روپے کی قدر میں اضافے کا مقابلہ
کسی ملک کی معیشت کی مضبوطی اور سماجی حالات کی بہتری کے لیے حکمرانوں پر سب سے زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے
پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز کے ساتھ ٹیم کے سب کھلاڑیوں نے دہشتگردی سے شدید ترین متاثر پاکستانی قوم کو کئی برسوں بعد ایک شان دار تحفہ دیا۔ کرکٹ میں چیمپئنز کے چیمپئن بننا پاکستانی کرکٹ ٹیم کا ایک قابل فخر کارنامہ ہے۔ فٹ بال کے بعد پاک بھارت کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ کرکٹ کے بڑے مقابلوں میں شمار ہوتے ہیں، جو ایک ارب سے زائد افراد کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔ پاک بھارت کرکٹ میچز جیسے جذبات فٹ بال میں زیادہ تر برطانیہ اور جرمنی کے درمیان میچ کے موقع پر دیکھنے میں آتے ہیں۔
زیادہ تر نوجوان اور بہت کم تجربہ رکھنے والے پاکستانی کرکٹرز نے بھارت کی انتہائی مضبوط ٹیم کو چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں 180 رنز کے بڑے فرق کے ساتھ شکست دے کر کئی نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ اس شاندار فتح پر پاکستانی قوم بہت خوش ہے۔ تاہم یہ خوشی ہمیں باوقار انداز میں منانا چاہیے۔ اس مقابلے کو دو عقیدوں کے درمیان مقابلہ یا دو قوموں کے درمیان جنگ سمجھنا بڑی غلطی ہوگی۔ فتح پر خوشیاں مناتے ہوئے مدمقابل کا دل دکھانا یا تضحیک کا نشانہ بنانا یا شکست پر شدید مایوسی میں مبتلا ہوجانا، دونوں طرح کے ردعمل درست نہیں۔
چیمپئنز ٹرافی 2017ء جیت لینا بہت خوشی کی بات ہے لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کھیل میں اس فتح سے پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ نہ سیاسی حالات میں استحکام یا سماجی خرابیوں میں ازخود کوئی بہتری نہیں آئے گی۔
پاکستان کرکٹ، ہاکی، اسکوائش، اسنوکر اور دیگر کئی کھیلوں میں عالمی اولمپک یا ایشیائی چیمپئن رہ چکا ہے۔ اسکوائش میں جو اعزاز اکیلے جہانگیر خان کی وجہ سے پاکستان کے نام ہوا وہ تو کھیلوں کی تاریخ میں ایک معزز مقام رکھتا ہے۔ پاکستان کا نام روشن کرنے والے ہر کھلاڑی کو سلام۔ واٹس ایپ پر شیئر کی جانے والی ایک پوسٹ کے مطابق پاکستان کے پاس بڑے مقابلوں میں سب سے زیادہ گولڈ میڈل یا ورلڈ کپ حاصل کرنے کا اعزاز ہے۔
عالمی مقابلوں میں فتوحات کا شاندار ریکارڈ رکھنا کتنی خوشی اور فخر کی بات ہے لیکن دوسری طرف دیکھیں تو معیشت میں گزشتہ تین چار دہائیوں میں ہم ان ممالک سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں جو کبھی ہم سے بہت پیچھے تھے۔ ان میں تھائی لینڈ، ویت نام حتیٰ کہ بنگلادیش بھی شامل ہیں۔
پاکستان کی ایکسپورٹ میں کمی اور امپورٹ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سال گزشتہ پاکستان کی امپورٹس 22 ارب ڈالر اور ایکسپورٹ 43 ارب ڈالر رہیں۔ بنگلادیش کی ایکسپورٹ سال گزشتہ 35 ارب ڈالر اور امپورٹ 38 ارب ڈالر رہی۔ دو دہائی قبل تھائی لینڈ ایک پسماندہ ملک سمجھا جاتا تھا۔ سال گزشتہ تھائی لینڈ کی ایکسپورٹ 231 ارب ڈالر اور امپورٹ 190 ارب ڈالر تھیں۔
اب آئیے امریکا کے ہاتھوں متاثر اور بربادی سے بدحال ویت نام کی طرف۔ امریکا اور ویت نام کی انیس سالہ جنگ میں ویت نام کی معیشت اور انفرااسٹرکچر برباد ہوچکے تھے۔ صرف چند سال میں ویت نام نے نہ صرف یہ کہ جنگ کی تباہ کاریوں پر قابو پایا بلکہ معیشت کو مضبوط بنیادیں بھی فراہم کردیں۔ سال گزشتہ ویت نام کی ایکسپورٹ 176 ارب ڈالر اور امپورٹ 161 ارب ڈالر تھیں۔
واضح رہے کہ 60 کے عشرے میں جب ویت نام امریکی بمباری سے تباہ ہورہا تھا اس وقت پاکستان کا شمار تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں میں ہوتا تھا اور ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے جرمنی کو قرضہ دیا تھا۔ 2017ء میں ایک امریکی ڈالر کی قدر 105 پاکستانی روپے ہے۔
1960ء میں ایک امریکی ڈالر پاکستانی پانچ روپے کا تھا۔ 60ء اور 70ء کی دہائی میں عرب ممالک کے حکمران کراچی کو ترقی یافتہ شہر قرار دیتے ہوئے بے یقینی کے عالم میں کہتے تھے کہ کیا ہمارے شہر بھی کراچی جیسے ہوسکتے ہیں۔ آج وہی کراچی شہری سہولتوں سے محرومی کی علامت اور کچرے کے ڈھیر میں بدل دیا گیا ہے۔
پاکستان کے بڑے شہروں سے عید تہوار کے موقع پر شہریوں کی ایک بڑی تعداد اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرتی ہے۔ اسلام آباد میں یہ شرح سب سے زیادہ ہے۔ اسی تناظر میں اسلام آباد پولیس کی جانب سے عید کے موقع پر شہریوں کو بعض ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف سرکاری افسران اور اہلکار ہی نہیں بلکہ حکمران بھی ایسے مواقع پر اسلام آباد یا پاکستان سے رخت سفر باندھ لیتے ہیں۔ دراصل جس کے دل میں جس جگہ سے وابستگی زیادہ ہوتی ہے وہ وہاں جاکر عید منانا چاہتا ہے۔ شنید ہے کہ وزیراعظم پاکستان اپنے اہل خانہ کے ساتھ لندن میں عید منائیں گے۔ ہماری اشرافیہ میں سے کسی کو لندن جانا ہے تو کسی دبئی، کسی کو امریکا تو کسی کو اسپین۔
اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے۔ ''انسان کا دل وہاں ہوتا ہے جہاں اس کا مال ہوتا ہے''۔ اس ارشاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ حکمرانوں، سیاست دانوں، دولت مندوں کی ترجیحات دراصل ان کے دل کی پکار ہوتی ہیں اور وہ وہاں رہنا چاہتے ہیں جہاں ان کا مال ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں وزیراعظم نواز شریف سعودی عرب گئے اور شاہ سلمان سے ملاقات کی۔ ہمارے یہاں بتایا گیا کہ نواز شریف قطر کے بحران کے حوالے سے بات کرنے سعودی عرب گئے ہیں۔ پاکستان میں سعودی عرب کے ناظم الامور نے جمعرات کو اخباری نمایندوں کو یہ بتانا ضروری سمجھا کہ سعودی حکومت کو وزیراعظم نواز شریف کے دورے کے مقصد کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ قطر کے بحران پر کویت اور سوڈان ثالثی کی کوششیں کر رہے ہیں۔
سعودی ناظم الامور کی گفتگو سے یہ واضح ہوا ہے کہ قطر کے معاملے پر پاکستان کی شمولیت کی اسے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی ملک اپنی ادائیگیوں کی خاطر قرضوں کی درخواستیں لیے یا امداد کے لیے سوالی بن کر ملکوں ملکوں گھومے گا تو وہ اپنا اثر و رسوخ کیسے بنا پائے گا؟
کسی ملک کی معیشت کی مضبوطی اور سماجی حالات کی بہتری کے لیے حکمرانوں پر سب سے زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ حکمرانوں کو عوام کا ساتھ اور عوام کو حکمرانوں کا ساتھ درکار ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ عوام تو حکمرانوں کا ساتھ دیتے ہیں لیکن حکمران عوام کا ساتھ کتنا دیتے ہیں یہ سب کے سامنے ہے۔
کھیل کے ایک ٹورنامنٹ میں ہم نے بھارت کو ہرا دیا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ معیشت میں بھی بھارت اور دوسرے کئی ملکوں سے آگے نکلا جائے۔ کیا خوب ہوگا کہ اگلے دو یا تین سال بعد پاکستانی روپے اور بھارتی روپے کا میچ رکھا جائے۔ اس میچ کی تیاری کے لیے پاکستانیوں کو دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ سخت محنت کرنا ہوگی۔
یہ تیاری پاکستان کے اسکولوں، اسپتالوں، کھیتوں، کارخانوں، سرکاری اور نجی دفتروں میں ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ پاکستان کے سرکاری افسران عوامی نمایندوں اور حکمرانوں کے بچے پاکستان کے گورنمنٹ اسکولز میں یا ایسے نجی اسکولوں میں پڑھیں جن کی فیسیں زیادہ نہ ہوں۔ اعلیٰ افسر یا حکمران کا بچہ جس اسکول میں پڑھے گا اس کا معیار محکمہ تعلیم خود ہی بہتر بنا دے گا۔
حکمران، وزرا، ایم این اے، ایم پی اے، سرکاری افسران اور جونیئر ملازمین یا ان کے اہل خانہ میں سے کوئی بیمار ہو تو ان کا علاج پاکستان کے اسپتالوں میں ہی ہو۔
یقین رکھیے صرف ان دو اقدامات سے ہی پاکستانی روپے کی گراوٹ رک جائے گی۔ اس کے بعد دیگر اقدامات سے پاکستانی روپیہ مضبوط ہوگا تو کیا عرب کیا غیر عرب، کیا ایشیائی، کیا یورپی، دنیا کے ہر ملک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مضبوط ہونے لگیں گے۔ ہم نے ایسا نہ کیا تو بس کھیل کے میدانوں میں ہی نعرے لگاتے رہ جائیں گے۔
سب قارئین کرام کو عیدالفطر بہت مبارک ہو۔
زیادہ تر نوجوان اور بہت کم تجربہ رکھنے والے پاکستانی کرکٹرز نے بھارت کی انتہائی مضبوط ٹیم کو چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں 180 رنز کے بڑے فرق کے ساتھ شکست دے کر کئی نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ اس شاندار فتح پر پاکستانی قوم بہت خوش ہے۔ تاہم یہ خوشی ہمیں باوقار انداز میں منانا چاہیے۔ اس مقابلے کو دو عقیدوں کے درمیان مقابلہ یا دو قوموں کے درمیان جنگ سمجھنا بڑی غلطی ہوگی۔ فتح پر خوشیاں مناتے ہوئے مدمقابل کا دل دکھانا یا تضحیک کا نشانہ بنانا یا شکست پر شدید مایوسی میں مبتلا ہوجانا، دونوں طرح کے ردعمل درست نہیں۔
چیمپئنز ٹرافی 2017ء جیت لینا بہت خوشی کی بات ہے لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کھیل میں اس فتح سے پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ نہ سیاسی حالات میں استحکام یا سماجی خرابیوں میں ازخود کوئی بہتری نہیں آئے گی۔
پاکستان کرکٹ، ہاکی، اسکوائش، اسنوکر اور دیگر کئی کھیلوں میں عالمی اولمپک یا ایشیائی چیمپئن رہ چکا ہے۔ اسکوائش میں جو اعزاز اکیلے جہانگیر خان کی وجہ سے پاکستان کے نام ہوا وہ تو کھیلوں کی تاریخ میں ایک معزز مقام رکھتا ہے۔ پاکستان کا نام روشن کرنے والے ہر کھلاڑی کو سلام۔ واٹس ایپ پر شیئر کی جانے والی ایک پوسٹ کے مطابق پاکستان کے پاس بڑے مقابلوں میں سب سے زیادہ گولڈ میڈل یا ورلڈ کپ حاصل کرنے کا اعزاز ہے۔
عالمی مقابلوں میں فتوحات کا شاندار ریکارڈ رکھنا کتنی خوشی اور فخر کی بات ہے لیکن دوسری طرف دیکھیں تو معیشت میں گزشتہ تین چار دہائیوں میں ہم ان ممالک سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں جو کبھی ہم سے بہت پیچھے تھے۔ ان میں تھائی لینڈ، ویت نام حتیٰ کہ بنگلادیش بھی شامل ہیں۔
پاکستان کی ایکسپورٹ میں کمی اور امپورٹ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سال گزشتہ پاکستان کی امپورٹس 22 ارب ڈالر اور ایکسپورٹ 43 ارب ڈالر رہیں۔ بنگلادیش کی ایکسپورٹ سال گزشتہ 35 ارب ڈالر اور امپورٹ 38 ارب ڈالر رہی۔ دو دہائی قبل تھائی لینڈ ایک پسماندہ ملک سمجھا جاتا تھا۔ سال گزشتہ تھائی لینڈ کی ایکسپورٹ 231 ارب ڈالر اور امپورٹ 190 ارب ڈالر تھیں۔
اب آئیے امریکا کے ہاتھوں متاثر اور بربادی سے بدحال ویت نام کی طرف۔ امریکا اور ویت نام کی انیس سالہ جنگ میں ویت نام کی معیشت اور انفرااسٹرکچر برباد ہوچکے تھے۔ صرف چند سال میں ویت نام نے نہ صرف یہ کہ جنگ کی تباہ کاریوں پر قابو پایا بلکہ معیشت کو مضبوط بنیادیں بھی فراہم کردیں۔ سال گزشتہ ویت نام کی ایکسپورٹ 176 ارب ڈالر اور امپورٹ 161 ارب ڈالر تھیں۔
واضح رہے کہ 60 کے عشرے میں جب ویت نام امریکی بمباری سے تباہ ہورہا تھا اس وقت پاکستان کا شمار تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں میں ہوتا تھا اور ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے جرمنی کو قرضہ دیا تھا۔ 2017ء میں ایک امریکی ڈالر کی قدر 105 پاکستانی روپے ہے۔
1960ء میں ایک امریکی ڈالر پاکستانی پانچ روپے کا تھا۔ 60ء اور 70ء کی دہائی میں عرب ممالک کے حکمران کراچی کو ترقی یافتہ شہر قرار دیتے ہوئے بے یقینی کے عالم میں کہتے تھے کہ کیا ہمارے شہر بھی کراچی جیسے ہوسکتے ہیں۔ آج وہی کراچی شہری سہولتوں سے محرومی کی علامت اور کچرے کے ڈھیر میں بدل دیا گیا ہے۔
پاکستان کے بڑے شہروں سے عید تہوار کے موقع پر شہریوں کی ایک بڑی تعداد اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرتی ہے۔ اسلام آباد میں یہ شرح سب سے زیادہ ہے۔ اسی تناظر میں اسلام آباد پولیس کی جانب سے عید کے موقع پر شہریوں کو بعض ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف سرکاری افسران اور اہلکار ہی نہیں بلکہ حکمران بھی ایسے مواقع پر اسلام آباد یا پاکستان سے رخت سفر باندھ لیتے ہیں۔ دراصل جس کے دل میں جس جگہ سے وابستگی زیادہ ہوتی ہے وہ وہاں جاکر عید منانا چاہتا ہے۔ شنید ہے کہ وزیراعظم پاکستان اپنے اہل خانہ کے ساتھ لندن میں عید منائیں گے۔ ہماری اشرافیہ میں سے کسی کو لندن جانا ہے تو کسی دبئی، کسی کو امریکا تو کسی کو اسپین۔
اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے۔ ''انسان کا دل وہاں ہوتا ہے جہاں اس کا مال ہوتا ہے''۔ اس ارشاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ حکمرانوں، سیاست دانوں، دولت مندوں کی ترجیحات دراصل ان کے دل کی پکار ہوتی ہیں اور وہ وہاں رہنا چاہتے ہیں جہاں ان کا مال ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں وزیراعظم نواز شریف سعودی عرب گئے اور شاہ سلمان سے ملاقات کی۔ ہمارے یہاں بتایا گیا کہ نواز شریف قطر کے بحران کے حوالے سے بات کرنے سعودی عرب گئے ہیں۔ پاکستان میں سعودی عرب کے ناظم الامور نے جمعرات کو اخباری نمایندوں کو یہ بتانا ضروری سمجھا کہ سعودی حکومت کو وزیراعظم نواز شریف کے دورے کے مقصد کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ قطر کے بحران پر کویت اور سوڈان ثالثی کی کوششیں کر رہے ہیں۔
سعودی ناظم الامور کی گفتگو سے یہ واضح ہوا ہے کہ قطر کے معاملے پر پاکستان کی شمولیت کی اسے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی ملک اپنی ادائیگیوں کی خاطر قرضوں کی درخواستیں لیے یا امداد کے لیے سوالی بن کر ملکوں ملکوں گھومے گا تو وہ اپنا اثر و رسوخ کیسے بنا پائے گا؟
کسی ملک کی معیشت کی مضبوطی اور سماجی حالات کی بہتری کے لیے حکمرانوں پر سب سے زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ حکمرانوں کو عوام کا ساتھ اور عوام کو حکمرانوں کا ساتھ درکار ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ عوام تو حکمرانوں کا ساتھ دیتے ہیں لیکن حکمران عوام کا ساتھ کتنا دیتے ہیں یہ سب کے سامنے ہے۔
کھیل کے ایک ٹورنامنٹ میں ہم نے بھارت کو ہرا دیا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ معیشت میں بھی بھارت اور دوسرے کئی ملکوں سے آگے نکلا جائے۔ کیا خوب ہوگا کہ اگلے دو یا تین سال بعد پاکستانی روپے اور بھارتی روپے کا میچ رکھا جائے۔ اس میچ کی تیاری کے لیے پاکستانیوں کو دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ سخت محنت کرنا ہوگی۔
یہ تیاری پاکستان کے اسکولوں، اسپتالوں، کھیتوں، کارخانوں، سرکاری اور نجی دفتروں میں ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ پاکستان کے سرکاری افسران عوامی نمایندوں اور حکمرانوں کے بچے پاکستان کے گورنمنٹ اسکولز میں یا ایسے نجی اسکولوں میں پڑھیں جن کی فیسیں زیادہ نہ ہوں۔ اعلیٰ افسر یا حکمران کا بچہ جس اسکول میں پڑھے گا اس کا معیار محکمہ تعلیم خود ہی بہتر بنا دے گا۔
حکمران، وزرا، ایم این اے، ایم پی اے، سرکاری افسران اور جونیئر ملازمین یا ان کے اہل خانہ میں سے کوئی بیمار ہو تو ان کا علاج پاکستان کے اسپتالوں میں ہی ہو۔
یقین رکھیے صرف ان دو اقدامات سے ہی پاکستانی روپے کی گراوٹ رک جائے گی۔ اس کے بعد دیگر اقدامات سے پاکستانی روپیہ مضبوط ہوگا تو کیا عرب کیا غیر عرب، کیا ایشیائی، کیا یورپی، دنیا کے ہر ملک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مضبوط ہونے لگیں گے۔ ہم نے ایسا نہ کیا تو بس کھیل کے میدانوں میں ہی نعرے لگاتے رہ جائیں گے۔
سب قارئین کرام کو عیدالفطر بہت مبارک ہو۔