نغمے بکھیرنے کے ’’جُرم‘‘ میں گالیاں اور دھمکیاں پانے والی سوسن فیروز

افغانستان کی پہلی Rapper، جس کے گیتوں میں سچائی تمام تر تلخی کے ساتھ نظر آتی ہے.


Nadeem Subhan February 03, 2013
فوٹو : فائل

طالبان کے زیرِتسلط افغانستان میں رقص و موسیقی کا تصور ہی ناپید ہوچکا تھا۔ اُس دور میں کسی گلوکار کے لیے سرعام اپنے فن کا مظاہرہ کرنا تو دور کی بات موسیقی سننا بھی جُرم تھا۔

افغانستان اگرچہ اب بھی جنگ زدہ ہے تاہم چند برس پہلے کی نسبت اب خاصی تبدیلی آچکی ہے اور حالات بہت بہتر ہوگئے ہیں، جس کا ایک ثبوت وہ نوجوان افغان گلوکارہ ہے جو آزادی اور بے خوفی سے بہ انداز گائیکی اپنے تلخ جذبات کا اظہار کر رہی ہے۔ جنگ کے نتیجے میں کم سنی میں دربدری پر مجبور ہوجانے والے اذہان میں خوش گوار یادوں کی موجودگی کا تصور ہی عبث ہے!

سوسن فیروز نے 23 برس قبل افغانستان میں آنکھ کھولی تھی، مگر اس کی پرورش ایران میں ہوئی۔ آبائی وطن میں چھڑجانے والی خانہ جنگی نے اس کے اہل خانہ کو ہمسائے ملک میں پناہ لینے پر مجبور کردیا تھا۔ سوسن کے خاندان نے پاکستان میں بھی پناہ گزینوں کی حیثیت سے چند برس گزارے۔ بدقسمتی سے ایران کی طرح پاکستان میں بھی ان کے ساتھ نامناسب سلوک روا رکھا گیا۔ ایران اور پاکستان میں گزارے دنوں کی تلخ یادیں سوسن کے ذہن پر آج بھی نقش ہیں۔ اس نے ایک برس قبل ریپ گلوکاری کو اپنی تلخ یادوں کا ذریعۂ اظہار بنایا، اور اس طرح وہ پہلی افغان ریپر ( rapper) بن گئی۔ ( Rapping، گلوکاری کا ایک انداز ہے، جو مغربی موسیقی سے مخصوص سمجھا جاتا ہے)۔ سوسن نے اپنے پہلے گیت میں افغان پناہ گزینوں کے مسائل کو موضوع بنایا تھا۔ فارسی زبان کا یہ گیت دیکھتے ہی دیکھتے بے حد مقبول ہوگیا اور متنازعہ بھی ٹھہرا۔ وجہ یہ تھی کہ قدامت پسند افغان، ایک لڑکی کے جدید مغربی انداز گائیکی کو اپنانے کے خلاف تھے، جب کہ کچھ نے اس گیت کے ایران سے متعلق مصرعوں پر اعتراض کیا۔ بہرصورت سوسن کی مقبولیت کا سفر شروع ہوچکا تھا۔ سوسن کو خود بھی یہ توقع نہیں تھی کہ پہلا ہی گیت اسے اس قدر شہرت بخشے گا۔

'' ہمارے ہمسائے'' نامی اس گیت میں فیروز اس تذلیل کا تذکرہ کرتی ہے جو اسے وطن سے باہر برداشت کرنی پڑی۔ ایران میں فیروز کے خاندان کا قیام سات برس تک رہا۔ وہاں اسے شاذ ہی اسکول جانے کی اجازت ملتی تھی۔ سوسن کے مطابق بیوروکریسی کے نام نہاد مسائل پناہ گزین لڑکیوں کے اسکول جانے کی راہ میں حائل تھے۔ علاوہ ازیں ایرانی باشندے بھی انھیں بدتر سلوک کا حق دار سمجھتے تھے۔ بیکری سے روزانہ ڈبل روٹی خریدنے کے لیے جانا بھی بیشتر اوقات اس کے لیے خوف ناک آزمائش ثابت ہوتا تھا۔ مقامی لوگ سوسن کا کان کھینچتے ہوئے اسے یہ کہہ کر بیکری کے آگے لگی قطار میں سب سے پیچھے کھڑا کردیتے تھے کہ تم گندے افغانیوں کی جگہ یہی ہے۔ جواباً فیروز اپنے غصے کا اظہار ان الفاظ میں کرتی تھی،''ہم تمھارے ملک میں محنت مزدوری کررہے ہیں، بھیک نہیں مانگ نہیں رہے!''

سوسن کا کہنا ہے،''جب میں ان لوگوں سے آنکھ ملا کر بات کرتی تھی تو ان کے منہ سے مغلظات کا فوّارہ اُبل پڑتا تھا۔ میرے خیال میں مسلسل تذلیل کی وجہ سے ہم میں سے نصف دہشت گرد بن گئے اور نصف منشیات کے عادی ہوگئے۔'' سوسن اور اس کا خاندان تین برس تک پاکستان میں رہا۔ ان کے لیے یہ عرصہ بھی ایران میں گزرے سات برسوں سے مختلف ثابت نہیں ہوا۔ سوسن کا کہنا ہے کہ پاکستانی پولیس انھیں ہمہ وقت تنگ کرتی تھی۔

جب سوسن کے والد کو 2003ء میں افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں ملازمت ملی تو اس خاندان کو وطن واپسی نصیب ہوئی۔ مصائب سے پُر کئی برس کی دربدری کے بعد سوسن نے اپنے وطن کی سرزمین پر قدم رکھا تو اس کی روح تک سرشار ہوگئی۔ اس نے اپنی آنکھوں میں ڈاکٹر یا انجنیئر بننے کا خواب سجا رکھا تھا، مگر سوسن کا یہ خواب اس وقت بکھرنے لگا جب اُس پر یہ حقیقت کُھلی یہاں کے اسکولوں میں ذریعۂ تعلیم پشتو زبان ہے جس سے وہ نابلد تھی۔ اسے تو صرف فارسی ہی لکھنا پڑھنا آتی تھی۔ تعلیمی سلسلہ آگے بڑھنے کا امکان نہ رہا تو اس نے اپنی پُرانی 'محبت' اداکاری اور گلوکاری کو توجہ کا مرکز بنالیا۔ سوسن کی زندگی میں اہم موڑ ڈیڑھ برس قبل، اس وقت آیا جب اس کا خاندان قندھار سے کابل منتقل ہوگیا۔ کابل میں سوسن نے ریپ موسیقی کو اپنے اندر پھیلتی مایوسیوں اور کڑوی کسیلی یادوں کے اظہار کا ذریعہ بنالیا۔ روایتی افغان موسیقی کی بھرمار میں سوسن کے منفرد انداز گائیکی نے افغانستان کے معروف ترین موسیقار فرید راستگر کی توجہ حاصل کی اور انھوں نے نوجوان ریپر کے فن کو نکھارا اور اسے منظرعام پر لے کر آئے۔ (راستگر کی اہلیہ، وجیہا ملک کی سب سے مقبول گلوکارہ ہیں)۔ بہ طور سنگر سوسن کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اسے ڈراموں اور فلموں میں اداکاری کی پیش کشیں ہونے لگیں اور جلد ہی اس نے اہل خانہ کی معاشی ذمہ داری کُلی طور پر ، اپنے کاندھوں پر لے لی۔

'' ناقص العقل'' سوسن فیروز کا نیا گیت ہے۔ ''ناقص العقل'' وہ اصطلاح ہے جو خواتین کی تذلیل کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس گیت میں سوسن کہتی ہے،''میں صرف عورت نہیں ہوں؍ میں انسان بھی ہوں۔'' یہ ایک سادہ سا پیغام ہے مگر فیرز کو اُمید ہے کہ یہ پیغام روایتوں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے افغان معاشرے میں تبدیلی کی بنیاد بنے گا۔ سوسن کا کہنا ہے،''مَردوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ عورتیں ہمارے معاشرے کا نصف ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عورتوں کو سرے سے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔'' نوجوان گلوکارہ کے مطابق وہ اپنے معاشرے کی خواتین کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہے اور مَردوں کو یہ سمجھانا چاہتی ہے کہ عورتیں بھی ان کے شانہ بہ شانہ چل سکتی ہیں۔

افغانستان کے پدری سماج میں خواتین روایتی طور پر مردوں کے تابع فرماں ہوتی ہیں۔ فیروز نے موسیقی کو بہ طور پیشہ اپنانے کا فیصلہ کرکے خواتین کے روایتی کردار سے انحراف کیا تو اسے اپنے والدین کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ فیروز کے والد اس کے مینیجر بن گئے ہیں اور انھوں نے ''ناقص العقل'' کے روایت شکن بول لکھنے میں بھی معاونت کی تھی۔ تاہم فیروز کے گیتوں اور اس کے اسٹائل کی بنا پر ( وہ اسٹیج پر نیلی جینز، سفید شرٹ اور پہن کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہے) خاندان کے بہت سے افراد نے اس کے گھرانے سے قطع تعلق کرلیا ہے۔ سوسن کا کہنا ہے کہ اس کے تمام کزنز نے اس سے ناتا توڑ لیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ وہ ان کے لیے شرم کا باعث بن گئی ہے۔ سوسن کے فیس بُک پیج پر ملے جُلے تبصرے نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ اس پر تنقید کرتے ہوئے شائستگی کی حد سے گزر جاتے ہیں، جب کہ کچھ نے اس کی بے رحم صدق گوئی کو قبول کرلیا ہے۔

نوجوان گلوکارہ کو اجنبی سیل فون نمبروں سے دھمکی آمیز کالیں بھی موصول ہوتی ہیں، جن میں اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر گلوکاری سے باز رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کچھ ٹیلی فون کالز میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایران کی توہین کر رہی ہے۔ اسے قتل کردینے، چہرے پر تیزاب پھینک دینے اور اغوا کرلینے جیسی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ تاہم وہ ان سے بالکل بھی خوف زدہ نہیں ہوتی۔ اس کا کہنا ہے،''میں انھیں کہتی ہوں کہ یہ کڑوا سچ ہے کہ تم نے میری اور افغانوں کی بے حد تذلیل کی ہے۔ ایران سے متعلق ہماری یادیں خوش گوار نہیں ہیں۔''

گلوکارہ کا کہنا ہے کہ یہ دھمکیاں اس کے اس عزم کو پائیداری بخشتی ہیں کہ وہ گلوکاری کے ذریعے افغان عوام کے مصائب اور رنج و الم کو ظاہر کرتی رہے گی۔ فیروز پُرامن افغانستان کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے طالبان کے بارے میں بھی ایک گیت لکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ طالبان سے سوسن کی التجا ہے کہ وہ معصوم لوگوں کا قتل عام بند کردیں اور وہ طرزعمل اختیار کریں کہ جسے عوامی قبولیت حاصل ہو۔

امریکا 2014ء میں افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بُلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سوسن کے مطابق امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانوں کو اپنے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد قائم کرنا چاہیے۔ اس کے خیال میں یہ اہم نہیں کہ غیرملکی فوجیوں کی واپسی کے بعد کیا ہوگا، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ افغان عوام کیسے اپنے ملک کی حالت بہتربناسکتے ہیں۔ سوسن پُرامید ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام آسکتا ہے۔

افغان خواتین کی حالتِ زار کو اُجاگر کرنے اور بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کرنا بھی فیروز کی ترجیحات میں شامل ہے۔ سوسن نے دیکھا ہے کہ افغان پارلیمنٹ کے اجلاس میں مرد اراکین کی بیشتر نشستیں خالی ہوتی ہیں جب کہ خواتین اراکین ہمیشہ اپنی نشستوں پر موجود ہوتی ہیں۔ لہٰذا صدر حامد کرزئی کے لیے سوسن کا پیغام ہے: اگر پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد نصف ہوتی تو قانون سازی کے لیے کورم ہمیشہ پورا ہوتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں