمر رضا شہزاد نے ان کی بیماری کی سنگینی کے بارے میں بتایا تو میں نے دل میں عہد کیا کہ اس بار اسلام آباد براستہ جی ٹی روڈ جاؤں گا تا کہ راستے میں اقبال کوثر سے ملاقات کی جا سکے۔ جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے' اس کو پڑھتے ہوئے ہر ہر سطر میں آپ کو ایک درد مند دل دھڑکتا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن جہاں وہ زندگی کے مسائل کی پیچیدگیوں پر بات کرتے ہیں آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی ایسے شخص کے روبرو ہیں جو دانش مند بھی ہے اور دانش ور بھی۔ ہر دو سطح پر وہ ابلاغ کے قائل تھے اور اس حد تک قائل تھے کہ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے آئن اسٹائن کا وہ مشہور جملہ یاد آنے لگتا تھا کہ
''اگر تم کوئی مشکل مسئلہ کسی چھ سال کے بچے کو سمجھانے کی اہلیت نہیں رکھتے تو جان لو کہ وہ مسئلہ تمہاری اپنی سمجھ میں بھی نہیں آیا۔''
اقبال کوثر کی وفات سے ہم ایک صاحب ادراک شخص اور ایک شعر کی نزاکتوں کے حامل اور پاریکھ شاعر سے محروم ہو گئے ہیں۔ وہ انگریزی محاورے کے مطابق ایک Low Key میں رہنے والے انسان تھے لیکن ان کی شاعری اپنے فنی قد کی وجہ سے دور سے دیکھی اور پہچانی جا سکتی ہے۔ آیئے ان کے اس کمالِ فن کو ان کی ایک غزل میں دیکھتے ہوئے انھیں اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتے ہیں:
دِیا سا دل ہوں محبت کدوں میں جلتا ہوں
لہو جلاتا ہوا دل جلوں میں جلتا ہوں
میں بار بار بجھا ہوں جہاں ہواؤں سے
میں بار بار انھی راستوں میں جلتا ہوں
مجھے تو گھر کے اندھیروں نے بانٹ رکھا ہے
میں اک چراغ کئی طاقچوں میں جلتا ہوں
رکھا ہوں گھر میں فقط قسط وار جلنے کو
گزرتی شب کے کئی مرحلوں میں جلتا ہوں
مصاحبت ہو تو اک بوسۂ ہوا سے بجھوں
مبارزت ہو تو میں آندھیوں میں جلتا ہوں
کوئی ہوا میں تو لعلِ یمن نہیں بنتا
کسے خبر کہ میں کن آتشوں میں جلتا ہوں
نہیں کہ میرا سفر ایک ہی مدار میں ہے
میں آفتاب کئی گردشوں میں جلتا ہوں
میں شہر درد میں ہوں جیسے گورکن کا چراغ
میں محفلوں میں نہیں مقبروں میں جلتا ہوں
وہ ساری زندگی جہلم میں رہے اور میں لاہور میں' سو اس جغرافیائی دوری کے سبب عین ممکن تھا کہ ان سے یہ ادبی تعلق دور دور کی اور مشاعراتی سلام دعا تک ہی محدود رہتا لیکن ہوا یوں کہ آج سے تقریباً 32 سال قبل آنجہانی راجندر ملہوترہ کے شام بہار ٹرسٹ انبالہ والے مشاعرے میں بھی ہم دونوں ایک ساتھ مدعو ہو گئے اور یوں چند دن اکٹھے گزارنے کا موقع مل گیا اور یہی وہ زمانہ تھا جب میں نے اقبال کوثر کو نزدیک سے نہ صرف دیکھا بلکہ ان کی شاعری اور شخصیت سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ وہ ایک دھیمے مزاج کے گوشہ نشین' حال مست اور دروں بین قسم کے انسان تھے جو کسی بھی محفل میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے سے حتیٰ الممکن گریز کرتے ہیں۔ ان کے مزاج کی فطری درویشی کا یہ رنگ آگے چل کر اور گہرا ہو گیا جس کی جھلک یوں تو ان کی ساری شاعری میں نظر آتی ہے مگر منڈی بہاؤ الدین سے برادرم ذاکر حسین ضیائی کی بھجوائی ہوئی یہ غزل تو گویا ان کا ٹریڈ مارک بن گئی ہے:
جس طرح لوگ خسارے میں بہت سوچتے ہیں
آج کل ہم ترے بارے میں بہت سوچتے ہیں
کون حالات کی سوچوں کے تموج میں نہیں
ہم بھی بہہ کر اسی دھارے میں' بہت سوچتے ہیں
ہنر کوزہ گری نے انھیں بخشی ہے تراش
یا یہ سب نقش تھے گارے میں' بہت سوچتے ہیں
دھیان دھرتی کا نکلتا ہی نہیں ہے دل سے
جب سے اترے ہیں ستارے میں بہت سوچتے ہیں
اب محبت میں بھی اقبالؔ ہماری اوقات
کیوں نہیں اپنے گزارے میں' بہت سوچتے ہیں
32 سال قبل کے اس سفر کے ہم سفروں میں سید ضمیر جعفری' قتیل شفائی' رفعت سلطان' عطاء الحق قاسمی' بسمل صابری' سلطان رشک اور اقبال کوثر شامل تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وہ صبح' دوپہر اور شام ملا کر تینوں وقتوں میں روزانہ پندرہ سے زیادہ جملے نہیں بولتے تھے جب کہ اس کارواں کے بیشتر ساتھی سونے کے وقفے سے قطع نظر زیادہ وقت بولنے ہی کا کام کرتے تھے۔ اس کے باوجود یہ بات بے حد تعجب خیز ہے کہ اقبال کوثر کی خاموشی کبھی گراں نہیں گزری۔ اس کی ایک وجہ وہ معصوم مسکراہٹ بھی ہو سکتی ہے جو ہر وقت ان کے چہرے پر کھلتی رہتی تھی۔ ان سے ہمارا ایک مشترکہ رشتہ احمد ندیم قاسمی مرحوم سے محبت کا بھی تھا کہ اس ''جمال ہم نشینی'' کا اثر اس حلقہ احباب کی جان بھی تھا اور پہچان بھی۔
اقبال کوثر اپنی طبیعت کی درویشی اور ادبی مراکز سے دوری کے باوجود مجید امجد مرحوم کی طرح اس بات کی زندہ دلیل تھے کہ مضافات میں رہائش کسی جینوئن لکھنے والے کے رستے میں معمولی سی رکاوٹ تو بن سکتی ہے مگر اس کو روک نہیں سکتی۔ گڑبڑ اس وقت ہوتی ہے جب پچھلے دروازے سے داخل ہونے اور شارٹ کٹ مارنے کے قائل کچھ نام نہاد ''متاثرین'' ان کے نام' کام اور مقام کی آڑ لے کر اپنے بوگس کلیموں کو کیش کرانا چاہتے ہیں۔ اچھا شعر تو اس سورج کی طرح ہوتا ہے جسے کوئی بھی رات نہ چھپا سکتی ہے اور نہ روک سکتی ہے۔
بہت زیادہ صحت مند تو وہ کبھی بھی نہیں مگر زندگی کے آخری چند برسوں میں وہ زیادہ اور مسلسل علیل رہنے لگے تھے۔ کچھ عرصہ قبل ایک ملاقات کے دوران عزیزی قمر رضا شہزاد نے ان کی بیماری کی سنگینی کے بارے میں بتایا تو میں نے دل میں عہد کیا کہ اس بار اسلام آباد براستہ جی ٹی روڈ جاؤں گا تا کہ راستے میں اقبال کوثر سے ملاقات کی جا سکے۔ جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے' اس کو پڑھتے ہوئے ہر ہر سطر میں آپ کو ایک درد مند دل دھڑکتا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن جہاں وہ زندگی کے مسائل کی پیچیدگیوں پر بات کرتے ہیں آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی ایسے شخص کے روبرو ہیں جو دانش مند بھی ہے اور دانش ور بھی۔ ہر دو سطح پر وہ ابلاغ کے قائل تھے اور اس حد تک قائل تھے کہ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے آئن اسٹائن کا وہ مشہور جملہ یاد آنے لگتا تھا کہ
''اگر تم کوئی مشکل مسئلہ کسی چھ سال کے بچے کو سمجھانے کی اہلیت نہیں رکھتے تو جان لو کہ وہ مسئلہ تمہاری اپنی سمجھ میں بھی نہیں آیا۔''
اقبال کوثر کی وفات سے ہم ایک صاحب ادراک شخص اور ایک شعر کی نزاکتوں کے حامل اور پاریکھ شاعر سے محروم ہو گئے ہیں۔ وہ انگریزی محاورے کے مطابق ایک Low Key میں رہنے والے انسان تھے لیکن ان کی شاعری اپنے فنی قد کی وجہ سے دور سے دیکھی اور پہچانی جا سکتی ہے۔ آیئے ان کے اس کمالِ فن کو ان کی ایک غزل میں دیکھتے ہوئے انھیں اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتے ہیں:
دِیا سا دل ہوں محبت کدوں میں جلتا ہوں
لہو جلاتا ہوا دل جلوں میں جلتا ہوں
میں بار بار بجھا ہوں جہاں ہواؤں سے
میں بار بار انھی راستوں میں جلتا ہوں
مجھے تو گھر کے اندھیروں نے بانٹ رکھا ہے
میں اک چراغ کئی طاقچوں میں جلتا ہوں
رکھا ہوں گھر میں فقط قسط وار جلنے کو
گزرتی شب کے کئی مرحلوں میں جلتا ہوں
مصاحبت ہو تو اک بوسۂ ہوا سے بجھوں
مبارزت ہو تو میں آندھیوں میں جلتا ہوں
کوئی ہوا میں تو لعلِ یمن نہیں بنتا
کسے خبر کہ میں کن آتشوں میں جلتا ہوں
نہیں کہ میرا سفر ایک ہی مدار میں ہے
میں آفتاب کئی گردشوں میں جلتا ہوں
میں شہر درد میں ہوں جیسے گورکن کا چراغ
میں محفلوں میں نہیں مقبروں میں جلتا ہوں