اسپن بائولنگ بیٹسمین اور بائولر کے درمیان ذہنی جنگ ہے عبدالقادر

بورڈ انتظار کرتا ہے کہ کھلاڑی سکھانے کے قابل نہ رہے، عظیم اسپنر، سابق کپتان اور چیف سلیکٹر عبدالقادر کی کہانی


Hassaan Khalid June 29, 2017
ایک اسپنر ہو کے بھی عمران سے بہت کچھ سیکھا، وسیم، وقار نے کیا کچھ نہ سیکھا ہو گا۔ فوٹو : فائل

کئی عظیم کھلاڑی انہیں باؤلنگ میں اپنا کا استاد قرار دیتے ہیں، ان کے بعد جن اسپنرز نے دنیائے کرکٹ پر راج کیا وہ سب ان کا دم بھرتے ہیں۔

ماضی کے مایہ ناز لیگ اسپنر عبدالقادر اپنے کرئیر کے مختلف گوشوں کو یاد کر تے ہوئے پرجوش ہو جاتے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ ان کی گفتگو کا دائرہ موجودہ دور کی کرکٹ، پاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات، اخلاقیات اور مذہب تک بھی پھیل جاتا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کے ساتھ ان کا گہرا تعلق قائم ہے۔ وہ 15 ستمبر 1955ء کو لاہور کے ایک غریب، مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔

بتاتے ہیں، ''میں ایک بہت چھوٹے سے گھر میں پیدا ہوا، ایک ڈیڑھ مرلے کا گھر ہو گا۔ اس گھر میں اگر صُبح کھانے کو کچھ ہوتا تھا تو شام کو نہیں ہوتا تھا۔ میرے والد صاحب حافظ قرآن، خطیب مسجد اور امام تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج جو کچھ بھی ہوں، میرے رب کے کرم اور حضور اکرم ﷺ کے طفیل ہوں۔ میرے والد اور والدہ کی دعائیں ہیں، جو میں کرکٹر بن گیا۔ ورنہ میرے والد صاحب کو پتا تھا کہ کرکٹ کیا ہوتی ہے ، نہ میری والدہ کو پتا تھا۔ میں تو گلی کے کھیلوں کا چمپئن ہوا کرتا تھا۔''

ایک مرتبہ محلے کی کرکٹ ٹیم کاایک لڑکا کم تھا تو انہیں ٹیم میں جگہ مل گئی، یوں ان کی کرکٹ کا آغاز ہوا۔ پھر سکول میں بھی کرکٹ کھیلی اور اسی بنیاد پر بعدازاں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ مل گیا۔ وہ کہتے ہیں، ''میں نے بڑے مشکل حالات میں کرکٹ کھیلی۔ پچ پر پانی کا چھڑکاؤ کرنا میری ذمہ داری ہوتی تھی، جسے دور سے بالٹی میں بھر کے لانا ہوتا تھا۔ ہمارے گھر میں تو کوئی ٹراؤزر نہیں پہن سکتا تھا۔ عید پر میرے والد بڑی مشکل سے شلوار قمیض اور جوتا لے کر دیتے تھے۔ اس موقع پر میں ہمیشہ سفید شلوار قمیض اور ایتھلیٹ بوٹ لیتا۔ دراصل غربت بہت بڑی تعلیم کا نام ہے، یہ آپ کو وہ ڈگریاں دیتی ہے جو کوئی اور تعلیم نہیں دیتی۔''

واپڈا میں نوکری ملنے سے انہیں گھر کے اخراجات پورے کرنے میں مدد ملی۔ گورنمنٹ کالج میں بہترین باؤلنگ اور بیٹنگ کارکردگی کی وجہ سے حبیب بینک نے انہیں بلا لیا۔ یہ کلب میں بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتے لیکن لنچ کے وقت غائب ہو جاتے کیوں کہ کھانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔

1975ء میں انہوں نے اپنے پہلے ہی فرسٹ کلاس میچ میں 67 رنز کے عوض چھ وکٹیں لیں اور دو سال کے اندر قومی ٹیسٹ ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس زمانے میں فاسٹ باؤلرز چھائے ہوئے تھے اور تیز وکٹوں کا رجحان عام ہو رہا تھا، جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر اسپن باؤلنگ زوال پذیر تھی۔

اگلے 16برسوں تک اپنے کیرئیر کے دوران باؤلنگ میں ورائٹی کی وجہ سے وہ نہ صرف کامیاب ترین اسپنر قرار پائے بلکہ انہوں نے لیگ اسپن کے مٹتے ہوئے فن کو بھی زندہ رکھا۔ وہ بین الاقوامی کرکٹ میں کوچ کے کردار کے زیادہ قائل نہیں۔

اس سوال پر کہ انہوں نے لیگ بریک باؤلنگ میں کس سے رہنمائی لی، ان کا کہنا تھا: '' انٹرنیشنل لیول پر تو میں کوچ کو نہیں مانتا۔ ہاں کوئی مشورہ دے سکتا ہے جس کی مدد سے آپ اپنی خامی دور کر لو۔انسان کا اصل کوچ تو وہ خود ہی ہوتا ہے، جس نے سیکھنا ہے وہ ایک بچے سے بھی سیکھ لیتا ہے۔ جیسے میں آپ کو بتاؤں میں گورنمنٹ کالج میں نیٹ پریکٹس کے لیے گیا ہوا تھا۔ ایک آدمی کسی دوسرے آدمی کو ہاتھ کے اشارے سے بتا رہا تھا کہ گگلی ادھر سے ہوتی ہے۔ گگلی مجھے نہیں آتی تھی۔ تو میں نے دور سے کھڑے ہو کر اس کو دیکھا اور پھر خود اس کی مشق کی۔ اس وقت شرم حیا کی وجہ سے ہماری اتنی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ سینئر پلیئر کے پاس جا سکیں۔اسی طرح فرسٹ کلاس کرکٹ کے دوران مجھے ایک دن پتاچلا کہ امیر الٰہی صاحب آئے ہوئے ہیں جو اپنے زمانے کے لیگ اسپنر تھے۔ میں ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔

انہوں نے کہا کہ توبہت اچھی باؤلنگ کرتا ہے، لیکن ہوا میں بڑا تیز ہے۔ ذرا ویری ایشن کے ساتھ بال کیا کر۔ اس وقت تو مجھے اس کی افادیت سمجھ نہیں آئی لیکن اب میں خود کہتا ہوں کہ آپ بڑے باؤلر نہیں بن سکتے جب تک آپ میں ویری ایشن نہ ہو۔ پھر میں نے اس کو نیٹ پر کیا اور مجھے پتا چلا کہ آپ سلو بال بھی ایسی جگہ پر پھینک سکتے ہیں، جہاں پر آپ کو مار نہیں پڑتی۔ آپ ویری ایشن کے لیے ٹائم بناتے ہو کہ کب یہ بال کرنا ہے۔''

عبدالقادر نے ٹیسٹ کرکٹ کاآغاز تو دوسرے کپتانوں کے دور میں کیا لیکن بطور کپتان عمران خان نے ان کا بہت اچھا استعمال کیا۔ 1982ء کے دورہ برطانیہ سے پہلے انہیں فرنچ داڑھی رکھنے کی تجویز دی تاکہ حریف کھلاڑیوں پر ان کے اسپن کے جادوگر ہونے کا تاثر قائم کیا جا سکے۔ یہ حربہ کامیاب رہا اور عبدالقادر نے اس دورے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ وہ عمران خان کے شکرگزار ہیں ، جن کا اعتماد انہیں حاصل رہا۔

کہتے ہیں، ''عمران خان میں خوبی یہ ہے کہ اسے ٹیلنٹ کی پہچان ہو جاتی ہے۔ وہ غلطی تو کر سکتا ہے لیکن جان بوجھ کے زیادتی نہیں کرے گا۔ اگر آپ کرکٹ کی بات کریں، بہت کچھ اس سے سیکھا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ میں نے ایک اسپنر ہو کے بھی اس سے سیکھا۔ وہ ایک دن کسی فاسٹ باؤلر کو بتا رہا تھا کہ گیند پھینکتے ہوئے بایاں ہاتھ اوپرجائے تو اس کی کیا افادیت ہے۔ بتا وہ فاسٹ باؤلر کو رہا تھا ،میں دور کھڑا تھا۔ اس کے بعد میں نے اپنے بائیں ہاتھ کو سٹریچ کرنا شروع کیا تو میری لیگ بریک باؤلنگ کے اندر بہت زیادہ فرق آ گیا ۔میں نے اسپنر ہو کر عمران سے سیکھا ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وسیم ، وقار وغیرہ نے اس سے کیا کچھ نہ سیکھا ہو گا ۔''

انہیںا پنا پہلا ون ڈے کھیلنے کا موقع ٹیسٹ کرکٹ کے پانچ سال بعد ملا، جس کے لیے انہیں عمران خان کو بہت زیادہ قائل کرنا پڑا۔ بتاتے ہیں، '' میں تو کرکٹ کھیلتا تھا اپنے ماں باپ کو سُکھ دینے کے لیے اور مجھے اس سے یہ تھا کہ جتنے زیادہ پیسے ملیں گے اتنا زیادہ میں اپنے والدین کی خدمت کر سکوں گا۔ون ڈے میں بھی تین ہزار ملتے تھے، ٹیسٹ کی طرح۔ تو میں سمجھتا تھا کہ مجھے بھی اس میں کھیلنا چاہیے ۔

مجھے اپنے اوپر بڑا اعتماد تھا کہ میں کھیل سکتا ہوں، کیوں کہ مجھے پتا تھا کہ کوئی مجھے ہٹ مارے تو میں اسے جلدی ہٹ مارنے نہیں دیتا ۔ اور انہی دنوں میں نے فنگر کے ساتھ ایک نئی گگلی نکالی تھی جس کا عمران خان کو پتا نہیں تھا۔باغ جناح میں پریکٹس کے دوران میں نے عمران کو چیلنج دیا کہ وہ مجھے چھکا مار کے دکھائے، جو وہ نہیں مار سکا۔ عمران خان نے کہا کہ اچھا ون ڈے باؤلر وہ ہے جو چالیس سے زیادہ اسکور نہ دے۔ میں نے کہا ، جس دن چالیس سے زیادہ اسکور دیئے ٹیم سے نکال دینا۔ حالانکہ یہ بچکانہ بات تھی، مجھے کیا پتا تھا کہ ورلڈکپ میں 60اوورز کا میچ ہو گا،ہر باؤلر کو 12اوورز کرنا ہوں گے اورایک اووربھی آٹھ گیندوں پر مشتمل ہو گا۔ لیکن میرے رب نے میرا بھرم رکھا۔

نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلا تو شروع میں ہی فاسٹ باؤلرز کو مار پڑنے لگی۔ عمران نے مجھے بلا لیا، میں نے کہا مہربانی کرو، اتنی ٹھنڈ ہے، ابھی تو میرے ہاتھ بھی نہیں کھلے۔ اس نے کہا، مجھے کچھ نہیں پتا۔ خیر میں نے اللہ کو یاد کرتے ہوئے اور درود شریف پڑھتے ہوئے باؤلنگ شروع کی۔ پہلے ہی میچ میں 21 رنز کے عوض چار وکٹیں حاصل کیں، 41 اسکور بھی بنائے اورمین آف دا میچ رہا۔''

1983ء میں آسٹریلیا میں ہونے والی ٹیسٹ سیریز میں وہ اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ لاعلمی میں وہ گراؤنڈ کی ریت کو مٹی سمجھ کرہاتھ پرلگاتے رہے، جس کی وجہ سے بال کی گرپ میں مشکلات پیش آئیں اورگیند پر ان کا کنٹرول نہ رہا۔ جب تک انہیں اس بات کا ادراک ہوا، ٹیسٹ سیریز ختم ہوچکی تھی۔

میلبورن ٹیسٹ سے پہلے ہوٹل میں ڈینس للی نے ان کی خوب حوصلہ افزائی کی اور کہا: ''تم ایک عظیم کھلاڑی ہو، عظیم کھلاڑی پرفارم نہ کرے تو وہ وقتی طور پر پریشان ہوتا ہے لیکن وہ ہمیشہ کم بیک کرتا ہے۔ مجھے یقین ہے تم بھی کم بیک کرو گے۔''انہوں نے میلبورن ٹیسٹ میں خراب باؤلنگ کے باوجود پانچ وکٹیں لیں، پھراسی ٹور کی ون ڈے سیریز میں عمدہ باؤلنگ کی۔ آسٹریلوی اخبارات نے اس پرسرخی جمائی، ''قادر نے بدلہ لے لیا۔''

عبدالقادر نے مختلف مواقع پر اپنی باؤلنگ یا بیٹنگ سے یادگار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ان کی سب سے بہترین باؤلنگ انگلینڈ کے خلاف رہی ، جب انہوں نے 1987ء لاہور ٹیسٹ کی ایک اننگز میں 56رنز کے عوض نو کھلاڑی آؤٹ کیے۔ اسی طرح فیصل آبادمیں ویسٹ انڈیز کو جب پاکستان نے 53 رنز پر ڈھیرکیا تو اس اننگز میں انہوں نے چھ وکٹیں حاصل کیں۔ شارجہ کے جس میچ میں جاوید میانداد نے چتن شرما کو یادگار چھکا مارکے میچ جتوایا ، اس میچ میں انہوں نے بھی 34رنز کی اہم اننگز کھیلی تھی۔

1987ء ورلڈکپ کے اہم میچ میں کورٹنی والش کے آخری اوور میں 13رنز بنا کر پاکستان کو یادگار کامیابی دلائی۔ وہ 1987ء کے ورلڈکپ کے بہترین کھلاڑی بھی قرار پائے جس میں ویوین رچررڈز، میلکم مارشل، بوتھم، ایلن بارڈراور عمران خان جیسے مایہ ناز کھلاڑی کھیل رہے تھے۔ وہ واحد پاکستانی کھلاڑی ہیں جو کسی ورلڈکپ کے بہترین کھلاڑی بنے۔اس ورلڈکپ میں انعام کے طور پر ملنے والی کار انہوں نے عمران خان کو تحفے میں دے دی۔

کہتے ہیں، ''میں نے تو مثال قائم کی تھی کہ کوئی سینئر جائے تو اس کو اتنی عزت سے رخصت کرو۔لیکن افسوس یہ ہے کہ یہاں اچھی مثال قائم نہیں ہوتی۔'' دوسری ٹیموںکے برعکس اپنے کرئیر میں انڈیا کے خلاف وہ اتنے کارآمد باؤلر ثابت نہیں ہوئے۔

کن بلے بازوں نے آپ کو اچھا کھیلا یا مشکلات سے دوچار کیا؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ''اس کا انحصار دو باتوں پر ہے۔ ایک تو میں اپ سیٹ ہوں ،باؤلنگ اچھی نہ کر رہا ہوں۔ اور دوسرا یہ کہ وکٹ بالکل سیدھی ہے اور لیفٹی پلیئر کھیل رہا ہے اور ہر بال کو سویپ مار دیتا ہے ۔ فرنٹ فٹ پر آؤٹ نہیں ہوتا تھا اس زمانے میں۔ تو اس چیز نے تنگ ضرور کیا کرئیر کے دوران۔ باقی جس دن ردھم میں ہوتا ، اس دن یوں لگتا تھا کہ گیارہ کے گیارہ دنیا کے گریٹ پلئیر آ جائیں تب بھی ان کو آؤٹ کر دوں گا۔''

انہوں نے 1990ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف آخری ٹیسٹ جبکہ 1993ء میں سری لنکا کے خلاف آخری ون ڈے کھیلا۔ 1994-95ء کے دوران اپنے آخری مکمل فرسٹ کلاس سیزن میں 52وکٹیں حاصل کیں۔ پھراس کے تین سال بعد ایک سیزن آسٹریلیا میں کھیلا اور ریڈر (Ryder)میڈل جیتنے والے تاریخ کے دوسرے غیر ملکی کھلاڑی قرار پائے۔

چھ مہینے چیف سلیکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد انہوں نے اپنے معاملات میں کچھ لوگوں کی مداخلت کی وجہ سے 2009ء میں استعفیٰ دے دیا۔شین وارن، انیل کمبلے، مرلی دھرن، ثقلین مشتاق، دانش کنیریا اور عمران طاہر جیسے اسپنرز نے ان سے رہنمائی حاصل کی۔انہوں نے عبدالقادر کرکٹ اکیڈمی قائم کی۔ کہتے ہیں،''یہ ایک مشنری جذبے کے تحت قائم کی تھی تاکہ بچوں کو اسپن باؤلنگ کا آرٹ سکھا سکوں لیکن بد قسمتی سے اس پر عمل نہیں ہوسکا۔ اب یہ دوسری اکیڈمیوں کی طرح ایک اکیڈمی ہے، جسے میرا بیٹاسلمان دیکھتا ہے۔'' ان کے چاروں بیٹوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی، سب سے چھوٹے بیٹے عثمان قادر کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر اس نے محنت جاری رکھی، اپنی خامیوں پر قابو پایا اوررب سے دعا مانگتا رہا تو ضرور اسے کامیابی ملے گی۔

٭ اسپن باؤلنگ ، ایک آرٹ
صرف لیگ اسپن نہیں، بلکہ ساری اسپن باؤلنگ کو میں آرٹ سمجھتا ہوں۔ آف اسپن بھی آرٹ ہے اور لیفٹ آرم اسپن بھی آرٹ ہے ۔اب اس میں کتنا آرٹ جھلکتا ہے یہ تو باؤلرکی قابلیت پر ہے۔ اسپن باؤلنگ بیٹسمین اور باؤلر کے درمیان ایک ذہنی لڑائی (mental confrontation) ہے، آپ بیٹنگ کر رہے ہو تو میں یہ دیکھتا ہوں کہ آپ کی آنکھیںکیا کہہ رہی ہیں ، آپ کا سٹانس کیا کہہ رہا ہے، آپ کٹ اچھی مارتے ہو، سویپ اچھی مارتے ہو اور ان ساری چیزوں کو دیکھتے ہوئے میں نے بال کرنا ہے کہ میرا چانس کہاں ہے آپ کو آؤٹ کرنے کا ۔ لیگ اسپن باؤلنگ میں بنیادی طور پر تو لیگ بریک ، گگلی اور فلپر ہے۔ لیکن آپ کو علم ہونا چاہیے کہ کون سا بال کہاں سے کیا جائے تو زیادہ موثر ہو گا۔

٭ اسپنر کا رقص
میں نے انگلینڈ میں 1982ء کی ٹیسٹ سیریز سے پہلے کاؤنٹی کے ہر میچ میں بہترین کارکردگی دکھائی اور میری تقریباً 50 وکٹیں ہو گئیں ان میچوں میں۔ اس سیزن کے دوران ایک مرتبہ اپنے ہوٹل میں لفٹ کا انتظار کر رہا تھا جس میں بوڑھی انگریز خواتین موجود تھیں۔ ایک خاتون نے مجھے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا، ''کیا تم عبدل ہو؟'' میں نے کہا ہاں۔ کہنے لگی، ''بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔ میری بیٹی آپ کی بڑی مداح ہے۔ وہ کہتی ہے، آپ کے بال کرانے کا انداز ایسا ہے جیسے کوئی نوجوان لڑکی رقص کر رہی ہو۔''

٭ ' فرنٹ فٹ پر آؤٹ نہیں ملتا تھا'
جب میں ایل بی ڈبلیو کی اپیل کرتا تو پہلے پہل عمران خان بھی مجھے کئی دفعہ کہتا تھا کہ یار تم ایسے ہی اپیلیں کرتے رہتے ہو۔ ایک دن میں ٹرینیڈ یڈ،ویسٹ انڈیز میں باؤلنگ کررہا تھا، عمران خان مڈ آن پر کھڑا ہو گیا ۔ میں نے فلپر کیا ، بیٹسمین ابھی کھیل ہی رہا تھا کہ بال ٹھک کر کے پیڈوں کو جا لگا۔ میں اپیل کرتا کرتا مر گیا لیکن ایمپائر نے آؤٹ نہیں دیا۔ اسی طرح ویوین رچرڈ آیا میں نے فلپر کیا ، اس کے بھی پیڈوں پر بال جا لگی۔ میں اپیلیں کرتا رہا ،اس دن مجھے عمران خان نے کہا، تم ٹھیک کہتے ہو۔ اگر تجھے یہ سارے آؤٹ مل جاتے تو تیری ابھی تک پانچ سو وکٹیں ہو جانی تھیں۔اب فرنٹ فٹ پر بھی آؤٹ مل جاتا ہے۔ پھر ایمپائر کے فیصلے سے مطمئن نہ ہوں تو ریویو بھی لیا جا سکتا ہے۔ اس دور میں ایسا نہیں تھا۔

٭ لیفٹ آرم باؤلرز کی بھرمار
ہمارے ہاں اسپن باؤلرز کی تربیت کا فقدان ہے۔ سعید اجمل کے جانے کے بعد ایک بھی اچھا آف اسپنر نہیں ملا۔ شاداب اچھا لڑکا ہے ، لیکن ابھی یہ دیکھنا ہے کہ وہ آگے بھی ہماری اُمیدوں پر پورااترتا ہے یا نہیں۔ میں جب پی سی بی میں کام کر رہا تھا تو تجویز دی کہ اسپن باؤلنگ کی ایک نرسری قائم کی جائے جہاںچھوٹے لڑکوں کو لے کر لیگ اسپن، آف اسپن اورلیفٹ آرم اسپن کی تربیت دی جائے۔مگر پاکستان کرکٹ بورڈ میں مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں پیسے لو، مراعات لو لیکن اپنا منہ بند رکھو، کچھ ہمیں سمجھانے اور سکھانے کی کوشش مت کرو۔ مطلب وہاں کام کرنے کے پیسے نہیں ملتے۔اب ایک طرف تولیفٹ آرم باؤلرز کی بھرمار ہے، لیکن وہ غلط باؤلنگ کرتے ہیں۔جب وہ بال کرتے ہیں تو ان کا ہاتھ امپائر کی طرف کھلتا ہے، جبکہ بریک کرنے کے لیے تو آپ کا ہاتھ سلپ کی طرف کھلنا چاہیے۔ اور اس کا اینگل یہ ہے کہ آپ جتنا وکٹ کے قریب سے جاؤ گے آپ کا ہاتھ ادھر کھلے گا ۔لیکن ان کو یہ سب بتانے والا کوئی نہیں۔بورڈ نے حنیف محمد اور فضل محمود جیسے کھلاڑیوں کے تجربے سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ مجھ میں ابھی اتنی صلاحیت ہے کہ باقاعدہ باؤلنگ کر کے دکھا سکتا ہوں کہ کس طرح بال کرنی ہے ، لیکن بورڈ والے انتظار کرتے رہتے ہیں کہ بندہ سکھانے کے قابل ہی نہ رہے۔

٭ عمران طاہر کو ہم نے ضائع کیا؟
عمران طاہر کے بارے میں، میں نے بڑے کالم لکھے اور ٹی وی پروگراموں میں بھی کہتا رہا۔ انضمام الحق نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔ میں نے کہا تھا کہ عمران طاہر کو ون ڈے اور دانش کنیریا کو ٹیسٹ کھلائیں۔ یہ اچھا اسپنر ہے۔ لیکن موقع نہیں دیا گیا تو پھر وہ جنوبی افریقہ چلا گیا اور ان کی طرف سے کھیلنے لگا۔

٭ چیمپئنز ٹرافی کی جیت
پاکستان نے بہت شاندار اور تاریخی کامیابی حاصل کی۔ بڑی ٹیموں کو ہرا کے ٹرافی جیتنا بڑی کامیابی ہے اور تمام کھلاڑی ہی تعریف کے مستحق ہیں۔ جن کھلاڑیوں نے ضرورت کے وقت بہترین پرفارمنس دی، ایسی پرفارمنس کا تو جواب ہی نہیں ہوتا۔ سرفراز کو تینوں طرز کی کرکٹ کا کپتان ہونا چاہیے۔ دوسرا، فخر زمان کی بیٹنگ نے اہم کردار ادا کیا۔ مردان میرا ضلع بھی ہے، مجھے بہت خوشی ہے کہ اللہ نے ایک اور بندے کو بھی مردان سے عزت دی۔ شاداب کی شکل میں بہت اچھا لڑکا ملا ہے ہمیں۔ سلیکشن کمیٹی کو کریڈٹ جاتا ہے،ابھی ٹیم کمبی نیشن میں کچھ خامیاں ہیں جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔