میکسم گورکی کی یاد میں
البتہ 1917 کے روسی انقلاب کی جدوجہد میں بھی میکسم گورکی نے بھرپور حصہ لیا
یہ کتاب، ضروری ہے بہت سے مزدور بلا سوچے سمجھے فطری طور پر انقلابی تحریک میں حصہ لے رہے تھے اور اب وہ یہ کتاب پڑھیں گے جو ان کے لیے بہت مفید ہے بہت ہی بروقت کتاب ہے یہ ہیں کامریڈ لینن کے الفاظ اور جس کتاب کے بارے میں انھوں نے یہ الفاظ ایک گفتگو میں ادا کیے تھے اس کتاب کا نام ہے ماں۔ ناول ماں کے تقریباً تمام کردار حقیقی تھے، ناول'' ماں'' 1906 میں لکھا گیا اور 1907 میں منظرعام پر آیا۔ آج سے اکتیس برس قبل ناول ماں کے بارے میں جو اعداد و شمار سامنے آئے تھے ان کے مطابق 31 برس قبل تک ناول کے 200 ایڈیشن چھپ چکے تھے۔
ان 200 ایڈیشنوں میں ناول کی 70 لاکھ کاپیاں چھاپی گئیں اور 31ناول 300 زبانوں میں چھاپا جاچکا تھا۔ ہمارے خیال میں اپنی آج کی مختصر گفتگو میں ناول ماں کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں کہا جاسکتا البتہ ہماری آج کی گفتگو کا موضوع ہے ناول ماں کے خالق میکسم گورکی کی شخصیت۔ میکسم گورکی جن کا حقیقی نام میکسیمو وچ پیشکوف تھا ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے وہ بیک وقت انقلابی شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نویس و صحافی تھے حقیقت تو یہی ہے کہ انھوں نے ان تمام شعبوں کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا۔ میکسم گورکی نے 28 مارچ 1868 کو روسی ریاست نیزنی نوف میں جنم لیا۔ میکسم گورکی کا باپ ایک معمولی حیثیت کا آدمی تھا ، البتہ بعدازاں وہ دھیرے دھیرے جہاز راں کمپنیوں کا ایجنٹ بن گیا تھا۔
میکسم گورکی کی عمر فقط چار برس ہی تھی کہ جب اس کے باپ کا انتقال ہوگیا۔ چنانچہ اس کیفیت میں اس کی ماں اپنے کمسن بیٹے کو لے کر اپنے والد کے پاس چلی آئی۔ میکسم گورکی کا نانا جوکہ رنگ ریزی کا کام کرتا تھا کوئی مثالی آدمی نہ تھا بلکہ ایک بدمزاج و غصیلا آدمی تھا۔ بات بے بات دوسروں کی پٹائی کرنا ان سے گالم گلوچ کرنا گویا اس کی فطرت تھی۔ محدود آمدنی رکھنے والا میکسم گورکی کا نانا اپنی بیوہ بیٹی و معصوم نواسے کا مالی بوجھ برداشت نہ کرسکا۔ یہی باعث تھا کہ اس کی ماں نے دوسری شادی کرلی اور پیا گھر رخصت ہوگئی جب کہ کمسن میکسم گورکی کو اس کے نانا نے قلیل عرصے بعد گھر سے بے دخل کردیا۔
کمسن میکسم گورکی نے کم عمری کے باوجود ایک جوتا فروش کی دکان پر ملازمت کرلی۔ جہاں آنے والے گاہک غلیظ گفتگو کرتے جوکہ میکسم گورکی کو سخت ناگوار گزرتی، چنانچہ قلیل عرصے کے بعد اس نے جوتا فروش کی ملازمت چھوڑ کر ایک جہاز پر باورچی خانے میں برتن دھونے کی نوکری کرلی چنانچہ جہاز کے باورچی نے جوکہ بھلا آدمی تھا میکسم گورکی کو تھوڑا پڑھنا لکھنا سکھا دیا۔ پھر جہاز کے باورچی خانے کی ملازمت چھوڑ کر اس نے ایک رقاصہ کے ہاں ملازمت کرلی جس کے گھر میں شعر و شاعری و موسیقی کی خوب محفلیں جمتیں اسی رقاصہ خاتون کے ہاں ہی میکسم گورکی کو علم و ادب سے لگاؤ ہوگیا۔
اب اس نے شہر کازان کے ایک اسکول میں حصول تعلیم کے لیے داخلہ لینے کی کوشش کی مگر اس وقت اس کی عمر 15 برس ہوچکی تھی۔ زائد عمر کے باعث اسے اسکول میں داخلہ نہ مل سکا۔ یہ ذکر ہے 1883 کا۔ میکسم گورکی رقاصہ خاتون کے ہاں ملازمت چھوڑ چکا تھا۔ چنانچہ اپنے اخراجات پورے کرنے کیلیے اس نے ایک نان بائی کے پاس ملازمت اختیار کرلی۔ اس وقت جن لوگوں میں وہ رہتا تھا وہاں کا اردگرد کا ماحول ایسے لوگوں پر مشتمل تھا کہ غربت جہالت و دیگر مسائل جن کا مقدر بنادیا گیا تھا یہ ضرور ہوا کہ وہاں کے چند طالب علم اس کے دوست بن گئے جنھوں نے اسے مارکسزم سے روشناس کردیا۔
1887 کے لگ بھگ میکسم گورکی جنوبی و مشرقی روس میں آوارہ گردی کرتا رہا۔ البتہ 1890 میں اس نے ایک وکیل کے پاس ملازمت اختیار کرلی۔ یہ مقام تھا نووگورود۔ اس وکیل نے میکسم گورکی کے ادبی ذوق کو خوب بڑھاوا دیا چنانچہ 1892 تک وہ اس قابل ہوگیا کہ تخلیقی کام کرسکے۔ اسی برس اس کا اولین افسانہ شایع ہوا جب کہ مزید افسانوں کے جو مجموعے شایع ہوئے ان کی ترتیب کچھ یوں ہے۔ چلکاش 1895 میں، ہمسفر 1896 میں، مالوا 1897 میں شایع ہوئے البتہ اب اس کی شہرت روس سے نکل کر دیگر ممالک تک پھیل چکی تھی مگر اب میکسم گورکی نے اپنی رہائش بھی پیٹرز برگ میں اختیار کرلی تھی۔ پیٹرز برگ میں قیام کے دوران اس کے روابط ترقی پسندوں سے قائم ہوچکے تھے ۔
اب میکسم گورکی کی آمدنی بھی خاصی معقول ہوچکی تھی جس کا بیشتر حصہ وہ اپنے انقلابی ساتھیوں و نشرواشاعت پر خرچ کر ڈالتا انھی سرگرمیوں کے باعث اسے شہر بدر کردیا گیا اور نووگورد چلا گیا جب کہ 1902 میں وہ شاہی اکادمی کا رکن منتخب ہوگیا جس کے باعث سرکار نے یہ انتخاب ہی منسوخ کردیا۔ 1905 میں جب انقلاب کی تحریک جنم لے رہی تھی تو میکسم گورکی کو پابند سلاسل کردیا گیا۔ اس پر یورپ میں خاصا ردعمل ہوا جس کے باعث اسے روسی سرکار نے رہا کردیا۔ 1905 کے انقلاب میں اس نے بھرپور شرکت کی مگر یہ انقلاب کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکا تو میکسم گورکی فنستان سے ہوتا ہوا امریکا چلا گیا جہاں ادبی حلقوں میں اسے خاصی پذیرائی ملی مگر امریکیوں کی قدامت پرستی اسے اچھی نہ لگی جس پر میکسم گورکی نے ایک کتاب بھی لکھ ڈالی اور امریکا بھی چھوڑ کر وہ اطالوی جزیرے کیپری چلا گیا۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی صحت کے لیے یہ مقام مناسب رہے گا اسی کیپری جزیرے میں قیام کے دوران اس نے دو ناول لکھ ڈالے مگر اب اس کی تحریریں یکسانیت کا شکار ہوچکی تھیں، اسی کیفیت میں مزید دو ناول لکھے بچپن و زندگی کی شاہراہ پر یہ بہتر ناول تھے مگر میکسم گورکی کا ادبی قد نہ بڑھا سکے۔
البتہ 1906 میں میکسم گورکی کا لکھا گیا ناول ماں جب 1907 میں منظر عام پر آیا تو اس ناول نے دنیا بھر میں دھوم مچا دی۔ یہ ناول ماں سورموردہ میں یکم مئی 1902 میں ہونے والی ہڑتال کے پس منظر و اس ہڑتال کے بعد پیش آنے والے واقعات کو میکسم گورکی نے نہایت خوبصورت انداز میں تحریر کیا ہے۔یہ ایک سدا بہار ناول ہے اور اپنی اشاعت کے ایک سو دس برس بعد بھی اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ ہرنیا دن ناول ماں کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہی لے کر آتا ہے ہمارے خیال میں اگر میکسم گورکی اپنی پوری زندگی میں فقط ایک ہی ناول ماں ہی لکھ دیتا تو بھی دنیا بھر میں یہ ناول اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے کافی تھا یوں بھی ادب کے میزان پر ایک جانب ناول ماں رکھا جائے اور دوسری جانب میکسم گورکی کی تمام تصنیفات تو ادبی معیار کے اعتبار سے ناول ماں والا پلڑا جھک جائے گا۔ میکسم گورکی کی دیگر تصنیفات یہ ہیں چلکاش، ہمسفر، مالوا ، انسان کی پیدائش، اطالوی کہانیاں، بچپن کی زندگی کی شاہراہ پر میری تعلیم گاہیں قابل ذکر ہیں ۔
البتہ 1917 کے روسی انقلاب کی جدوجہد میں بھی میکسم گورکی نے بھرپور حصہ لیا اگرچہ اس وقت اس کی عمر 49 برس تھی چنانچہ یہ انقلاب لینن کی قیادت میں کامیاب ہوا مگر دنیا بھر میں شہرت حاصل کرنے والا ایک ادیب صحافی ڈرامہ نگار انقلابی شاعر و افسانہ نگار میکسم گورکی 28 جون 1936 کو موت کے سامنے ہار گیا اور اس جہان فانی سے کوچ کرگیا۔ آج 82 ویں برسی کے موقع پر ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ جب تک دنیا میں عدم مساوات ہے غربت ہے جہالت ہے بے روزگاری ہے بھوک ہے عام لوگوں کے لیے علاج کی ناکافی سہولیات ہیں ہماری جدوجہد جاری رہے گی ۔