اوباما اور کیری کی نیک خواہشات

ایک طرف دو فیصد طبقہ ہے جو دنیا کی 80 فیصد دولت پر قبضہ کیے بیٹھا ہے اور دوسری طرف 98 فیصد عوام ہیں۔


Zaheer Akhter Bedari February 03, 2013
[email protected]

امریکا کے نئے وزیر خارجہ جان کیری کا ارشاد ہے کہ دنیا کے موجودہ منظر نامے کا تقاضا ہے کہ ''ہم اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں۔'' جان کیری دنیا کی ایک سپر پاور کے وزیر خارجہ ہیں اگر وہ کوئی اہم بات خاص طور پر امریکا کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوئی نیا خیال پیش کرتے ہیں تو اس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، امریکا کے حالیہ انتخابات میں دوسری بارکامیابی حاصل کرنے کے بعد امریکی صدر بارک اوباما نے بھی یہ توجہ طلب اعلان کیا ہے کہ ''ہم اب جنگوں کے دور سے نکل آئے ہیں اب ہماری ساری توجہ تعمیر اور ترقی پر ہونی چاہیے۔'' دنیا کی واحد سپر پاور کے دو اعلیٰ ترین حکام کی طرف سے اس قسم کی مثبت اور نیک خواہشات کا اظہار بلاشبہ ایک نیک شگون ہے اور اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے لیکن اس موقعے پر اس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ آج دنیا کا جو انتہائی تباہ کن مایوس کن منظر نامہ ہمارے سامنے موجود ہے اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے ۔

دنیا کا جو منظرنامہ آج ہمارے سامنے موجود ہے اس میں پہلا سین ساری دنیا میں معاشی ناانصافیوں کے خلاف احتجاج ہے۔ وال اسٹریٹ قبضہ مہم سے لے کر پچھلے دنوں کینیڈا میں ہونے والے غربت کے خلاف احتجاج تک معاشی ناانصافیوں کے خلاف نفرت کا ایک سلسلہ ہے جو بڑھتا اور پھیلتا جارہا ہے، اس منظر نامے کا دوسرا بھیانک سین فلسطین، کشمیر میں ہونے والی خونریزی ہے۔ اس الم ناک منظر نامے کا تیسرا سین دہشت گردی کا وہ خوفناک سلسلہ ہے جو 9/11 سے شروع ہوا اور افغانستان اور پاکستان کو روندتا ہوا اب خود ان مغربی ملکوں کا رخ کر رہا ہے جن کے سیاسی مفادات کے بطن سے یہ عفریت پیدا ہوا تھا۔ اس منظر نامے کا یہ چوتھا خطرناک سین ایشیاء میں بھارت اور چین کے درمیان جاری سرد جنگ ہے جس میں دونوں ملک ایشیاء میں برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں اور بدقسمتی سے اس علاقائی سرد جنگ کا سہرا بھی امریکا کے سر بندھتا ہے۔

اس قابل مذمت منظر نامے کا پانچواں سین مشرق وسطیٰ کی عرب بہار ہے جو ایک مختصر ترین عرصے میں خزاں میں بدل گئی ہے، مصر کا وہ التحریر اسکوائر جو حسنی مبارک کی آمرانہ حکومت کے خلاف لاکھوں مصریوں کی جمہوری جدوجہد کا مظہر تھا چند ماہ بعد ہی اخوان کے صدر ڈاکٹر مرسی کے خلاف لاکھوں مصریوں سے بھرا ہوا ہے، شام اور عراق بھی اسی خونریزی اور افراتفری کا شکار ہیں جو پورے عالم عرب میں نظر آرہی ہے۔ اس منظرنامے کا چھٹا سین ایران اور شمالی کوریا کا ایٹمی پروگرام اور اس کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی دوغلی پالیسی کی شکل میں اپنے اندر بھیانک امکانات لیے کھڑا ہے۔ اس خوفزدہ کردینے والے منظرنامے کا ساتواں سین چین اور جاپان کے درمیان ایک جزیرے پر دعوے کے حوالے سے پیدا ہونے والی وہ کشیدگی ہے جو کسی وقت بھی عالمی امن کے لیے جو پہلے ہی سے مخدوش ہے ایک اور چیلنج بن سکتی ہے۔ اس عالمی منظر نامے کا آٹھواں سین بلکہ خطرناک ترین سین ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت میں فروغ ہے۔

ہم نے یہاں ان بڑے بڑے مناظر کا ذکر کیا ہے جس کے پس منظر میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری ''سوچ میں تبدیلی کی ضرورت'' محسوس کر رہے ہیں اور اوباما جنگ کے دور سے باہر نکلنے اور امن اور خوشحالی کی نوید دے رہے ہیں۔ ہم ان آٹھ مناظر اور ان کے تخلیق کاروں کا تفصیل سے جائزہ اس لیے نہیں لے سکتے کہ اس کے لیے کئی جلدوں پر مشتمل کئی کتابوں کی ضرورت ہے اور اسے اس مختصر کالم میں سمویا نہیں جا سکتا، لیکن ان بنیادی محرکات اور ان طاقتوں کا مختصر ذکر ضرور کرینگے جنہوں نے یہ خوفناک منظرنامہ تخلیق کیا ہے۔ سب سے پہلے معاشی ناانصافیوں کے خلاف عالمی نفرت کا سبب جاننے کی ضرورت ہے جو اس وقت ساری خرابیوں کی جڑ بنی ہوئی ہے۔

دنیا میں بھاپ کی دریافت کے ساتھ ساتھ جو اقتصادی نظام عوام کے سروں پر مسلط کیا گیا وہ اپنی سرشت میں غیرمنصفانہ ہی نہیں بلکہ اس قدر جبریہ اور استحصالی ہے کہ اس نظام نے دنیا کو 2/98 میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف وہ دو فیصد طبقہ ہے جو دنیا کی 80 فیصد دولت پر قبضہ کیے بیٹھا ہے اور دوسری طرف وہ 98 فیصد عوام ہیں جو سرمایہ داری کی 20 فیصد بھیک پر گزارا کر رہے ہیں اور خود ترقی یافتہ دنیا کا آزاد میڈیا بھوک، بیماری، ناقص غذا اور بدترین ماحول سے ہر سال ہر روز مرنے والے لاکھوں انسانوں کے اعداد و شمار پیش کر رہا ہے جن کا تعلق 98 فیصد عوام سے ہے اور ان دنیا کے امیر ترین حیوانوں کے قبضے میں جکڑی دولت کے حیرت انگیز اعداد و شمار بھی پیش کر رہا ہے جن کا تعلق اس دو فیصد ایلیٹ سے ہے جو دنیا کی 80 فیصد دولت پر قبضہ کیے بیٹھی ہے اور جس کا سرپرست اعلیٰ خود امریکا ہے، جان کیری سوچ کی تبدیلی کی جو بات کر رہے ہیں وہی بات آج دنیا کے 98 فیصد غریب عوام کر رہے ہیں یعنی غیر منصفانہ معاشی نظام میں تبدیلی۔

مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کی عشروں پر پھیلی خونریزی، اس منظر نامے کا دوسرا سین ہے، امریکا اور اس کے اتحادی مشرق وسطیٰ کی تیل کی دولت پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور قبضے کی برقراری کے لیے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی بے لگام چوہدراہٹ ضروری ہے، اگر امریکا چاہے تو اس بدنما سین میں تبدیلی آسکتی ہے لیکن اس کے لیے اسے پسماندہ ملکوں کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی سیاست ترک کرنا ہوگی، اس منظر نامے کا تیسرا سین دہشت گردی کا وہ سیلاب ہے جو ایٹمی ہتھیاروں سے زیادہ خوفناک ہتھیاروں، خودکش حملوں وغیرہ سے لیس ہے۔

اس کا براہ راست تعلق بھی فلسطین اور کشمیر جیسے ایشوز سے ہے۔ جب تک یہ دو مسئلے منصفانہ طریقوں سے سیاسی اور معاشی مفادات سے بالاتر ہوکر حل نہیں کیے جائینگے دہشت گردی کی اس بلا سے چھٹکارا ممکن نہیں، اس منظر نامے کا چوتھا سین بھارت اور چین کے درمیان علاقائی سپر پاوری کی سردجنگ ہے جس کا محرک بھی امریکا ہے، امریکا جب تک ایشیاء میں اپنے مفادات کی سیاست ترک نہین کرتا اس قسم کے تنازعات حل نہیں ہوسکتے۔ چین کو مستقبل کا خطرہ سمجھنے کی اس احمقانہ پالیسی سے نکل کر امریکا کو عالمی مفادات کے تحفظ کی پالیسی کی طرف آنا ہوگا اس کے بغیر علاقائی کھینچا تانی کا خطرہ کم نہیں ہوسکتا۔اس منظر نامے کا پانچواں سین عرب بہار کا المناک پہلو ہے، بدقسمتی سے یہاں بھی امریکا اور اس کے اتحادی موجود ہیں وہ اس عرب بہار کو اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے تابع بنانا چاہتے ہیں اس جنون میں انھوں نے یہاں انتہا پسند مذہبی طاقتوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن سول آمروں سے جان چھڑانے والے عرب عوام مذہبی آمروں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

امریکا آنکھ بند کرکے اس علاقے میں ایک اندھی پالیسی اپنا رہا ہے،اگر وہ خلوص نیت سے اس علاقے میں امن اور خوشحالی چاہتا ہے تو پھر اسے لبرل سیکولر قوتوں کی حمایت اور تمام شخصی حکمرانوں کے خاتمے کا راستہ اپنا نا ہوگا۔ اس منظرنامے کا چھٹا سین ایران اور شمالی کوریا کے حوالے سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی دوغلی پالیسی ہے اگر امریکا اور اس کے اتحادی دنیا سے واقعی ایٹمی ہتھیاروں سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو پھر انھیں اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں اور جنوبی کوریا کی جانبدارانہ حمایت سے باز آنا پڑے گا اور اس سے آگے جاتے ہوئے تمام ایٹمی طاقتوں کو ایٹمی ذخائر سے دست بردار ہونے کے لیے تیار کرنا ہوگا جو ساری دنیا کے سر پر ایک خوفناک تلوار کی طرح لٹک رہے ہیں۔

اس منظر نامے کا ساتواں سین ایشیاء کی دو بڑی طاقتوں چین اور جاپان کے درمیان ایک سمندری جزیرے پر اپنا حق جتانے کی لڑائی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک ایسا غیرجانبدار عالمی کمیشن بنانے کی ضرورت ہے جو اس جزیرے کے تاریخی اور ارضیاتی حقائق کی روشنی میں حل تلاش کرے اور چین اور جاپان اس کمیشن کا فیصلہ تسلیم کریں۔ اس منظر نامے کا آٹھواں اور خطرناک سین دنیا میں ہتھیاروں کی کھربوں ڈالر کی تیاری اور تجارت ہے۔ اگر امریکا خلوص نیت سے ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے مضمرات کو سمجھنے کے لیے تیار ہے تو پھر بتدریج اسے اس وباء پر قابو پانے کی ایک عالمی پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔

امریکی صدر بارک اوباما اور امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی خواہشیں قابل تحسین ہیں لیکن ان خواہشات کی تکمیل کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان کے بغیر یہ خواہشات سیاسی بیانات سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں