خالد لطیف کا پی سی بی پر اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کا الزام

خالد لطیف کی جانب سے ٹریبیونل کے سربراہ پر عدم اعتماد کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔

خالد لطیف کی جانب سے ٹریبیونل کے سربراہ پر عدم اعتماد کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ فوٹو: فائل

اسپاٹ فکسنگ کیس میں معطل کرکٹر خالد لطیف کے وکیل نے پی سی بی پر معاملے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے جب کہ پی سی بی کے ڈسپلنری پینل نے خالد لطیف کی جانب سے ٹریبیونل کے سربراہ پر عدم اعتماد کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

کرکٹر کے وکیل بدر عالم نے سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پینل کے سامنے اپنا موقف پیش کر دیا، پینل نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے اور آرڈر پڑھنے کے بعد اس حوالے سے موقف کی وضاحت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا اعتراض قانونی ہے جسے ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے، چیئرمین پی سی بی کو ٹریبیونل بنانے کا اختیار ہی نہیں ہے کیوں کہ پی سی بی کے آئین میں لکھا ہے کہ یہ ذمہ داری بورڈ کی ہے اور پی سی بی کے قانونی مشیر ہی پراسیکیوٹر بنے ہوئے ہیں۔ جب کہ جسٹس (ر) اصغر حیدر پی سی بی کے سابق لیگل ایڈوائزر رہے ہیں اس لیے انہیں ٹریبیونل کا حصہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کیس کا ایک فریق پی سی بی ہے جس کے ساتھ وہ منسلک رہ چکے ہیں۔


انہوں نے کہا کہ کرنل اعظم نے بتایا کہ 6 فروری کو بکی کی آمد کا علم ہو گیا تھا، 9 فروری کو بکی نے کھلاڑیوں سے رابطہ کیا، سوال یہ ہے کہ کھلاڑیوں کی نگرانی کیوں نہیں کی گئی اور انہیں خبردار کیوں نہیں کیا گیا، بکی کی گرفتاری کے حوالے سے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنا جواب جمع کروا دیا ہے، ہمارا کیس بہت مضبوط ہے اور پی سی بی کے پاس ایک ثبوت بھی موجود نہیں ہے، خالد لطیف کے بیان کو توڑ مروڑ کر جرم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

پی سی بی کے قانونی مشیر تفضل رضوی نے کہا کہ کرکٹر کے وکیل کی جانب سے کرنل (ر) اعظم کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے، کبھی ان کے بیان کو اپنے حق میں اور کبھی اپنے خلاف لیتے ہیں، ان پر جانبدارانہ کارروائی کا الزام لگایا گیا اور اب ٹریبیونل کے سربراہ پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں، پلیئرز کو 9 مارچ کو بھی اینٹی کرپشن پر لیکچرز دیئے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جس شخص کا کیس سے تعلق نہ ہو وہ سپاٹ فکسنگ کیس کی سماعت کر سکتا ہے، پی سی بی کے سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کے الزام میں کوئی صداقت نہیں۔
Load Next Story