ڈاکٹر محمد علی صدیقی ایک عہد…

کیا کہوں، کیا لکھوں، بخدا میرے اوسان خطا ہورہے ہیں اور میں طرح طرح کی تاویلیں پیش کرنا چاہ رہا ہوں.

یوں تو موت اس عالم آب و گل کی ہر اس شے کے لیے مقدر ہے جو زندگی کا لباس پہن کر بساط ہستی پر نمودار ہوئی ہے، لیکن جس طرح زندگی زندگی میں فرق ہواکرتا ہے اس طرح ہر اک کی موت بھی یکساں نہیں ہوتی کبھی کبھی اموات بھی واقع ہوتی ہیں، جو صرف افراد واشخاص کی اموات نہیں ہوتیں بلکہ ان ہزاروں لاکھوں انسانوں کی عمارت حیات بھی اس کے ساتھ متزلزل ہوجاتی ہیں، آج میں سکتے کی سی حالت میں ہوں کیونکہ اردو ادب و تنقید کے ممتاز نقاد، محقق، دانشور،ماہر تعلیم، پروفیسر ڈاکٹر محمد علی صدیقی اس دنیا میں نہیں رہے۔

ان کے بارے میں کیا کہوں، کیا لکھوں، بخدا میرے اوسان خطا ہورہے ہیں اور میں طرح طرح کی تاویلیں پیش کرنا چاہ رہا ہوں کہ آپ اہل و علم و قلم کے سامنے ھیچ ہونے سے بچ جاؤں لیکن والد محترم کی محبتوں کے اٹوٹ بندھن میں بندھے ہونے کی وجہ سے کوئی راہ فرار نہیں، مجھے ان کے علمی قد، ان کی تنقید، ان کے مرتبے کے بارے میں چیدہ چیدہ باتیں ہی کرنی ہیں، ان کے بارے میں کچھ لکھنے کا میں ان کی حیات میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا نہ ہی اس بابت میں خود کو اہل سمجھتا ہوں، بہرحال ان سے میرے کئی رشتے تھے، وہ بہترین باپ، بہترین دوست، بہترین رازداں تھے اور آج ہر رشتہ مجھ سے کچھ نہ کچھ تقاضہ کر رہا ہے وہ میری کوتاہیوں پر سرزنش کرتے تھے، متعدد بار ڈانٹ بھی پڑی، کئی بار مار بھی پڑی۔

آخری بار غالباً آٹھویں جماعت میں مار پڑی تھی پھر اس کے بعد یہ میری حسرت ہی رہی ۔ میڈیکل کالج کے زمانے سے مجھے Paintings کا شوق ہوا، جو اب تک جاری ہے، میں نے جتنا بھی کام کیا ان کو ضرور دکھایا، لیکن ہزارہا کوششوں کے بعد بھی داد وتحسین نا پاسکا، میں مصوری کی دنیا کی نابغہ روزگار ہستیوں سے بالمشافہ مل چکا ہوں، ان میں اقبال مہدی مرحوم ہوں کہ جمیل نقش ہوں، رابعہ زبیری، مہر افروز ہوں کہ گل جی مرحوم اور علی امام مرحوم اور یہ سب خوش قسمت رہے کہ ان کو محمد علی صدیقی سے ملنے کا شرف حاصل ہوا، وہ مجھے مصوری کے اسرار و رموز سمجھایا کرتے تھے کہ Source of Light کب، کہاں، کیوں استعمال کرتے ہیں، لیکن ان کی صورت جو Source of Light میرے نصیب میں تھی وہ مجھ سے چھن گئی یا چھین لی گئی۔

یہ نقاد، صحافی، دانشور، ادیب بہت ہی معصوم لوگ واقع ہوتے ہیں اور ادب کی پرپیچ راہداریوں کا سفر کسی بھی طور آسان نہیں ہوتا، بالعموم لوگ اپنے لیے آسانیاں تلاش کرتے ہیں، لیکن میرے ناقص مشاہدے کے مطابق زندگی جو جینے کا ہنر وہی جانتے ہیں جو تپ کر کندن بننے کے عمل سے خود گزرے ہوں، والد محترم کہا کرتے تھے کہ آسودگیاں خرابیاں پیدا کرتی ہیںاور احساس ذمے داری آسودگیوں کے ہوتے ہوئے کبھی نہیں آسکتا۔ وہ حد سے زیادہ وقت کے پابند تھے، اردو کے بارے میں بہت زیادہ فکرمند رہتے تھے، وہ کہا کرتے تھے اردو کی مجموعی صورت حال دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ زبان کہیں لاطینی اردو نہ ہوجائے اور صرف S.M.S کی زبان نہ رہ جائے، وہ کہتے تھے سب کو اس کی بقاء اور نفاذ کے لیے کمر بستہ ہونا پڑے گا، ورنہ داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ وہ کہا کرتے تھے ہمیں عبدالمالک بن مروان کی طرح اردو کا رشتہ روزی روٹی سے جوڑنا ہوگا۔

تپتے ریگزاروں میں، نامہربان موسموںکو سہتے ہوئے آپکی حالت ماہی بے آب کی سی ہوجاتی ہے، کچھ ایسی حالت میری بھی ہوگئی ہے، میں اسی تناور درخت کے گر جانے پر نوحہ کناں ہوں جس کے ہوتے ہوئے میں بڑے سے بڑے طوفان سے بچ جایا کرتا تھا اور آج اپنے ہونے کی صدا بلند کر رہا ہوں، والد محترم بہت چھوٹی عمر سے ہی ذمے داریاں نبھاتے آئے ہیں، 13 سال کی عمر میں اپنے والد کے گھر کی ذمے داری پھر ہماری، انھوں نے شاید ہی کبھی جی بھر کے آرام کیا ہوگا وہ ہمہ تن مصروف رہتے تھے، میں نے ان سے زیادہ وسیع المطالعہ انسان نہیں دیکھا، شاید ہی کسی لمحے ان کو غیرضروری کام کرتے ہوئے دیکھا ہو، وہ ایک وسیع المطالعہ شخص ہیں ان کو اردو اور انگریزی دونوں پر مکمل دسترس حاصل تھی۔

ان کی تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کے مطالعے کی وسعت بہت زیادہ ہے، وہ جن دقیق ادبی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں وہ بھی ان کے مطالعے کی وسعت کا ثبوت ہیں وہ مغربی مفکرین کے حوالے ہی نہیں بلکہ وہ ان مفکرین کی فکر کا مکمل احاطہ بھی رکھتے ہیں، جب ہی ان کے ہاں ہمیں کشادہ نظری ملتی ہے، وہ ترقی پسند فکر کے حامل رجائی نقطہ نظر رکھتے تھے، وہ ترقی پسند نقاد ہیں اور ترقی پسند فکر کے حامل اپنی طنابیں مارکسی فکر سے ملاتے ہیں اس لیے وہ یاسیت کی تردید اور مذمت بھی کرتے ہیں کیونکہ ترقی پسندی کے آواگون (Avagon) میں قنوطیت گاؤ ماتا نہیں جس کو مقدس جان کر اس کی پوجا پاٹ کی جائے بلکہ یہ تو مسلم گاؤ ماتا ہے جس کو ذبیح کرکے کاٹ کھایا جاتا ہے وہ فیض احمد فیضؔ کے بعد دوسرے پاکستانی نقاد ہیں جو 1984 میں بطور Casa Scholor بھی منتخب ہوئے۔


وہ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف کریٹیکس (IOAC) پیرس میں پہلے ایشیائی نقاد ہیں، وہ ترقی پسندی اور جدیدیت کے درمیان امتیاز کرتے ہوئے کہتے ہیں ''جدیدیت تو آب تازہ ہے، لیکن نظریات وہ برتن ہیں جن میں پانی ڈالا جاتاہے، ترقی پسند ہونے کا نعم البدل صرف ترقی پسند ہونا ہے جب کہ جدید ہونے کا ایک رخ ہیپی ہونا بھی ہے۔ ترقی پسند اور ہیپی نظریات میں فرق روا رکھنے کا اور کوئی فائدہ نہ ہو لیکن کم ازکم ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے اور وہ یہ کہ دونوں کے ساتھ انصاف ہوسکتا ہے''۔وہ چار طرح کے قارئین بتاتے تھے،(1) قوم پرست(2)روایت پسند (3)رجعت پسند (4) مغرب زدہ نوجوان طبقہ، اور انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اپنے قارئین کی تلاش دراصل ادیب کا اپنی ہی طرف ایک سفر ہے، ان کا قلمی نام ''ایئرئیل'' ہے وہ پچھلے 50 سال سے انگریزی کے صف اول کے اخبار میں اس قلمی نام سے لکھ رہے ہیں اور پچھلے دس سالوں سے ایک معاصر انگریزی اخبار میں لکھ رہے ہیں۔

ایئرئیل شیکسپیئر کے ناول کا ایک کردار ہے جو نہایت ہی شرارتی اور چلبلا واقع ہوا ہے، لیکن اس کے برعکس والد محترم قارئین کے ذہنی دریچے وا کرتے ہیں اور ان کو کسی بھی قسم کی تشنگی میں نہیں رکھتے اور علم و شعور کی پرپیچ گھتیاں سلجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں، میرا نہیں خیال کہ اردو ادب کے کسی اور نقاد نے مغربی مفکرین اور ادب کا اور بہ حیثیت مجموعی انگریزی وفرانسیسی، اٹالین ادب کا مطالعہ کیا ہو اور اگر کیا بھی ہو تو ڈاکٹر محمد علی صدیقی سے زیادہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ انھی کی وجہ سے (یہاں اردو ادب کو ناز ہونا چاہیے) ہمیں گلوبلائزیشن، ڈبلیو۔ٹی۔او، اور مابعد جدیدیت جیسی مغربی تھیوریز اردو ادب و تنقید میں پڑھنے کو ملی ہیں یہ اس بات کی غمازی ہے کہ وہ ایک وسیع المطالعہ شخص تھے اور آج وہ جس مقام پر ہیں ان تک پہنچنے کے لیے ایک صدی درکار ہے۔

ایک دفعہ بچپن میں قصداً تو نہیں شرارتاً کتابوں کی میں نے درگت بنائی اور اس پر مار بھی کھائی اور گال سہلاتے ہوئے بولا ''آپ کو ہم سے زیادہ اپنی کتابوں سے پیار ہے تو جو جواب آیا میرا نہیں خیال کہ اس سے اچھا اور کوئی جواب آتا، انھوں نے کہا ''ہاں، علم پیار کے ہی قابل ہے اور بے ادب مار کے، اب تم خود فیصلہ کرلو کہ تم کو مار کھانی ہے یا پیار چاہیے؟'' وہ ایک بات دماغ کے کسی گوشے میں ایسی بیٹھی کہ آج تک اس ایک جملے سے باہر نہیں نکلا۔ لوگ خوش ہوتے ہیں اگر ان کے سوئس اکاؤنٹ، محنت کشوں، مزدوروں، ہاریوں کی خون پسینے کی کمائی ہوئی دولت سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن علم و شعور کے میدان میں وہ بہت دور ہیں اور ہم پر مسلط ہیں۔

ان کے مقابلے میں صاحب علم حضرات کسی قدر خوش قسمت ہیں کہ وہ گلستان و بوستان سے لے کر، ایلیٹ کی ویسٹ لینڈ اور شیکسپیئر کے میکبتھ کے گرد رہتے ہیں اور پرسکون نیند سوتے ہیں کیونکہ جو دولت ان کے پاس ہے وہ چوری ہوجانے کی وجہ سے کم نہیں ہوگی بلکہ اس کی ہئیت میں اضافہ ہی ہوگا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے پہلے باضابطہ صدر ڈاکٹر محمد علی صدیقی، بہت سی زبانیں جانتے تھے ان میں سندھی، پنجابی، سرائیکی، بلوچی، اردو، انگلش، فرانسیسی، اٹالین اور روسی شامل ہیں۔

ڈاکٹر محمد علی صدیقی ایک عہد کا نام ہے، وہ زندہ رہیں گے، کیونکہ علم کی موت نہیں ہوا کرتی، لفظ مر نہیں سکتے، ان کے اس طرح چلے جانے سے میرا جتنا نقصان ہوا وہ تو اپنی جگہ، لیکن اردو ادب و تنقید کا جو نقصان ہوا اس کا ازالہ ہوپائے گا کہ نہیں، انھوں نے ساری زندگی لوگوں کو پروموٹ کیا ان میں بہت سے بڑے نام آتے ہیں۔

(محمد علی صدیقی کے اعزاز میں تعزیتی جلسہ انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان میں پڑھاگیا مضمون۔)
Load Next Story