آخری تماشہ
وہ اپنے بھر پور سیاسی کیریئر اور اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
قیاس آرائیوں،خواہشات اور خدشات کا ایک سمندر آج کل موجزن ہے ، یہ پچھلے ایک سال سے جاری ہے اور تب تک جاری رہے گا جب تک پاناما کیس اپنے کسی حتمی انجام کو نہیں پہنچ جاتا، ہم جلد باز قوم ہیں اور ہر معاملے میں جلدی ہماری گھُٹی میں پڑی ہوئی ہے اور اسی جلدبازی کے ساتھ ساتھ ہم اپنے مطلب کی بات بھی سننا چاہتے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی بات ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہوتی۔
پاناما کا کیس جب منظر عام پر آیا تو اس کے ساتھ ہی ملک میں ایک بھونچال آگیا اور اس بھونچال کا سب سے بڑا نشانہ ہمارا حکمران خاندان بنا جنہوں نے پہلے تو زبانی کلامی اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی لیکن بعد میں یہ معاملہ ملک کی اعلیٰ عدالت میں چلا گیا اور عدالت نے ملکی تاریخ کے اس اہم ترین کیس کی سماعت کے دوران ملک کے جید وکیلوں کے دلائل سنے اور ایک طویل عرصہ تک زیر سماعت رہنے کے بعد اپنا فیصلہ سناتے ہوئے تین معزز ججوں نے اس کی مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیا جس کے ممبران نے فوری طور پر اس کیس کی مزید تفتیش کا آغاز کردیا اور یہ سلسلہ تادمِ تحریر جاری ہے۔
اس ہائی پروفائل کیس میں چونکہ ہمارے حکمران خاندان کی کمائی گئی دولت کی تفتیش ہو رہی ہے اس لیے اس معاملے میں دوسرے لوگوں کے علاوہ میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ سے بھی تفتیش و تحقیق کا عمل زورشور سے چل رہا ہے اور اب تک میاں نواز شریف کے خاندان کے تقریباً تمام اہم افراد جے آئی ٹی کے سامنے اپنا موقف پیش کر چکے ہیں جس میں خود ہمارے وزیر اعظم بھی شامل ہیں لیکن میرے خیال میں ان سب سے اہم گواہی ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ہو گی جو کہ ابھی بلاوے کے منتظر ہیں اور ہمارے وزیر اعظم کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں۔
جنرل مشرف کے دور حکومت میں تحریری طور پر غیر قانونی طور پر رقوم کی غیر ممالک میں منتقلی کا اعتراف بھی کر چکے ہیں اس لیے ان کی گواہی کو اہم ترین سمجھا جا رہا ہے کہ اگر ان کو جے آئی ٹی بلاتی ہے تو اس کے سامنے وہ اپنا کیا موقف پیش کریں گے اور اگر وہ اپنے سابقہ اعتراف سے منحرف ہوتے ہیں تو اس کے لیے ان کو ٹھوس جواز پیش کرنا ہو گا۔
جے آئی ٹی کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ وقت جیسے جیسے ختم ہونے کے قریب آرہا ہے جے آئی ٹی کی جانب سے تفتیش کے معاملات میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے اور یہ ٹیم جن متعلقہ لوگوں کو ضروری سمجھ رہی ہے ان کو بار بار بلا رہی ہے جس میں وزیر اعظم کے صاحبزادے حسن اورحسین کئی پیشیاں بھگت چکے ہیں اور آخری اطلاعات تک جے آئی ٹی نے وزیر اعظم کی صاحبزادی محترمہ کو بھی تفتیش کے لیے بلا لیا ہے جن کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ وہ ذاتی مصروفیات کے سلسلے میں ملک سے باہر ہیں اور ان کی جے آئی ٹی کے ارکان کے سامنے پیشی کے بارے میں فیصلہ بھی ان کی قانونی پوزیشن کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا۔
دوسری طرف ہمارے وزیر اعظم جو کہ سعودی عرب سے لندن پہنچے تھے انھوں نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ پاناما کیس کو وہ ایک تماشہ سمجھتے ہیں اور ہمارا احتساب نہیں مذاق کیا جارہا ہے اور یہ معاملہ میری سمجھ سے باہر ہے اور ہمارے خلاف سازش کی جارہی ہے۔
وزیر اعظم کے اس بیان کو عدلیہ کی توہین کہا جا رہا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس کی نگرانی براہ راست اعلیٰ عدالت کر رہی ہے جس کو جے آئی ٹی ہر پندرہ دن بعد اپنی تحقیقات کی پیش رفت کی رپورٹ پیش کر رہی ہے اس لیے ہمارے وزیر اعظم کے اس بیان کو عدالت کی توہین شمار کیا جارہا ہے، ویسے بھی اس کیس کا دائرہ کار وسیع اور جس تیزی سے تحقیقی عمل آگے بڑھ رہا ہے اسی تیزی سے حکمران خاندان اور ان کے رفقاء کے لب و لہجہ میں تلخی بھی بڑھتی جا رہی ہے اور ان کی جانب سے ان کے خلاف کسی متوقع ناپسندیدہ فیصلے کے بارے میں جارحانہ حکمت عملی بھی واضح طور پر نظر آنا شروع ہو گئی ہے جس کا اندازہ ان کے بیانات سے ہی لگایا جا سکتا ہے ۔
وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر بھی جے آئی ٹی کے بارے میں علی الاعلان یہ کہہ رہے ہیں کہ جے آئی ٹی کو کسی وعدہ معاف گواہ کی تلاش ہے ، حکمران خاندان کے لیے اس کیس کے متعلق معاملات انتہائی خراب جا رہے ہیں اور اب تک کی اندرون خانہ اطلاعات کے مطابق ان کے وکلاء بھی نجی محفلوں میں یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کیس کا دفاع ان کے لیے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور ان کو صورتحال خوشگوار نظر نہیں آرہی۔
اس کیس میں سب سے اہم فیصلہ سپریم کورٹ نے یہ کیا تھا کہ جے آئی ٹی کی شکل میں تفتیش کے دائرہ کار کو وسعت تو دے ہی دی تھی لیکن اس میں بے گناہی ثابت کرنے کے لیے بارثبوت حکمران خاندان کو فراہم کرنے کا ہی پابند کر دیا جس کی وجہ سے شریف خاندان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے اور اب بڑے معصومانہ انداز سے یہ کہا جارہا ہے کہ ان پر ملک کو نقصان پہنچانے کا تو کوئی الزام نہیں بلکہ ان کی ذاتی دولت کے بارے میں تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ وہ کیسے کمائی گئی۔
یہ دنیاوی دولت بھی انسان کو امتحان میں ڈال دیتی ہے اور ہم بے پناہ دولت کے باوجود اس دولت کے شر سے اپنے آپ کو بچا نہیں پاتے اور اپنی زندگی کو ایک امتحان بنا لیتے ہیں جس کا مشاہدہ آج کل ہم سب کر رہے ہیں کہ ہمارے ملک کا امیر ترین اور طاقتور ترین فرد اپنی اسی دولت کے سبب انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہے جہاں سے وہ اپنی بے گناہی کے فیصلے کا منتظر ہے۔ یہ بات الگ کہ یہ دولت کیسے کمائی گئی بات یہ ہو رہی ہے کہ دولت انسان کی زندگی میں فساد بن جاتی ہے اور اسی لیے اس کو دنیاوی فتنہ کہا گیا ہے۔
میاں نواز شریف جو کہ اس وقت اپنی تقریباً چار دہائیوں پر مشتمل سیاسی زندگی کے اہم اور نازک ترین سے دور سے گزر رہے ہیں اس پاناما کیس کی وجہ سے ان کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے جس کے آثار اب ان کی گفتگو سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے جو کہ وہ ریاست کے سربراہ ہونے کی وجہ سے نہایت محتاط ہو کر کر رہے ہیں اور ابھی تک اپنے صبر کا دامن انھوں نے نہیں چھوڑا لیکن مجھے خدشہ ہے کہ اب جب کہ ان کے بقول یہ تماشہ ہو رہا ہے اور یہ تماشہ اپنے اختتام کے قریب ہے اور اس کیس کے فیصلے سے ان کے سیاسی کیریئر کو ختم کر دیا جاتا ہے تو پھر میاں نواز شریف اس کے بعد ایک بدلہ ہوا سیاست دان اور ایک نئے روپ میں آپ کو نظر آئیں گے وہ اپنے بھر پور سیاسی کیریئر اور اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں کیونکہ یہ تماشہ ان کی سیاسی زندگی کا آخری تماشہ بھی ہو سکتا ہے اور وہ نہیں چاہئیں گے کہ اس تماشے کا اختتام ان کی سیاست کے اختتام پر ہو۔
پاناما کا کیس جب منظر عام پر آیا تو اس کے ساتھ ہی ملک میں ایک بھونچال آگیا اور اس بھونچال کا سب سے بڑا نشانہ ہمارا حکمران خاندان بنا جنہوں نے پہلے تو زبانی کلامی اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی لیکن بعد میں یہ معاملہ ملک کی اعلیٰ عدالت میں چلا گیا اور عدالت نے ملکی تاریخ کے اس اہم ترین کیس کی سماعت کے دوران ملک کے جید وکیلوں کے دلائل سنے اور ایک طویل عرصہ تک زیر سماعت رہنے کے بعد اپنا فیصلہ سناتے ہوئے تین معزز ججوں نے اس کی مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیا جس کے ممبران نے فوری طور پر اس کیس کی مزید تفتیش کا آغاز کردیا اور یہ سلسلہ تادمِ تحریر جاری ہے۔
اس ہائی پروفائل کیس میں چونکہ ہمارے حکمران خاندان کی کمائی گئی دولت کی تفتیش ہو رہی ہے اس لیے اس معاملے میں دوسرے لوگوں کے علاوہ میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ سے بھی تفتیش و تحقیق کا عمل زورشور سے چل رہا ہے اور اب تک میاں نواز شریف کے خاندان کے تقریباً تمام اہم افراد جے آئی ٹی کے سامنے اپنا موقف پیش کر چکے ہیں جس میں خود ہمارے وزیر اعظم بھی شامل ہیں لیکن میرے خیال میں ان سب سے اہم گواہی ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ہو گی جو کہ ابھی بلاوے کے منتظر ہیں اور ہمارے وزیر اعظم کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں۔
جنرل مشرف کے دور حکومت میں تحریری طور پر غیر قانونی طور پر رقوم کی غیر ممالک میں منتقلی کا اعتراف بھی کر چکے ہیں اس لیے ان کی گواہی کو اہم ترین سمجھا جا رہا ہے کہ اگر ان کو جے آئی ٹی بلاتی ہے تو اس کے سامنے وہ اپنا کیا موقف پیش کریں گے اور اگر وہ اپنے سابقہ اعتراف سے منحرف ہوتے ہیں تو اس کے لیے ان کو ٹھوس جواز پیش کرنا ہو گا۔
جے آئی ٹی کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ وقت جیسے جیسے ختم ہونے کے قریب آرہا ہے جے آئی ٹی کی جانب سے تفتیش کے معاملات میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے اور یہ ٹیم جن متعلقہ لوگوں کو ضروری سمجھ رہی ہے ان کو بار بار بلا رہی ہے جس میں وزیر اعظم کے صاحبزادے حسن اورحسین کئی پیشیاں بھگت چکے ہیں اور آخری اطلاعات تک جے آئی ٹی نے وزیر اعظم کی صاحبزادی محترمہ کو بھی تفتیش کے لیے بلا لیا ہے جن کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ وہ ذاتی مصروفیات کے سلسلے میں ملک سے باہر ہیں اور ان کی جے آئی ٹی کے ارکان کے سامنے پیشی کے بارے میں فیصلہ بھی ان کی قانونی پوزیشن کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا۔
دوسری طرف ہمارے وزیر اعظم جو کہ سعودی عرب سے لندن پہنچے تھے انھوں نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ پاناما کیس کو وہ ایک تماشہ سمجھتے ہیں اور ہمارا احتساب نہیں مذاق کیا جارہا ہے اور یہ معاملہ میری سمجھ سے باہر ہے اور ہمارے خلاف سازش کی جارہی ہے۔
وزیر اعظم کے اس بیان کو عدلیہ کی توہین کہا جا رہا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس کی نگرانی براہ راست اعلیٰ عدالت کر رہی ہے جس کو جے آئی ٹی ہر پندرہ دن بعد اپنی تحقیقات کی پیش رفت کی رپورٹ پیش کر رہی ہے اس لیے ہمارے وزیر اعظم کے اس بیان کو عدالت کی توہین شمار کیا جارہا ہے، ویسے بھی اس کیس کا دائرہ کار وسیع اور جس تیزی سے تحقیقی عمل آگے بڑھ رہا ہے اسی تیزی سے حکمران خاندان اور ان کے رفقاء کے لب و لہجہ میں تلخی بھی بڑھتی جا رہی ہے اور ان کی جانب سے ان کے خلاف کسی متوقع ناپسندیدہ فیصلے کے بارے میں جارحانہ حکمت عملی بھی واضح طور پر نظر آنا شروع ہو گئی ہے جس کا اندازہ ان کے بیانات سے ہی لگایا جا سکتا ہے ۔
وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر بھی جے آئی ٹی کے بارے میں علی الاعلان یہ کہہ رہے ہیں کہ جے آئی ٹی کو کسی وعدہ معاف گواہ کی تلاش ہے ، حکمران خاندان کے لیے اس کیس کے متعلق معاملات انتہائی خراب جا رہے ہیں اور اب تک کی اندرون خانہ اطلاعات کے مطابق ان کے وکلاء بھی نجی محفلوں میں یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کیس کا دفاع ان کے لیے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور ان کو صورتحال خوشگوار نظر نہیں آرہی۔
اس کیس میں سب سے اہم فیصلہ سپریم کورٹ نے یہ کیا تھا کہ جے آئی ٹی کی شکل میں تفتیش کے دائرہ کار کو وسعت تو دے ہی دی تھی لیکن اس میں بے گناہی ثابت کرنے کے لیے بارثبوت حکمران خاندان کو فراہم کرنے کا ہی پابند کر دیا جس کی وجہ سے شریف خاندان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے اور اب بڑے معصومانہ انداز سے یہ کہا جارہا ہے کہ ان پر ملک کو نقصان پہنچانے کا تو کوئی الزام نہیں بلکہ ان کی ذاتی دولت کے بارے میں تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ وہ کیسے کمائی گئی۔
یہ دنیاوی دولت بھی انسان کو امتحان میں ڈال دیتی ہے اور ہم بے پناہ دولت کے باوجود اس دولت کے شر سے اپنے آپ کو بچا نہیں پاتے اور اپنی زندگی کو ایک امتحان بنا لیتے ہیں جس کا مشاہدہ آج کل ہم سب کر رہے ہیں کہ ہمارے ملک کا امیر ترین اور طاقتور ترین فرد اپنی اسی دولت کے سبب انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہے جہاں سے وہ اپنی بے گناہی کے فیصلے کا منتظر ہے۔ یہ بات الگ کہ یہ دولت کیسے کمائی گئی بات یہ ہو رہی ہے کہ دولت انسان کی زندگی میں فساد بن جاتی ہے اور اسی لیے اس کو دنیاوی فتنہ کہا گیا ہے۔
میاں نواز شریف جو کہ اس وقت اپنی تقریباً چار دہائیوں پر مشتمل سیاسی زندگی کے اہم اور نازک ترین سے دور سے گزر رہے ہیں اس پاناما کیس کی وجہ سے ان کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے جس کے آثار اب ان کی گفتگو سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے جو کہ وہ ریاست کے سربراہ ہونے کی وجہ سے نہایت محتاط ہو کر کر رہے ہیں اور ابھی تک اپنے صبر کا دامن انھوں نے نہیں چھوڑا لیکن مجھے خدشہ ہے کہ اب جب کہ ان کے بقول یہ تماشہ ہو رہا ہے اور یہ تماشہ اپنے اختتام کے قریب ہے اور اس کیس کے فیصلے سے ان کے سیاسی کیریئر کو ختم کر دیا جاتا ہے تو پھر میاں نواز شریف اس کے بعد ایک بدلہ ہوا سیاست دان اور ایک نئے روپ میں آپ کو نظر آئیں گے وہ اپنے بھر پور سیاسی کیریئر اور اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں کیونکہ یہ تماشہ ان کی سیاسی زندگی کا آخری تماشہ بھی ہو سکتا ہے اور وہ نہیں چاہئیں گے کہ اس تماشے کا اختتام ان کی سیاست کے اختتام پر ہو۔