روایتی سیاست اورعوام
ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ ہم نے ملک کی ترقی کو پس پشت ڈال کراپنے مفادات کوآگے ر کھا
ملک بھر میں پچھلے دنوں کے دوران دہشتگردی کی وارداتیں اور رونماء حادثات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے ساتھ ماہ مقدس کے دوران بھی ناراض رہے ہیں، پاکستان کا قیام جو کہ ستائیس رمضان المبارک کوہوا تھا اس ماہ مقدس میں بھی ہم جارحیت کا شکار رہے ہیں۔ ملک میں امن کی صورتحال جوں ہی بہتری کی جانب گامزن ہونے لگتی ہے اس کو کسی کی نظر لگ جاتی ہے اور ہم پھر سے کسی سانحہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ سب لگتا ہے کہ ہمارے اعمال کی سزا ہے جو کہ ہمیں مل رہی ہے لیکن ہم اس کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔ حکمرانوں کی بد اعمالیوں کی سزا عوام بھگت رہے ہیں اور نہ جانے کب تک یہ عمل جاری رہے گا کہ حالات بہتری کے بجائے مسلسل ابتری کی جانب ہی جا رہے ہیں اور ہم روز بروز آگے کے بجائے پیچھے ہی چلے جا رہے ہیں اور ہم ان حالات کا سد باب کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
حکمرانوں کی اچھائیں عوام کے لیے سہولت بن جاتی ہیں اور اگر حکمرانوں کی جانب سے ریاست کے امور چلانے میں کوتاہیاں ہوں تو اس کا اثر عوام پر پڑتا ہے اور وہ براہ راست اس کی زد میں آجاتے ہیں۔
ملک میں امن و امان کی صورتحال ہو یا معاشی میدان میں عوام کی سہولت کے لیے کیے گئے اقدامات کا ذکر تو فی زمانہ ہماری حکومت اس میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے اور ملک کا کوئی بھی ادارہ صحیح ڈھنگ سے نہیں چل رہا اور ہر طرف سے شور شرابے کی آوازیں ہی سنائی دے رہی ہیں۔ یہ صورتحال کیوں پیدا ہو گئی ہے یا پیدا کر دی گئی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی شہرت تو اداروں میں بہتری لانے کی تھی اور میاں نواز شریف کی پارٹی کو پچھلے الیکشن میں ووٹ ان کی اسی قابلیت کو مدنظر رکھ کر عوام نے دیے تھے اور ان کوحکمرانی کے لیے منتخب کیا تھا۔
عوامی توقع یہ تھی کہ میاں صاحب حکومت میں آکر پیپلز پارٹی کے دور میںاداروں میں پیدا کیے گئے بگاڑ کو نہ صرف درست کریں گے بلکہ ان کو درست سمت میں گامزن کر دیں گے اور انھوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران عوام سے اس بات کا وعدہ بھی کیا تھا کہ ان کے پاس ملک کے ہر شعبے میں بہتری لانے کے لیے ایک مضبوط ٹیم موجود ہے اور وہ حکومت میں آنے کے بعد پہلے سو دنوں میں ملکی اداروں اور ملکی معیشت میں واضح بہتری لائیں گے جس کا مشاہدہ عوام خود کر سکیں گے اور ملک ایک بار پھر ماضی کے پیدا کیے گئے بگاڑ سے نکل آئے گا۔ لیکن کیا ہوا کہ حکومت پہلے سو دن تو کیا بلکہ اپنے اقتدار کے پہلے چار سال میں بھی اپنے اس دعویٰ کو ثابت کرنے میں ناکام رہی اور اس کو ہر محاذ پر مشکلات کا سامنا ہی رہا اور حالات بہتری کے بجائے مزید بگاڑ کا شکار ہوتے گئے اور ہمارے وزیر اعظم کو یہ کہنا پڑ گیا کہ ہم آتے تو پانچ سال کے لیے ہیں لیکن ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا اور یہ وقت گز ر جاتا ہے۔
نواز شریف کی موجودہ حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ توانائی کے بحران کا ہے جس میں وہ جزوی طور پر تو کامیاب نظر آتے ہیں لیکن اپنے دعوؤں کے برعکس وہ عوام کو بجلی فراہم کرنے میں ناکام رہے جس کا فائدہ ان کی اپوزیشن نے خوب اُٹھایا اور اپنی سیاست کو زندہ رکھا۔ تیل سے بجلی پیدا کرنے کے نئے کارخانوںکا آغاز آج سے کئی سال پہلے پیپلز پارٹی کے دور میں ہوا جب پاکستانی عوام اس طریقہ کار سے بجلی پیدا کرنے سے آشنا نہیں تھے وہ تو صرف آبی ذرایع کو ہی بجلی پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ لوگ اُس وقت یہ پوچھتے تھے کہ ہم تیل سے بجلی کیوںپیدا کر رہے ہیں کہ تیل تو ہمارے پاس ہے ہی نہیں اور ہم اس کو درآمد کر کے اپنی ضروریات پوری کر رہے ہیں اور اس سے پیدا کی گئی بجلی ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی اور وقت نے ثابت کیا کہ ہم نے اس طریقہ کار سے کسی حد تک اپنی بجلی کی ضرورت تو پوری کر لی لیکن اس کی جو قیمت ہم آج ا دا کر رہے ہیں وہ ہمارے بس سے باہر ہے۔
لیکن بعد میں آنے والے حکمرانوں نے بھی اس سے سبق نہیں سیکھا اور اس اہم قومی مسئلہ کوسیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور جو بجلی کچھ پیسوں کے حساب سے ہمیں فی یونٹ میسر ہونی تھی اس کو تیل درآمد کر کے ان تیل سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانوںکے ذریعے ہمیں کئی روپے فی یونٹ فراہم کی جا رہی ہے اور ہم اپنی قومی آمدنی کی ایک خطیر رقم ہر ماہ اس پر صرف کر رہے ہیں۔ توانائی کے اس اہم مسئلے کو سستے ذرایع سے حل کرنے کے بجائے موجودہ حکومت نے بھی ماضی کی حکومتوں والی روش ہی اپنائی اور تیل اور کوئلے سے بجلی پیدا کر نے کی کوشش کی ہے جن کے متعلق افسانے زبانِ زد عام ہیں اور جن آبی ڈیموں کی بات ہو رہی ہے وہ پچھلے کئی سال سے تعمیر کے مرحلے میں ہیں اور خدشات ہیں کہ اگلے کئی سال تک ان سے مطلوبہ پیداوار حاصل نہیں کی جا سکے گی۔ اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر موجودہ حکومت توانائی بحران پر قابو نہ پا سکی تو پھر اس کا اﷲ ہی حافظ ہے۔
توانائی کے اس بحران کی بنیاد آج سے کئی دہائیوں قبل کالاباغ ڈیم جیسے قدرتی آبی ڈیم کو متنارع بنا کر رکھ دی گئی تھی، ہر آنے والی حکومت نے اس پر اپنی سیاست ہی چمکائی لیکن عملاً اس کے پائیدار حل کے بارے میں کوئی قابل ذکر کام نہ کر سکی جس کا خمیازہ یہ بے بس عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کے بارے میں اس وقت کے واپڈا کے پشتون چیئر مین شمس الملک نے کہا تھا کہ یہ ڈیم ملک کی توانائی کی ضروریات کئی سال تک پوری کر سکتا ہے اور اس سے اُ س وقت کے صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کے ڈوبنے کا بھی کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن ہمارے سیاستدانوں نے اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے اس ڈیم کو اس طرح متنارع بنایا کہ آ ج تک یہ معاملہ حل ہونے میں نہیں آرہا۔
ایک دفعہ کالا باغ ڈیم کے معاملے پر ہمارے ماضی کی آمر حکمران پرویز مشرف جن سے سیاست میں مداخلت کے اختلاف کے باوجود میں ان کی ایک خوبی کامعترف ہوں کہ وہ کسی بھی معاملے کو اس خوبصورتی اور دلائل سے بیان کرتے تھے کہ ان کے سامعین یا مخالفین کے پاس اس کا جواب کم ہی ہوتا تھا، ان کے سندھ کے ایک دورے کے دوران بطور صحافی میں ان کے ساتھ تھا انھوں نے حیدر آباد میں مقامی صحافیوں کو کالا باغ ڈیم کے بارے میں ایک مدلل بریفنگ دی اور صوبہ سندھ کے لیے اس کے فوائد چن چن کر گنوائے اور سب کو لاجواب کر دیا لیکن جب ان کی بریفنگ ختم ہوئی تو ایک مقامی صحافی نے معاملہ یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ جنرل صاحب آپ کی تما م باتیں درست ہیں لیکن اس کے باجود ہمیں کالاباغ ڈیم منظور نہیں اور جنرل صاحب یہ جواب سن کروہاں سے واپس آگئے۔
ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ ہم نے ملک کی ترقی کو پس پشت ڈال کراپنے مفادات کوآگے ر کھا۔ اس سوچ کی وجہ سے ہم آج تک پاکستان کو ٹھیک نہیں کر سکے اور اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لی، کچھ ایسی ہی صورتحال آج کل بھی چل رہی ہے اور ہمارے حکمرانوں نے ملکی ترقی کے دعوے تو بہت کیے ہیں لیکن وہ ترقی کہیں نظر نہیں آ رہی۔ اور بدقسمتی تو یہ ہے کہ اپنے ووٹ بینک کو قائم رکھنے کے لیے ہر جماعت نے صوبے مخصوص کر رکھے ہیں اور ہر الیکشن میں عوام کو کبھی پنجابی پگ، کبھی سندھ کارڈ اور کبھی پشتونوں کی غیرت کو جگا کر اور ان کو فروعی اور گروہی مسئلوں میں الجھا کر ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں اور پھر ان کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن اب لگتا ہے کہ میڈیا نے عوامی شعور میں اضافہ کیا ہے اور ان کو ان کے اوپر مسلط حکمرانوں کے اصلی چہروں سے کسی حد تک روشناس کر ادیا ہے جس کے بعد اس بات کی توقع ہے کہ اگلے انتخابات میں ہمیں نئی قیادت دیکھنے کو ملے گی کیونکہ عوام اب روایتی سیاستدانوں کو پہچان گئے ہیں اور شایدوہ اب مزید بے وقوف بننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
حکمرانوں کی اچھائیں عوام کے لیے سہولت بن جاتی ہیں اور اگر حکمرانوں کی جانب سے ریاست کے امور چلانے میں کوتاہیاں ہوں تو اس کا اثر عوام پر پڑتا ہے اور وہ براہ راست اس کی زد میں آجاتے ہیں۔
ملک میں امن و امان کی صورتحال ہو یا معاشی میدان میں عوام کی سہولت کے لیے کیے گئے اقدامات کا ذکر تو فی زمانہ ہماری حکومت اس میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے اور ملک کا کوئی بھی ادارہ صحیح ڈھنگ سے نہیں چل رہا اور ہر طرف سے شور شرابے کی آوازیں ہی سنائی دے رہی ہیں۔ یہ صورتحال کیوں پیدا ہو گئی ہے یا پیدا کر دی گئی ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی شہرت تو اداروں میں بہتری لانے کی تھی اور میاں نواز شریف کی پارٹی کو پچھلے الیکشن میں ووٹ ان کی اسی قابلیت کو مدنظر رکھ کر عوام نے دیے تھے اور ان کوحکمرانی کے لیے منتخب کیا تھا۔
عوامی توقع یہ تھی کہ میاں صاحب حکومت میں آکر پیپلز پارٹی کے دور میںاداروں میں پیدا کیے گئے بگاڑ کو نہ صرف درست کریں گے بلکہ ان کو درست سمت میں گامزن کر دیں گے اور انھوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران عوام سے اس بات کا وعدہ بھی کیا تھا کہ ان کے پاس ملک کے ہر شعبے میں بہتری لانے کے لیے ایک مضبوط ٹیم موجود ہے اور وہ حکومت میں آنے کے بعد پہلے سو دنوں میں ملکی اداروں اور ملکی معیشت میں واضح بہتری لائیں گے جس کا مشاہدہ عوام خود کر سکیں گے اور ملک ایک بار پھر ماضی کے پیدا کیے گئے بگاڑ سے نکل آئے گا۔ لیکن کیا ہوا کہ حکومت پہلے سو دن تو کیا بلکہ اپنے اقتدار کے پہلے چار سال میں بھی اپنے اس دعویٰ کو ثابت کرنے میں ناکام رہی اور اس کو ہر محاذ پر مشکلات کا سامنا ہی رہا اور حالات بہتری کے بجائے مزید بگاڑ کا شکار ہوتے گئے اور ہمارے وزیر اعظم کو یہ کہنا پڑ گیا کہ ہم آتے تو پانچ سال کے لیے ہیں لیکن ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا اور یہ وقت گز ر جاتا ہے۔
نواز شریف کی موجودہ حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ توانائی کے بحران کا ہے جس میں وہ جزوی طور پر تو کامیاب نظر آتے ہیں لیکن اپنے دعوؤں کے برعکس وہ عوام کو بجلی فراہم کرنے میں ناکام رہے جس کا فائدہ ان کی اپوزیشن نے خوب اُٹھایا اور اپنی سیاست کو زندہ رکھا۔ تیل سے بجلی پیدا کرنے کے نئے کارخانوںکا آغاز آج سے کئی سال پہلے پیپلز پارٹی کے دور میں ہوا جب پاکستانی عوام اس طریقہ کار سے بجلی پیدا کرنے سے آشنا نہیں تھے وہ تو صرف آبی ذرایع کو ہی بجلی پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ لوگ اُس وقت یہ پوچھتے تھے کہ ہم تیل سے بجلی کیوںپیدا کر رہے ہیں کہ تیل تو ہمارے پاس ہے ہی نہیں اور ہم اس کو درآمد کر کے اپنی ضروریات پوری کر رہے ہیں اور اس سے پیدا کی گئی بجلی ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی اور وقت نے ثابت کیا کہ ہم نے اس طریقہ کار سے کسی حد تک اپنی بجلی کی ضرورت تو پوری کر لی لیکن اس کی جو قیمت ہم آج ا دا کر رہے ہیں وہ ہمارے بس سے باہر ہے۔
لیکن بعد میں آنے والے حکمرانوں نے بھی اس سے سبق نہیں سیکھا اور اس اہم قومی مسئلہ کوسیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور جو بجلی کچھ پیسوں کے حساب سے ہمیں فی یونٹ میسر ہونی تھی اس کو تیل درآمد کر کے ان تیل سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانوںکے ذریعے ہمیں کئی روپے فی یونٹ فراہم کی جا رہی ہے اور ہم اپنی قومی آمدنی کی ایک خطیر رقم ہر ماہ اس پر صرف کر رہے ہیں۔ توانائی کے اس اہم مسئلے کو سستے ذرایع سے حل کرنے کے بجائے موجودہ حکومت نے بھی ماضی کی حکومتوں والی روش ہی اپنائی اور تیل اور کوئلے سے بجلی پیدا کر نے کی کوشش کی ہے جن کے متعلق افسانے زبانِ زد عام ہیں اور جن آبی ڈیموں کی بات ہو رہی ہے وہ پچھلے کئی سال سے تعمیر کے مرحلے میں ہیں اور خدشات ہیں کہ اگلے کئی سال تک ان سے مطلوبہ پیداوار حاصل نہیں کی جا سکے گی۔ اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر موجودہ حکومت توانائی بحران پر قابو نہ پا سکی تو پھر اس کا اﷲ ہی حافظ ہے۔
توانائی کے اس بحران کی بنیاد آج سے کئی دہائیوں قبل کالاباغ ڈیم جیسے قدرتی آبی ڈیم کو متنارع بنا کر رکھ دی گئی تھی، ہر آنے والی حکومت نے اس پر اپنی سیاست ہی چمکائی لیکن عملاً اس کے پائیدار حل کے بارے میں کوئی قابل ذکر کام نہ کر سکی جس کا خمیازہ یہ بے بس عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کے بارے میں اس وقت کے واپڈا کے پشتون چیئر مین شمس الملک نے کہا تھا کہ یہ ڈیم ملک کی توانائی کی ضروریات کئی سال تک پوری کر سکتا ہے اور اس سے اُ س وقت کے صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کے ڈوبنے کا بھی کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن ہمارے سیاستدانوں نے اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے اس ڈیم کو اس طرح متنارع بنایا کہ آ ج تک یہ معاملہ حل ہونے میں نہیں آرہا۔
ایک دفعہ کالا باغ ڈیم کے معاملے پر ہمارے ماضی کی آمر حکمران پرویز مشرف جن سے سیاست میں مداخلت کے اختلاف کے باوجود میں ان کی ایک خوبی کامعترف ہوں کہ وہ کسی بھی معاملے کو اس خوبصورتی اور دلائل سے بیان کرتے تھے کہ ان کے سامعین یا مخالفین کے پاس اس کا جواب کم ہی ہوتا تھا، ان کے سندھ کے ایک دورے کے دوران بطور صحافی میں ان کے ساتھ تھا انھوں نے حیدر آباد میں مقامی صحافیوں کو کالا باغ ڈیم کے بارے میں ایک مدلل بریفنگ دی اور صوبہ سندھ کے لیے اس کے فوائد چن چن کر گنوائے اور سب کو لاجواب کر دیا لیکن جب ان کی بریفنگ ختم ہوئی تو ایک مقامی صحافی نے معاملہ یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ جنرل صاحب آپ کی تما م باتیں درست ہیں لیکن اس کے باجود ہمیں کالاباغ ڈیم منظور نہیں اور جنرل صاحب یہ جواب سن کروہاں سے واپس آگئے۔
ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ ہم نے ملک کی ترقی کو پس پشت ڈال کراپنے مفادات کوآگے ر کھا۔ اس سوچ کی وجہ سے ہم آج تک پاکستان کو ٹھیک نہیں کر سکے اور اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لی، کچھ ایسی ہی صورتحال آج کل بھی چل رہی ہے اور ہمارے حکمرانوں نے ملکی ترقی کے دعوے تو بہت کیے ہیں لیکن وہ ترقی کہیں نظر نہیں آ رہی۔ اور بدقسمتی تو یہ ہے کہ اپنے ووٹ بینک کو قائم رکھنے کے لیے ہر جماعت نے صوبے مخصوص کر رکھے ہیں اور ہر الیکشن میں عوام کو کبھی پنجابی پگ، کبھی سندھ کارڈ اور کبھی پشتونوں کی غیرت کو جگا کر اور ان کو فروعی اور گروہی مسئلوں میں الجھا کر ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں اور پھر ان کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن اب لگتا ہے کہ میڈیا نے عوامی شعور میں اضافہ کیا ہے اور ان کو ان کے اوپر مسلط حکمرانوں کے اصلی چہروں سے کسی حد تک روشناس کر ادیا ہے جس کے بعد اس بات کی توقع ہے کہ اگلے انتخابات میں ہمیں نئی قیادت دیکھنے کو ملے گی کیونکہ عوام اب روایتی سیاستدانوں کو پہچان گئے ہیں اور شایدوہ اب مزید بے وقوف بننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔