نام نہاد بلدیاتی اختیارات
ضلع حکومتوں میں ہر یونین کونسل کو دو لاکھ روپے ماہانہ دیے جاتے تھے اور اب ہر یوسی کو صرف ایک لاکھ روپے دیے جارہے ہیں
SUKKUR:
سندھ اسمبلی کے اسپیکرآغا سراج درانی نے سندھ اسمبلی کے باہرکراچی کے بلدیاتی نمایندوں کے احتجاج اور اختیارات کے حصول کے لیے مطالبات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ سندھ اسمبلی نے بلدیاتی نمایندوں کو اختیارات دیے ہیں اور وہ اسی اسمبلی کے سامنے مظاہرہ کررہے ہیں جب کہ انھیں حکومت سے یہ مطالبات کرنا چاہیے۔اسپیکر سندھ اسمبلی جن کے بھائی خود ضلع شکارپورکی کونسل کے چیئرمین ہیں، کی سادگی دیکھیے کہ جنھیں معلوم ہے کہ ان کی پی پی کی سندھ حکومت نے اپنی اکثریت کے زور پر برائے نام بلدیاتی اختیارات کا قانون اسی اسمبلی سے منظورکرایا تھا جس کے وہ اسپیکر ہیں۔
پی پی پی حکومت نے جنرل پرویزمشرف کے پہلی بار دیے گئے بلدیاتی با اختیار نظام کو منسوخ کرکے موجودہ نام نہاد بلدیاتی اختیارات کا قانون منظورکیا تھا۔ جس میں بلدیاتی سربراہوں کو مالی وانتظامی اختیارات انتہائی محدود اور برائے نام ہیں۔ جنرل پرویز کے با اختیار بلدیاتی نظام میں موجودہ ارکان قومی اسمبلی فریال تالپور اور نفیسہ شاہ اور رکن سندھ اسمبلی اور وزیراطلاعات سیدناصر حسین شاہ جن کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے خود نوابشاہ، خیرپور اور سکھر کے ضلع ناظم رہ چکے ہیں اور انھیں اپنی پارٹی کے دیے گئے نہام نہاد اختیاربلدیاتی قانون پر حیرت ہوتی ہوگی۔
تینوں نے آمر کے دیے گئے اور موجودہ بلدیاتی قانون جو سندھ اسمبلی کی نام نہاد جمہوری حکومت نے اپنی اکثریت کے زور پر منظور کرایا تھا کا موازنہ ضرورکیا ہوگا اور اپنے ضمیر کے خلاف اپنی پارٹی کے فیصلے کی تائید کی ہوگی۔ تینوں رہنما اگر آج بھی اپنے اضلاع کے ضلع چیئرمین ہوتے توکیا یہ تینوں وہ کارکردگی دکھاسکتے تھے جو انھوں نے ضلع ناظمین کی حیثیت سے دکھائی تھی۔ اس وقت کے وفاقی سیکریٹری بلدیات محمد سلیم خان نے راقم کو بتایا تھا کہ ضلع خیر پور میں بلا شبہ ضلع حکومت نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جب پہلی سٹی حکومت جماعت اسلامی کی تھی تو قومی تعمیر نو بیورو نے جو ضلع حکومتوں کی نگراں تھا کراچی کے گلبرگ ٹاؤن کی یوسی 4 کے یوسی ناظم سجاد حیدر دارا کو پاکستان کا پہلا بہترین یوسی ناظم اور سب سے بہترین یونین کونسل یوسی 4 کو قرار دیا تھا اور حیرت یہ تھی کہ بہترین کارکردگی پر یوسی یا ناظم کو کوئی انعام نہیں دیا گیا تھا۔ ملک میں جب اچھی کارکردگی پر کوئی انعام نہیں ملے گا تو کرپشن کیوں نہیں ہوگی۔
تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین نے سندھ کے بلدیاتی نظام کو فراڈ قرار دیا ہے اور ایسا بے اختیار اور کمشنری نظام کا مکمل محتاج بلدیاتی نظام سندھ کی نام نہاد جمہوری حکومت نے سندھ اسمبلی سے اس لیے منظور کرایا تھا تاکہ سندھ کی نام نہاد جمہوری حکومت اور وزارت بلدیات کے مکمل محتاج اور کنٹرول میں رہیں اور محکمہ بلدیات کے ذمے دار لاکھوں روپے رشوت لے کر بلدیاتی افسروں اور انجینئروں کے تقرر وتبادلے کرتے رہیں جو پہلے منتخب ضلع ناظمین کا اختیار ہوتا تھا۔
کمشنر اور ڈپٹی کمشنر بلکہ صوبائی سیکریٹریز بھی ڈی سی او اور ای ڈی اوز کی شکل میں سٹی ناظم اور ضلع ناظمین کے اور ٹاؤنز اور ٹی ایم اوزکے ناظمین کے تحت اسسٹنٹ کمشنر سطح کے افسران ٹی ایم اوز ہوتے تھے اورکمشنری نظام ختم ہونے کا دکھ ان ہی افسران کو تھا کہ ایک آمر نے انھیں عوام کے منتخب نمایندوں کا ماتحت بنادیا تھا اور ملک کی 54 سالہ تاریخ میں یہ اقدام ایک فوجی صدر نے کیا تھا اور عوام کے منتخب نمایندوں کو بیوروکریٹس پر با اختیار بنادیا تھا۔ جس کی بہت زیادہ تکلیف ارکان اسمبلی اور محکمہ بلدیات کو تھی جو ضلع ناظمین پر حکم چلاسکتے تھے اور نہ مداخلت کرکے اپنی مرضی کے تقرروتبادلے اور غلط کام کراسکتے تھے۔
سندھ اسمبلی نے ایسے بلدیاتی قوانین منظورکیے ہیں جن کے تحت بلدیاتی اداروں کی کنٹرولنگ اتھارٹی وزیراعلیٰ، چیف سیکریٹری اور وزارت بلدیات ہے اور عوام کے منتخب نمایندے اب کمشنرز، ڈپٹی کمشنروں اور اسسٹنٹ کمشنروں کے محتاج اور ماتحت ہیں اور اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کرسکتے۔ سندھ اسمبلی کے قانون کے مطابق بلدیہ عظمیٰ کا میئر کمشنر کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کے ڈی اے، ایم ڈی اے، ایل ڈی اے، کے بی سی اے کا اب بلدیہ عظمیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور صفائی ستھرائی اورکچرا اٹھانے کے بلدیاتی کام بھی اب سندھ حکومت کے ماتحت نیا ادارہ سالڈ ویسٹ بورڈ کر رہا ہے۔
کراچی میں تعمیری اور ترقیاتی کام اب سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار کے بقول وزیراعلیٰ سندھ خود کراچی کے میئر بھی بنے ہوئے ہیں اور جوکام بلدیہ عظمیٰ کے کرنے کے ہیں وہ سندھ حکومت نے اپنے کنٹرول میں کر رکھے ہیں اور کراچی میں ترقیاتی کام کرواکر پیپلزپارٹی اس کا کریڈٹ اور سیاسی فائدہ اٹھانا چاہ رہی ہے اور بلدیاتی نمایندوں کو اختیارات جان بوجھ کر نہیں دیے جارہے۔ اس لیے متحدہ نے عدالت عظمیٰ سے اختیارات کے حصول کے لیے رجوع کر رکھا ہے۔ متحدہ کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے اگر بلدیاتی اختیارات نہ دیے تو ہم خود چھین لیںگے۔
سندھ حکومت نے جنرل پرویز مشرف کے با اختیار ضلع نظام کو منسوخ کرکے اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دلانے والے جنرل ضیا الحق کے 1979 کے بلدیاتی نظام کو مزیدکمزور اور بے اختیارکرکے سندھ اسمبلی سے منظور کرایا ہے اور سندھ حکومت چاہتی ہے کہ متحدہ اس سے مزید بلدیاتی اختیار نہ مانگے اور موجودہ بلدیاتی قانون میں دیے گئے اختیارات پر ہی انحصار کرے۔ جنرل ضیا الحق کے بلدیاتی نظام میں تو پی پی سے تعلق رکھنے والے بلدیہ شکارپور کے چیئرمین نے گورنر سندھ، جنرل عباسی اور صدر جنرل ضیا الحق کے دورہ شکارپور کا بائیکاٹ کیا تھا اور راقم نے جنرل ضیا الحق کو اس بائیکاٹ کا بتایاتھا مگر مذکورہ چیئرمین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی اور آج پی پی کی خود ساختہ جمہوری حکومت میں کسی بلدیاتی نمایندے میں یہ جرأت نہیں کہ وہ وزیراعلیٰ سندھ تو کیا وزیر بلدیات ہی کے دورے کا بائیکاٹ کرسکے۔
ضلع حکومتوں میں ہر یونین کونسل کو دو لاکھ روپے ماہانہ دیے جاتے تھے اور اب ہر یوسی کو صرف ایک لاکھ روپے دیے جارہے ہیں۔ جن سے یوسی عملہ کی تنخواہ ہی پوری نہیں ہورہی اور سندھ حکومت 9 سالوں سے ہر سال سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھا رہی ہے اور بلدیاتی اداروں کی ماہانہ گرانٹ نہیں بڑھا رہی ۔بلدیاتی اداروں کی ساری آمدنی اور سرکاری گرانٹ اپنے ملازمین کی تنخواہوں کے لیے بھی پوری نہیں ہورہی اور تنخواہیں تاخیر سے ملنا معمول بن گیا ہے۔ بلدیاتی ادارے اپنی آمدنی سے نہ صرف تنخواہیں دیتے ہیں بلکہ تعمیروترقیاتی کے کام بھی کراتے ہیں، مگر جب ان سے اس کے ماتحت ادارے بھی سندھ حکومت اپنے کنٹرول میں کرکے بلدیاتی اداروں کو مفلوج کردے گی، تو یہ بے اختیار ادارے کچھ نہیں کرسکیںگے اور عوام کی خدمت میں ناکام رہیںگے اور سندھ حکومت ان کی ناکامی ہی چاہتی ہے۔