مودی کی ترپ چال
مختلف امریکی صدور پاکستان پر نکتہ چینی کرتے آ رہے ہیں
KARACHI:
ہر بیان کو یا کسی بھی غیر ملکی مہمان کی آمد کو لازمی طور پر پاکستان کے بارے میں ہمارے طرز عمل سے جوڑ دیا جاتا ہے، خواہ اسلام آباد کا کوئی ذکر بھی نہ آئے لیکن ہم اپنے تبصرے کو کھینچ تان کر وہاں تک پہنچا دیتے ہیں۔ مختلف امریکی صدور پاکستان پر نکتہ چینی کرتے آ رہے ہیں کیوں کہ امریکا اسلام آباد کو امداد فراہم کرتا ہے لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے جب امریکا نے پاکستان پر دہشت گردی کے فروغ کا الزام لگا دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کو پناہ دیتا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں جو وائٹ ہاؤس میں ان دونوں کی پہلی ملاقات کے بعد جاری کیا گیا کہا کہ بھارت اور امریکا کی باہمی لگاوٹ کا سنگ میل دہشت گردی ہے۔ اس بیان میں امریکا کی معمول کی پوزیشن سے تجاوز کرتے ہوئے چین کی راہداری کے منصوبے پر بھارت کی تشویش کا بھی ذکر کیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے ساتھ امریکا کی حقیقی دوستی ہے، میں نے وعدہ کیا تھا اگر میں منتخب ہو گیا تو بھارت کے لیے وائٹ ہاؤس میں ایک سچا دوست موجود ہو گا اور اب ایسا ہی ہو گیا ہے۔ میں آپ کو سلام پیش کرتے وقت خوشی محسوس کر رہا ہوں۔ وزیراعظم مودی اور بھارتی عوام کو بھی جو آپ کے ساتھ مل کر کامیابی کا سفر طے کر رہے ہیں آپ کی کامیابیاں بڑی وسیع ہیں۔ صدر نے وزیراعظم مودی کو اور اپنے آپ کو سوشل میڈیا میں بھی ورلڈ لیڈر قرار دیا جس کی وجہ سے وہ اپنے عوام کی بات براہ راست سن سکتے ہیں۔
ماضی میں صدر کینڈی، بل کلنٹن اور باراک اوباما بھی بھارت کے دوست تھے لیکن انھوں نے نئی دہلی کی تزویراتی ضروریات میں بہت کم مدد کی۔ ان کو پاکستان کا زیادہ خیال تھا اور نہیں چاہتے تھے کہ بھارت کے ساتھ ان کی زیادہ قربت کا پاکستان کوکوئی نقصان ہو لیکن صدر ٹرمپ نے امریکا کی سابقہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی پیدا کر دی ہے۔
دونوں ملکوں کا دہشت گردی کے خلاف تعاون کو فروغ دینے کا وعدہ بھارت کے لیے بہت بڑی سفارتی جیت ہے جب کہ اسلام آباد کے لیے دھچکا ہے جو حزب المجاہدین کو آزادی کی جنگ لڑنے والی تنظیم قرار دے رہا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے انفرادی ریمارک میں کہاکہ بھارت اور امریکا کے مابین سیکیورٹی کا تعاون بے حد اہم ہے کیوں کہ ہم دونوں ملکوں کو اس برائی کا سامنا ہے اور ہم دونوں دہشت گرد تنظیموں اور ریڈیکل نظریے کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ریڈیکل اسلامی دہشت گردی کو تباہ کر دیں گے۔
صدر ٹرمپ نے نریندر مودی کو بذات خود وائٹ ہاؤس کی سیر کرائی نیز بھارتی وزیراعظم کی یہ دعوت قبول کر لی کہ وہ اپنی بیٹی ایوانکا کو بھارت کے دورے پر بھیجیں گے۔
یہ ساری باتیں بہت اچھی تھیں جب کہ ٹرمپ نے مودی کے برابر کھڑے ہو کر اعلان کیاکہ امریکا بھارت کا اولین پارٹنر ہے جو اس کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں کردار ادا کرے گا اور اسے سرے سے بدل کر رکھ دے گا۔
بھارت امریکا تعلقات کی اس نئی نہج پر سب سے پہلا ردعمل چین نے ظاہر کیا اور بھارت کے امریکی کیمپ میں شامل ہونے پر نکتہ چینی کی جب کہ پاکستان کی چین کے ساتھ شامل ہونے کی تعریف کی۔ اسلام آباد کی طرف سے خاموشی ہی رہی۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کی امداد بند کرنے کا اشارہ بھی دیا تاہم اسلام آباد وزیراعظم نواز شریف کی ٹرمپ سے ملاقات کے نتیجے کا انتظار کر رہا ہے جو جلد ہی ہونے والی ہے۔
کانگریس پارٹی نے بھی مودی ٹرمپ ملاقات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح کانگریس بھی بھارتی صدر کے انتخاب کے سلسلے میں مصروف ہے۔ البتہ مودی اور ٹرمپ کی شخصی ملاقات کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو پسند نہیں آئیگی۔ امریکا کے دفتر خارجہ میں بھارتی کانگریس پارٹی کو اب پہلے کی سی اہمیت حاصل نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ بھارت میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں بی جے پی کو بالادست پوزیشن حاصل ہے لہٰذا امریکا کی پالیسیاں بھی اسی انداز سے ترتیب دی جا رہی ہیں جیسے بی جے پی بھارتی انتخابات میں دوبارہ فتح حاصل کرے گی۔ مودی کو اندرون ملک جس قدر حمایت حاصل ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی حیثیت مقابلے میں بہت کمزور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2019ء میں ہونے والے عام انتخابات میں تمام سیاسی پارٹیاں متحدہ محاذ بنا کر بی جے پی کا مقابلہ کریں گی۔
بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار جو کوشیش کر رہے ہیں اس سے کچھ امید پیدا ہوتی ہے بصورت دیگر اپوزیشن کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ مودی کی حکومت نے کرنسی نوٹوں کو منسوخ کرنے کی جو پالیسی اختیار کی ہے اس کے بُرے نتائج بھی نکلے ہیں۔ بالخصوص عام لوگوں کا خاصا نقصان ہوا ہے مگر بتدریج یہ احساس کم ہوتا جا رہا ہے۔ البتہ یکم جنوری سے بھارتی حکومت جو جی ایس ٹی نافذ کرنا چاہتی ہے اس سے یقیناً حکومت کو خاصا دھچکا لگے گا۔جی ایس ٹی کے مسودہ قانون پر پارلیمنٹ میں طویل عرصہ تک بحث مباحثہ ہوتا رہا لیکن بالآخر یہ قانون منظور کرلیا گیا ہے۔
ایسے لگتا ہے جیسے صدر ٹرمپ کو کسی نے خاص طور پر متذکرہ نکات پر بریف کیا ہے۔ بصورت دیگر وہ بی جے پی کی طرف سے اس قدر مائل نہیں ہوسکتے تھے جس طرح کہ وہ مودی کے ساتھ پہلی ہی ملاقات میں ہوگئے۔ وزیراعظم مودی نے امریکا کی بڑی بڑی کمپنیوں کو جن میں ایپل، وال مارٹ اور ایمزون وغیرہ شامل ہیں، بھارت میں بہت بھاری سرمایہ کاری کرنے پر رضا مند کرلیا ہے اور یہ تمام کمپنیاں اب بھارت کی طرف پہلے کی نسبت کہیں زیادہ مائل ہوگئی ہیں۔ امریکی دفتر خارجہ نے بھی ان کمپنیوں کی بھارت کے ساتھ تجارت کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ امریکی صدر کے ساتھ پہلی ملاقات میں مودی نے ترپ کی چال بڑی چالاکی اور مہارت سے چلی ہے۔ اندرون ملک تو مودی کی پارٹی نے میدان مارلیا ہے لیکن اب اسے غیر ملکی داد و حمایت درکار تھی اور اس مقصد کے لیے امریکا سے بہتر اور کون ہوسکتا تھا۔ بالخصوص اس صورت میں جب کہ چین نے کھلم کھلا پاکستان کی طرف داری اختیار کرلی ہے اور الزام لگایا ہے کہ بھارت نے چین کے بعض علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)