میں ہوں خان
پانچ ملین خان بھائیوں کو ہم اپنے گھر میں جگہ دے چکے ہیں تو ایک اور ’’خان‘‘ کے لیے بھی ہماری بانہیں کھلی ہوں گی،
شاہ رخ خان آج کل پھر خبریں بنارہے ہیں، لیکن آج کل اپنی کسی نئی فلم کے پروموشن کے لیے نہیں بلکہ یہ خبریں ان کے مذہب کی وجہ سے بن رہی ہیں، شاہ رخ خان مسلمان ہیں اور یہی شناخت ان کے لیے انڈیا میں کئی مشکلات کا باعث بن چکی ہے، آپ سوچیں گے ''خان'' تو اور بھی ہیں بالی وڈ میں پھر ساری بجلی شاہ رخ خان پر گرنے کی وجہ؟ عامر، سلمان یا پھر سیف کیوں نہیں؟
عامر خان نے کبھی بھی کھل کر اسلام پر بات نہیں کی ہے، نہ ہی وہ خود کو بہت زیادہ مسلمان کے طور پر پیش کرتے ہیں، دونوں ہی بار انھوں نے ہندو خواتین سے شادی کی نہ ہی ممبئی اٹیک کے وقت میڈیا میں انٹرویو دیتے نظر آئے، اسی طرح سلمان خان کی والدہ، بھابی، بہنوئی سب ہی ہندو ہیں، سیف کی والدہ بنیادی طور پر ہندو ہیں اور ان کی بیوی بھی، کسی بھی دوسرے اداکار سے زیادہ شاہ رخ خان اسلام کے بارے میں بات کرتے نظر آتے ہیں، چاہے ان پر بنی کوئی ڈاکومنٹری ہو یا پھر ان کی تازہ ترین فلم ''جب تک ہے جاں'' کی میکنگ کی تصاویر۔ شاہ رخ مختلف جگہوں پر نماز پڑھتے نظر آتے ہیں۔
''ممبئی میں جنہوں نے اٹیک کیا وہ مسلمان نہیں ہوسکتے'' جیسے بیانات دیتے بھی شاہ رخ خان ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہیں۔ شاہ رخ خان کے والد کا تعلق پشاور سے تھا، جہاں ان کے رشتے دار اب بھی رہتے ہیں اور شاہ رخ بچپن میں دو بار پشاور بھی جاچکے ہیں، ہندو بیوی ہونے کے باوجود شاہ رخ خان کا اسلام اور پاکستان سے گہرا تعلق صاف نظر آتا ہے اور کچھ دن پہلے شاہ رخ خان کے لکھے ایک آرٹیکل "Being a Khan" کی وجہ سے آج کل شاہ رخ خان کے خلاف ایک بہت بڑی مہم شروع ہوگئی ہے اور ممبئی پولیس کے لیے ان کی سیکیورٹی کو لے کر تحفظات بڑھ گئے ہیں۔
شاہ رخ خان نے انڈیا کے اخبار میں کچھ دن پہلے دو صفحوں پر مبنی ایک مضمون لکھا جس میں وہ اپنے ''خان'' ہونے کا تجربہ بتاتے ہیں، مضمون کچھ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ میں ایک اداکار ہوں اور میری زندگی کا مقصد ''امیج'' بنانا ہے، وہ جو لوگ پسند کرتے ہیں، ایسی امیج جسے دیکھ کر لوگ انٹرٹین ہوتے ہیں، میرا نام ''خان'' ہے اور خان ہونے کا امیج کچھ عجیب ہے۔
شاہ رخ کہتے ہیں کہ ''خان'' نام سنتے ہی ان کے ذہن میں بھی ایک ایسا شخص آتا ہے جو چھ فٹ لمبا ہے، جس کی بڑی سی داڑھی ہے، گھوڑے پر سوار ہے اور پیشے سے دہشت گرد ہے۔ اپنے بارے میں مذاق کرتے ہوئے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نہ وہ چھ فٹ کے ہیں اور نہ ہی ایک خان کے تصور جیسے ہینڈسم، پھر بھی انھیں اپنے نام کی وجہ سے بہت مشکلات ہوتی ہیں، انھوں نے اپنے بچوں کے نام اس لیے ''سہانا'' اور ''آریان'' رکھے ہیں تاکہ پتہ نہ چل سکے کہ یہ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔
کئی بار ایئرپورٹس پر روکے جانے کے بعد انھوں نے ''مائی نیم از خان'' جیسی فلم بنانے کا سوچا جس میں فلم کا ہیرو یہ ثابت کرتا ہے کہ مسلمان ٹیررسٹ نہیں ہوتے، وہ فلم جس سے انھیں امید تھی کہ یہ فلم مغرب میں مسلمانوں کا امیج بدلنے میں مدد دے گی، فلم میں شاہ رخ خان نے امریکا میں رہنے والے ایک مسلمان کا کردار نبھایا جو امریکا کے ایک کونے سے دوسرے کونے سفر کرتا ہے، امریکی صدر کو یہ پیغام دینے کے لیے کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتے، شاہ رخ خان جب یہ فلم اسکرین کرنے امریکا جارہے تھے تو حیران کن طور پر اس بار بھی انھیں نام کی وجہ سے ایئرپورٹ پر روک کر کئی گھنٹے بٹھایا گیا۔
مضمون میں اپنے باہر کے تجربات کی باتیں کرنے کے بعد شاہ رخ خان انڈیا کی بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انھیں مسلمان ہونے کی وجہ سے انڈیا میں کئی مشکلات کا سامنا ہے جب بھی کوئی دہشت گردی ہوتی ہے لوگ شاہ رخ خان سے امید کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے خلاف بیان دیں ان کے اپنے بچے ان سے سوال کرتے ہین کہ ''ہمارا مذہب کیا ہے''۔ اس کے جواب کو وہ باتوں میں گھما دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ اپنے بچوں سے کہیں گے کہ وہ مسلمان ہیں تو وہ ان سے کئی اور سوال کریں گے جس کے جواب ان کے پاس نہیں، شاہ رخ خان نے آگے لکھا ہے کہ پھر بھی میرے بچے جانتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں کیونکہ میری بیٹی جب کسی مسلمان کے پاس جاتی ہے تو وہ اپنا سر ڈھانک لیتی ہے۔پہلے بھی شاہ رخ خان کے کئی مذہبی بیانات کو لے کر مختلف سیاسی پارٹیاں خصوصاً شیوسینا نے ممبئی میں بہت سے ہنگامے کیے ہیں ''واپس اپنے ملک جاؤ، تم شاہ رخ نہیں صرف خان ہو'' جیسے نعرے لگاکر ان کے گھر کے باہر ان کے پوسٹرز جلاچکے ہیں۔
اس بار اس آرٹیکل کے چھپنے کے بعد شاہ رخ خان کے خلاف مظاہرے اور بڑھ گئے اور انھیں دھمکیاں بھی مل رہی ہیں کہ انڈیا چھوڑ کر اپنے ملک پاکستان جاؤ ورنہ جان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے، شاہ رخ خان کے لیے ممبئی پولیس نے سیکیورٹی کافی بڑھادی لیکن پھر خبریں آنے لگیں کہ سیکیورٹی میں کمی آگئی لیکن ان کے خلاف لوگوں کے غصے میں کمی نہیں آئی، ایسے میں ایک اچھا پڑوسی اور مسلمان ملک شاہ رخ خان کا ساتھ کیسے نہ دے؟
جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید نے شاہ رخ خان کو دعوت دی ہے کہ وہ پاکستان منتقل ہوجائیں ہم ان کا کھلے دل سے استقبال کریں گے، حافظ سعید کے مطابق شاہ رخ خان کے والد نے جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا اس کے باوجود اگر ان کے ملک کے بڑی سیاسی پارٹیوں کے لیڈرز ہی ان کے خلاف ہیں تو ہماری طرف سے انھیں دعوت ہے کہ وہ پاکستان آکر سیٹل ہوجائیں۔ اسی طرح وزیر داخلہ پاکستان جناب رحمن ملک بھی پیچھے نہیں رہے۔ شاہ رخ خان کی طرف پیار دکھانے میں اور انھوں نے بیان دے دیا کہ ممبئی پولیس کو شاہ رخ خان کی سیکیورٹی کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، یہ بات انڈیا کو ناگوار گزری اور انڈین ہوم منسٹر آر۔کے۔ سنگھ نے رحمن ملک سے کہا کہ پاکستان اپنے کام سے کام رکھے، ہم اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں، پاکستان کو پہلے اپنے مسئلے سلجھانے چاہئیں۔
ہم آر۔کے۔سنگھ کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہر مسلمان کا اور اسلام سے متعلق ہر مسئلہ ہمارا مسئلہ ہے، پانچ ملین خان بھائیوں کو ہم پہلے بھی افغانستان سے اپنے گھر میں جگہ دے چکے ہیں تو ایک اور ''خان'' کے لیے بھی ہماری بانہیں کھلی ہوں گی، ہاں انڈیا یہ ضرور سوچ لے کہ ایک فلم سے سو کروڑ کمانے والا شاہ رخ خان سچ مچ ناراض ہوکر پاکستان شفٹ ہوگیا تو ہمیں کوئی فائدہ ہونہ ہو ہندوستان کو اپنے نقصان کی فکر کرنی چاہیے۔