ٹونی گریگ اور پاکستان کرکٹ چند بکھری یادوں کا تذکرہ

جاوید میانداد ، عمران خان اور مشتاق محمد سے ان کا قریبی تعلق رہا


February 03, 2013
پاکستان سے باہرمیانداد کا ٹیلنٹ سب سے پہلے پہچانا، شعیب اختر کو راولپنڈی ایکسپریس کا نام دیا۔ فوٹو: فائل

کرکٹ کی تاریخ میں ٹونی گریگ جیسی پہلودارشخصیات بہت کم رہی ہیں۔

کھلاڑی کی حیثیت میں بیٹنگ، بولنگ اورفیلڈنگ تینوں شعبوں میں بڑی عمدگی سے انھوں نے خود کو منوایا۔انگلینڈ اور سسکس کے کپتان کی حیثیت سے ایسی کامیابیاں بھی ان کے حصے میں آئیں، جن سے کئی دوسرے کپتان محروم رہے۔ان کی فٹنس کا معیار یہ رہا کہ انھوں نے اپنے کیرئیر کے تمام58 ٹیسٹ میچ مسلسل کھیلے۔انھیں انگلینڈ کی تاریخ کے چند بہترین آل رائونڈروں میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔ اپنی ٹیم کے لیے کئی دفعہ مرد بحران ثابت ہوئے۔وہ جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے پہلے کرکٹر تھے، جنھیںانگلینڈ کی کپتانی کا اعزازحاصل ہوا۔

1977ء میں کیری پیکر نے ورلڈ سیریز کرکٹ کا میلہ سجانا چاہا توکھلاڑیوں سے مذاکرات کا مینڈیٹ ٹونی گریگ کو دیا گیا۔ریسٹ آف دی ورلڈ الیون کی کپتانی کی ذمے داری بھی ان کے سپردہوئی۔کیری پیکر سے اپنے تعلق کی بنا پر وہ انگلینڈ میںکرکٹ اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں معتوب ٹھہرے اور انھیں قومی ٹیم کی کپتانی سے فارغ کردیا گیا۔کرکٹ حلقوں میںوہ ہمیشہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کھلاڑی کے طور پر جانے گئے۔عام کھلاڑی، کپتان اور ورلڈ سیریز کرکٹ میں بحیثیت منتظم انھوں نے خود کو بھر پور انداز میں منوالیا تو پھرپورے طور پرخود کو کمنٹری کے لیے وقف کردیا ، اور اس کام میں ان جیسی ناموری کم ہی لوگوں کو ملی۔

مبصر اورکمنٹیٹر کی حیثیت سے ان کا منفرد اندازشائقین کرکٹ کو ہمیشہ بھاتارہا۔سابق آسٹریلیوی کپتان اورنامور مبصر بل لاری کے ساتھ انھوں نے لگاتار 33برس کمنٹری کی، جداگانہ طرز کی بنیاد پر اس جوڑی کو بیحد پسند کیا گیا۔ یہ سفر کامیابی سے جاری تھامگرکینسر سے موت نے اس سفرکو کھوٹا کردیا اور ٹونی گریگ 29دسمبر2012ء کو دنیا سے سدھار گئے۔ٹونی گریگ بڑے کھلاڑی ہونے کے ساتھ اچھے انسان بھی تھے۔طبعاً باغ و بہار شخص تھے،کپتان بن کر بھی ان کے مزاج میں تغیرنہیں آیا۔

1975ء میں دورہ بھارت میں کلکتہ ٹیسٹ میںاپنی یاد گار اننگزکے دوران تماشائیوں سے روایتی ہندوستانی انداز میں ہاتھ جوڑ کر معافی کا طلب گار ہونااوربمبئی ٹیسٹ میں بیٹسمین وشواناتھ کو گود میں اٹھا لینے کے عمل نے انھیں بھارتی عوام میں مقبول بنادیا ، جب کہ وہ1933ء کے بعد بھارت کواس کی سرزمین پر زیر کرنے والی انگلینڈ ٹیم کے کپتان بھی تھے۔

1974ء میں جب ڈینس للی کا دنیائے کرکٹ میں ڈنکا بج رہا تھا،چھ فٹ چھ انچ کے درازقامت ٹونی گریگ نے برسبن ٹیسٹ میں ان کے اور جیف تھامسن کے سامنے ڈٹ کر بیٹنگ کی اور سنچری بناڈالی، دوران اننگزوہ جب بھی گیند کو بائونڈری کی راہ دکھاتے تو للی کو چڑانے کے واسطے امپائر کے انداز میں ہاتھ سے چوکے کا اشارہ دیتے ۔کرکٹ میں اب تو بلے کو زمین پر رکھنے کے بجائے فضا میں بلند کرنے کا طور عام ہے ، لیکن ٹونی گریگ غالباً پہلے بیٹسمین تھے، جنھوں نے یہ انداز اپنایا۔بحیثیت کمنٹیٹر پچ کی ماہیت جانچنے کے لیے چابی کا استعمال بھی ان کی اختراع تھی۔

کرکٹ کے باعث ٹونی گریگ نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا،جنوبی افریقہ میں پلے بڑھے،کرکٹ انگلینڈ کے لیے کھیلی اور مبصر کی حیثیت سے تمام کیریئر آسٹریلیا میں رہ کربتایا،اس پر مستزاد کھلاڑی اور مبصر کے طور پر دنیا بھر کا سفر۔ سو باتوں کی ایک بات یہ کہ ٹونی گریگ کرکٹ میں اپنے منفرد کردار کے باعث ہمیشہ یاد رکھیں جائیں گے۔ ہم نے اس مضمون میں کچھ ایسی باتوں کو یکجاکیاہے، جن سے پاکستانی کھلاڑیوں اور پاکستان کرکٹ سے ٹونی گریگ کا تعلق ظاہر ہوتا ہے۔

مشتاق انجکشن کے خوف سے کھیلنے پر راضی ہو گئے

ورلڈ سیریز کرکٹ میں وہ میری کپتانی میں کھیل رہاتھا جب ایک میچ میں مجھے اسے کھلانے کی شدید ضرورت تھی جبکہ اس کی ایڑی میں چوٹ لگی ہوئی تھی،وہ شدید تکلیف کی حالت میں تھا اور منہ بسورے ڈریسنگ روم کے آس پاس پھر رہا تھا۔ میں نے میچ سے ایک روز قبل اپنے فزیو کو فون کیا اور اس سے پوچھا کہ تم کب مْشی کا علاج کرو گے۔ وہ بڑا سا ٹیکہ اپنے ساتھ لانا جو تمہارے بیگ میں ہوتا ہے۔

چنانچہ اگلے روز مْشی فزیو کے سامنے میز پر لیٹا ہوا تھا اور یہی کہہ رہا تھاکہ وہ ان فٹ ہے۔فزیو جب بھی اس کی ایڑی دباتا تو وہ کراہنے لگتا۔''اب صرف ایک طریقہ ہی ہوسکتا ہے۔'' فزیو نے یہ کہتے ہوئے کوئی ایک فٹ لمبا ٹیکہ باہر نکالا اور اس طرح لہرایا کہ مْشی اسے دیکھ لے۔مْشی نے ایک نظر ٹیکے کو دیکھا اور بولا۔''اچھا ، ٹھیک ہے، میں کھیلنے کی کوشش کرتا ہوں۔مجھے اب درد نہیں ہورہا۔'' مجھے لگ رہا تھا کہ وہ یہی کہے گا۔وہ ایک اچھا ٹیم ممبر ، ایک زبردست لڑاکا اور مرد آدمی تھا۔

میٹنگ وکٹوں سے کیسے جان چھوٹی

٭پاکستان کرکٹ کے ابتدائی زمانے میں ٹرف کے بجائے میٹنگ وکٹوں پرمیچ ہوتے،جس پرباہر سے آنے والی ٹیموں کوشکایت رہتی، کیونکہ پاکستانی بولرز خاص طور سے فضل محمود نے ان کی ناک میں دم کررکھاتھا۔ٹونی گریگ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ انھیں رچی بینو نے بتایا کہ کس طرح سے1960ء میںانھوں نے کراچی میںصدر پاکستان ایوب خان کو قائل کیا کہ پاکستان کے بین الاقوامی کرکٹ میں وقار کے لیے بہتریہی ہے کہ میٹنگ وکٹ پر میچ کرانے کا سلسلہ بند کیا جائے اور ٹرف پر میچ کرائے جائیں۔

بات ایوب خان کی سمجھ میں آگئی اور کراچی میں ہونے والا یہ میچ میٹنگ وکٹ پر ہونے والا آخری میچ بن گیا۔٭ ٹونی گریگ اپنی کتاب میں کراچی میں مارچ 1969ء میں انگلینڈ کے ساتھ پاکستان کے میچ کا بھی ذکر کرتے ہیں، جو اس زمانے میں کراچی میںجاری احتجاج کی وجہ سے ادھورا رہا کیونکہ مظاہرین گرائونڈ میں گھس آئے تھے،یوںیہ کرکٹ کی تاریخ کا پہلا ٹیسٹ میچ بن گیا، جوہجوم کے باعث نامکمل رہا۔ n

راولپنڈی ایکسپریس

شعیب اخترکو راولپنڈی ایکسپریس کا نام بھی ٹونی گریگ نے دیا،جس کو شعیب اختر نے اپنے لیے باعث فخر جانا۔ شعیب اخترنے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب وہ اپریل2002ء میں نیوزی لینڈکے خلاف 100میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند پھینکنے والے پہلے بولر بنے توآئی سی سی، اس کارنامے کو رجسٹر کرنے میں متامل تھی اورکئی مبصرین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے میںگومگو کا شکار تھے، ایسے میں شعیب اختر کے بقول ٹونی گریگ کھلے عام ان لوگوں پر برس رہے تھے،جو ان کی تیز ترین گیند پھینکنے کی استعداد پر سوال اٹھارہے تھے، اس ضمن میں کمنٹر ی باکس میں موجود اپنے ساتھیوں کو بھی انھوں نے آڑے ہاتھوں لیا۔

عمران خان کی پہلی ٹیسٹ وکٹ

جس طرح انسان پہلی محبت نہیں بھولتا، اس طرح بولر کو بین الاقوامی کرکٹ میں اپنا پہلا وکٹ ہمیشہ یاد رہتا ہے۔عمران خان نے ٹیسٹ اور ون ڈے میں مجموعی طور پر544کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ان میں سے بہت سے آئوٹ توخود عمران کو بھی یاد نہ رہے ہوں گے لیکن ایک وکٹ جوانھیںضرور یاد ہوگی وہ 1974ء میں لیڈز ٹیسٹ میںان کی پہلی وکٹ ہے،جو انھوں نے ٹونی گریگ کو آئوٹ کرکے حاصل کی۔ٹونی گریگ نے1976 ء میںسسکس کے کپتان کی حیثیت سے عمران خان کا انتخاب کیا اور ایک برس بعد ورلڈسیریزکرکٹ کے لیے عمران کے چنائو کا فیصلہ بھی ۔عمران خان نے اپنی آپ بیتی میں ٹونی گریگ کا ذکر جن حوالوں سے کیا ہے ، اس کا احوال کچھ یوں ہے:

ٹونی گریگ اور مشتاق محمد کی کپتانی میں کیا قدر مشترک تھی؟

عمران خان اپنی خود نوشت "All Round View" میں لکھتے ہیں: انگلینڈ کے کپتانوں میں میرے خیال میں ٹونی گریگ سب سے زیادہ متاثرکن شخصیت کے مالک تھے۔اگرچہ حیران کن طورپر ان کے انداز کپتانی میں بھی مشتاق محمد کی طرح سے تبدیلی آئی، یعنی جب ان کا فارم اوراعتماد جاتا رہا تو وہ دفاعی کپتان بن گئے۔ٹونی گریگ بڑھ چڑھ کر کپتانی کرتے لیکن جب ان کی اپنی کارکردگی میں فرق آیاتو ان کی کپتانی بھی زوال آمادہ ہوگئی۔

ورلڈ سیریز میں عمران کی شمولیت اورٹونی کی ناکامی کا قصہ

1977ء میں پاکستان ٹیم ویسٹ انڈیزکے دورے پر تھی ، جب ٹونی گریگ کیری پیکر کے نمائندے کی حیثیت سے ادھرپہنچے اور ورلڈ سیریز میں شرکت کے واسطے پاکستانی کھلاڑیوں کو راضی کیا ۔عمران خان لکھتے ہیں: ورلڈ الیون اسکواڈ میں شمولیت سے میں خوشی سے پھولے نہ سمایا۔صرف ایک برس قبل کی بات ہے پاکستان ٹیم میں میری جگہ پکی نہیں تھی اور اب میں بھاری معاوضے پر کرکٹ کے لیے بہت ہی موزوں جگہ آسٹریلیا میں دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے جارہا تھا۔''

عمران خان نے ٹونی گریگ کا شمار ایسے کھلاڑیوں میں کیا ہے،جو ورلڈ سیریز میں اپنا سکہ نہ جماسکے۔عمران اس بات کو ستم ظریفی قرار دیتے ہیں کہ ورلڈ سیریز کرکٹ کا اہم ترین منتظم ٹونی گریگ بھی ایسے کھلاڑیوں میں نمایاں مثال بنا،جو اس سیریز میں ناکام رہے، ٹونی گریگ بولنگ میں بھی کچھ خاص نہ کر سکا اور بیٹنگ میں بھی شاٹ پچ گیندوں کے سامنے اس کی کمزوری بری طرح ظاہر ہوگئی۔

میاندادناراض ہونا جانتا ہی نہیں تھا

ٹونی گریگ کا جاوید میانداد سے قریبی تعلق رہا، جس کی گواہی2003ء میں ''کٹنگ ایج'' کے نام سے شائع ہونے والی میانداد کی آپ بیتی سے ملتی ہے، جس کے پیش لفظ میں ٹونی گریگ نے بڑے جچے تلے الفاظ میں مایہ ناز پاکستانی کرکٹر کوخراج تحسین پیش کیا ہے۔وہ بیان کرتے ہیںکہ جب انھیں سسکس کے کپتان کی حیثیت سے چار غیر ملکی نوجوان کھلاڑیوں کا چنائو کرناتھا تو ان کی نگاہ انتخاب جاوید میانداد پر پڑی۔میانداد کو وہ عظیم کھلاڑی قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کی جس خوبی نے انھیں متاثر کیا وہ کھیل کے بارے میں ان کا مثبت اور جارحانہ رویہ ہے۔

ان کے بقول، صورت حال جتنی زیادہ دشوار ہوتی،میانداد اس چیلنج کو قبول کرنے میں اتنی ہی زیادہ طمانیت محسوس کرتا اور کھیل کے بارے میں اس کا پر جوش رویہ ہی ہے، جس نے اس کو ایسا ٹیم مین بنادیا، جس کے ساتھ اور اس کے مدمقابل کھیل کر وہ خوشی محسوس کرتے۔ٹونی گریگ کے بقول ''اسٹیٹس اس عظیم پاکستانی کھلاڑی کے لیے کوئی معنے نہیں رکھتا، زندگی اس کے لیے ایک Funکا درجہ رکھتی اور وہ اپنا جنون ہر ایک سے شیئر کرتا۔۔۔متعدد بار پر ایسا ہوا کہ سسکس مشکل میں ہے اورجاوید میانداد جو ٹیم میں بالکل نوجوان ہے، وہ مجھے یعنی کپتان کو کوئی آئیڈیا پیش کرتاجو اکثر وبیشتر بہت اچھا ہوتا۔اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اگر اس کی سفارشات کو نہ بھی ماناجاتاتب بھی اس کے ماتھے پرہلکی سی شکن نہ آتی کیونکہ وہ ناراض ہونا جانتا ہی نہیں تھا۔''

وہ نہ ہوتے تو انگلینڈ سے وطن واپس لوٹ آتا

میانداد کے بارے میں ٹونی گریگ کے خیالات کا خلاصہ آپ نے جان لیا اور اب میاندادنے اپنی کتاب میں ان کے بارے میں جوکچھ لکھا ہے اس کا لب لباب بیان کئے دیتے ہیں۔سسکس کائونٹی میں بیتے زمانے سے میانداد کی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں، جہاں انھیں کھیل کے لیے بڑاموافق ماحول میسر آیا۔وہ ٹونی گریگ کو کائونٹی کا بہترین اثاثہ قرار دیتے ہیں، جو اس زمانے میں انگلینڈکے بھی کپتان تھے۔انھوں نے میانداد کا خوب حوصلہ بڑھایااور ہر مشکل لمحے میں ان کی ہمت بندھائی اورمیانداد کے بقول، ایک بڑے بھائی کی طرح سے ان کا خیال رکھا۔

موسم کی شدت اور غیرمانوس گردو پیش کی وجہ سے میانداد کو گھر کی یاد ستاتی اور اگر ایسے میں جب وہ خود کو سماجی اعتبار سے بہت تنہامحسوس کرتے اگر وطن نہیں سدھارے تو اس کا کریڈٹ ٹونی گریگ کوجاتا ہے ،جووطن سے دوراس کرکٹر کی دل جوئی کرتے رہے۔میانداد کو اس کڑے وقت میں ٹونی گریگ کا یہ مشفقانہ رویہ ہمیشہ یاد رہا۔ورلڈ سیریزکرکٹ سے جاوید میانداد کا معاہدہ بھی ٹونی گریگ کی کوشش سے ممکن ہوا۔

ٹونی گریگ کی نظر میں میانداد کی واحد خامی

جاوید میانداد کی کتاب تو اس وقت سامنے آئی ، جب انھیں ریٹائر ہوئے نو برس ہوچکے تھے اور ان کا عالمی کرکٹ میں جو مقام ہے، وہ متعین ہوچکا تھا، لیکن ٹونی گریگ نے تو بہت پہلے، جب میانداد بین الاقوامی کرکٹ میں وارد ہوئے تھے، ان کے غیر معمولی ٹیلنٹ کا اندازہ لگالیا تھا، جس کا اظہار کائونٹی کے لیے میانداد کے انتخاب سے تو ہوتا ہی ہے، دوسرے 1977ء میں شائع ہونے والی ان کی کتاب سے بھی اس کی غمازی ہوتی ہے، جس میں انھوں نے میانداد کو حالیہ زمانے میں ابھرنے والا سب سے متاثر کن کھلاڑی قرار دیا،اور لکھا کہ میانداد میں صرف ایک ہی خامی ہے کہ وہ انگریزی بولنے کے معاملے میں بالکل کورا ہے، اور جب وہ نیا نیا سسکس میں آیا تو اس سے مترجم کے ذریعے بات چیت کرنا ممکن ہوتا ،عام طور پر یہ کردار ٹیسٹ کرکٹر صادق محمد نبھاتے۔

یہ کہا جاسکتاہے کہ بیرونی دنیا میں جس جوہری نے میانداد ایسے ہیرے کی قدروقیمت کا سب سے پہلے اندازہ لگایا، وہ ٹونی گریگ ہی تھے۔ میانداد کے تذکرے ہی میں وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی آمد کے بعد سے نوجوان کھلاڑیوں کو متعارف کرارہا ہے۔اس کتاب میں انھوں نے اس وقت تک دنیا کے کم عمر ترین جن چار کھلاڑیوں کا نام درج کیا ہے ، ان میں، مشتاق محمد،آفتاب بلوچ، نسیم الغنی اور خالد حسن شامل ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں