شارک کو محفوظ کرنے کیلیے متعلقہ اداروں کو خطوط تحریر

ماہرین پیر کو شارک کا معائنہ کرینگے،کھال نیچرل ہسٹری میوزیم بھیجی جائیگی.


Staff Reporter February 03, 2013
مچھلی کے مرنے کی وجوہات و عمر کا تعین کیا جائیگا، گذشتہ سال دو گنا بڑی شارک مری تھی۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

فش ہاربر اتھارٹی نے ایک روز قبل مچھیروں کی جانب سے پکڑی جانیوالی عظیم الجثہ شارک کو محفوظ کرنے اور اس کی موت کی وجہ معلوم کرنے کیلیے متعلقہ اداروں کو خطوط تحریر کردیے ہیں۔

قومی و صوبائی اداروں کے ماہرین پیرکوشارک کا معائنہ کریں گے اوراس کی کھال علیحدہ کرکے اسلام آبادکے نیچرل ہسٹری میوزیم میںمحفوظ کرنے کیلیے بھیجی جائے گی،تفصیلات کے مطابق جمعے کومقامی مچھیرے جمن کے جال میں آجانے والی دیوہیکل شارک کو محفوظ کرنے اوراس کی موت کی وجوہات معلوم کرنے کیلیے نیچرل ہسٹری میوزیم اسلام آباد ، میرین بائیلوجی ڈپارٹمنٹ جامعہ کراچی، وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ اور بین الاقوامی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کو خطوط تحریرکردیے گئے ہیں۔

کراچی فش ہاربر اتھارٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر عبدالغنی جوکھیو کے مطابق ماہرین پیر کوشارک کا معائنہ کریں گے اور اس کی کھال جسم سے جدا کرکے محفوظ بنانے کیلیے نیچرل ہسٹری میوزیم اسلام آباد بھیجی جائے گی، انھوں نے بتایا کہ ماہرین شارک کے جسم کے نمونے بھی لیں گے جس کے بعد یہ حتمی طور پر کہا جاسکے گا کہ مچھلی کے مرنے کی وجوہات کیا تھیں اور اس کی عمر کا تعین بھی کرلیا جائے گا، انھوں نے کہا کہ یہ ماہرین ہی پتہ لگاسکیں گے کہ مردہ شارک حاملہ تھی یا نہیں۔

 

6

واضح رہے کہ سمندری حیاتیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ غالب امکان یہی ہے کہ شارک پہلے ہی مرچکی تھی جس کی وجہ سے وہ مچھیروں کے جال میں آگئی، انھوں نے کہا کہ اگر مچھلی زندہ ہوتی تو مچھیروں کیلیے دیوہیکل مچھلی کو پکڑ کر ساحل تک لانا ممکن نہیں تھا، تاہم انھوں نے کہا کہ شارک کے جسم سے حاصل کیے جانے والے نمونوں کے کیمیائی تجزیوں کے نتائج کے بعد ہی اس سلسلے میں حتمی رائے قائم کی جاسکتی ہے۔

عبدالغنی جوکھیو نے مزید بتایا کہ گذشتہ سال فروری کے مہینے میں پکڑی جانے والی تقریبا دو گنا بڑی شارک کے بارے میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ وہ اپنی طبعی موت مری تھی، انھوں نے کہا کہ مچھلی کو ساحل سمندر پر لانے والے مچھیرے کو ادائیگی نہیں کی جائے گی کیونکہ اگر اس نے زندہ وہیل شارک کو پکڑا ہے تو یہ ایک غیرقانونی اقدام ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں