ڈرون حملے جاری رکھنے کا امریکی اعلان

اگر امریکی موقف کو درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر عسکریت پسندوں کی کارروائیاں بھی ناجائز نہیںقرار دی جا سکتیں۔


Editorial February 03, 2013
القاعدہ عسکریت پسندوں کے خلاف ڈرون حملے جاری رکھیں گے,لیون پنیٹا۔ فوٹو اے ایف پی

امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان اور دیگر ممالک میں موجود القاعدہ عسکریت پسندوں کے خلاف ڈرون حملے بدستور جاری رکھے جائیں گے تا کہ وہ امریکا پر دوبارہ نائن الیون جیسا حملہ کرنے کے قابل نہ ہو سکیں۔ دوسری طرف پاکستان' یمن اور صومالیہ میں بغیر پائلٹ کے اڑنے والے میزائل بردار پریڈیٹر ڈرون طیاروں کے پے درپے حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر دنیا بھر میں حقوق انسانی کی تنظیموں کی طرف سے سخت نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔ اعتراض کرنے والوں میں امریکا کے بعض اتحادی ملک بھی شامل ہیں۔ جب کہ لیون پنیٹا کا اصرار ہے کہ ڈرون حملے بہت پر اثر ہیں اور نتیجہ خیز ہیں، اس لیے یہ جاری رہیں گے۔

فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کی طرف سے یہ استفسار کیا گیا تھا کہ کیا امریکا اپنی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ذریعے ڈرون طیاروں سے جو قتل و غارت کر رہا ہے اس میں آیندہ کوئی کمی آئے گی کہ نہیں، یا یہ کہ وہ دس سال سے زائد عرصے میں بھی اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکا۔ لیون پنیٹا کا کہنا تھا کہ ان کا ملک حالت جنگ میں ہے اور دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ نائن الیون (گیارہ ستمبر دو ہزار ایک) کے بعد سے مسلسل جاری ہے۔ ہمارے تمام تر فوجی آپریشن کا مقصد ان عناصر کا قلع قمع کرنا ہے جنہوں نے نائن الیون کو نیویارک پر حملہ کر کے 3 ہزار سے زائد بے قصور لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا ۔

لیون پنیٹا کا کہنا ہے کہ امریکی حملے صرف ان پر ہی نہیں ہوں گے جو امریکا پر حملہ کریں گے بلکہ ان پر بھی ہوں گے جو امریکا پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں گے اور یہی امریکی حکمت عملی کا ایک ترجیحی پہلو ہے کہ القاعدہ پر نہ صرف پاکستان میں بلکہ یمن اور صومالیہ میں بھی حملے جاری رکھے جائیں اور ان حملوں کی اگر کسی اور ملک میں استعمال کی ضرورت محسوس کی گئی تو وہاں بھی حملے کیے جائیں گے۔ واضح رہے سابق صدر جارج بش نے ان حملوں کے لیے پری ایمپٹیو اٹیک کی اصطلاح استعمال کی تھی یعنی پیشگی حملہ۔ لیون پنیٹا کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ یمن کی طرف سے تو ڈرون حملوں کی زبردست حمایت کی جا رہی ہے۔

واضح رہے امریکی ڈرون حملے پری ڈیٹر اور ریپر طیاروں کے ذریعے کیے جاتے ہیں جن میں ہیل فائر میزائل نصب ہوتے ہیں جو ان گنت انسانوں کی جان لے چکے ہیں اور دنیا کی کسی عدالت نے ان ناجائز ہلاکتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں کی ہے جب کہ ان ہلاکتوں کو واشنگٹن کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔ بعض نقاد امریکا سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ڈرون حملوں کا اختیار سی آئی اے سے واپس لے کر اس کے بجائے براہ راست امریکی فوج کو دے دیا جائے تا کہ ان ہلاکتوں کی ذمے داری قانونی تقاضوں کے مطابق ہو، مگر امریکی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ یہ ذمے داری مسلسل امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے پر ہی رہے گی تا کہ بین الاقوامی قوانین کی زد سے محفوظ رہا جا سکے۔ اگر امریکی موقف کو درست تسلیم کر لیا جائے کہ امریکا کو اپنے بچاؤ کے لیے مخالفین پر پیشگی حملے کرنا جائز ہے تو پھر عسکریت پسندوں کے امریکی اہداف کے خلاف کارروائیاں بھی ناجائز نہیںقرار دی جا سکتیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں