نئے صوبوں کے قیام کی کوششیں…
نئے صوبوں کے قیام کے مطالبات اوراعلانات محض سیاسی نعروں سے زیادہ اہمیت کے حامل ہر گز محسوس نہیں ہوتے.
آج کل پورے ملک میں نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے مطالبات اور بحث ومباحثہ جاری ہے ۔اس ضمن میں پنجاب اسمبلی نے چند ماہ قبل صوبہ پنجاب میں دو نئے صوبے، صوبہ بھاولپور اور صوبہ جنوبی پنجاب سمیت صوبہ ہزارہ کے قیام کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی تھی جس کے بعد وفاقی حکومت نے نئے صوبے کی تشکیل کے حوالے سے پارلیمانی کمیشن قائم کیا جس نے پنجاب اسمبلی کی قرارداد کے برخلاف پنجاب میں ایک ہی نیا صوبہ ''بہاولپور جنوبی پنجاب ''کے نام سے تشکیل دینے کی اپنی سفارشات کو حتمی شکل دیکراس رپورٹ کو قومی اسمبلی کی اسپیکر کے پاس جمع کروا دی ہے۔
نئے صوبے کے ضمن میں مطالبات اور ان کی تائید کرنے والے اپنے اس مطالبے کی حمایت میں مختلف دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ کچھ کا نئے صوبوں کے قیام کے ضمن میں یہ دلیل ہے کہ جو علاقے آج کے انتہائی ترقی یافتہ دور میں بھی پسماندہ رہ گئے ہیں ان کی ترقی محض علیحدہ صوبے کے قیام سے ہی ممکن ہے جب کہ کچھ قوم پرست رہنما و سیاسی دانشور لسانیت اور قومیت کی بنیاد پر نئے صوبوں کے قیام کے مطالبات کر رہے ہیں اور بعض سیاست دان لسانی اور قومیتی بنیاد کی بجائے انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام پر اپنی آمادگی ظاہر کررہے ہیں ۔
جو لوگ نئے صوبے کے قیام کو ضروری تصور کرتے ہیں وہ اس ضمن میں دلیل کے طور پردستور کی شق239 کی ذیلی شق 4 کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔دستور کی شق 239 دراصل آئین میں ترمیم کے طریقہ کار سے متعلق ہے اس کی ذیلی شق 4 اس طریقہ کارکو واضح کرتی ہے کہ اگر صوبوں کی حدود میں تبدیلی کرنا مقصود ہو تو یہ کس طرح ممکن ہوگا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ''صوبوں کی حدود سے متعلق آئین میں کی گئی ترمیم کا قانون صدر مملکت کے پاس دستخط کے لیے اس وقت تک نہیں بھیجا جائے گا جب تک اسے متعلقہ صوبے کی اسمبلی سے اس قانون کو دو تہائی اکثریت سے منظور نہیں کروالیا جائے گا ۔'' بلکہ اس سے قبل متعلقہ صوبائی اسمبلی کہ جس کی حدود سے کسی علاقے کو نکال کر دوسرے صوبہ میں شامل کیا جارہا ہے اُس سے بھی دو تہائی اکثریت سے منظور کروانے کے بعد ہی اس آئینی ترمیمی بل کو صدر مملکت کے پاس دستخط کے لیے بھیجا جائے گا ۔
اس آئینی شق کے مطالعے کے بعد ہمیں دستور اور ریاست کے بنیادی ڈھانچے کی وضاحت کرنے والی انتہائی واضح اور غیر مبہم آئینی شق کا بھی بغور مطالعہ کرلینا چاہیے۔ 1973 کے متفقہ دستورکی شق 1 کی ذیلی شق 2(A) میں ''مملکتِ پاکستان'' کی حدود کا تعین کیا گیا ہے جس میں بہت واضح الفاظ میں یہ درج ہے کہ ''پاکستان '' چار صوبائی اکائیوں بلوچستان ، NWFP(خیبر پختونخوا) ، پنجاب اورسندھ پر مشتمل ہوگا ۔یہاں شاید یہ دلیل بھی پیش کی جائے کہ اب NWFP نام کا کوئی صوبہ ملک میں موجود ہی نہیں بلکہ18 ویںآئینی ترمیم کے بعد اس کی جگہ خیبر پختونخوا کا صوبہ وجود میں آچکا ہے تو اُس کے جواب میں یہ عرض کر دینا ہی کافی ہوگا کہ بے نام صوبہ کو نام دینا اور کسی صوبے کے اندر سے ایک نئے صوبہ کو جنم دینا دو بالکل مختلف صورتیں ہیں۔
1973 کے متفقہ دستور میں دی گئی چار صوبائی اکائیوں پر مشتمل وفاق کی غیر قانونی طور پر ہیئت کو تبدیل کرنا درحقیقت آئین سے انحراف ہوگا جب کہ کسی صوبائی اکائی کے نام کی تبدیلی 1973کے دستور میں دی گئی وفاق کی ہیئت کی تبدیلی کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ 1973کا متفقہ دستور چار صوبائی اکائیوں پر مشتمل وفاق کے ریاستی ڈھانچہ کا تصّور پیش کرتا ہے جس میں چار سے زائد صوبائی اکائی کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس انتہائی واضح دستوری شق کی موجودگی میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی قانون ساز اسمبلی ریاست کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی کرسکے۔ اس مرحلے پر یہ سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں کہ کیا کوئی قانون ساز اسمبلی دستور اور ریاست کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کا اختیار رکھتی ہے؟ یعنی کیا آج کی پارلیمنٹ (مجلسِ شوریٰ) دستور کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم کرکے وفاقی ریاست کو وحدانی ریاست میں تبدیل کرسکتی ہے؟ کیا قرآن اور سنّت سے متصادم قوانین بنائے جاسکتے ہیں؟کیا پارلیمانی نظام مملکت کو تبدیل کرکے اسے صدارتی بنایا جاسکتا ہے؟ کیا یہ قانون بنایا جاسکتا ہے کہ اب آیندہ انتخابات نہیں ہونگے بلکہ مستقبل کے حکمرانوں کا تقرر موجودہ حکمران خود ہی کر دیں گے؟ اسی طرح مملکت پاکستان جو دستوری طور پر چار صوبائی اکائیوں پر مشتمل ایک وفاق ہے کیا اس کی ہیئت کو موجودہ پارلیمنٹ تبدیل کرسکتی ہے؟ اسی نوعیت کے کئی اور دوسرے سوالات بھی ہوسکتے ہیں ۔
دنیا بھر سے ایسی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی کہ کسی ملک کی قانون ساز اسمبلی نے اس ملک کی بنیادی اساس ہی کو تبدیل کر ڈالا ہو یعنی کوئی ایسی ترمیم کردی ہوکہ جس کے نتیجے میں ریاست کا بنیادی ڈھانچہ ہی تبدیل ہوگیا ہو۔ یہ استحقاق صرف دستور ساز اسمبلی کو ہی حاصل ہے کہ وہ ریاست کے بنیادی خدوخال متعین کرے اور امور ِ مملکت چلانے کے لیے کوئی واضح نظام طے کرے۔ بعد ازاں قانون ساز اسمبلی کو مستقبل میں متعین شدہ آئینی حدود میںرہتے ہوئے قانون بنانے کااختیار حاصل ہوتا ہے۔اس حوالے سے بعض آئینی ماہرین کی رائے میںدستور کے بنیادی ڈھانچہ میں ترمیم کی دو صورتیں ممکن ہیں۔ اوّل یہ کہ جو سیاسی جماعت یا جماعتیں دستورکے بنیادی ڈھانچہ میں کسی نوعیت کی ترمیم کی خواہش مند ہیں مثلاً 1973 کے متفقہ دستور میں متعین شدہ چار صوبوں میں اضافے کی خواہاں ہیں تو وہ انتخابات کے موقعے پر اپنے انتخابی منشور میں اس نعرے کو شامل کریں۔
اگر انھیں ایوان میں پورے ملک سے دوتہائی اکثریت حاصل ہوجائے تو وہ اس شق میں آئینی طریقہ کار کے مطابق ترمیم کرنے میں حق بجانب ہوں گے وگرنہ یہ اقدام ماورائے آئین تصور کیا جائے گا۔ آئینی ماہرین کے نزدیک اس کا دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس نکتے پر کہ امورِ مملکت چلانے کے لیے نئے صوبہ یا صوبوں کا قیام ناگزیر ہوگیاہے۔ ملک بھر میں ریفرنڈم منعقد کروادیا جائے اور اگر قوم کی اکثریت نئے صوبوں کے قیام کی حمایت میں اپنی رائے کا اظہار کریں تو اس قانون ساز اسمبلی کو حق حاصل ہوگا کہ وہ نیا صوبہ قائم کرسکے اور ریفرنڈم کے نتائج کی بنیاد پر 1973 کے متفقہ دستورکی شق 1 میںترمیم کی جائے ۔ بصورت دیگر نئے صوبوں کے قیام کا اختیار ان کے نزدیک بھی موجودہ قانون ساز اسمبلی کو ہرگزحاصل نہیں ہے ۔
1973کے آئین میں نئے صوبے بنانے کے حوالے سے کوئی طریقہ کار موجود ہی نہیں ہے کہ ہم دستوری اور ریاستی ڈھانچہ میں رہتے ہوئے کس طریقہ کار کے تحت نئے صوبے بنائیں۔ 1973 کے متفقہ دستور کی منظوری اور اس کے نافذ العمل ہونے کے ساتھ ہی کیا یہ تاریخی حقیقت نہیں ہے کہ کنکرنٹ لسٹ پر عملدرآمد کودس برس کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔یعنی 1983 تک صوبوں کو 1973 کے متفقہ دستور میں دی گئی صوبائی خود مختاری عملاً محدود تھی۔1977 کی طویل فوجی بغاوت نے صوبائی خود مختاری کو مزید معطل رکھا ۔
اس مارشل لاء کے خاتمے کے بعد منتخب ہونے والی نسبتاً کمزور عوامی حکومتیں بھی صوبائی خود مختاری کے مسئلہ کو حل نہیں کرسکیں تھیں کہ 1999 میں ایک بار پھر فوجی بغاوت نے صوبائی خود مختاری کے مسئلہ کے حل کے امکانات کو ختم کردیا ۔ماضی قریب کی فوجی آمریت کے خاتمے کے بعد 2008 میں منتخب ہونے والی سیاسی حکومت نے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے 18 ویں آئینی ترمیم منظور کی جس کے تحت صوبوں کو بے مثال داخلی خود مختاری عطا کردی گئی۔
اتفاق رائے سے 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا کارنامہ انجام دیے اور صوبوں کو صوبائی خود مختاری ملے ہوئے ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ خدا جانے کس معیار پر یہ نتیجہ اخذ کرلیا گیا کہ موجودہ صوبے اپنے عوام کے مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں لہٰذا عوام کے مسائل کے حل کے لیے اب مزید نئے صوبے کا قیام انتہائی ناگزیر ہوگیا ہے ۔یہ سب کچھ ہم اس وقت کہہ رہے ہیں کہ جب وفاق نے ابھی تک پوری طرح تمام محکموں کے مالی اور انتظامی اختیارات صوبوں کو منتقل بھی نہیں کیے ہیں یعنی18 ویں آئینی ترمیم کے تحت جو محکمے وفاق سے صوبوں کو منتقل کیے جانے تھے وہ بھی عملاً صوبوں کو منتقل بھی نہیں ہوئے ہیں۔ اس منظر میں اچانک نئے صوبوں کے قیام کے مطالبات اوراعلانات محض سیاسی نعروں سے زیادہ اہمیت کے حامل ہر گز محسوس نہیں ہوتے۔
نئے صوبے کے ضمن میں مطالبات اور ان کی تائید کرنے والے اپنے اس مطالبے کی حمایت میں مختلف دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ کچھ کا نئے صوبوں کے قیام کے ضمن میں یہ دلیل ہے کہ جو علاقے آج کے انتہائی ترقی یافتہ دور میں بھی پسماندہ رہ گئے ہیں ان کی ترقی محض علیحدہ صوبے کے قیام سے ہی ممکن ہے جب کہ کچھ قوم پرست رہنما و سیاسی دانشور لسانیت اور قومیت کی بنیاد پر نئے صوبوں کے قیام کے مطالبات کر رہے ہیں اور بعض سیاست دان لسانی اور قومیتی بنیاد کی بجائے انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام پر اپنی آمادگی ظاہر کررہے ہیں ۔
جو لوگ نئے صوبے کے قیام کو ضروری تصور کرتے ہیں وہ اس ضمن میں دلیل کے طور پردستور کی شق239 کی ذیلی شق 4 کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔دستور کی شق 239 دراصل آئین میں ترمیم کے طریقہ کار سے متعلق ہے اس کی ذیلی شق 4 اس طریقہ کارکو واضح کرتی ہے کہ اگر صوبوں کی حدود میں تبدیلی کرنا مقصود ہو تو یہ کس طرح ممکن ہوگا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ''صوبوں کی حدود سے متعلق آئین میں کی گئی ترمیم کا قانون صدر مملکت کے پاس دستخط کے لیے اس وقت تک نہیں بھیجا جائے گا جب تک اسے متعلقہ صوبے کی اسمبلی سے اس قانون کو دو تہائی اکثریت سے منظور نہیں کروالیا جائے گا ۔'' بلکہ اس سے قبل متعلقہ صوبائی اسمبلی کہ جس کی حدود سے کسی علاقے کو نکال کر دوسرے صوبہ میں شامل کیا جارہا ہے اُس سے بھی دو تہائی اکثریت سے منظور کروانے کے بعد ہی اس آئینی ترمیمی بل کو صدر مملکت کے پاس دستخط کے لیے بھیجا جائے گا ۔
اس آئینی شق کے مطالعے کے بعد ہمیں دستور اور ریاست کے بنیادی ڈھانچے کی وضاحت کرنے والی انتہائی واضح اور غیر مبہم آئینی شق کا بھی بغور مطالعہ کرلینا چاہیے۔ 1973 کے متفقہ دستورکی شق 1 کی ذیلی شق 2(A) میں ''مملکتِ پاکستان'' کی حدود کا تعین کیا گیا ہے جس میں بہت واضح الفاظ میں یہ درج ہے کہ ''پاکستان '' چار صوبائی اکائیوں بلوچستان ، NWFP(خیبر پختونخوا) ، پنجاب اورسندھ پر مشتمل ہوگا ۔یہاں شاید یہ دلیل بھی پیش کی جائے کہ اب NWFP نام کا کوئی صوبہ ملک میں موجود ہی نہیں بلکہ18 ویںآئینی ترمیم کے بعد اس کی جگہ خیبر پختونخوا کا صوبہ وجود میں آچکا ہے تو اُس کے جواب میں یہ عرض کر دینا ہی کافی ہوگا کہ بے نام صوبہ کو نام دینا اور کسی صوبے کے اندر سے ایک نئے صوبہ کو جنم دینا دو بالکل مختلف صورتیں ہیں۔
1973 کے متفقہ دستور میں دی گئی چار صوبائی اکائیوں پر مشتمل وفاق کی غیر قانونی طور پر ہیئت کو تبدیل کرنا درحقیقت آئین سے انحراف ہوگا جب کہ کسی صوبائی اکائی کے نام کی تبدیلی 1973کے دستور میں دی گئی وفاق کی ہیئت کی تبدیلی کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ 1973کا متفقہ دستور چار صوبائی اکائیوں پر مشتمل وفاق کے ریاستی ڈھانچہ کا تصّور پیش کرتا ہے جس میں چار سے زائد صوبائی اکائی کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس انتہائی واضح دستوری شق کی موجودگی میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی قانون ساز اسمبلی ریاست کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی کرسکے۔ اس مرحلے پر یہ سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں کہ کیا کوئی قانون ساز اسمبلی دستور اور ریاست کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کا اختیار رکھتی ہے؟ یعنی کیا آج کی پارلیمنٹ (مجلسِ شوریٰ) دستور کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم کرکے وفاقی ریاست کو وحدانی ریاست میں تبدیل کرسکتی ہے؟ کیا قرآن اور سنّت سے متصادم قوانین بنائے جاسکتے ہیں؟کیا پارلیمانی نظام مملکت کو تبدیل کرکے اسے صدارتی بنایا جاسکتا ہے؟ کیا یہ قانون بنایا جاسکتا ہے کہ اب آیندہ انتخابات نہیں ہونگے بلکہ مستقبل کے حکمرانوں کا تقرر موجودہ حکمران خود ہی کر دیں گے؟ اسی طرح مملکت پاکستان جو دستوری طور پر چار صوبائی اکائیوں پر مشتمل ایک وفاق ہے کیا اس کی ہیئت کو موجودہ پارلیمنٹ تبدیل کرسکتی ہے؟ اسی نوعیت کے کئی اور دوسرے سوالات بھی ہوسکتے ہیں ۔
دنیا بھر سے ایسی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی کہ کسی ملک کی قانون ساز اسمبلی نے اس ملک کی بنیادی اساس ہی کو تبدیل کر ڈالا ہو یعنی کوئی ایسی ترمیم کردی ہوکہ جس کے نتیجے میں ریاست کا بنیادی ڈھانچہ ہی تبدیل ہوگیا ہو۔ یہ استحقاق صرف دستور ساز اسمبلی کو ہی حاصل ہے کہ وہ ریاست کے بنیادی خدوخال متعین کرے اور امور ِ مملکت چلانے کے لیے کوئی واضح نظام طے کرے۔ بعد ازاں قانون ساز اسمبلی کو مستقبل میں متعین شدہ آئینی حدود میںرہتے ہوئے قانون بنانے کااختیار حاصل ہوتا ہے۔اس حوالے سے بعض آئینی ماہرین کی رائے میںدستور کے بنیادی ڈھانچہ میں ترمیم کی دو صورتیں ممکن ہیں۔ اوّل یہ کہ جو سیاسی جماعت یا جماعتیں دستورکے بنیادی ڈھانچہ میں کسی نوعیت کی ترمیم کی خواہش مند ہیں مثلاً 1973 کے متفقہ دستور میں متعین شدہ چار صوبوں میں اضافے کی خواہاں ہیں تو وہ انتخابات کے موقعے پر اپنے انتخابی منشور میں اس نعرے کو شامل کریں۔
اگر انھیں ایوان میں پورے ملک سے دوتہائی اکثریت حاصل ہوجائے تو وہ اس شق میں آئینی طریقہ کار کے مطابق ترمیم کرنے میں حق بجانب ہوں گے وگرنہ یہ اقدام ماورائے آئین تصور کیا جائے گا۔ آئینی ماہرین کے نزدیک اس کا دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس نکتے پر کہ امورِ مملکت چلانے کے لیے نئے صوبہ یا صوبوں کا قیام ناگزیر ہوگیاہے۔ ملک بھر میں ریفرنڈم منعقد کروادیا جائے اور اگر قوم کی اکثریت نئے صوبوں کے قیام کی حمایت میں اپنی رائے کا اظہار کریں تو اس قانون ساز اسمبلی کو حق حاصل ہوگا کہ وہ نیا صوبہ قائم کرسکے اور ریفرنڈم کے نتائج کی بنیاد پر 1973 کے متفقہ دستورکی شق 1 میںترمیم کی جائے ۔ بصورت دیگر نئے صوبوں کے قیام کا اختیار ان کے نزدیک بھی موجودہ قانون ساز اسمبلی کو ہرگزحاصل نہیں ہے ۔
1973کے آئین میں نئے صوبے بنانے کے حوالے سے کوئی طریقہ کار موجود ہی نہیں ہے کہ ہم دستوری اور ریاستی ڈھانچہ میں رہتے ہوئے کس طریقہ کار کے تحت نئے صوبے بنائیں۔ 1973 کے متفقہ دستور کی منظوری اور اس کے نافذ العمل ہونے کے ساتھ ہی کیا یہ تاریخی حقیقت نہیں ہے کہ کنکرنٹ لسٹ پر عملدرآمد کودس برس کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔یعنی 1983 تک صوبوں کو 1973 کے متفقہ دستور میں دی گئی صوبائی خود مختاری عملاً محدود تھی۔1977 کی طویل فوجی بغاوت نے صوبائی خود مختاری کو مزید معطل رکھا ۔
اس مارشل لاء کے خاتمے کے بعد منتخب ہونے والی نسبتاً کمزور عوامی حکومتیں بھی صوبائی خود مختاری کے مسئلہ کو حل نہیں کرسکیں تھیں کہ 1999 میں ایک بار پھر فوجی بغاوت نے صوبائی خود مختاری کے مسئلہ کے حل کے امکانات کو ختم کردیا ۔ماضی قریب کی فوجی آمریت کے خاتمے کے بعد 2008 میں منتخب ہونے والی سیاسی حکومت نے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے 18 ویں آئینی ترمیم منظور کی جس کے تحت صوبوں کو بے مثال داخلی خود مختاری عطا کردی گئی۔
اتفاق رائے سے 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا کارنامہ انجام دیے اور صوبوں کو صوبائی خود مختاری ملے ہوئے ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ خدا جانے کس معیار پر یہ نتیجہ اخذ کرلیا گیا کہ موجودہ صوبے اپنے عوام کے مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں لہٰذا عوام کے مسائل کے حل کے لیے اب مزید نئے صوبے کا قیام انتہائی ناگزیر ہوگیا ہے ۔یہ سب کچھ ہم اس وقت کہہ رہے ہیں کہ جب وفاق نے ابھی تک پوری طرح تمام محکموں کے مالی اور انتظامی اختیارات صوبوں کو منتقل بھی نہیں کیے ہیں یعنی18 ویں آئینی ترمیم کے تحت جو محکمے وفاق سے صوبوں کو منتقل کیے جانے تھے وہ بھی عملاً صوبوں کو منتقل بھی نہیں ہوئے ہیں۔ اس منظر میں اچانک نئے صوبوں کے قیام کے مطالبات اوراعلانات محض سیاسی نعروں سے زیادہ اہمیت کے حامل ہر گز محسوس نہیں ہوتے۔