اونچی ہیل کا استعمال ذرا احتیاط سے

سروے کے مطابق اونچی ایڑی والے جوتے کم عمر لڑکیوں کی پڑھائی سے عدم توجہی کی وجہ بن سکتے ہیں،

مستقل اونچی ہیل نہ پہنیں اور جب پہنیں تو یہ خیال رہے کہ اس کا دورانیہ چار گھنٹوں سے زاید نہ ہو۔ فوٹو: فائل

ہمارے ہاں دراز قد کو ہمیشہ سے ہی خوب صورتی کی علامت سمجھا جاتا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ زیادہ تر خواتین اپنی بہو کے انتخاب کے لیے کسی لمبے قد کی دبلی پتلی لڑکی کا انتخاب کرتی ہیں۔

اسی چلن کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ لڑکیاں جن کے قد دراز نہیں، وہ اونچی ایڑی کے جوتوں کے ذریعے اپنی اس کمی کو پورا کرتی ہیں، لیکن اس کے علاوہ بھی ایسی چپلوں کا رواج اتنا عام ہوا کہ اب تو متناسب قد رکھنے والی خواتین اور لڑکیاں بھی اونچی ایڑی کی سینڈل پہنے بغیر کسی تقریب میں جانا پسند نہیں کرتیں۔ اس حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ اونچی ہیل پہن کر چلنے سے جسمانی چال میں ڈرامائی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔

سپاٹ جوتے پہننے والی خواتین کے مقابلے میں اونچی ایڑی کے جوتے پہن کر چلنے والی خواتین کی چال میں نسوانیت در آتی ہے، یعنی اونچی ہیل سے ان کی بدن بولی مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ زیادہ پر کشش دکھائی دیتی ہیں۔ اس طرح کچھ پہناوے ایسے ہیں جن کی دل کشی اونچی ہیل کے بغیر پھیکی پڑ جاتی ہے، جیسے ساڑھی، شرارے، غرارے وغیرہ۔ ایک وقت تھا کہ جب بغیر ہیل کے یا پلیٹ فارم ہیل کے جوتے لڑکیوں میں مقبو ل تھے، تاہم اس وقت بھی لڑکیوں کی بڑی تعداد اونچی ایڑی کے سینڈل کا استعمال کرتی تھی۔

آج کل بازار میں جدید اور نئے انداز کی'' اسٹائلش ٹو'' دستیاب ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ پہلے تو سینڈلوں اور چپلوں کی صرف اوپری سطح مینا کاری اور نگوں سے مرصع ہوتی تھی، تاہم آج کے جدید رواج کے مطابق ایڑیوں کی سجاوٹ اور دیدہ زیبی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، کہیں تو پتلی نازک ہیل لگی ہوتی ہے، جنہیں ''پوائنٹڈ ہیل'' کہا جاتا ہے، تو کہیں ایڑی پر کیا گیا باریک نگوں کا کام اپنی بہار دکھا رہا ہوتا ہے، کسی پر سینڈل کی ہیل سے نقرئی رنگ کی زنجیر منسلک ہے تو کوئی ہیل ایسی ہے، گویا شفاف شیشے سے بنی ہو۔ جدید طرز پر تیارکی گئی ہیل والی سینڈل ہر لباس کے ساتھ سج جاتی ہے، چاہے وہ آج کل شوق سے پہنا جانے والا روایتی چوڑی دار پائجامہ ہو یا جینز کرتا وغیرہ۔


اونچی ایڑی کے جوتے اور سینڈل پہننے والی خواتین اور لڑکیوں کو اس امر کا ادراک ہے کہ اونچی ہیل پہننے والی خواتین پراعتماد اور باوقار نظر آتی ہیں۔ تاہم کسی تقریب میں جاتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اونچی ایڑی کی سینڈل پہننا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، اس کے لیے پہلے تھوڑی مشق ضروری ہے، تاکہ بعد میں کسی ہزیمت سے بچا جا سکے۔

لڑکیوں میں اونچی ہیل مقبول ہونے کے پیچھے متعدد عوامل کار فرما ہیں۔ جن میں ذرایع ابلاغ، فلموں اور اشتہاروں پر دکھائے جانے والے مختلف کرداروں کے زیر استعمال جوتے صنف نازک کے لیے بہت متاثر کن ثابت ہوتے ہیں، اسی لیے ہر لڑکی ایسے جوتے پہننا پسند کرتی ہے۔

حال ہی میں اونچی ایڑی کے حوالے سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق اونچی ایڑی والے جوتے کم عمر لڑکیوں کی پڑھائی سے عدم توجہی کی وجہ بن سکتے ہیں، کیوں کہ ایسے فیشن ایبل جوتے پہننے کے بعد ان کی توجہ پڑھائی سے زیادہ بننے سنورنے پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف طبی ماہرین کا خیال ہے کہ زیادہ اونچی یا نامناسب سائز کی ایڑی والی جوتیاں پہننے والی خواتین ہڈیوں کے بھربھرے پن اور جوڑوں کے درد کا زیادہ شکار ہوتی ہیں، دراز قد دکھائی دینے کے زعم میں ہمارے گھٹنوں پر براہ راست دبائو پڑتا ہے اور ننگے پائوں یا سپاٹ چپلیں پہن کر چلنے والی لڑکیوں کے مقابلے میں پتلی اور لمبی ہیل کی سینڈل استعمال کرنے والی لڑکیوں کے گھٹنے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

اس ظاہری خوب صورتی سے ان کے پیر کی ہڈیوں پر بھی پڑتا ہے۔ اونچی ہیل کا طویل عرصے تک مسلسل استعمال آپ کے پیروں کی تکالیف کو بڑھا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ کمر کی تکلیف کا باعث بھی ہو سکتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق خواتین کو چاہیے کہ وہ جوتے خریدتے وقت صرف اس کی خوب صورتی کو مدنظر نہ رکھیں، بلکہ یہ بھی دیکھیں کہ بعد میں وہ ان کے پیروں اور گھٹنوں کے لیے باعث تکلیف تو نہیں بنیں گے، کیوں کہ انسان کا پورا جسم ایک منظم ڈھانچے کی شکل میں ہے اور اس کی ترتیب میں ذرا سا بھی فرق اس کی ساخت کو متاثر کر سکتا ہے، لہٰذا اونچی ہیل کے استعمال میں میانہ روی اختیار کریں۔

مستقل اونچی ہیل نہ پہنیں اور جب پہنیں تو یہ خیال رہے کہ اس کا دورانیہ چار گھنٹوں سے زاید نہ ہو۔ اگر مجبوری کی حالت میں زیادہ وقت کے لیے ہیل پہننی پڑے تو جوتے اتارنے کے بعد اپنی ایڑیوں کا مساج کرنا ہر گز نہ بھولیں۔ مستقل اونچی ہیل کے استعمال کے باعث اگر آپ اپنے گھٹنوں یا پیروں میں کوئی درد یا تکلیف محسوس کر رہی ہوں یا آپ کے چلنے پھرنے میں مشکل ہو رہی ہو تو اسے نظر انداز کرنے کے بہ جائے فوری طور پر کسی اچھے معالج سے رجوع کریں تاکہ بعد میں خدانخواستہ کسی بڑی تکلیف سے بچا جا سکے۔
Load Next Story