بیٹوں کی تربیت کا خصوصی اہتمام

ﷲ تعالی ہمیں اس عظیم کام کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ آمین

فوٹو : فائل

بیٹوں کا عطیہ صرف پرہیز گاروں پر موقوف نہیں اور نہ ہی وہ مال داروں پر موقوف ہے۔ بل کہ یہ ایک نعمت ہے جو اﷲ تعالی اپنی حکمت کی وجہ سے جس پر چاہتا ہے انعام فرماتا ہے، حتیٰ کہ اگرچہ کوئی انتہائی غریب یا بدبخت ہو۔

اﷲ سبحانہ فرماتے ہیں : '' آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اﷲ ہی کی ہے، وہ پیدا کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے، وہ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے، یا انہیں ملا کر بیٹے اور بیٹیاں عطا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے، یقینًا وہ سب کچھ جاننے والا قدرت رکھنے والا ہے۔'' ( الشوریٰ )

شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں : یہ آیت جس میں اﷲ تعالیٰ کے لا محدود اقتدار، اپنی مخلوق اور اپنی ملکیت میں اپنی مشیت کے مطابق تصرف کے نفاذ اور تمام امور کی تدبیر کا ذکر ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی عمومی تدبیر اسباب سے پیدا شدہ ان اشیاء کو بھی شامل ہے جنہیں بندے اختیار کرتے ہیں۔

نکاح، پیدائشِ اولاد کا ایک سبب ہے۔ چناں چہ اﷲ تعالیٰ ہی ہے ان کو جو اولاد چاہتا ہے عطا کردیتا ہے۔ چناں چہ مخلوق میں سے کسی کو بیٹیاں عطا کرتا ہے، اُن میں سے کسی کو بیٹے عطا کرتا ہے اور اُن میں سے کسی کو ملے جُلے دیتا ہے، یعنی بیٹے بیٹیاں دونوں عطا کرتا ہے اور اُن میں سے کسی کو بانجھ بنا دیتا ہے اور ان کے ہاں اولاد پیدا نہیں ہوتی۔

'' بے شک وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا اور ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ وہ اپنے علم، کمال اور قدرت کے ساتھ تمام اشیاء اور تمام مخلوقات میں تصرف کرتا ہے۔

پس جس کو اﷲ جل وعلا بیٹے عطا کرے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس عظیم نعمت پر اﷲ سبحانہ کا شکر کرے، کیوں کہ شکر اور ایمان سے نعمتیں باقی رہتی ہیں جب کہ انکار اور نافرمانی سے سزائیں اترتی ہیں۔

اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:

'' اور جب تمہارے رب نے صاف اعلان کر دیا کہ اگر تم شکر کرو گے تو یقینًا میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم نے ناشکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب یقینًا بہت سخت ہے۔'' (ابراہیم)


شیخ شنقیطیؒ کہتے ہیں : اور اسی مناسبت سے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ افراد ہوں یاجماعت، اﷲ کی نعمتوں کا سامنا شُکر سے کریں۔ یہ کہ وہ اﷲ کی اطاعت اور عبادت کے ساتھ اس کا شکر بجا لائیں اور وہ نعمتوں کی ناشکری سے ڈریں۔

اور اس نعمت کے شکر کی صورتوں میں سے ایک یہ ہے۔

٭ ہم اپنے بیٹوں کی تربیت کا اہتمام دینی تعلیمات کے مطابق کریں۔

٭ ہم ان کے دلوں میں خیر المرسلینؐ کی سنت کی محبت، ان کے بابرکت صحابہؓ کی محبت اور مسلمانوں میں سے جو ان کے طریقے اور ان کے راستے پر چلیں، ان کی محبت بٹھا دیں۔

٭ ہم اس بات کی تربیت کا بیج بوئیں کہ وہ حقیقی علمائے ربانیین، نیک طالب علموں، عمر رسیدہ لوگوں اور تمام نیک لوگوں کی تعظیم بجا لائیں۔

٭ ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ انہیں نیکی کے کام کرنے اور بھلائیاں سمیٹنے پر ابھاریں۔

٭ ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں نافرمانیوں و برائیوں کے ارتکاب، دین کے دشمنوں یعنی کفار و منافقین کی مشابہت اختیار کرنے سے روکیں۔

ﷲ تعالی ہمیں اس عظیم کام کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ آمین
Load Next Story