بلدیاتی اداروں کے لیے اچھی خبر

مقامی حکومتوں کو صوبائی حکومت کی طرف سے بجٹ میں مختص کی جانے والی رقوم پر زندہ رہنا ہوتا ہے

ayazbabar@gmail.com

خیبر پختونخوا میں مقامی حکومتوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ پشاورہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ تیل اورگیس پیدا کرنے والے ہر ضلع ، تحصیل میں پیٹرولیم سوشل ڈیویلپمنٹ کمیٹیاں قائم کرے۔ یہ کمیٹیاں ، تلاش کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے قابل ادائیگی آئل اینڈ گیس رائلٹی اور پیداواری بونس کے بارے میں فیصلہ کریں گی۔

یہ خیال سب سے پہلے میں نے مارچ 2005 میں این ڈبلیو ایف پی(اب خیبر پختونخوا) انویسٹمنٹ کانفرنس میں پیش کیا تھا اور تجویز دی تھی کہ تیل، گیس اورمعدنیات پر رائیلٹیز کا ایک خاطر خواہ حصہ اُن اضلاع کو دیا جانا چاہیے،جواس قدرتی دولت کو پیدا کرتے ہیں۔

میں نے اس کانفرنس کا اہتمام بورڈ آف انویسٹمنٹ اور صوبائی حکومت کے تعاون سے کیا تھا ۔ میں نے کانفرنس کے شروع ہی میںاپنا یہ خیال پیش کردیا تھا کہ رائیلٹیز میں سے ان اضلاع کو حصہ ملنا چاہیے، جہاں سے یہ قدرتی وسائل حاصل کیے جاتے ہیں۔اگلے روز ایک انگریزی اخبار نے علیحدہ آئٹم کے طور پر اس خبر کو شایع کیا۔ شوکت عزیز (اُس وقت کے وزیر اعظم)نے،جنھوں نے اس کانفرنس کا افتتاح کیا تھا،اس خیال کی تعریف کی مگر بعد میں انھوں نے مجھے بتایا کہ اس بارے میں صوبائی حکومتوں کو فیصلہ کرنا چاہیے کیونکہ کسی صوبے کی جتنی بھی رائلٹی ہوتی ہے ، وفاقی حکومت وہ ساری اسے ادا کردیتی ہے۔

جس اہم عنصر کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے، وہ یہ ہے کہ کانکنی، تیل اورگیس کی تلاش اور پیداوار، بندرگاہوں وغیرہ جیسے قدرتی وسائل سے جو ٹیکس اور رائیلٹیز وصول کی جاتی ہیں ، وہ اس دولت کے اصل مالکان تک نہیں پہنچ پاتیں۔ مرکز، تیل اورگیس کی پیداوار پر رائلٹی میں سے حصہ ادا کرتا ہے مگر صوبے اس میں سے ان اضلاع کو کچھ نہیں دیتے جہاں سے اس دولت کو نکالا جاتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اتفاق سے ایسے زیادہ تر وسائل ملک کے انتہائی پسماندہ علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان معدنیات اور تیل وگیس کے وسائل کے منافعے میںسے متعلقہ اضلاع کو اداراتی بنیادوں پر حصہ دینے کی بجائے وفاقی حکومت اور تلاش وپیداوار کی ذمے دارکمپنیاں علاقے کے با اثرافراد کوحفاظت کے نام پر رقم ادا کرتی ہیں۔

رائلٹیز اور بونس سے کمائی جانے والی رقم صوبائی حکومت کو چلی جاتی ہے جب کہ اُس ضلع، تحصیل کوجہاں سے ان وسائل کو نکالا جاتا ہے،کوئی زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔اگر اس رقم میں سے کچھ حصہ اُس علاقے کی مقامی حکومت کو بھی دیا جائے تو وہاں کے عوام تلاش اور پیداوارکا کام کرنے والی کمپنیوں کا خوش دلی سے ساتھ دیں گے۔ چنانچہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ ایک بہتر آغاز ہے اور دوسرے صوبوں کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیے۔

مقامی حکومتوں کے اختیارات غصب کرنے والوں کی طرف سے مخالفت میںیہ دلیل دی جاتی ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر محاصلات کو بلدیاتی حکومت پر نہیں چھوڑا جا سکتا ، کیونکہ ضلع اور تحصیل سطح کی قیادت اس رقم کو خورد برد کر سکتی ہے، یہ ایک غیر سنجیدہ دلیل ہے۔اس دلیل کو اسی صورت میں مانا جاسکتا ہے جب صوبائی حکومتیںخود بھی انتہائی شفاف اور لائق ہوں۔ میں نے احتیاطی تدبیر کے طور پر ایک بار یہ تجویز دی تھی کہ مقامی یا صوبائی حکومتوں کی طرف سے جب مختلف منصوبوں پرکام شروع کیا جائے تو ان تمام پراجیکٹس کے بنیادی حقائق پراجیکٹ کی سائٹ پر آویزاں کیے جانے چاہئیں،جن میں منصوبے کی لاگت اور مکمل ہونے کی تاریخ شامل ہو، تاکہ لوگ کسی تاخیر یا لاگت بڑھ جانے پرمتعلقہ حکام کو ذمے دار ٹھہرا سکیں۔ بدقسمتی سے میڈیا بھی جو ترقیاتی منصوبوں کی پیش رفت پرگہری نظر نہیں رکھتا، نگران کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔


کے پی کے ، کی حکومت کو چھوڑ کر باقی صوبے پراونشل فنانس کمیشنز کو اپ ڈیٹ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔قومی اور صوبائی سطح کے سیاست دان اپنے اپنے حلقے کی ترقی کے لیے صوابدیدی اختیارکے تحت رقوم کی تخصیص کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے نہ صرف بدعنوانی کا دروازہ کھلتا ہے بلکہ انھیں اپنے حلقوں میں طاقت بھی ملتی ہے۔ صوابدیدی فنڈز سے یہ لوگ جو اسکیمیں شروع کرتے ہیں بنیادی طور پر وہ مقامی حکومتوں کا کام ہے۔

پاکستان میں جمہوریت کے کمزور رہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کی بنیاد مضبوط کیے بغیر یہ ہوا میں معلق ہے۔ حکمران سیاسی جماعتیں نہ صرف بلدیاتی اداروں کے انتخابات کو ٹالنے کی کوشش کرتی رہی ہیں بلکہ جب انھیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے دباؤ کی وجہ سے مجبوراً ایسا کرنا پڑا تو انھوں نے ان اداروں کے انتظامی اور ریونیو پیدا کرنے کے اختیارات میں کمی کردی۔

مقامی حکومتوں کو صوبائی حکومت کی طرف سے بجٹ میں مختص کی جانے والی رقوم پر زندہ رہنا ہوتا ہے اور ان کے پاس اپنے طور پر محاصل پیدا کرنے کی بہت کم لچک ہے۔کراچی کے میئر مسلسل مزید وسائل کے لیے کہتے رہے ہیں کیونکہ وہ نئے ٹیکس نہیں لگا سکتے اور نہ پرانے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ صوبائی حکومت کی طرف سے وصول کیے جانے والے وہیکلز ٹیکس کی مثال لیجیے، جو آگے مقامی حکومت کے حوالے کیا جانا چاہیے جو ان گاڑیوں کو رواں دواں رکھنے کے لیے سڑکوں کے ڈھانچے کی دیکھ بھال کی ذمے دار ہے۔ 1990 کی دہائی میں ایک ممتاز اکاؤنٹینٹ کی طرف سے تجویز پیش کی گئی تھی جسے اس وقت کے وزیر خزانہ سندھ، حفیظ شیخ نے قبول کر لیا تھا، تجویز یہ تھی کہ وہیکلز ٹیکس کی بجائے پٹرولیم سیلزکی سطح پر یوزر چارج وصول کیا جائے۔اس میں یہ تجویزکیا گیا تھا کہ آئل مارکیٹ کمپنیاں شہروں کی مقامی حکومتوں کی طرف سے یہ یوزر چارج وصول کریں اور ماہانہ بنیاد پر براہ راست انھیں منتقل کریں۔ بدقسمتی سے سندھ حکومت نے اس معقول تجویزکو جس کا تعلق گاڑیوں کی طرف سے سڑکوں کے استعمال سے تھا، بالائے طاق رکھ دیا۔

عموماً بلوچستان اور خصوصاً گوادر کے عوام جب اپنے علاقے میں ترقیاتی اسکیموں کے بارے میں غم و غصے کا اظہار کرتے ہیںتو بھی یہی بات صادق آتی ہے۔صوبائی اور قومی حکومت ان کی مدد کر رہی ہے ۔ مقامی آبادی کو جب بھی کھل کر بات کرنے کا موقع ملتا ہے وہ اپنے غم وغصے کا اظہارکرتے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں میں ان کے مفاد کو شامل کر کے اس غم غصے کے جائز اسباب کو دور کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر صوبوں کی بندرگاہوں سے تمام اشیا اور خدمات پر5 فیصد میونسپل ٹیکس عائد کرنا چاہیے۔

اس قسم کے اقدامات کے نتیجے میں بہتر تبدیلی آئے گی، سخت رویہ رکھنے والے مقامی لوگ خوش دلی کا مظاہرہ کریں گے اور اپنے اپنے علاقے میں سرمایہ کاری کی دعوت دینے کے لیے اضلاع کے درمیان مقابلہ ہوگا۔یہ کوئی بہت مشکل بات نہیں ہے ہم بہت سے ترقی پذیر جمہوری ممالک میں یہ دیکھ چکے ہیں کہ مقامی حکومتیں اپنے علاقے میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ انھیں بہتر آمدنی حاصل ہو اور روزگار کے مزید مواقعے پیدا ہوں۔

مضبوط بلدیاتی ادارے جمہوریت کی بنیاد کو مستحکم کریں گے کیونکہ اس طرح نظام میں بنیادی سطح پر لوگوں کا اسٹیک ہو گا۔فوجی حکومتیں صرف اپنی بندوق کی طاقت پر زندہ نہیں رہیں، بلکہ انھوں نے عوام تک رسائی کے لیے بلدیاتی ادارے بھی قائم کیے۔تمام جمہوریت پسند وفاقی اکائیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ خود مختاری پر یقین رکھتے ہیں، مگر وہ اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ فوجی حکومت صوبائی ڈھانچے کو چھوڑ کربراہ راست مقامی حکومتوں تک پہنچے۔
Load Next Story