رہنما کی ضرورت کیوں

انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جس کی رہبری کیلئے، رہبر خدا تعالیٰ نے خود بھیجے۔


Qasim Ali Shah February 04, 2013
اپنے کل کے حالات بدلنے کیلئے آج کے خیالات بدلیں۔ بہتر خیالات کا دوسرا نام ’’ہدایت‘‘ ہے۔فوٹو: فائل

ISLAMABAD: علامہ اقبالؒ ان کو اپنا پیر مانتے تھے۔ علامہ اقبالؒ کی ان سے ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی، کیونکہ پیر رومیؒ اقبال کے وقت سے سات سو سال پہلے وفات پاچکے تھے، لیکن اقبالؒ کو مولانا روم اور ان کی مثنوی سے محبت تھی، اقبال ان کو استاد اور مرشد کا درجہ دیتے تھے۔

یہ واقعہ مولانا روم کی زندگی کا سب سے زیادہ پڑھا، بولا اور سنا جانے والا واقعہ ہے۔ ایک دفعہ مولانا روم اپنی درسگاہ کے صحن میں شاگردوں کو درس دے رہے تھے۔ مولانا کے ساتھ ان کی اپنی لکھی ہوئی کتابوں کا ڈھیر موجود تھا اور پاس ہی ایک تالاب تھا، جو پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ ایک درویش پھٹے پرانے لباس میں وہاں آ نکلا۔ آتے ہی اس نے سوال کیا کہ یہ کتابیں، یہ درس اور یہ درسگاہ... یہ سب کیا ہے؟ مولانا نے نظر انداز کرتے ہوئے جواب دیا کہ ''بابا آپ کو کیا پتہ اور یہ پوچھنے کی کیا ضرورت کہ یہ سب کیا ہے۔''

درویش نے غصے میں کتابوں کے قیمتی نسخہ جات کو پانی کے بھرے تالاب میں پھینک دیا۔ ہاتھ سے لکھی کتابوں کی سیاہی پانی میں تحلیل ہونے لگی۔ مولانا کو سخت دکھ ہوا۔ اسی دکھ، تکلیف اور غصے کے ساتھ کہنے لگے کہ ''اے درویش تو نے یہ کیا کیا، میری عمر بھر کی کمائی ضایع کردی۔'' اس درویش نے مولانا کے غیظ و غضب کو دیکھا تو فوراً ہاتھ تالاب میں ڈالا اور بھرے پانی کے تالاب سے کتابیں نکالنا شروع کیں۔ درویش کتاب نکالتا، اسے چھاڑتا، کتاب سے گرد نکلتی اور وہ خشک کتاب مولانا کو واپس کرتا جاتا۔

تھوڑی دیر میں اس نے ساری کتابیں مولانا کے حوالے کیں اور چلتا بنا۔ مولانا نے درویش کو جاتا دیکھ کر سوال کیا، ''بابا یہ کیسے؟'' درویش نے کہا، ''تو درس، درسگاہ اور کتابوں کی بات کر، بھرے تالاب میں کتاب کو خشک رکھنے کے فن کی تجھے کیا خبر؟''یہ کہہ کر درویش چلا گیا اورمولانا نے درس، درسگاہ اور کتابوں کو وہیں چھوڑا اور درویش کا پیچھا شروع کردیا۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ مولانا نے اس درویش کا تین سال پیچھا کیا۔ تین سال بعد وہ درویش مولانا کومل گئے۔

مولانا نے ادب کے ساتھ ان کی شاگردی اختیار کی اور کہا، ''بابا جی، میں نے تین سال آپ کو تلاش کیا۔'' درویش بولے، ''بیٹا میں نے تجھے تیس سال میں تلاش کیا ہے، تو تین سال کی بات کررہا ہے۔'' دنیا اس درویش کو شمس تبریز کے نام سے جانتی ہے۔ اس سارے واقعے میں ایک بہت بڑا سبق چھپا ہوا ہے کہ سچی طلب اور تلاش آپ کو رہبر تک پہنچا دیتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ کہ رہبر آپ سے پہلے آپ کا انتظار کررہا ہوتا ہے، اگر آپ سچے ہیں۔



آج اگر ہم اردگرد نظر دوڑا کر دیکھیں تو لوگوں کی اکثریت ہمیں ناکام نظر آتی ہے۔ زندگی میں کوئی سمت نہیں، اگر سمت ہے بھی تو وہ درست نہیں کیونکہ کبھی کسی سے درست سمت پوچھی ہی نہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ لوگوں کو سچا اور مخلص رہبر کیوں نہیں ملتا؟ کیوں آج اندھے کو راستہ بتانے والا بھی اندھا ہے؟ کہاں گئے وہ لوگ جن کی نظر کرم سے تقدیر بدلتی تھی؟ راستہ بتانے والے کہاں چلے گئے؟ کیا یہ سب کہانیاں ہیں یا ان میں کوئی سچ بھی چھپا ہے؟ آج کا موضوع ہر اس طالب علم کے لیے ہے، جو اپنے شاندار مستقبل کا خواب دیکھتا ہے اور وہ خواب صرف خواب ہی رہ جاتا ہے، حقیقت نہیں بنتا، کیونکہ اس کے خواب کو حقیقت میں بدلنے والا کوئی ''کیمیا گر'' نہیں ملتا۔ تو سوال یہ ہے کہ رہنما کیوں نہیں ملتا؟

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جس کی رہبری کیلئے، رہبر خدا تعالیٰ نے خود بھیجے۔ لیکن رہبر بھی تب رہبری کرسکتا ہے، جب انسان کی اپنی تلاش اور طلب سچی ہو۔ یہ احساس کہ ''مجھے بھی سیکھنے کی ضرورت ہے'' ''مجھے علم حاصل کرنا چاہیے'' اور ''میں ابھی بھی نہیں جانتا'' آپ کی طلب کو سچا کر دیتا ہے۔ انسان راستے بنانے والی مخلوق ہے، یہ راستے بتانے والی والی بھی مخلوق ہے۔ اگر آپ کی تلاش سچی ہو تو نہ صرف راستہ مل جاتا ہے بلکہ درست راستے کی نشاندہی بھی ہوجاتی ہے۔

آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ایم اے کرنے کے بعد اردو، انگلش اور فارسی تو سیکھ جاتے ہیں، لیکن زندگی کی اصل زبان اور زندگی کے اصل معانی کی خبر ہمیں نہیں ہوتی، کیونکہ ہم نے کبھی یہ ضرورت ہی محسوس نہیں کی ہوتی کہ ہمیں بھی سیکھنا چاہیے۔ ہمیں خود کو بھی جاننا ہے اور ہمیں اپنی جہالت بھی دور کرنی ہے۔ اصل جہالت یہ ہے کہ کسی نے کئی ایم اے کیے ہوں اور کسی ایک شعبے کا بھی وہ ماسٹر نہ ہو۔ اصل جہالت یہ ہے کہ ہمیں اپنے نقصان کا احساس بھی نہ ہو اور اپنے فائدے کی خبر بھی نہ ہو۔ یاد رکھیں ہمیں زندگی کے ہر شعبے کی بہتری کیلئے ایک رہنما اور استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔

پرانے وقتوں میں استاد دانش و حکمت کا مجموعہ تھا، وہ فزنس، کیمسٹری کے قوانین بھی جانتا تھا اور زندگی کے رازوں سے بھی اس کی واقفیت تھی۔ آج ڈگریاں دلانے اور امتحانات میں نمبر دلانے والے استاد رہ گئے اور طالب علم زندگی کے ہر امتحان میں فیل ہوجاتا ہے۔ آج درس گاہیں پڑھے لکھے جاہل پیدا کررہی ہیں۔ ان کو نہ اپنی خبر ہے اور نہ زمانے کی خبر۔ ڈگری کے چکر میں طالب علم کی طلب کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ یونیورسٹی سے نکلنے والا پڑھا لکھا کہلاتا ہے، لیکن نہ تو وہ ایک کامیاب انسان بنتا ہے کیونکہ اس کی شخصیت میں کامیابی حاصل کرنے کی تڑپ اور طلب مردہ ہوچکی ہوتی ہے اور نہ ہی اچھا پاکستانی، کیونکہ اگر استاد کی ترجیح میں پاکستان نہیں تو شاگرد کی ترجیح میں کہاں شامل ہوگا؟

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ہر دور میں سچی طلب والوں نے رہبر کو تلاش کرلیا۔ مسافر اور آوارہ گرد میں ایک بڑا فرق یہ ہوتا ہے کہ مسافر کی کوئی منزل ہوتی ہے اور آوارہ گرد کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ اس لیے مسافر کو رہنما اور رہبر کی ضرورت پیش آتی ہے۔ آوارہ گرد اس بات کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا کہ اسے راستہ پوچھنا چاہیے۔ تعلیم، اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے بعد مکمل ہوجاتی ہے، لیکن علم کا راستہ اور علم کی پیاس کبھی ختم نہیں ہونی چاہیے۔ آئیے عملی قدم اٹھائیں اور اپنی زندگی کے ہر اس شعبے اور پہلو کو بہتر کریں، جو تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس کیلئے آپ کو پانچ باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔

(1) سب سے پہلے اپنی زندگی کے مقصد کو واضح کریں۔ آپ کیا بننا چاہتے ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔ کس شناخت سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کو یہ علم نہیں کہ آپ کا مقصد حیات کیا ہے تو زندگی بوجھ بن جائے گی۔ ہم لوگ کسی گاڑی میں یہ دیکھے بغیر سوار نہیں ہوتے کہ یہ کہاں جارہی ہے۔ ہم سب سے پہلے پتا کرتے ہیں اس گاڑی نے جانا کہاں ہے، اس کی منزل کیا ہے اور اگر اس گاڑی کی منزل وہی ہو جہاں ہم نے جانا ہے تو ہم سوار ہوجاتے ہیں، لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ زندگی کے سفر کی منزل کا تعین آپ نے ابھی تک نہیں کیا۔ یاد رکھئے رہبر یا رہنما تلاش کرنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ پہلے آپ کو یہ پتا ہو کہ آپ نے بننا کیا ہے اور جانا کہاں ہے؟ راستہ بتانے والا اس کی مدد کرسکتا ہے، جو کسی خاص منزل یا ٹارگٹ پر پہنچنا چاہ رہا ہے۔

(2) اپنی شخصیت کے کمزور اور طاقت ور پہلوئوں کی لسٹ بنائیں۔ جس کو اپنی خامی کی خبر نہیں ہوتی، وہ اپنی اصلاح نہیں کرسکتا۔ تھوڑا سا غور کرنے سے اپنی خامیوں کی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ ممکن ہے آپ کو پتہ چلے کہ آپ میں اعتماد کی کمی ہے یا آپ کو اچھی بات چیت کرنی نہیں آتی یا آپ کا اخلاق اچھا نہیں ہے یا آپ کو غصہ جلدی آتا ہے یا آپ پلاننگ کرنا نہیں جانتے۔ جب آپ کو پتہ چل جائے کہ آپ کی خامیاں کیا ہیں تو ان خامیوں کو دور کرنے کیلئے کوئی بہتر استاد کی مدد لیں۔

اس کے بعد اپنی خوبیوں کو استعمال میں لانا شروع کریں۔ انھیں مزید نکھاریں۔ انھیں کام میں لائیں۔ ان لوگوں کی مدد لیں جو انہی خوبیوں کو کام میں لا رہے ہیں۔ ہم اپنی کتنی ہی خوبیوں اور صلاحیتوں کو کام میں نہیں لاتے اور ان سے نہ ہمیں فائدہ ہوتا ہے اور نہ دوسروں کو۔

(3) ان لوگوں کی لسٹ بنائیں جو آپ سے پہلے، آپ کے شعبے میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی دنیا میں موجود نہ ہو، لیکن ان کی بائیو گرافی (زندگی کے کارناموں کی کہانی) موجود ہو۔ اس کو پڑھیں۔ یاد رکھیں، اگر کوئی کامیاب ہوسکتا ہے تو آپ بھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔

کامیاب لوگوں کی لسٹ میں جو لوگ اس دنیا میں موجود ہیں ان سے رابطہ کریں۔ آج ابلاغ بہت آسان ہے۔ ہم اپنا پیغام فون و موبائل، ایس ایم ایس اور ای میل کے ذریعے پہنچا سکتے ہیں۔ اس سارے عمل میں ایک بات نہ بھولیے گا کہ ممکن ہے ان سب کامیاب لوگوں میں کچھ لوگ اچھے استاد نہ ہوں، کیونکہ بات سمجھانا اور سکھانا ہر کسی کو نہیں آتا۔ ہمیں جس شعبے میں رہنمائی چاہیے ہوتی ہے، اس کیلئے ایک بہتر استاد کافی ہوتا ہے۔

(4) آپ جس سے متاثر ہیں اور اس سے رہنمائی لینا چاہتے ہیں، اسے باقاعدہ طور پر ملیں اور اس کے سامنے اس بات کا اظہار کریں کہ آپ اس کی شاگردی میں آنا چاہتے ہیں۔ شرمائیں نہ کیونکہ اپنی زندگی سنوارنے کے لیے سیکھنا کوئی بری بات نہیں۔ جب آپ کسی کو رہنما مان لیں گے تو دل سے اس کا احترام کریں۔ ہمیشہ شکر گزار رہیں۔ ہوسکے تو اس کے کسی کام یا ٹاسک میں شامل ہوجائیں۔ اس کے مشن کا حصہ بن جائیں۔ اس طرح آپ زیادہ سیکھ سکتے ہیں۔ استاد یا رہبر کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔ یاد رکھیں انسان دوسروں کی نصیحتوں سے کم اور کردار سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے ایک اچھا استاد رول ماڈل ہوتا ہے۔ وہ خود مثال بن جاتا ہے۔ انسان کتاب سے زیادہ کسی کی صحبت میں زیادہ سیکھتا ہے۔ اچھا استاد شاگرد کے اندر چھپے ٹیلنٹ کو باہر نکال دیتا ہے۔ وہ خود شناسی کے عمل کو تیز کردیتا ہے اورجو خود کو جان جاتا ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔

(5) اگر آپ کو بہتر استاد نہ ملے تو اپنی ناکامیوں سے حاصل ہونے والے سبق کو اپنا مرشد مان لیں۔ ہم تجربات سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ بعض اوقات ناکامیاں، کامیابیوں سے زیادہ فائدہ مند ہوتی ہیں کیونکہ وہ ہمیں، وہ کچھ سکھا دیتی ہیں جو کسی کتاب میں بھی نہیں لکھا ہوتا۔ غلطی کرنا فطری عمل ہے کیونکہ فطرت غلطیوں سے سبق دیتی ہے۔ اس لیے ناکامیوں اور غلطیوں سے کبھی نہ گھبرائیں۔ جو تکلیف آپ کو اٹھانا پڑی، وہ درحقیقت وہ قیمت تھی جو آپ نے اس قیمتی سبق کو حاصل کرنے کیلئے ادا کی۔ اس لیے کہتے ہیں کہ تجربہ بذات خود بہت بڑا استاد ہے۔

یاد رکھیں، جو وقت ہم گزار رہے ہیں، اس کا دوسرا نام زندگی ہے۔ اس کو ضایع ہونے سے بچالیں۔ استاد و رہبر و مرشد اور رہنما آپ کے وقت کو ضایع ہونے سے بچالیتا ہے۔ وہ اس راستے سے پہلے ہی گزر چکا ہوتا ہے، جہاں سے آپ گزرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس راستے کی دشواریوں کو اچھی طرح جانتا ہے، اس لیے آپ کی انگلی پکڑ کر مشکل راستوں سے گزار دیتا ہے۔ استاد کھرا ہو تو کھوٹے سکے بھی چلا لیتا ہے۔ آج ہم سب دوست جو اپنے اپنے شعبے میں کامیاب ہوچکے ہیں، اکٹھے ہوکر یاد کرتے ہیں کہ ہم کتنے نالائق تھے، کتنے نااہل تھے، صرف استاد کی محبت اور شفقت نے ہماری زندگیوں کو سمت دے دی۔ میرے استاد واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے تھے کہ ''استاد اگر اہل ہے اور مخلص بھی ہے تو وہ ولی ہے۔''

آپ پہلے خود مخلص ہوں اور پھر کسی مخلص کی تلاش شروع کریں۔ نالائق ہونا کوئی مسئلہ نہیں، نااہل اور گمراہ ہونا کوئی بڑی بات نہیں، اگر آپ سچے ہیں اور مخلص ہیں کیونکہ اللہ کریم سچے اور خلوص والے شخص کو انعام سے ضرور نوازتا ہے، اور یہ انعام ایک اچھے استاد اور مرشد کی شکل میں ہوتا ہے۔ اپنی آج کی حالت دیکھیں، یقینا اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ حدیث شریف ہے کہ ''مومن کا آج کا دن گزرے کل سے بہتر ہوتا ہے۔'' آج آپ کی جو بھی حالت ہے، اپنے کل کو بدلنے کیلئے اپنی آج کی حالت کو بدلیں۔

اپنے کل کے حالات بدلنے کیلئے آج کے خیالات بدلیں۔ بہتر خیالات کا دوسرا نام ''ہدایت'' ہے۔ جس طرح رزق کا دانا، پانی نصیب میں لکھا ہوتا ہے، اسی طرح ہدایت کا دانا پانی بھی نصیب میں لکھا ہوتا ہے۔ یا یہ خود آپ تک آجاتا ہے یا تھوڑی سی کوشش سے اسے تلاش کرنا ہوتا ہے۔ اللہ کریم کسی قوم پر مہربان ہوتا ہے تو اسے اچھے لیڈرز اور رہنما عطا کرتا ہے اور جب کسی فرد پر مہربان ہوتا ہے تو اسے اچھا استاد عطا کرتا ہے۔ آپ جب دعا کیا کریں تو یہ دعا بھی کیا کریں کہ اللہ کریم آپ کو اچھے استاد عطا فرمائے۔

ہر شعبے کے اچھے لوگ قیمتی ہوتے ہیں، آپ اپنی زندگی کے ہر شعبے کیلئے استاد ڈھونڈیں۔ اپنی شخصیت کی بہتری کیلئے، اپنے کاروبار کو بڑھانے کیلئے، اپنی تعلیم اور فیلڈ کیلئے، روح اور روحانیت کیلئے، اپنے تعلقات کو بہتر کرنے کیلئے، اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کیلئے اور اپنے عظمت دریافت کرنے کیلئے۔ کبھی نہ بھولیے گا، جس طرح آپ کئی برسوں سے ایک اچھے استاد کا انتظار کررہے ہیں، اسی طرح کئی برسوں سے ایک اچھا استاد بھی آپ کا انتظار کررہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں