امریکا ایران سے مذاکرات نہیں چاہتا
امریکا ایران۔سرد جنگ کا خاتمہ ایک بھیانک جنگ پر ہوگا یا عالمی امن پر یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
GILGIT:
ایک عام فرد کی نجی زندگی میںجھانکنے والے اتنے بہت سے ادارے اور افراد ہیں کہ نجی اور ذاتی کا تصور ہی ہوا ہوتا جا رہا ہے۔کمپیوٹر،نیٹ، موبائل،فون، سمِ کارڈز غرض کتنی ہی چیزیں ہیں جو فرد کی آزادی اور نجی زندگی کو ناممکن بنا دیتی ہیں۔یہی کچھ معاملہ سرکاری رازوںکے طشت از بام ہونے کا بھی ہے۔آج جس تواتُر اور جس تیز رفتاری سے سرکاری راز افشا ہوتے ہیں غالباً اِس سے قبل ایسا نہ تھا۔ایسے ہی افشا ہونے والے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سرکاری ''ڈپلومیٹک کیبلز''کا ایک حوالہ ''کائرو ریویو اوف گلوبل افئیر'' میں شایع ہوا ہے۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سابقہ اہل کار اور نیشنل ایرانین کائونسل کے ڈائریکٹر برائے تحقیق رضا مارشی کا یہ ایک نہایت ہی عمدہ مضمون ہے۔مضمون کا عنوان ہے''ڈِیلِنگ وِدھ ایران''۔ مضمون میں مارشی نے امریکا ایران مذاکرات کو موضوع بنایا ہے۔ جوںجوں امریکا ایران تنائو بڑھ رہا ہے اور جنگ کے بادل قریب منڈلاتے محسوس ہو رہے ہیں عالمی ذرایع ابلاغ میں یہ موضوع اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک جانب تو اسرائیل سمیت بہت سے ''ہاک''اور جنگوں سے ُمنفعت بٹورنے والے ہیں ،وہ چاہتے ہیںکہ نہ صرف یہ کہ یہ جنگ بھی چھڑجائے بلکہ جنگیں ہوتی ہی رہیں۔ دوسری جانب کچھ ہم جیسے بھی ہیں جو جنگوں کو کسی بھی طور کسی کے لیے بھی فائدہ مند نہیں سمجھتے۔اُن کا رجحان لامحالہ مذاکرات کی جانب ہوا کرتا ہے۔
لیکن امریکی 'ڈپلومیٹک کیبلز''کے حوالے سے مارشی کے مضمون میں اہم نکتہ اُٹھایا گیا ہے۔مارشی ''کیبلز'' کے حوالے سے لکھتے ہیںکہ ایرانی مذاکرات کے حوالے سے اوباما انتظامیہ کے اعلیٰ ترین عہدے داران کبھی بھی مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کے قائل نہیں رہے۔یہ ایک بڑا انکشاف ہے۔اِسی حوالے سے بات کرتے ہوئے مارشی متذکرہ مضمون میں تین سوالات اُٹھاتے ہیں۔جب امریکی مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کے قائل ہی نہیں تو وہ ایران سے مذاکرات کے لیے اپنی بھر پور صلاحیتوں اور کاوشوں کو کسِ طرح بروئے ِکار لاسکتے ہیں؟امریکا ایران سے کس بنا پر یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اہم دفاعی اثاثوںکے تَرک پر یوں ہی تیار ہو جائے گا؟امریکا اب کِس بنا پر ایران سے متوقع ہے کہ وہ مذاکرات کے بارے میں غیر یقینی اور غیر سنجیدہ امریکی رویے کا راز فاش ہو جانے کے باوجود بھی مذاکرات میں سنجیدہ رہے گا؟
مارشی نے اپنی دانست میں اہم انکشاف کیا ہے اور اہم سوالات اُٹھائے ہیں لیکن اِس بحث میں ہمارا وہی پرانا سوال ہے اور ہم اُسی پر اصرار کریں گے جو ہم نے اپنے گزشتہ برس کے14نومبر کے کالم''باراک اوباما کا نیا وعدہ'' میں اُٹھایا تھا کہ ''کیا امریکی تاریخ اور امریکی دانش جنگ مخالف ہے؟''آج بھی ہمارا یہ ہی سوال ہے، کیا وہ مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں؟
فرید زکریا معروف صحافی ہیں۔آج کل ''ٹائم میگزین'' کے لیے بھی لکھ رہے ہیں۔اگرچہ میں فکری لحاظ سے اُن سے کبھی بھی متفق نہیں رہا لیکن وہ میرے پسندیدہ لکھنے والوں میں ہیں ۔خاص کر جمہوریت پر اُن کی کتاب''دی فیو چر اوف فریڈم''کو میں بعض حوالوں سے بہت ہی وقیع سمجھتا ہوں۔فرید زکریا نے 21جنوری کے ٹائم میگزین میںامریکا ایران مذاکرات پر بات کی ہے۔آپ مارشی کے متذکرہ بالا مضمون پر بات کرتے ہوئے مارشی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ''دو مواقعے پر ایسا ہوا کہ ایران اساسی طور پرامریکا کی دی گئی حدود سے متفق تھا لیکن واشنگٹن نے عین وقت پراپنا موقف تبدیل کر لیا۔''
فرید زکریا اپنے مضمون میں ایک اور حوالہ بھی دیتے ہیں۔ یہ کولمبیا یونی ورسٹی کے دانش ور ''رابرٹ جروِسْ'' ہیں ۔ آپ کا مضمون(جس کی زکریا بہت تعریف کرتے ہیں)''فارن افئیر''میں شایع ہوا ہے۔زکریا کے مطابق جروس کہتے ہیں کہ امریکا کی تہدیدی سفارت کاری کبھی بھی کام نہیں آئی۔پناما میں(1989)میں،عراق(1990) ، سربیا (1998)، افغانستان (2001)، اور عراق (دوبارہ2003) میں۔واشنگٹن نے اقتصادی پابندیاں، دبائو، دھمکی غرض ہر ہر حربہ آزما لیا لیکن وہ کچھ بھی حاصل نہ کر سکے۔شمالی کوریا کو بھی دھمکیاں دی گئیں لیکن سب کچھ لاحاصل ہی رہا۔جروِسْ کہتے ہیں کہ امریکا کو یہ کھیل ختم کر کے دانش مندی اور بھرپور انداز میں مذاکرات پر آنا چاہیے۔
لیکن سوال پھر وہی ہے۔امریکا مذاکرات چاہتا ہے؟اُس نے تو ہمیشہ اقوامِ عالم کو حکم دینے کی کوشش کی ہے۔یہ جو تاثر پایا جاتا ہے کہ امریکا ایران سے مذاکرات میں کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہا ، یہ کیوں کر زائل ہوگا؟مذاکرات نتیجہ خیز ہونے کی صورت میںامریکا اور اقوامِ متحدہ کو تمام پابندیاں ختم کرنا ہوں گی۔ایران کو کم زور کرنے اور حکومت تبدیل کرنے کی تمام کوششوں کو تج دینا ہوگا، تعلقات معمول پر لانے ہوں گے۔ کیا امریکا اِس سب کے لیے تیارہو سکتا ہے؟
رضا مارشی اور ''ٹریٹا پارسی'' ہفنگٹن پوسٹ کے بلاگ پر گزشتہ برس لکھتے ہیںکہ ایران پر حملے کے حامیوں سے صحافیوں کو چھ سوال ضرور کرنے چاہیے ہیں۔1۔گزشتہ تین دہائیوں سے ایران میں امریکی سفارت کا وجود نہیں، زیادہ تر معلومات کاذریعہ جاسوسی کا نظام ہے۔عراق کے معاملے میں ہم اِس ذریعے کا حال دیکھ ہی چکے ہیں۔اب ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں امریکی اداروں اور جاسوسی نظام کی اثابت پر کِس طرح تکیہ کیا جاسکتا ہے؟2۔ایرانی عوام جنگ کے معاملے کو اور عائد کی جانے والی پابندیوں کو کِس طرح دیکھتے ہیں؟کیا یہ ہی طریقہ ہے ایرانی عوام کے دِل جیتنے کا؟3۔ایرانی جوہری پروگرام کا عامل کیاہے؟کیا ایرانی خود کو غیر محفوظ اور خطرات میں گھرا سمجھ کر جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتے ہیں؟اگر وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیںتو ہم اِس احساس کوکیسے ختم کرسکتے ہیں؟
یورپ امریکا کا موجودہ رویہ ایران کے جوہری اسلحے کی ضرورت کے احساس کو بڑھاوا دینے والا ہے یا کم کرنے والا؟ 4۔امریکا کے پاس ہزاروں جوہری ہتھیار ہیںاور اسرائیل کے پاس سیکڑوں۔ امریکا نے گزشتہ تین دہائیوں سے ایران کو جوہری اسلحے سازی سے کامیابی سے روک رکھا ہے۔اب اچانک یہ حکمتِ عملی ناکام کسِ طرح ہو سکتی ہے؟5۔ امریکی عسکری قیادت یہ سمجھتی ہے کہ اسرائیل کے پاس وہ صلاحیت نہیں کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات کو کامیابی سے نشانہ بنا سکے۔اسرائیلی حکومت اور امریکی عسکری قیادت کے مابین اس موضوع پربہ ظاہر شدید اختلافات،کشیدگی اور الزامات ہیں،اِس تندی کے پیچھے اصل عوامل کیا ہیں؟6۔کانگریس کی ریسرچ سروس کے مطابق عراقی جنگ آٹھ سو ارب ڈالر سے بھی زیادہ مہنگی پڑی ہے۔اب بھی ہر برس سو ارب ڈالر کا خرچہ ہورہا ہے۔آٹھ فی صد کی شرحِ بے روزگاری،بیل آئوٹ، قرض وغیرہ کو بھی ذہن رکھیں۔ ایران سے جنگ کے لیے رقم کہاں سے مہیا ہو گی؟
یہ اہم سوالات ہیں۔ہمارا کہنا ہے کہ بلا شبہ امریکا کی فوج وقت کی،انسانی تاریخ کی مضبوط ، منظم اور تاریخ کے مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس ہے۔امریکی فوج کی جس قدر خوبیاں گنوائی جائیں یقیناً کم ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی محکمہ ئِ دفاع کی جانب سے جاری اعدادو شمار کے مطابق2012کے دوران امریکی فوج کے 349جوانوں نے خودکشی کی۔گویا ہر پچیس گھنٹے بعد ایک امریکی فوجی نے خود کو ہلاک کیا۔پینٹا گون کا کہنا ہے کہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ خودکشی کرنیوالے فوجیوں کی تعداد لڑائی کے دوران ہلاک ہونے والوں سے بڑھ گئی ہو۔پینیٹیا کیمطابق امریکی فوجیوں میں خودکشی کا رجحان وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے۔کیا ایسی فوج کو کسی نئی جنگ میں جھونک دینا درست ہوگا؟
امریکا ایران سرد جنگ کے خاتمے کا وقت قریب آن لگا ہے۔سرد جنگ کا خاتمہ ایک بھیانک جنگ پر ہوگا یا عالمی امن پر یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔اِس فیصلے کا حیرت انگیز ترین پہلو یہ ہے کہ یہ ''سپر'' فیصلہ صرف ایک فریق کو کرنا ہے۔
ایک عام فرد کی نجی زندگی میںجھانکنے والے اتنے بہت سے ادارے اور افراد ہیں کہ نجی اور ذاتی کا تصور ہی ہوا ہوتا جا رہا ہے۔کمپیوٹر،نیٹ، موبائل،فون، سمِ کارڈز غرض کتنی ہی چیزیں ہیں جو فرد کی آزادی اور نجی زندگی کو ناممکن بنا دیتی ہیں۔یہی کچھ معاملہ سرکاری رازوںکے طشت از بام ہونے کا بھی ہے۔آج جس تواتُر اور جس تیز رفتاری سے سرکاری راز افشا ہوتے ہیں غالباً اِس سے قبل ایسا نہ تھا۔ایسے ہی افشا ہونے والے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سرکاری ''ڈپلومیٹک کیبلز''کا ایک حوالہ ''کائرو ریویو اوف گلوبل افئیر'' میں شایع ہوا ہے۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سابقہ اہل کار اور نیشنل ایرانین کائونسل کے ڈائریکٹر برائے تحقیق رضا مارشی کا یہ ایک نہایت ہی عمدہ مضمون ہے۔مضمون کا عنوان ہے''ڈِیلِنگ وِدھ ایران''۔ مضمون میں مارشی نے امریکا ایران مذاکرات کو موضوع بنایا ہے۔ جوںجوں امریکا ایران تنائو بڑھ رہا ہے اور جنگ کے بادل قریب منڈلاتے محسوس ہو رہے ہیں عالمی ذرایع ابلاغ میں یہ موضوع اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک جانب تو اسرائیل سمیت بہت سے ''ہاک''اور جنگوں سے ُمنفعت بٹورنے والے ہیں ،وہ چاہتے ہیںکہ نہ صرف یہ کہ یہ جنگ بھی چھڑجائے بلکہ جنگیں ہوتی ہی رہیں۔ دوسری جانب کچھ ہم جیسے بھی ہیں جو جنگوں کو کسی بھی طور کسی کے لیے بھی فائدہ مند نہیں سمجھتے۔اُن کا رجحان لامحالہ مذاکرات کی جانب ہوا کرتا ہے۔
لیکن امریکی 'ڈپلومیٹک کیبلز''کے حوالے سے مارشی کے مضمون میں اہم نکتہ اُٹھایا گیا ہے۔مارشی ''کیبلز'' کے حوالے سے لکھتے ہیںکہ ایرانی مذاکرات کے حوالے سے اوباما انتظامیہ کے اعلیٰ ترین عہدے داران کبھی بھی مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کے قائل نہیں رہے۔یہ ایک بڑا انکشاف ہے۔اِسی حوالے سے بات کرتے ہوئے مارشی متذکرہ مضمون میں تین سوالات اُٹھاتے ہیں۔جب امریکی مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کے قائل ہی نہیں تو وہ ایران سے مذاکرات کے لیے اپنی بھر پور صلاحیتوں اور کاوشوں کو کسِ طرح بروئے ِکار لاسکتے ہیں؟امریکا ایران سے کس بنا پر یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اہم دفاعی اثاثوںکے تَرک پر یوں ہی تیار ہو جائے گا؟امریکا اب کِس بنا پر ایران سے متوقع ہے کہ وہ مذاکرات کے بارے میں غیر یقینی اور غیر سنجیدہ امریکی رویے کا راز فاش ہو جانے کے باوجود بھی مذاکرات میں سنجیدہ رہے گا؟
مارشی نے اپنی دانست میں اہم انکشاف کیا ہے اور اہم سوالات اُٹھائے ہیں لیکن اِس بحث میں ہمارا وہی پرانا سوال ہے اور ہم اُسی پر اصرار کریں گے جو ہم نے اپنے گزشتہ برس کے14نومبر کے کالم''باراک اوباما کا نیا وعدہ'' میں اُٹھایا تھا کہ ''کیا امریکی تاریخ اور امریکی دانش جنگ مخالف ہے؟''آج بھی ہمارا یہ ہی سوال ہے، کیا وہ مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں؟
فرید زکریا معروف صحافی ہیں۔آج کل ''ٹائم میگزین'' کے لیے بھی لکھ رہے ہیں۔اگرچہ میں فکری لحاظ سے اُن سے کبھی بھی متفق نہیں رہا لیکن وہ میرے پسندیدہ لکھنے والوں میں ہیں ۔خاص کر جمہوریت پر اُن کی کتاب''دی فیو چر اوف فریڈم''کو میں بعض حوالوں سے بہت ہی وقیع سمجھتا ہوں۔فرید زکریا نے 21جنوری کے ٹائم میگزین میںامریکا ایران مذاکرات پر بات کی ہے۔آپ مارشی کے متذکرہ بالا مضمون پر بات کرتے ہوئے مارشی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ''دو مواقعے پر ایسا ہوا کہ ایران اساسی طور پرامریکا کی دی گئی حدود سے متفق تھا لیکن واشنگٹن نے عین وقت پراپنا موقف تبدیل کر لیا۔''
فرید زکریا اپنے مضمون میں ایک اور حوالہ بھی دیتے ہیں۔ یہ کولمبیا یونی ورسٹی کے دانش ور ''رابرٹ جروِسْ'' ہیں ۔ آپ کا مضمون(جس کی زکریا بہت تعریف کرتے ہیں)''فارن افئیر''میں شایع ہوا ہے۔زکریا کے مطابق جروس کہتے ہیں کہ امریکا کی تہدیدی سفارت کاری کبھی بھی کام نہیں آئی۔پناما میں(1989)میں،عراق(1990) ، سربیا (1998)، افغانستان (2001)، اور عراق (دوبارہ2003) میں۔واشنگٹن نے اقتصادی پابندیاں، دبائو، دھمکی غرض ہر ہر حربہ آزما لیا لیکن وہ کچھ بھی حاصل نہ کر سکے۔شمالی کوریا کو بھی دھمکیاں دی گئیں لیکن سب کچھ لاحاصل ہی رہا۔جروِسْ کہتے ہیں کہ امریکا کو یہ کھیل ختم کر کے دانش مندی اور بھرپور انداز میں مذاکرات پر آنا چاہیے۔
لیکن سوال پھر وہی ہے۔امریکا مذاکرات چاہتا ہے؟اُس نے تو ہمیشہ اقوامِ عالم کو حکم دینے کی کوشش کی ہے۔یہ جو تاثر پایا جاتا ہے کہ امریکا ایران سے مذاکرات میں کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہا ، یہ کیوں کر زائل ہوگا؟مذاکرات نتیجہ خیز ہونے کی صورت میںامریکا اور اقوامِ متحدہ کو تمام پابندیاں ختم کرنا ہوں گی۔ایران کو کم زور کرنے اور حکومت تبدیل کرنے کی تمام کوششوں کو تج دینا ہوگا، تعلقات معمول پر لانے ہوں گے۔ کیا امریکا اِس سب کے لیے تیارہو سکتا ہے؟
رضا مارشی اور ''ٹریٹا پارسی'' ہفنگٹن پوسٹ کے بلاگ پر گزشتہ برس لکھتے ہیںکہ ایران پر حملے کے حامیوں سے صحافیوں کو چھ سوال ضرور کرنے چاہیے ہیں۔1۔گزشتہ تین دہائیوں سے ایران میں امریکی سفارت کا وجود نہیں، زیادہ تر معلومات کاذریعہ جاسوسی کا نظام ہے۔عراق کے معاملے میں ہم اِس ذریعے کا حال دیکھ ہی چکے ہیں۔اب ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں امریکی اداروں اور جاسوسی نظام کی اثابت پر کِس طرح تکیہ کیا جاسکتا ہے؟2۔ایرانی عوام جنگ کے معاملے کو اور عائد کی جانے والی پابندیوں کو کِس طرح دیکھتے ہیں؟کیا یہ ہی طریقہ ہے ایرانی عوام کے دِل جیتنے کا؟3۔ایرانی جوہری پروگرام کا عامل کیاہے؟کیا ایرانی خود کو غیر محفوظ اور خطرات میں گھرا سمجھ کر جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتے ہیں؟اگر وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیںتو ہم اِس احساس کوکیسے ختم کرسکتے ہیں؟
یورپ امریکا کا موجودہ رویہ ایران کے جوہری اسلحے کی ضرورت کے احساس کو بڑھاوا دینے والا ہے یا کم کرنے والا؟ 4۔امریکا کے پاس ہزاروں جوہری ہتھیار ہیںاور اسرائیل کے پاس سیکڑوں۔ امریکا نے گزشتہ تین دہائیوں سے ایران کو جوہری اسلحے سازی سے کامیابی سے روک رکھا ہے۔اب اچانک یہ حکمتِ عملی ناکام کسِ طرح ہو سکتی ہے؟5۔ امریکی عسکری قیادت یہ سمجھتی ہے کہ اسرائیل کے پاس وہ صلاحیت نہیں کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات کو کامیابی سے نشانہ بنا سکے۔اسرائیلی حکومت اور امریکی عسکری قیادت کے مابین اس موضوع پربہ ظاہر شدید اختلافات،کشیدگی اور الزامات ہیں،اِس تندی کے پیچھے اصل عوامل کیا ہیں؟6۔کانگریس کی ریسرچ سروس کے مطابق عراقی جنگ آٹھ سو ارب ڈالر سے بھی زیادہ مہنگی پڑی ہے۔اب بھی ہر برس سو ارب ڈالر کا خرچہ ہورہا ہے۔آٹھ فی صد کی شرحِ بے روزگاری،بیل آئوٹ، قرض وغیرہ کو بھی ذہن رکھیں۔ ایران سے جنگ کے لیے رقم کہاں سے مہیا ہو گی؟
یہ اہم سوالات ہیں۔ہمارا کہنا ہے کہ بلا شبہ امریکا کی فوج وقت کی،انسانی تاریخ کی مضبوط ، منظم اور تاریخ کے مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس ہے۔امریکی فوج کی جس قدر خوبیاں گنوائی جائیں یقیناً کم ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی محکمہ ئِ دفاع کی جانب سے جاری اعدادو شمار کے مطابق2012کے دوران امریکی فوج کے 349جوانوں نے خودکشی کی۔گویا ہر پچیس گھنٹے بعد ایک امریکی فوجی نے خود کو ہلاک کیا۔پینٹا گون کا کہنا ہے کہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ خودکشی کرنیوالے فوجیوں کی تعداد لڑائی کے دوران ہلاک ہونے والوں سے بڑھ گئی ہو۔پینیٹیا کیمطابق امریکی فوجیوں میں خودکشی کا رجحان وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے۔کیا ایسی فوج کو کسی نئی جنگ میں جھونک دینا درست ہوگا؟
امریکا ایران سرد جنگ کے خاتمے کا وقت قریب آن لگا ہے۔سرد جنگ کا خاتمہ ایک بھیانک جنگ پر ہوگا یا عالمی امن پر یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔اِس فیصلے کا حیرت انگیز ترین پہلو یہ ہے کہ یہ ''سپر'' فیصلہ صرف ایک فریق کو کرنا ہے۔