عید کے بعد کا منظر نامہ لڑائی ہی لڑائی
اب آپ اس کو حسن اتفاق کہ لیں یا گیم کا ڈیزائن کہ جو عالمی منظر نامہ پر پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں
ملک بھر میں عید کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ لیکن عید کے بعد ملک کا سیاسی منظرنامہ بدلنے کی بھی تیاری ہو رہی ہے۔ ویسے تو پاکستان کیلیے عالمی منظر نامہ بھی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ امریکا کے بدلتے رنگ۔ گرم سرحدیں سب ہماری توجہ کی طالب ہیں۔ لیکن پاناما سب سے اہم ہیں۔
معاملہ ایسا ہے کہ نہ تو امریکا کی پابندیاں اہم ہیں۔ نہ ایران سے کشیدگی اہم ہے۔ نہ افغانستان سے سرد و گرم جنگ اہم ہے۔ بس پاناما اہم ہے۔ اور عید کے بعد پاناما ایک مرتبہ پھر چھائے گا۔ فریقین پاناما نے عید کے بعد دما دم مست قلندر کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ اس بار حکمران جماعت نے بھی دما دم مست قلندر کی تیاری کی ہے۔ جب کہ عمران خان بھی تیار ہیں۔ اس لیے بس عید ہی سکون سے گزرے گی۔ اس کے بعد منظر نامہ تیزی سے بدلے گا۔
ایک طرف امریکا پاکستان پرپابندیاں لگانے کی تیاری کر رہا ہے۔ مودی امریکا پہنچ چکا ہے۔ مودی کے امریکا پہنچنے سے پہلے ہی امریکا نے بھارت کو ڈرون دینے کی منظوری دے دی ہے۔ اس طرح ایک طرف امریکا کی طرف سے بھارت پر نوازشیں ہیں اور دوسری طرف ہم پر سختیاں ہیں۔لیکن امریکا کا یہ رویہ ہمارے لیے نیا نہیں ہے۔ پاک امریکا تعلقات ایسے کئی نشیب و فراز سے گزر چکے ہیں۔ ہم پریسلر پابندیوں سے بھی گزر چکے ہیں اور نائن الیون کے بعد راتوں رات ان پابندیوں کو ختم ہوتے بھی دیکھا گیا ہے۔
امریکا نے پہلے بھی افغانستان میں روس کے خلاف پاکستان کو استعمال کیا۔ اور بعد میں منہ موڑ لیا۔ اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ نہ امریکا تبدیل ہوا ہے۔ نہ پاکستان تبدیل ہوا ہے۔ صرف تاریخ نے ایک پہیہ اور مکمل کیا ہے۔ لیکن اس بار صورتحال مختلف نظر آرہی ہے۔ پہلے جب امریکا نے پاکستان پر پابندیاں لگائی تھیں تو پاکستان تنہا ہو گیا تھا۔ دنیا کی باقی علامی طاقتیں ہم سے نارض تھیں۔ اور باقی تمام راستہ بند تھے۔
لیکن اس بارصورتحال مختلف ہے۔ ایک طرف جب مودی ٹرمپ کے پاس ہیں تو دوسری طرف اس کا اثر زائل کرنے اور دنیا کو یہ پیغام دینے کیلیے کہ پاکستان تنہا نہیں ہے چینی وزیر خارجہ پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ یہ دورہ اس قدر ہنگامی تھا کہ چین نے وزیر اعظم پاکستان کے ملک میں واپس آنے کا بھی انتظار نہیں کیا۔ چینی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان سے ایک دن قبل چینی وزرات خارجہ نے پاکستان کے حق میں بھر پور بیان جاری کیا۔ جس طرح ملک کی سیاست میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے، اسی طرح عالمی سیاست میں بھی ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا چین نے امریکا کو صحیح وقت پر صحیح پیغام دے دیا ہے۔ چینی وزیر خارجہ افغانستان بھی جا رہے ہیں۔ کیا چین افغان قیادت کو امریکا اور بھارت کے دباؤ سے نکال سکتا ہے۔کیا افغان قیادت کیلیے چین کا دباؤ کوئی اہمیت رکھتا ہے۔
ایک طرف جہاں پاکستان میں عید کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دما دم مست قلندر کی تیاری ہو رہی ہے۔ تو دوسری طرف عالمی منظر نامہ میں پاکستان کیلیے ایک تیزی نمایاں ہے۔ نواز شریف اور پیوٹن کے درمیان ملاقات ہو چکی ہے اور عید کے فوراً بعد شہباز شریف روس کے دورہ پر جا رہے ہیں۔ جتنی تیزی سے پاکستان کیلیے عالمی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے، یہ عین ممکن ہے کہ پیوٹن کا دورہ پاکستان بھی جلد ہو جائے۔ اس سارے کا پاکستان کو فائدہ ہوگا یا نقصان۔ کیا یہ سب سی پیک کی قیمت ہے۔
دوستوں کا خیال ہے کہ عید کے بعد پاکستان میں دھرنوں کے موسم کا منظر نامہ دوبارہ آسکتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری پھر ملک میں ہیں۔ چوہدری برادران پھر متحرک ہیں۔ لوگ پھر تحریک انصاف کو جوائن کر رہے ہیں۔لیکن ابھی تک کسی ایسی شخصیت نے جوائن نہیں کیا جس سے ہم سب حیران ہو گئے ہوں۔ وہی جا رہے ہیں جن کے جانے کی امید تھی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ ق لیگ سے بھی لوگ جائیں گے۔ کامل علی آغا اور میجر (ر)طاہر صادق کے نام سامنے آرہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا چوہدری برادران کو یہ قبول ہو گا۔ اس سے پہلے بھی اٹک سے چوہدری برادران کے قریبی عزیز نے انتخاب جیتنے کے بعد تحریک انصاف جوائن کرنے کی کوشش کی تھی لیکن عمران خان نے چوہدری براران کے احترام میں قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن اس بار پالیسی میں تبدیلی نظر آرہی ہے۔اگر کامل علی آغا کے جانے کی بھی افواہیں ہیں تو اللہ ہی حافظ ہے۔
ایک منظر نامہ بن رہا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی انتخابات کی جے آئی ٹی کی نوید سنا رہے ہیں۔ وہ کہہ تو یہی رہے ہیں کہ انتخابات کی جے آئی ٹی 2018ء میں فیصلہ کرے گی۔ لیکن لگ یہی رہا ہے کہ انتخابات کی جے آئی ٹی کو جلد کام کرنا پڑ جائے گا۔
قبل از وقت انتخابات کی خوشبو سیاسی منظر نامہ کو مہکا رہی ہے۔ اور سب اس کو محسوس کر رہے ہیں۔ یہ آنا جانا بھی انتخابات کی خوشبو کی وجہ سے ہی ہے۔ جیتنے والے گھوڑوں کی منڈی میں تیزی ہے۔ لیکن جب منڈی لگتی ہے تو اچھے مال کے ساتھ برا مال بھی بک جاتا ہے۔ لوٹ سیل لگ جاتی ہے۔ ایک لوٹ سیل ہے۔ افسوس کی بات تو یہی ہے کہ اچھے مال کے ساتھ برا مال بھی بک رہا ہے۔ کسی کی لاٹری لگ رہی ہے۔ اور کوئی اصل قیمت بھی نہیں حاصل کر پا رہا۔
لیکن اس بار دھرنا نہیں ہو گا۔ وہ کہتے دھرنا پارٹ ٹو ہو گا۔ لیکن دھرنے والی قوتیں دھرنے سے توبہ کر چکی ہیں۔ دھرنا نہیں ہو گا تو کیا ہو گا۔ جلسہ جلوس ہوںگے۔ دوست کہ رہے ہیں کہ جلسہ جلوس بھی بہت ہو چکے ہیں۔ اس لیے کسی نئی چیز پر غور ہو رہا ہے۔
دوسری طرف نواز شریف بھی جارحانہ سیاست کے موڈ میں ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اس بار کہیں حکمران جماعت دھرنا دینے کا نہ طے کر لے۔ کیونکہ نواز شریف کے کیمپ میں بھی ایک فائنل راؤنڈ کیلیے پوار زور لگانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ لندن میں نواز شریف کی گفتگو صاف اشارہ کر رہی ہے کہ معاملہ ان کی طرف سے بھی گڑ بڑ ہے۔
عید کے بعد کیا حکومت اور اپوزیشن کا ٹکراؤ ہونے جا رہا ہے۔ منظر نامہ تو اس کی طرف ہی اشارہ کر رہا ہے۔ ایک طرف عالمی منظر نامہ میں ٹکراؤ ہے اور دوسری اندرونی منظر نامہ بھی ٹکراؤ ہے۔ دونوں طرف ہی گیم آخری راؤنڈ میں پہنچ گئی ہے۔
اب آپ اس کو حسن اتفاق کہ لیں یا گیم کا ڈیزائن کہ جو عالمی منظر نامہ پر پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں انہوں نے ایسی ٹائمنگ بنائی ہے کہ پاکستان میں اندرونی طور پر معاملات خراب ہو جائیں تا کہ عالمی کھیل کھیلنے میں آسانی ہو۔ لیکن اب دونوں کھیل ایسے نکتہ پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے فریقین کے لیے واپسی ممکن نہیں ہے۔ صف بندی ہو چکی ہے۔ لڑائی ہی لڑائی ہے۔ سرحدوں پر بھی لڑائی ہے۔ اور اندر بھی لڑائی ہے۔ بس عید کا منظر نامہ ایسا ہی ہے۔ اللہ سے بہتری کی دعا ہی مانگنی چاہیے۔