چند تاریخی فیصلے
بیگم نصرت بھٹو بالمقابل چیف آف آرمی اسٹاف کیس بھی پاکستان کی تاریخ کے مشہور ترین مقدمات میں سے ہے۔
ویسے تو مملکت کے چار ستون ہیں۔1۔ انتظامیہ 2۔ مقننہ،3۔عدلیہ اور4۔میڈیا لیکن پاکستان کی صورتحال دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ مملکت صرف دو ستونوں پرکھڑی ہے،عدلیہ اور میڈیا کیونکہ عوام اپنے ہر مسئلے کے حل کے لیے عدلیہ کی طرف دیکھتے ہیں اور میڈیا میں کالم نگار اوراینکرز سارے مسائل کا حل جیب میں لیے پھرتے ہیں۔ انتظامیہ کچھ کر نہیں پاتی اور مقننہ بے اثر ہے۔ اس وقت جب میڈیا کی ساری توجہ وزیراعظم سے متعلق مقدمات پر مرکوز ہے کیوں نا عدلیہ کے چند تاریخی فیصلوں کا جائزہ لے لیا جائے۔
ہسٹری پاک ڈاٹ کوم کے بقول '' قوموں کی تاریخ میں کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ان کے مستقبل پر شدت سے اثرانداز ہوتے ہیں۔اس طرح کے واقعات ہمیشہ اختلافی نوعیت کے ہوتے ہیں اور معاشرے کے مختلف گروہوں کے درمیان وجہ نزاع بنے رہتے ہیں۔راولپنڈی سازش کیس بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہے جس نے ہماری سماجی اور سیاسی تاریخ پرگہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔''
اس کیس کا مرکزی کردار جنرل اکبر تھے جنہوں نے پاکستان بننے کے بعد کشمیر کے مسئلے پر ہونے والی جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ کشمیرآپریشن کے بارے میں حکومت کے رویے پر کھل کے تنقید کرتے تھے۔ ان کی بیگم نسیم اکبر اشتراکی خیالات کی حامل تھیں۔ عام شہریوں کے لیے اس کیس میں دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ فیض احمد فیضؔ کی گرفتاری تھی جن کی شاعری کے سب دیوانے تھے۔ حکومت کا الزام تھا کہ فیض اور دوسرے اشتراکیوں نے سوویت یونین کے ساتھ لیاقت علی خان کی حکومت کو الٹنے کا معاہدہ کیا تھا۔ جس پر فیض نے اپنا مشہور زمانہ شعر کہا تھا
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں
وہ بات ان کو بہت ناگوارگزری ہے
قید تنہائی کے دوران جب فیض سے قلم اورکاغذ چھین لیے گئے تو انھوں نے قطعات کہنے شروع کیے کہ انہیں زبانی یاد رکھنا آسان تھا۔سنسرکی پابندیوں کے باعث فیض کلاسیکل شاعری کی تشبیہات اوراستعارے استعمال کرتے تھے۔فیض کی شاعری کے علاوہ اس کیس میں عوام کی دلچسپی کا سبب کمیونسٹ پارٹی کا کردار بھی تھا۔ اس ''سازش''کو نظریاتی بنیاد فیض کے علاوہ لطیف افغانی اور نسیم اکبرخا ن نے فراہم کی تھی۔فیض پارٹی کے باقاعدہ ممبر نہیں تھے مگر وہ ٹریڈ یونین میں ایکٹو تھے اور ان کے پارٹی کے سینئیر رہنماؤں سے دوستانہ مراسم تھے۔
اس کیس کی سماعت کے لیے حیدرآباد جیل کے احاطے میں خصوصی عدالت قائم کی گئی۔استغاثہ کے وکیل اے کے بروہی تھے جبکہ ملزمان کی پیروی حسین شہید سہروردی اور دیگر نے کی۔ سوائے اکبر، پوشنی اور چند اورکے زیادہ تر فوجی افسران وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ جنرل اکبر نے اپنے گھر میں حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے میٹنگ بلائی تھی۔ ملزمان کا کہنا تھا کہ میٹنگ تو ہوئی تھی لیکن ایسی کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی۔
پاکستان کے قانون کے مطابق سازش اس وقت تسلیم کی جائے گی جب باہمی اتفاق سے کوئی منصوبہ بنایا جائے، اگر میٹنگ کے درمیان اتفاق رائے سے کچھ طے نہیں پایا تھا تو اس کا مطلب سازش نہیں ہوئی۔مہینوں سماعت چلتی رہی۔ بالآخر عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا۔ سویلین اور جونئیر افسروں کو چارسال قید کی سزا سنائی گئی ۔جبکہ جنرل اکبرکو چودہ سال قیدکی سزا سنائی گئی۔اس کیس کا اب ایک ہی کردار زندہ بچا ہے اور وہ 88سالہ ظفراللہ پوشنی ہیں۔جنہوں نے اس کیس کے حوالے سے ''زندگی زنداں دلی کا نام ہے''کتاب لکھی ہے جس میں چار سال کی اسیری کی داستان بیان کی گئی ہے۔
مولوی تمیزالدین خان کے مقدمے کا شمار بھی پاکستان کے اہم ترین مقدمات میں ہوتا ہے۔ 24اکتوبر 1954ء کو گورنر جنرل غلام محمد نے پاکستان کی پہلی آئین سازاسمبلی توڑ دی ۔مولوی تمیزالدین خان اسمبلی کے اسپیکر تھے۔ انھوں نے وفاق کے خلاف پٹیشن دائرکردی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ حکومت کے کارندوں سے بچنے کے لیے وہ برقع اوڑھ کرکورٹ گئے تھے۔ سندھ کی چیف کورٹ کے فل بنچ نے اس پٹیشن کی منظوری دے دی۔ وفاقی حکومت نے سندھ کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی عدالت میں اپیل دائرکرنے کا فیصلہ کیا۔
اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس محمد منیر تھے اور ان کی تقرری میرٹ پر نہیں ہوئی تھی۔حامد خان اپنی کتاب 'پاکستانی عدلیہ کی تاریخ' میں لکھتے ہیں' منیر اور گورنر جنرل غلام محمد دونو ں کا تعلق ککے زئی برادری سے تھا اور بنگالی ججوں کی حق تلفی کر کے انہیں نوازا گیا تھا۔ انھوں نے اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لیے ''نظریہ ضرورت''کے تحت گورنر جنرل غلام محمدکے اقدام کو جائز قرار دے دیا۔'' ان کے فیصلے نے پاکستان کی تاریخ پر انمٹ اثرات مرتب کیے۔''نظریہ ضرورت''کے تحت آمرانہ اقدامات کو جائز قرار دینے کاسلسلہ چل نکلا اورعدلیہ کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔
عاصمہ جیلانی بالمقابل ریاست کیس کا شمار بھی پاکستان کی عدلیہ کے مشہور ترین مقدمات میں ہوتا ہے ۔عاصمہ نے پنجاب ہائی کورٹ میں غلام جیلانی کی حراست کے خلاف اپیل دائرکی تھی۔اس کیس میں یحییٰ خان کے نافذکردہ مارشل لا کو چیلنج کیا گیااور اسے غیر قانونی کہا گیا اور سوال اٹھایا گیا کہ اگر یحییٰ خان کا مارشل لاغیر قانونی ہے تو پھر اس کے اقدامات کو قانونی کیسے قراردیا جاسکتا ہے؟ لیکن پنجاب ہائی کورٹ نے یہ اپیل مسترد کردی اور مارشل لا کو انقلاب اور قرارداد مقاصد کو grund-norm قرار دے کر قبول کرنے کی بات کی گئی۔
اس فیصلے کے خلاف اپیل کی گئی۔سپریم کورٹ نے یحییٰ کو غاصب اور اس کے اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا مگر جب یہ فیصلہ آیا تو یحییٰ خان اقتدار میں نہیں تھا اور بھٹو سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھا۔عدالت نے بھٹو کو مارشل لا ہٹانے کا حکم دیا۔
بیگم نصرت بھٹو بالمقابل چیف آف آرمی اسٹاف کیس بھی پاکستان کی تاریخ کے مشہور ترین مقدمات میں سے ہے۔ذوالفقارعلی بھٹو اور ان کی پیپلز پارٹی کے دس رہنماؤں کو 17ستمبر 1977ء کو گرفتار کیا گیا۔بیگم نصرت بھٹو نے سپریم کورٹ میں ان کی گرفتاری کے خلاف آئینی پٹیشن دائرکی۔ یہ پٹیشن ضیاء الحق کے مارشل لا کے خلاف تھی لیکن اس مرتبہ عدالت نے عاصمہ جیلانی کے کیس کو مثال نہیں بنایا بلکہ 'نظریہ ضرورت' کو ایک مرتبہ پھر زندہ کیا گیا اور ضیا الحق کے مارشل لا کو جائز قرار دے دیا گیا۔
ہسٹری پاک ڈاٹ کوم کے بقول '' قوموں کی تاریخ میں کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ان کے مستقبل پر شدت سے اثرانداز ہوتے ہیں۔اس طرح کے واقعات ہمیشہ اختلافی نوعیت کے ہوتے ہیں اور معاشرے کے مختلف گروہوں کے درمیان وجہ نزاع بنے رہتے ہیں۔راولپنڈی سازش کیس بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہے جس نے ہماری سماجی اور سیاسی تاریخ پرگہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔''
اس کیس کا مرکزی کردار جنرل اکبر تھے جنہوں نے پاکستان بننے کے بعد کشمیر کے مسئلے پر ہونے والی جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ کشمیرآپریشن کے بارے میں حکومت کے رویے پر کھل کے تنقید کرتے تھے۔ ان کی بیگم نسیم اکبر اشتراکی خیالات کی حامل تھیں۔ عام شہریوں کے لیے اس کیس میں دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ فیض احمد فیضؔ کی گرفتاری تھی جن کی شاعری کے سب دیوانے تھے۔ حکومت کا الزام تھا کہ فیض اور دوسرے اشتراکیوں نے سوویت یونین کے ساتھ لیاقت علی خان کی حکومت کو الٹنے کا معاہدہ کیا تھا۔ جس پر فیض نے اپنا مشہور زمانہ شعر کہا تھا
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں
وہ بات ان کو بہت ناگوارگزری ہے
قید تنہائی کے دوران جب فیض سے قلم اورکاغذ چھین لیے گئے تو انھوں نے قطعات کہنے شروع کیے کہ انہیں زبانی یاد رکھنا آسان تھا۔سنسرکی پابندیوں کے باعث فیض کلاسیکل شاعری کی تشبیہات اوراستعارے استعمال کرتے تھے۔فیض کی شاعری کے علاوہ اس کیس میں عوام کی دلچسپی کا سبب کمیونسٹ پارٹی کا کردار بھی تھا۔ اس ''سازش''کو نظریاتی بنیاد فیض کے علاوہ لطیف افغانی اور نسیم اکبرخا ن نے فراہم کی تھی۔فیض پارٹی کے باقاعدہ ممبر نہیں تھے مگر وہ ٹریڈ یونین میں ایکٹو تھے اور ان کے پارٹی کے سینئیر رہنماؤں سے دوستانہ مراسم تھے۔
اس کیس کی سماعت کے لیے حیدرآباد جیل کے احاطے میں خصوصی عدالت قائم کی گئی۔استغاثہ کے وکیل اے کے بروہی تھے جبکہ ملزمان کی پیروی حسین شہید سہروردی اور دیگر نے کی۔ سوائے اکبر، پوشنی اور چند اورکے زیادہ تر فوجی افسران وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ جنرل اکبر نے اپنے گھر میں حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے میٹنگ بلائی تھی۔ ملزمان کا کہنا تھا کہ میٹنگ تو ہوئی تھی لیکن ایسی کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی۔
پاکستان کے قانون کے مطابق سازش اس وقت تسلیم کی جائے گی جب باہمی اتفاق سے کوئی منصوبہ بنایا جائے، اگر میٹنگ کے درمیان اتفاق رائے سے کچھ طے نہیں پایا تھا تو اس کا مطلب سازش نہیں ہوئی۔مہینوں سماعت چلتی رہی۔ بالآخر عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا۔ سویلین اور جونئیر افسروں کو چارسال قید کی سزا سنائی گئی ۔جبکہ جنرل اکبرکو چودہ سال قیدکی سزا سنائی گئی۔اس کیس کا اب ایک ہی کردار زندہ بچا ہے اور وہ 88سالہ ظفراللہ پوشنی ہیں۔جنہوں نے اس کیس کے حوالے سے ''زندگی زنداں دلی کا نام ہے''کتاب لکھی ہے جس میں چار سال کی اسیری کی داستان بیان کی گئی ہے۔
مولوی تمیزالدین خان کے مقدمے کا شمار بھی پاکستان کے اہم ترین مقدمات میں ہوتا ہے۔ 24اکتوبر 1954ء کو گورنر جنرل غلام محمد نے پاکستان کی پہلی آئین سازاسمبلی توڑ دی ۔مولوی تمیزالدین خان اسمبلی کے اسپیکر تھے۔ انھوں نے وفاق کے خلاف پٹیشن دائرکردی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ حکومت کے کارندوں سے بچنے کے لیے وہ برقع اوڑھ کرکورٹ گئے تھے۔ سندھ کی چیف کورٹ کے فل بنچ نے اس پٹیشن کی منظوری دے دی۔ وفاقی حکومت نے سندھ کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی عدالت میں اپیل دائرکرنے کا فیصلہ کیا۔
اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس محمد منیر تھے اور ان کی تقرری میرٹ پر نہیں ہوئی تھی۔حامد خان اپنی کتاب 'پاکستانی عدلیہ کی تاریخ' میں لکھتے ہیں' منیر اور گورنر جنرل غلام محمد دونو ں کا تعلق ککے زئی برادری سے تھا اور بنگالی ججوں کی حق تلفی کر کے انہیں نوازا گیا تھا۔ انھوں نے اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لیے ''نظریہ ضرورت''کے تحت گورنر جنرل غلام محمدکے اقدام کو جائز قرار دے دیا۔'' ان کے فیصلے نے پاکستان کی تاریخ پر انمٹ اثرات مرتب کیے۔''نظریہ ضرورت''کے تحت آمرانہ اقدامات کو جائز قرار دینے کاسلسلہ چل نکلا اورعدلیہ کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔
عاصمہ جیلانی بالمقابل ریاست کیس کا شمار بھی پاکستان کی عدلیہ کے مشہور ترین مقدمات میں ہوتا ہے ۔عاصمہ نے پنجاب ہائی کورٹ میں غلام جیلانی کی حراست کے خلاف اپیل دائرکی تھی۔اس کیس میں یحییٰ خان کے نافذکردہ مارشل لا کو چیلنج کیا گیااور اسے غیر قانونی کہا گیا اور سوال اٹھایا گیا کہ اگر یحییٰ خان کا مارشل لاغیر قانونی ہے تو پھر اس کے اقدامات کو قانونی کیسے قراردیا جاسکتا ہے؟ لیکن پنجاب ہائی کورٹ نے یہ اپیل مسترد کردی اور مارشل لا کو انقلاب اور قرارداد مقاصد کو grund-norm قرار دے کر قبول کرنے کی بات کی گئی۔
اس فیصلے کے خلاف اپیل کی گئی۔سپریم کورٹ نے یحییٰ کو غاصب اور اس کے اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا مگر جب یہ فیصلہ آیا تو یحییٰ خان اقتدار میں نہیں تھا اور بھٹو سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھا۔عدالت نے بھٹو کو مارشل لا ہٹانے کا حکم دیا۔
بیگم نصرت بھٹو بالمقابل چیف آف آرمی اسٹاف کیس بھی پاکستان کی تاریخ کے مشہور ترین مقدمات میں سے ہے۔ذوالفقارعلی بھٹو اور ان کی پیپلز پارٹی کے دس رہنماؤں کو 17ستمبر 1977ء کو گرفتار کیا گیا۔بیگم نصرت بھٹو نے سپریم کورٹ میں ان کی گرفتاری کے خلاف آئینی پٹیشن دائرکی۔ یہ پٹیشن ضیاء الحق کے مارشل لا کے خلاف تھی لیکن اس مرتبہ عدالت نے عاصمہ جیلانی کے کیس کو مثال نہیں بنایا بلکہ 'نظریہ ضرورت' کو ایک مرتبہ پھر زندہ کیا گیا اور ضیا الحق کے مارشل لا کو جائز قرار دے دیا گیا۔