ہم قلم کو ہتھیار بنائیں گے…
میں ایک دیہاتی بیک گراؤنڈ سے ہوں اور میرا ناطہ زمین سے زیادہ مضبوط ہے، بہ نسبت ان لوگوں کے جو شہروں میں پلے بڑھے۔
''آپ کے شہر کا موسم بہت خوب صورت ہے...'' ماہ جنوری کی آخری شاموں میں سے اس شام، فیضی صاحب کہہ رہے تھے، ''دھند اور آپ کے شہر اسلام آباد کا سکوت... دونوں بہت اچھے لگے...'' میں سوچ کر رہ گئی کہ کراچی جیسے شہر کی، بے یقینی اور بد امنی کی دھند میں رہنے والے فیضی صاحب کو یہ دھند کیوں اچھی لگی،یہ بھی نہ کہہ سکی کہ موسم دلوں میں ہوتے ہیں ... ہمارے وجود کے اندر اگتے ہیں، جیسا ہم سوچتے ہیں ویسا ہی موسم لگنے لگتا ہے، کبھی بارش نعمت لگتی ہے تو کبھی زحمت، کبھی دھوپ بھاتی ہے اور کبھی جلاتی ہے۔ مگر فیضی صاحب کی گفتار کے آگے کس کا چراغ جلتا ہے، ہمارا بھی نہیں کہ جن کے کالموں کے بقول ان کے وہ مداح ہیں، ان کا کہا ہمارے قلم کی سیاہی بن جاتا ہے۔ فیضی صاحب کی ہمارے ساتھ ملاقات کی خواہش ہمارے لیے اعزاز کی بات تھی اور اس وقت ہم میزبان اور وہ ہمارے اور ہمارے شہر کے مہمان...
دوست محمد فیضی صاحب سے کون آشنا نہیں... چار بار سندھ سے صوبائی وزیر رہے، صوبائی کے علاوہ وفاقی رکن اسمبلی بھی رہے... ان کے پس منظر میں تیس سالہ سیاسی اور بیس سالہ ادبی خدمات ہیں۔ ''اظہار خیال'' کے خالق، ایک اردو روزنامے میں کالم نگاری کرتے کرتے، ایک مقام پر قلم اور سیاست میں تصادم ہوا تو قلم چھوڑ دیا اور ہم پر ہی نہیں، خود پر بھی اور اس معاشرے پر بھی ظلم کیا۔ ہمیں ایسا کھرا لکھنے والوں کی اب بھی ضرورت ہے... ''سیاست چھوڑیںسر اور قلم پکڑ لیں...'' میں نے فرمائش کی اور امید ہے کہ وہ اس پر غور کریں گے۔
کھانے سے قبل فیضی صاحب نے حاضرین محفل کو مخاطب کر کے مجھ ناچیز کی تحریروں کی بھر پور حوصلہ افزائی کی، میرے لیے ان کی حوصلہ افزائی ہمیشہ اعزاز کا باعث بنی ہے۔ ''میں یہ باتیں کھانا کھانے سے پہلے کرنا چاہتا تھا تا کہ آپ یہ نہ کہیں کہ کھانا کھا کر تعریف کر رہے ہیں...'' ان میں ہنر ہے محفل کو اپنے حصار میں لے لینے کا، سب کے چہروں پر ہنسی نظر آئی۔ میرے ایک کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ میں نے اس موضوع پر سب کے کالم پڑھے ہیں، سب نے اپنے کالموں اور تجزیوں کا موضوع ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کو رکھا، آپ نے نہیں، آپ نے ان لوگوں کو موضوع بنایا جو اس وقت اپنے قائد کے حکم پر سڑک پر شدید سردی میں بیٹھے تھے...''''میںایک چھوٹی سی لکھاری ہوں اور بڑے بڑے لوگوں پر لکھنے کے لیے خود کو مناسب نہیں سمجھتی، میرا کام بھی چھوٹے بچوں کے ساتھ ہے جن کی بات سننے اور ان کو اپنی بات سمجھانے کے لیے مجھے عملی طور پر اپنے پنجوں کے بل پر بیٹھنا پڑتا ہے، اس لیول پر جا کر میں انھیں سن سکتی ہوں اور وہ مجھے... بس یہ عادت سی بن گئی ہے، مجھے اسٹیج پر سجے ہوئے لوگوں سے زیادہ تماشائیوں میں سے اپنے موضوعات ملتے ہیں...'' میں انھیں یہ بھی بتانا چاہتی ہوں کہ میں ایک دیہاتی بیک گراؤنڈ سے ہوں اور میرا ناتا زمین سے زیادہ مضبوط ہے، بہ نسبت ان لوگوں کے جو شہروں میں پلے بڑھے۔
میں نے اپنے قلم کو بیچا نہیں، اپنے دلی اور سچے خیالات کا اظہار تبھی کیا جا سکتا ہے جب آپ کے پاس ضمیر ہو... آپ چیزوں کو ان کی سطحی حیثیت سے نہ دیکھیں!! فیضی صاحب سے زیادہ اس بات کو کون جان سکتا ہے۔''مجھے آپ کے کالموں میں سب سے اچھی بات یہ لگتی ہے کہ آپ عام آدمی کی سطح پر لکھتی ہیں، آپ سیاست پر بھی طبع آزمائی کر رہی ہیں اور اتنا سادہ تجزیہ سیاست پر اور کوئی نہیں کر سکتا، فوج کی حمایت میں آپ کا کالم ہو تو وہ سادگی اور سچائی لیے ہوئے ہوتا ہے... اس پر لکھیں کہ سینئیر افسروں کا ضمیر فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد کیوں زندہ ہوتا ہے؟'' اس وقت میں ہمہ تن گوش تھی، ان کا بولنا اچھا لگتا ہے... کاش ہمیں بھی ایسی مسحور کن قوت گفتار نصیب ہوجائے، میں ان کے سوالات کے جوابات کے لیے ہی اس کالم کا سہارا لے رہی ہوں۔ہمارے ہاں ہر مشہور لکھنے والا فوج کے خلاف لکھتا ہے... کیوں؟ سوال آپ کا، جواب یہ ہے کہ بڑے لکھنے والے بڑوں کو ہی ساری فوج سمجھ لیتے ہیں جو کہ فوج کی اقلیت ہیں... ان کے غلط کاموں کا مدعا محکمے پر اس طرح پڑتا ہے کہ وہ فوجی... جو اگلے مورچوں اور بلند ترین محاذوں پر ہے، اس کی مشقت، اس کی مشکلات اور اس کی قربانیاں تقریباً رائیگاں ہی چلی جاتی ہیں کہ اسے وہ درجہ بڑے تجزیہ نگاروں نے نہیں دیا۔ یہ وہی سپاہی ہے جس کے کوئی منفی اور ملک دشمن عزائم نہیں ہوتے، یہ میرا اور آپ کا بیٹا بھی ہو سکتا ہے اوربھائی بھی۔ فوج کو تفصیل سے سمجھنے کے لیے فوج کے اندرونی نظام کو سمجھنا اہم ہے، جسے ہم تو نہیں سمجھتے مگر ہمارے بیرونی دشمنوں نے نہ صرف اسے سمجھا بلکہ اس مضبوط نظام کو کمزور کرنے کی حکمت عملی پر کام کر کے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے ناپاک منصوبے بناتے اور ان پر عمل کرتے ہیں۔وہ کبھی کسی حاضر سروس جرنیل کو چارہ ڈالتے ہیں تو وہ انکار کر دیتا ہے... (کاش اس وقت وہ چارہ کھا لیا جاتا تو اس وقت ملک کے ساتھ وہ دشمنی نہ کر رہے ہوتے جو اس نازک وقت میں ہمارے گلے پڑ سکتی ہے) مگر وہی چارہ کسی اور وقت کے لیے سنبھال کر رکھ لیا جاتا ہے... انھیں علم ہوتا ہے کہ ان کا چارہ کسی وقت ان کے لیے کشش کا باعث ہو سکتا ہے، سروس میں ایسی پیش کش کوٹھکرا دینے والا، کس بالواسطہ ذریعے سے اس چارے کو قبول کر کے اس ادارے کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا کام کرتا ہے... اس کا مظاہرہ ہم سب ان دنوں دیکھ رہے ہیں۔
جانے اس ملک کی کیا بد نصیبی ہے کہ اس سے مفادات حاصل کرنے والے، اسی تھالی میں چھید کرتے ہیں جس میں انھیں کھانا ہوتا ہے۔ جن perks and privilegesکو اس وقت وہ کھونا نہیں چاہتے، ان کی خاطر وہ اپنے ضمیر کی آواز کو دبا لیتے ہیں اور سارے مزے لوٹ کر ایک دن ان کا سویا ہوا ضمیر بیدار ہو جاتا ہے۔ سویا ہوا ضمیر کیا بیدار ہو گا، جانے کس سیاسی ڈربے میں ان کے لیے چارہ ڈالا جاتا ہے اور وہ سیاست دانوں کی دکان چمکانے کے لیے جاگ جاتے ہیں... عام سی بات ہے، عام سا آدمی بھی سوچ سکتا ہے کہ اس وقت ''خاموشی کہاں تک...'' سے لکھنے والے کے مالی فائدے کے علاوہ اور کس کس کو فائدہ ہو سکتا ہے؟؟ جس ادارے نے آپ کو اتنی عزت اور وقار دیا ہو، اس کا اگر کوئی راز آپ کے سینے میں محفوظ ہو تو اس کا انڈیا جیسے دشمن ملک کے حق میں black and white میں لے کر آنا ملک سے غداری کے مترادف ہے، کاش کوئی code of conduct and ethics مقرر کیا جا سکے تو مستقبل میں ہم ایسے ملک دشمن عناصر سے بچ سکتے ہیں جو پہلے تو سازشوں کا حصہ رہتے ہیں اور بعد میں معصومیت کا ماسک پہن کر اپنے ''صاف'' ہاتھ لوگوں کو دکھاتے پھرتے ہیں۔''آپ سیاست میں آ جائیں...'' فیضی صاحب میرے اس مشورے کے جواب میں کہہ رہے تھے جو میں نے انھیں قلم پکڑنے کا دیا تھا۔ دل میں ہنسی آئی، کیا قلم کار تلواریں ہیں جو ایک سے زائد میان میں نہیں رہ سکتیں؟ آپ تشریف لائیں واپس قلمی دنیا میں... ہم اہل قلم، قلم سے ہی لکھیں گے، اسی سے سوئے ہوئے ذہنوں پر دستک دیں گے... اسی سے سیاست کریں گے، اسی سے روشنی پھیلائیں گے، اسی سے اس ملک میں تبدیلی لائیں گے... اور اسی سے جہاد کریں گے... انشااللہ تعالی!!!
٭٭٭
... بلوچستان سے محترمی سکندر صاحب نے مجھے ای میل کے ذریعے میری ایک غلطی کی طرف توجہ دلائی کہ لانگ مارچ پر لکھے گئے میرے کالم میں، میں نے بلوچستان میں شہید ہونے والوں کو مردہ لکھ کر ان کے شہیدوں کی توہین کی ہے۔ سکندر صاحب سے ای میل کے ذریعے میں نے معذرت کی مگر میں اتنی بڑی غلطی کو تسلیم کرتی ہوں، شہیدوں کو مردہ نہ کہنے کا حکم قرآن پاک میں واضح طور پر دیا گیا ہے اور میں انتہائی شرمندہ ہوں کہ روانی میں اس کوتاہی کی مرتکب ہوئی، میں ان سب لوگوں سے معذرت چاہتی ہوں جن کے جذبات میرے ان الفاظ سے مجروح ہوئے۔ شکریہ سکندر صاحب!!!
دوست محمد فیضی صاحب سے کون آشنا نہیں... چار بار سندھ سے صوبائی وزیر رہے، صوبائی کے علاوہ وفاقی رکن اسمبلی بھی رہے... ان کے پس منظر میں تیس سالہ سیاسی اور بیس سالہ ادبی خدمات ہیں۔ ''اظہار خیال'' کے خالق، ایک اردو روزنامے میں کالم نگاری کرتے کرتے، ایک مقام پر قلم اور سیاست میں تصادم ہوا تو قلم چھوڑ دیا اور ہم پر ہی نہیں، خود پر بھی اور اس معاشرے پر بھی ظلم کیا۔ ہمیں ایسا کھرا لکھنے والوں کی اب بھی ضرورت ہے... ''سیاست چھوڑیںسر اور قلم پکڑ لیں...'' میں نے فرمائش کی اور امید ہے کہ وہ اس پر غور کریں گے۔
کھانے سے قبل فیضی صاحب نے حاضرین محفل کو مخاطب کر کے مجھ ناچیز کی تحریروں کی بھر پور حوصلہ افزائی کی، میرے لیے ان کی حوصلہ افزائی ہمیشہ اعزاز کا باعث بنی ہے۔ ''میں یہ باتیں کھانا کھانے سے پہلے کرنا چاہتا تھا تا کہ آپ یہ نہ کہیں کہ کھانا کھا کر تعریف کر رہے ہیں...'' ان میں ہنر ہے محفل کو اپنے حصار میں لے لینے کا، سب کے چہروں پر ہنسی نظر آئی۔ میرے ایک کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ میں نے اس موضوع پر سب کے کالم پڑھے ہیں، سب نے اپنے کالموں اور تجزیوں کا موضوع ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کو رکھا، آپ نے نہیں، آپ نے ان لوگوں کو موضوع بنایا جو اس وقت اپنے قائد کے حکم پر سڑک پر شدید سردی میں بیٹھے تھے...''''میںایک چھوٹی سی لکھاری ہوں اور بڑے بڑے لوگوں پر لکھنے کے لیے خود کو مناسب نہیں سمجھتی، میرا کام بھی چھوٹے بچوں کے ساتھ ہے جن کی بات سننے اور ان کو اپنی بات سمجھانے کے لیے مجھے عملی طور پر اپنے پنجوں کے بل پر بیٹھنا پڑتا ہے، اس لیول پر جا کر میں انھیں سن سکتی ہوں اور وہ مجھے... بس یہ عادت سی بن گئی ہے، مجھے اسٹیج پر سجے ہوئے لوگوں سے زیادہ تماشائیوں میں سے اپنے موضوعات ملتے ہیں...'' میں انھیں یہ بھی بتانا چاہتی ہوں کہ میں ایک دیہاتی بیک گراؤنڈ سے ہوں اور میرا ناتا زمین سے زیادہ مضبوط ہے، بہ نسبت ان لوگوں کے جو شہروں میں پلے بڑھے۔
میں نے اپنے قلم کو بیچا نہیں، اپنے دلی اور سچے خیالات کا اظہار تبھی کیا جا سکتا ہے جب آپ کے پاس ضمیر ہو... آپ چیزوں کو ان کی سطحی حیثیت سے نہ دیکھیں!! فیضی صاحب سے زیادہ اس بات کو کون جان سکتا ہے۔''مجھے آپ کے کالموں میں سب سے اچھی بات یہ لگتی ہے کہ آپ عام آدمی کی سطح پر لکھتی ہیں، آپ سیاست پر بھی طبع آزمائی کر رہی ہیں اور اتنا سادہ تجزیہ سیاست پر اور کوئی نہیں کر سکتا، فوج کی حمایت میں آپ کا کالم ہو تو وہ سادگی اور سچائی لیے ہوئے ہوتا ہے... اس پر لکھیں کہ سینئیر افسروں کا ضمیر فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد کیوں زندہ ہوتا ہے؟'' اس وقت میں ہمہ تن گوش تھی، ان کا بولنا اچھا لگتا ہے... کاش ہمیں بھی ایسی مسحور کن قوت گفتار نصیب ہوجائے، میں ان کے سوالات کے جوابات کے لیے ہی اس کالم کا سہارا لے رہی ہوں۔ہمارے ہاں ہر مشہور لکھنے والا فوج کے خلاف لکھتا ہے... کیوں؟ سوال آپ کا، جواب یہ ہے کہ بڑے لکھنے والے بڑوں کو ہی ساری فوج سمجھ لیتے ہیں جو کہ فوج کی اقلیت ہیں... ان کے غلط کاموں کا مدعا محکمے پر اس طرح پڑتا ہے کہ وہ فوجی... جو اگلے مورچوں اور بلند ترین محاذوں پر ہے، اس کی مشقت، اس کی مشکلات اور اس کی قربانیاں تقریباً رائیگاں ہی چلی جاتی ہیں کہ اسے وہ درجہ بڑے تجزیہ نگاروں نے نہیں دیا۔ یہ وہی سپاہی ہے جس کے کوئی منفی اور ملک دشمن عزائم نہیں ہوتے، یہ میرا اور آپ کا بیٹا بھی ہو سکتا ہے اوربھائی بھی۔ فوج کو تفصیل سے سمجھنے کے لیے فوج کے اندرونی نظام کو سمجھنا اہم ہے، جسے ہم تو نہیں سمجھتے مگر ہمارے بیرونی دشمنوں نے نہ صرف اسے سمجھا بلکہ اس مضبوط نظام کو کمزور کرنے کی حکمت عملی پر کام کر کے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے ناپاک منصوبے بناتے اور ان پر عمل کرتے ہیں۔وہ کبھی کسی حاضر سروس جرنیل کو چارہ ڈالتے ہیں تو وہ انکار کر دیتا ہے... (کاش اس وقت وہ چارہ کھا لیا جاتا تو اس وقت ملک کے ساتھ وہ دشمنی نہ کر رہے ہوتے جو اس نازک وقت میں ہمارے گلے پڑ سکتی ہے) مگر وہی چارہ کسی اور وقت کے لیے سنبھال کر رکھ لیا جاتا ہے... انھیں علم ہوتا ہے کہ ان کا چارہ کسی وقت ان کے لیے کشش کا باعث ہو سکتا ہے، سروس میں ایسی پیش کش کوٹھکرا دینے والا، کس بالواسطہ ذریعے سے اس چارے کو قبول کر کے اس ادارے کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا کام کرتا ہے... اس کا مظاہرہ ہم سب ان دنوں دیکھ رہے ہیں۔
جانے اس ملک کی کیا بد نصیبی ہے کہ اس سے مفادات حاصل کرنے والے، اسی تھالی میں چھید کرتے ہیں جس میں انھیں کھانا ہوتا ہے۔ جن perks and privilegesکو اس وقت وہ کھونا نہیں چاہتے، ان کی خاطر وہ اپنے ضمیر کی آواز کو دبا لیتے ہیں اور سارے مزے لوٹ کر ایک دن ان کا سویا ہوا ضمیر بیدار ہو جاتا ہے۔ سویا ہوا ضمیر کیا بیدار ہو گا، جانے کس سیاسی ڈربے میں ان کے لیے چارہ ڈالا جاتا ہے اور وہ سیاست دانوں کی دکان چمکانے کے لیے جاگ جاتے ہیں... عام سی بات ہے، عام سا آدمی بھی سوچ سکتا ہے کہ اس وقت ''خاموشی کہاں تک...'' سے لکھنے والے کے مالی فائدے کے علاوہ اور کس کس کو فائدہ ہو سکتا ہے؟؟ جس ادارے نے آپ کو اتنی عزت اور وقار دیا ہو، اس کا اگر کوئی راز آپ کے سینے میں محفوظ ہو تو اس کا انڈیا جیسے دشمن ملک کے حق میں black and white میں لے کر آنا ملک سے غداری کے مترادف ہے، کاش کوئی code of conduct and ethics مقرر کیا جا سکے تو مستقبل میں ہم ایسے ملک دشمن عناصر سے بچ سکتے ہیں جو پہلے تو سازشوں کا حصہ رہتے ہیں اور بعد میں معصومیت کا ماسک پہن کر اپنے ''صاف'' ہاتھ لوگوں کو دکھاتے پھرتے ہیں۔''آپ سیاست میں آ جائیں...'' فیضی صاحب میرے اس مشورے کے جواب میں کہہ رہے تھے جو میں نے انھیں قلم پکڑنے کا دیا تھا۔ دل میں ہنسی آئی، کیا قلم کار تلواریں ہیں جو ایک سے زائد میان میں نہیں رہ سکتیں؟ آپ تشریف لائیں واپس قلمی دنیا میں... ہم اہل قلم، قلم سے ہی لکھیں گے، اسی سے سوئے ہوئے ذہنوں پر دستک دیں گے... اسی سے سیاست کریں گے، اسی سے روشنی پھیلائیں گے، اسی سے اس ملک میں تبدیلی لائیں گے... اور اسی سے جہاد کریں گے... انشااللہ تعالی!!!
٭٭٭
... بلوچستان سے محترمی سکندر صاحب نے مجھے ای میل کے ذریعے میری ایک غلطی کی طرف توجہ دلائی کہ لانگ مارچ پر لکھے گئے میرے کالم میں، میں نے بلوچستان میں شہید ہونے والوں کو مردہ لکھ کر ان کے شہیدوں کی توہین کی ہے۔ سکندر صاحب سے ای میل کے ذریعے میں نے معذرت کی مگر میں اتنی بڑی غلطی کو تسلیم کرتی ہوں، شہیدوں کو مردہ نہ کہنے کا حکم قرآن پاک میں واضح طور پر دیا گیا ہے اور میں انتہائی شرمندہ ہوں کہ روانی میں اس کوتاہی کی مرتکب ہوئی، میں ان سب لوگوں سے معذرت چاہتی ہوں جن کے جذبات میرے ان الفاظ سے مجروح ہوئے۔ شکریہ سکندر صاحب!!!