دودھ پلانے والی مائیں فالج اور دل کے دورے سے محفوظ

برطانیہ اور چین کے سائنسدانوں نے 2 لاکھ 80 ہزار ماؤں کی صحت کا موازنہ کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا


ویب ڈیسک June 28, 2017
ماں کا دودھ بچے کو بھی مختلف اقسام کے انفیکشنز سے بچاتا ہے، تحقیق — فوٹو : فائل

وہ مائیں جو بچوں کو دودھ پلاتی ہیں ان میں دل کے دورے اور فالج کا خطرہ خاصی حد تک کم ہوجاتا ہے۔

برطانیہ میں کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین کو ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ دیگر خواتین کی نسبت کم ہوجاتا ہے۔ ماضی میں طبّی تحقیقات سے پہلے ہی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین میں چھاتی کے کینسر، بیضہ دانی کے کینسر، آسٹیو پوروسس (ہڈیوں کے بھربھرے پن) اور موٹاپے کا خطرہ بڑی حد تک کم ہوجاتا ہے اور اب سائنسدان پرامید ہیں کہ نئی تحقیق کے نتائج جان کر ماؤں میں بچوں کو دودھ پلانے کا رجحان بڑھے گا۔

برطانیہ اور چین کے سائنسدانوں نے تقریباً 2 لاکھ 80 ہزار خواتین کی صحت کا ڈیٹا اکٹھا کیا اور یہ تمام خواتین مائیں تھیں۔ نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ مائیں جو بچوں کو دودھ پلاتی ہیں ان میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ دیگر خواتین کے مقابلے میں 9 فیصد اور فالج کا خطرہ 8 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی جو خاتون بچے کو جتنا زیادہ دودھ پلاتی ہے اس میں دل کی بیماریوں کے ہونے کا خطرہ اتنا ہی کم ہوجاتا ہے۔ بچوں کو دودھ پلانے کی مدت میں ہر 6 ماہ کے اضافے سے خواتین میں دل کے امراض کا خطرہ 4 فیصد اور فالج کا خطرہ 3 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

نتائج کے مطابق جن خواتین نے بچوں کو کبھی اپنا دودھ نہیں پلایا ان کے مقابلے میں بچوں کو دو سال یا اس سے زائد عرصے تک دودھ پلانے والی ماؤں میں دل کی بیماریوں کا خطرہ 18 فیصد اور فالج کا خطرہ 17 فیصد تک کم ہوتا ہے۔ یہ تحقیق برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی گئی جب کہ اس میں چین کی اکیڈمی آف میڈیکل سائنسز اور بیجنگ یونیورسٹی کا اشتراک بھی شامل تھا۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جب عورت حاملہ ہوتی ہے تو اس کے میٹابولزم (استحالہ) میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہوتی ہے اور اس کا جسم بچے کو توانائی اور پیدائش کے بعد وافر مقدار میں دودھ فراہم کرنے کے لیے زیادہ مقدار میں چربی جمع کرتا ہے جب کہ پیدائش کے بعد بچے کو دودھ پلانے والی ماؤں کے جسم سے اضافی چکنائی زیادہ تیزی سے اور مکمل طور پر ختم ہوجاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں