عیدالفطر
ﷲ کی وحدانیت اور مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اخوت اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہیں۔
عیدکے حقیقی معنی خوشی اور مسرت و انبساط کے ہیں۔ عید در اصل نعمت صیام کے حصول پر ایک شکرانہ ہے۔ جس طرح ہفتہ بھر کی نمازوں کا شکرانہ جمعے کی عید میں رکھا گیا ہے۔ اسی طرح مہینہ بھر کے روزوں کا شکرانہ افطارکی عید میں رکھا گیا ہے۔ عید کو عید اس لیے کہتے ہیں کہ وہ عود کرکے ہر سال آتی ہے۔ عودکا اطلاق دیگر تہواروں اور ایام پر بھی ہوسکتا ہے۔ اسی لیے اس عود کو فرحت و مسرت کے ساتھ مشروط کردیا گیا۔ خوشی اور مسرت کی کیفیت جو اس تہوار میں پائی جاتی ہے وہ کسی اور تہوار میں نہیں۔
ہدایہ کے بعض حواشی میں آتا ہے کہ عیدکو عید کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس دن باری تعالیٰ نے روزے داروں کو اجرت دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس طرح عید کو ''وعدہ'' سے ماخوذ ماننا پڑتا ہے۔ علمائے کرام بطور دلیل یہ حدیث پیش کرتے ہیں ''عید الفطر کی شب باری تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ اس مزدور کی اجرت کیا ہے جس نے اپنی مزدوری پوری کرلی؟ تو فرشتے عرض کرتے ہیں کہ مزدور کی اجرت کا کامل اور مکمل ہونا ہے۔ یعنی ایسی اجرت کہ جو مزدور کو مطمئن کردے اس پر وہ ارشاد فرماتا ہے کہ پھر گواہ ہو جاؤکہ میں نے مزدوروں کو ان کی اجرت دے دی یعنی روزے داروں کو بخش دیا''
ہجرت کے بعد جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ دو مخصوص دن تفریح کیا کرتے تھے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ دو روز کیا ہیں؟ اہل مدینہ نے عرض کیا۔ ''یا رسول اﷲؐ! زمانہ جاہلیت کے وقت ہم ان دنوں میں کھیل کود اور تفریح کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا ''اے اہل یثرب! اﷲ تعالیٰ نے تم کو ان دونوں کی بجائے ان سے بہت اعلیٰ و ارفع دن عید الفطر اور عید الاضحی عطا کیے ہیں'' اور فرمایا کہ جب عید کا دن ہوتا ہے تو فرشتے عید گاہ کے راستے میں انتظارکرتے ہیں اور پکارتے ہیں ''اے مسلمانوں کے گروہ! چلو اپنے رب کریم کی طرف جو احسان کرتا ہے بھلائی کے ساتھ اور اجر عطا فرماتا ہے اور تم کو رات کو عبادت کرنے کا حکم دیا گیا، پس تم نے روزے رکھے اور اپنے رب کریم کی اطاعت کی۔ اب تم انعام حاصل کرو اور جب نمازی عید کی نماز سے فارغ ہوجاتے ہیں تو ملائکہ اعلان کرتے ہیں ''آگاہ ہوجاؤ۔ بے شک تمہارے رب نے تمہیں اجر عطا فرمایا اور تم آئے اپنے گھرکی طرف کامیاب ہوکر''
عید صرف ایک رسمی تہوار نہیں بلکہ ایک عبادت ہے۔ دین داری میں دنیا داری ہے۔ اپنی خوشیوں کے ساتھ دوسروں کی خوشیوں کا سامان کرنا ہی عید کا حقیقی مقصد ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں وہ واقعہ یاد رکھنا چاہیے جب حضور اکرمؐ صحابہ کرامؓ کے ساتھ نمازِ عید ادا کرنے کے بعد واپس لوٹ رہے تھے۔ آپؐ نے دیکھا کہ بہت سے بچے عید کی خوشی میں کھیل کود رہے ہیں لیکن ایک بچہ ان سب سے الگ غم کی تصویر بنا اداس بیٹھا ہے۔ آپؐ نے اس بچے کو دیکھا اور اس کے قریب تشریف لے گئے۔ شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا کہ بیٹے کیوں رو رہے ہو۔ اس لڑکے نے جواب دیا۔ میں سایہ پدری سے محروم ہوں۔ میرے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ بچے کے اس جواب کو سن کر آپؐ کی آنکھیں پرنم ہوگئیں۔
آپؐ نے فرمایا میرے والد بھی بچپن ہی میں انتقال کر گئے تھے۔ آج سے میں تمہارا باپ ہوں۔ آپؐ اسے اپنے ساتھ گھر لائے۔ اچھا سا لباس پہنایا۔ وہ بچہ اچھے کپڑے پہن کر باہر نکلا تو لوگوں نے پوچھا کہ یہ سب کہاں سے آیا تو اس نے جواب دیا کہ آج سے میرے سرپرست حضور اکرمؐ ہیں۔ ہم سب کو رسول اکرمؐ کے اصول کو اپناتے ہوئے یتیموں، بیواؤں، غریبوں اور مسکینوں کا بھی خیال لازمی رکھنا چاہیے جس کے بغیر عید کا حقیقی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ جو بندگانِ خدا کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ہیں۔ خدا ان پر مہربان ہوتا ہے۔ خدمت خلق، عید الفطر کی روح رواں ہے۔ اس کے بغیر عید کا تصور ایسا ہے جیسا کہ پھول بغیر خوشبو کے جسم بغیر روح کے۔
ﷲ کی وحدانیت اور مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اخوت اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہیں۔ اسلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی تعلیمات کو عملی شکل میں پیش کرتا ہے۔ عید الفطر کا روح پرور اجتماع اس کا عملی مظہر ہے۔ اپنے تو اپنے، غیر بھی اس حقیقت کے معترف ہیں۔ یورپی مصنف سرٹامس آرنلڈ لکھتے ہیں:''اسلام میں مشترکہ عبادات کا ایک عظیم عمل ہے۔ یہاں افریقا کے مغربی ساحل کانیگرو، مشرق بعید کے چینی سے ملتا ہے، امیر اور مہذب ترک، ملایا کے بعید ترین حصے سے آنے والے غیر مہذب جزیرے کے رہنے والے اپنے (مسلمان) بھائی کو پہچانتا ہے وہ عیدیں مناتے ہیں، نمازی کسی بھی رنگ و نسل اور مرتبے کا ہو یا اس کا ماضی کیسا ہی کیوں نہ ہو، اسے اسلامی برادری میں قبول کرلیا جاتا ہے اور وہ مساوی درجہ پاتا ہے۔ اسلام ایک زبردست سیاسی قوت ہے جیسے جیسے کرۂ ارض کے فاصلے سمٹتے جائیںگے ویسے ویسے اس قوت کا اثر زیادہ محسوس ہونے لگے گا۔''
قرآن حکیم کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ دیگر اقوام بھی عید منایا کرتی تھیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوم بھی خوشی (عید) منایا کرتی تھی اور شہر سے باہر کھلے میدان میں تین دن تک میلہ لگا کرتا تھا۔جہاں آفاق میں گم ہوجانا، خوشی کی انتہا ہوتی تھی۔ اسی طرح حضرت موسیٰؑ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوم بھی ایک مخصوص دن عید منایا کرتی تھی جس کو قرآن نے ''یوم الزینۃ'' کے نام سے تعبیر فرمایا ہے۔ ہر قوم کا خوشی منانے کا دن ہے۔ جیساآپؐ نے فرمایا ''ہر قوم کے لیے عید ہوتی ہے اور عیدالفطر ہماری عید ہے۔''
عید کی نماز کی دو رکعات نہ صرف اس عنایت الٰہی کا شکرانہ ہے کہ اﷲ جل شانہ نے ماہ رمضان کے پورے روزے رکھنے کی توفیق عنایت فرمائی بلکہ اس ماہ لاثانی نسخہ کیمیا قرآن کریم کی صورت میں نازل فرمایا۔ اس نعمت عظمیٰ پر مسرت و شادمانی اور شکر خداوندی کا اظہار بھی ہے گویا یہ یوم جشن نزول قرآن ہے اور یوم تشکر بھی۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں بقول علامہ اقبال:
عید آزاداں منانے کی توفیق عطا فرمائے اور عید محکوماں سے بچائے۔ (آمین)
ہدایہ کے بعض حواشی میں آتا ہے کہ عیدکو عید کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس دن باری تعالیٰ نے روزے داروں کو اجرت دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس طرح عید کو ''وعدہ'' سے ماخوذ ماننا پڑتا ہے۔ علمائے کرام بطور دلیل یہ حدیث پیش کرتے ہیں ''عید الفطر کی شب باری تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ اس مزدور کی اجرت کیا ہے جس نے اپنی مزدوری پوری کرلی؟ تو فرشتے عرض کرتے ہیں کہ مزدور کی اجرت کا کامل اور مکمل ہونا ہے۔ یعنی ایسی اجرت کہ جو مزدور کو مطمئن کردے اس پر وہ ارشاد فرماتا ہے کہ پھر گواہ ہو جاؤکہ میں نے مزدوروں کو ان کی اجرت دے دی یعنی روزے داروں کو بخش دیا''
ہجرت کے بعد جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ دو مخصوص دن تفریح کیا کرتے تھے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ دو روز کیا ہیں؟ اہل مدینہ نے عرض کیا۔ ''یا رسول اﷲؐ! زمانہ جاہلیت کے وقت ہم ان دنوں میں کھیل کود اور تفریح کرتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا ''اے اہل یثرب! اﷲ تعالیٰ نے تم کو ان دونوں کی بجائے ان سے بہت اعلیٰ و ارفع دن عید الفطر اور عید الاضحی عطا کیے ہیں'' اور فرمایا کہ جب عید کا دن ہوتا ہے تو فرشتے عید گاہ کے راستے میں انتظارکرتے ہیں اور پکارتے ہیں ''اے مسلمانوں کے گروہ! چلو اپنے رب کریم کی طرف جو احسان کرتا ہے بھلائی کے ساتھ اور اجر عطا فرماتا ہے اور تم کو رات کو عبادت کرنے کا حکم دیا گیا، پس تم نے روزے رکھے اور اپنے رب کریم کی اطاعت کی۔ اب تم انعام حاصل کرو اور جب نمازی عید کی نماز سے فارغ ہوجاتے ہیں تو ملائکہ اعلان کرتے ہیں ''آگاہ ہوجاؤ۔ بے شک تمہارے رب نے تمہیں اجر عطا فرمایا اور تم آئے اپنے گھرکی طرف کامیاب ہوکر''
عید صرف ایک رسمی تہوار نہیں بلکہ ایک عبادت ہے۔ دین داری میں دنیا داری ہے۔ اپنی خوشیوں کے ساتھ دوسروں کی خوشیوں کا سامان کرنا ہی عید کا حقیقی مقصد ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں وہ واقعہ یاد رکھنا چاہیے جب حضور اکرمؐ صحابہ کرامؓ کے ساتھ نمازِ عید ادا کرنے کے بعد واپس لوٹ رہے تھے۔ آپؐ نے دیکھا کہ بہت سے بچے عید کی خوشی میں کھیل کود رہے ہیں لیکن ایک بچہ ان سب سے الگ غم کی تصویر بنا اداس بیٹھا ہے۔ آپؐ نے اس بچے کو دیکھا اور اس کے قریب تشریف لے گئے۔ شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا کہ بیٹے کیوں رو رہے ہو۔ اس لڑکے نے جواب دیا۔ میں سایہ پدری سے محروم ہوں۔ میرے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ بچے کے اس جواب کو سن کر آپؐ کی آنکھیں پرنم ہوگئیں۔
آپؐ نے فرمایا میرے والد بھی بچپن ہی میں انتقال کر گئے تھے۔ آج سے میں تمہارا باپ ہوں۔ آپؐ اسے اپنے ساتھ گھر لائے۔ اچھا سا لباس پہنایا۔ وہ بچہ اچھے کپڑے پہن کر باہر نکلا تو لوگوں نے پوچھا کہ یہ سب کہاں سے آیا تو اس نے جواب دیا کہ آج سے میرے سرپرست حضور اکرمؐ ہیں۔ ہم سب کو رسول اکرمؐ کے اصول کو اپناتے ہوئے یتیموں، بیواؤں، غریبوں اور مسکینوں کا بھی خیال لازمی رکھنا چاہیے جس کے بغیر عید کا حقیقی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ جو بندگانِ خدا کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ہیں۔ خدا ان پر مہربان ہوتا ہے۔ خدمت خلق، عید الفطر کی روح رواں ہے۔ اس کے بغیر عید کا تصور ایسا ہے جیسا کہ پھول بغیر خوشبو کے جسم بغیر روح کے۔
ﷲ کی وحدانیت اور مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اخوت اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہیں۔ اسلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی تعلیمات کو عملی شکل میں پیش کرتا ہے۔ عید الفطر کا روح پرور اجتماع اس کا عملی مظہر ہے۔ اپنے تو اپنے، غیر بھی اس حقیقت کے معترف ہیں۔ یورپی مصنف سرٹامس آرنلڈ لکھتے ہیں:''اسلام میں مشترکہ عبادات کا ایک عظیم عمل ہے۔ یہاں افریقا کے مغربی ساحل کانیگرو، مشرق بعید کے چینی سے ملتا ہے، امیر اور مہذب ترک، ملایا کے بعید ترین حصے سے آنے والے غیر مہذب جزیرے کے رہنے والے اپنے (مسلمان) بھائی کو پہچانتا ہے وہ عیدیں مناتے ہیں، نمازی کسی بھی رنگ و نسل اور مرتبے کا ہو یا اس کا ماضی کیسا ہی کیوں نہ ہو، اسے اسلامی برادری میں قبول کرلیا جاتا ہے اور وہ مساوی درجہ پاتا ہے۔ اسلام ایک زبردست سیاسی قوت ہے جیسے جیسے کرۂ ارض کے فاصلے سمٹتے جائیںگے ویسے ویسے اس قوت کا اثر زیادہ محسوس ہونے لگے گا۔''
قرآن حکیم کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ گزشتہ دیگر اقوام بھی عید منایا کرتی تھیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوم بھی خوشی (عید) منایا کرتی تھی اور شہر سے باہر کھلے میدان میں تین دن تک میلہ لگا کرتا تھا۔جہاں آفاق میں گم ہوجانا، خوشی کی انتہا ہوتی تھی۔ اسی طرح حضرت موسیٰؑ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوم بھی ایک مخصوص دن عید منایا کرتی تھی جس کو قرآن نے ''یوم الزینۃ'' کے نام سے تعبیر فرمایا ہے۔ ہر قوم کا خوشی منانے کا دن ہے۔ جیساآپؐ نے فرمایا ''ہر قوم کے لیے عید ہوتی ہے اور عیدالفطر ہماری عید ہے۔''
عید کی نماز کی دو رکعات نہ صرف اس عنایت الٰہی کا شکرانہ ہے کہ اﷲ جل شانہ نے ماہ رمضان کے پورے روزے رکھنے کی توفیق عنایت فرمائی بلکہ اس ماہ لاثانی نسخہ کیمیا قرآن کریم کی صورت میں نازل فرمایا۔ اس نعمت عظمیٰ پر مسرت و شادمانی اور شکر خداوندی کا اظہار بھی ہے گویا یہ یوم جشن نزول قرآن ہے اور یوم تشکر بھی۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں بقول علامہ اقبال:
عید آزاداں منانے کی توفیق عطا فرمائے اور عید محکوماں سے بچائے۔ (آمین)