لندن کا فنس بری پارک حملہ
مغرب اور عالم اسلام میں انتہا پسند عناصر کیا عوام کو باہم لڑانے کے اپنے ایجنڈے میں کامیاب ہو سکیں گے…خصوصی رپورٹ
یہ 18 جون کی بات ہے، لندن کے علاقے، فنس بری پارک (Finsbury Park)میں واقع مسجد سے سیکڑوں مسلمان تراویح پڑھ کر نکلنے لگے۔ وہ فٹ پاتھ پر چلتے باتیں کرتے اپنے گھروں کی جانب گامزن تھے کہ اچانک ایک سفید وین ان پر چڑھ دوڑی۔ فٹ پاتھ پر گامزن لوگوں میں ہلچل مچ گئی۔ وین نے بارہ افراد کو نشانہ بنا ڈالا۔ سبھی مسلمان تھے۔ ان میں سے ایک،بنگلہ دیشی نژاد مکرم علی موقع پر ہی چل بسے، بقیہ شدید زخمی ہوئے۔یوں وہ ہنستے بستے لوگ دیکھتے ہی دیکھتے مصائب میں گھر گئے جنھوں نے نفرت کے بطن سے جنم لیا تھا۔
اس خوفناک واقعے کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ حملہ آور وین سے ایک سفید فام نکلا اور بھاگنے کی کوشش کرنے لگا لیکن وہاں موجود لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور مارنے پیٹنے لگے۔ وہ بار بار کہہ رہا تھا ''میں سب مسلمانوں کو مارڈالوں گا... یہ لندن برج کا بدلہ ہے۔'' ممکن تھا کہ طیش میں آئے مسلمان اس سفید فام کو مار مار کر ادھ موا کردیتے، امام مسجد نے بڑے تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے اسے بچالیا۔ اس دوران پولیس پہنچ گئی اور حملہ آور کو حراست میں لے لیا گیا۔ بعدازاں اس کی شناخت 47 سالہ ڈیرن اوسبورن (Darren Osborne)کے نام سے ہوئی۔
پولیس کی تفتیش کے مطابق ڈیرن ایک غصیلا، تیز مزاج اور نشئی آدمی ہے۔ 17 جون کو مدہوش جانے پر ایک شراب خانے سے اسے نکالاگیا تھا۔ وہ تب مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا ''میں انہیں نقصان پہنچا کر رہوں گا۔'' ڈیرن کے گھریلو حالات بھی خوشگوار نہیں تھے۔
ڈیرن کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کی چھان بین سے انکشاف ہوا کہ وہ انتہا پسند عیسائی گروہوں کی ویب سائٹوں پر بکثرت جاتا ہے۔ ان میں ''برٹن فرسٹ''(Britain First) نامی برطانوی سیاسی جماعت کی ویب سائٹ بھی شامل تھی۔یہ اسلام مخالف پارٹی ہے۔ اس پارٹی کا منشور یہ ہے کہ پچھلے ایک ہزار سال کی طرح عیسائیت کو دوبارہ برطانیہ کا سرکاری و قومی مذہب بنایا جائے۔
جیسے ہی فنس بری پارک حملے کی خبر پوری دنیا میں پھیلی، امریکا و برطانیہ میں سفید فاموں کے انتہا پسند گروہ (white suprematist ) ویڈیوز اور پوسٹیں سوشل میڈیا میں اپ لوڈ کرنے لگے۔ انہوں نے ڈیرن اوسبورن کو ہیرو قرار دیا اور برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسے بہادری کا تمغہ دیا جائے۔ ان پوسٹوں کا انتخاب درج ذیل ہے تاکہ انتہا پسند سفید فاموں کی ذہنیت اجاگر ہوسکے:
٭... شکر ہے کہ اب برطانوی بھی جاگ اٹھے ہیں اور ایک دلیر مرد نے مسلمانوں کو نشانہ بنا ڈالا۔
٭...مجھے امید ہے کہ فنس بری پارک حملہ اسلام کے خلاف شروع ہونے والی عالمی جنگ کی پہلی گولی ثابت ہوگا۔ تیسری دنیا کے حملہ آور اپنا مذہب مغرب پر تھوپنا چاہتے ہیں۔
٭... یہ تاریخ ساز واقعہ ہے۔ ہماری حکومتیں ناکام ہوچکیں، اب مسلمانوں کے خلاف ہم عوام ہی کو اٹھنا ہوگا۔
٭٭
واضح رہے، یہ پچھلے تین ماہ کے دوران لندن میںسامنے آنے والا تیسرا انوکھا واقعہ ہے کہ دہشت گردوں نے فٹ پاتھ پر چلتے لوگوں پر گاڑیاں چڑھا دیں۔ 23 مارچ کو انگریز نو مسلم، خالد مسعود نے علاقہ ویسٹ منٹر میں اپنی کار سے چھ پیدل چلتے مرد و زن مار ڈالے۔ پھر 3 جون کو داعش سے وابستہ تین جنگجوؤں نے لندن برج میں اپنی وین لوگوں پر چڑھا دی اور آٹھ افراد مار دیئے۔ اب یہ تیسرا واقعہ پیش آیا ہے۔ 22 مئی کو داعش ہی نے ایک امریکی گلوکارہ کے کنسرٹ میں بھی خودکش حملہ کرایا تھا جس میں 22 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
ان پے در پے واقعات کے بعد برطانوی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کو زیر بحث لے آیا۔ خاص طور پر انتہا پسندانہ تنظیموں اور پارٹیوں کی ویب سائٹوں اور سوشل میڈیا میں سبھی انگریز و مغربی افراد مسلمانوں کو جنگجو، لڑاکے اور دہشت گرد قرار دینے لگے۔ یہ عیاں ہے کہ ڈیرن اس پروپیگنڈے سے اتنا زیادہ متاثر ہوا کہ اس نے بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا۔ وہ ذہنی طور پر پہلے ہی پراگندہ طبع انسان تھا، لہٰذا انتہا پسندی کے بطن سے جنم لینے والی نفرت و دشمنی کا نشانہ بن گیا۔
مجرموں کے ظلم کا بے گناہوں سے بدلہ لینا ایک نہایت خطرناک رجحان ہے جو پوری دنیا کا امن خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ لیکن انتہا پسند افراد اسی خوفناک ماحول میں پلتے بڑھتے ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب،نسل اور رنگ سے ہو۔ اسی لیے ان کی بھر پور سعی ہوتی ہے کہ حریفکو کسی بھی طرح نقصان پہنچایا جائے تاکہ وہ بھی جواب دے اور مقابلے کا ماحول گرم ہو سکے،بدلے کی آگ بھڑک جائے۔ تاہم عالم اسلام اور دنیائے مغرب میں انتہا پسندی کے جنم لینے اور پنپنے کی وجوہ مختلف ہیں۔
برطانیہ، سپین، فرانس، پرتگال وغیرہ جب جنگی قوتیں بن گئیں، تو انہوں نے کئی اسلامی ممالک پر قبضہ کیا اور وہاں کے قیمتی وسائل لوٹ لیے۔ جب بادل نخواستہ یہ استعماری قوتیںرخصت ہوئیں، تو انہوں نے دانستہ اقتدار ایسے طبقات کو دے ڈالا جو ان کے مفادات کی دیکھ بھال کرسکے۔ اسلامی ممالک میں جس دلیر حکمران نے استعماری قوتوں کو للکارا، اسے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ شکری قوتلی (شام)، محمد مصدق (ایران)، لیاقت علی خان (پاکستان)، سکار نو (انڈونیشیا) اور کسی حد تک ذوالفقار علی بھٹو (پاکستان) ایسے مسلم حکمرانوں کی نمایاں مثالیں ہیں جنھوں نے مغربی سپر پاورز کو چیلنج کیا تو اپنے اقتدار بلکہ بعض اوقات جان سے چلے گئے۔
سترہویں تا بیسویں صدی کئی اسلامی ممالک میں عموماً مذہبی رہنماؤں نے مغربی استعماری قوتوں کا مسلم مقابلہ کیا۔ لیکن یہ مذہبی رہنما مغربی فوج کو نشانہ بناتے تھے... ایسے واقعات آٹے میں نمک برابر ہیں کہ کسی جہادی اسلامی تنظیم نے نہتے و بے گناہ مغربی شہریوں پر حملہ کردیا۔ وجہ یہ کہ اسلام میں غیر مسلح غیر مسلم شہریوں کو قتل کرنے کی ممانعت ہے۔
ہندوستان کی جنگ آزادی 1857ء کے دوران ناخواندہ اور اجڈ مسلمانوں نے انگریز عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو بھی تہہ تیغ کر ڈالا تھا ۔مگر کٹر شخصیات کو چھوڑ کر تمام ہندوستانی مذہبی رہنماؤں نے اس فعل کی مذمت کی اور اسے غیر اسلامی قرار دیا۔ اواخر بیسویں صدی میں اس انقلابی تبدیلی نے جنم لیا کہ مغرب سے نبرد آزما جنگجو اسلامی تنظیمیں خصوصاً القاعدہ غیر مسلم شہریوں پر حملہ بھی جائز سمجھنے لگیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اسلامی ممالک پر حملہ آور ہر یورپی ملک کا ہر شہری ہمارا ٹارگٹ ہے، چاہے وہ غیر مسلح ہی ہو۔ گویا ان تنظیموں نے جنگ و جدل کے حوالے سے واضح اسلامی احکامات کو پس پشت ڈال دیا اور یوں راہ اسلام سے ہٹ گئیں۔
آنے والے وقت میں اسلامی جنگجو تنظیموں کے نظریات میں شدت آتی گئی اور ان سے اتفاق نہ کرنے والے مسلمان بھی واجب القتل قرار پائے۔ یہ تنظیمیں اسلام کو دنیا میں بزور پھیلانا چاہتی اور اپنے کارکنوں کو ہی حقیقی مسلمان قرار دیتی ہیں۔
دنیائے مغرب میں پنپنے والی تقریباً تمام انتہا پسند سفید فام تنظیموں کے نظریات مذہب سے زیادہ قوم پرستی اور نسل پرستی کے گرد گھومتے ہیں۔ یہ غیر ملکیوں خصوصاً مسلمانوں کے سخت خلاف ہیں اور انہیں اپنی تہذیب و تمدن، ثقافت اور مذہب کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہ سفید فام نسل کو دنیا کی اعلیٰ ترین نسل قرار دیتے ہیں۔ ایسے انتہا پسند سفید فاموں کی بڑی تعداد امریکا، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک میں آباد ہے۔
واقعہ نائن الیون کے بعد کئی مغربی ممالک میں قوم پرست سیاسی جماعتوں کی پتنگ چڑھ گئی اور وہ مقبول ہونے لگیں۔ ایسی تمام جماعتوں کی مقبولیت کا راز مسلمانوں کی شدید مخالفت میں مضمر ہے۔ وہ اپنے اپنے ملک میں مسلمانوں پر دروازے بند کرنا چاہتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان جماعتوں سے وابستہ رہنماؤں اور کارکنوں کے نظریات وہ خیالات میں شدت آرہی ہے۔ اب وہ بزور اسلام اور مسلمانوں کی راہ روکنا چاہتے ہیں۔ ڈیرن اوسبورن کا حملہ اس جنم لیتی تبدیلی کا عیاں ثبوت ہے۔
ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ عالم اسلام اور مغرب، دونوں دنیاؤں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو تہذیبوں کا تصادم چاہتے ہیں۔ اس تصادم سے ایسے لوگوں کا ذاتی مفاد وابستہ ہے اور سیاسی، مذہبی، معاشی اور معاشرتی مفادات بھی! لہٰذا ان فسادیوں کی بھرپور سعی ہے کہ دہشت گردی اور تخریب کاری کے ذریعے دونوں دنیاؤں کا تصادم کرا دیا جائے۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ عالم اسلام اور مغرب میں عوام الناس کی اکثریت امن، محبت، رواداری اور افہام و تفہیم سے رہنا چاہتی ہے۔ تاہم بعض اسلامی و مغربی ممالک کا حکمران طبقہ بھی اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر تہذیبوں کا ٹکراؤ چاہتا ہے ۔ دونوں دنیاؤں کے اعتدال پسند عناصر یہ ٹکراؤ روکنے کی بھر پور سعی کررہے ہیں۔
جانب دار مغربی میڈیا کا کمال یہ ہے کہ جب جنگجو اسلامی تنظیمیں کسی مغربی شہر یا علاقے میں حملہ کریں، تو وہ تمام مسلمانوں کو ''دہشت گرد'' قرار دے کر انہیں رگیدنے لگتا ہے۔ مگر کوئی مغربی باشندہ دہشت گردانہ فعل انجام دے، تو اسے ذہنی مریض یا پاگل قرار دے کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا کے اس مسلسل پروپیگنڈے کے باعث مغرب میں یہ نظریہ جڑ پکڑ چکا کہ اسلام و مسلمان اور دہشت گردی لازم و ملزوم ہیں۔
فنس بری پارک حملے کے مجرم، ڈیرن اوسبورن کے متعلق بھی مغربی میڈیا یہ معلومات دینے لگا کہ وہ شرابی، غصیلا اور جھگڑالو آدمی ہے۔ اس کے گھریلو حالات ٹھیک نہیں۔ مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ ڈیرن کا ذہنی توازن درست نہیں، اس لیے موصوف نے مسلمانوں پر وین چڑھا دی۔ ایک بھی سرکردہ مغربی اخبار نے اسے ''سفید فام دہشت گردی'' یا ''عیسائی دہشت گردی'' کا واقعہ قرار نہیں دیا۔ امریکی صدر ٹرمپ کسی مغربی ملک میں عام سے واقعے کو بھی اسلامی دہشت گردی سے جوڑ دیتے ہیں۔ مگر وہ بھی فنس بری پارک حملے کی مذمت میں ایک لفظ نہ بولے اور چپ سادھ لی۔مغرب کا یہ منافقانہ رویّہ اس کا طرہ امتیاز بن چکا۔
لندن کے دیگر علاقوں کی طرح فنس بری پارک میں بھی مختلف مذاہب اور نسلوں کے لوگ آباد ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ حملے کے بعد سبھی غیر مسلم رہائشیوں نے مسلم کمیونٹی سے اظہار یک جہتی کیا اور دہشت گردی کو مذہب سے جوڑنے کی کوشش نہیں کی۔ سبھی رہائشی بلاتفریق رنگ، نسل و مذہب مل کردہشت گردوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ انسانی گروہ عالمی امن کے لیے خطرہ بن چکا۔
فنس بری پارک کے رہائشیوں کے مابین سب سے بڑا مقابلہ یہ ہے کہ آپ فٹ بال کلب آرسنل(Arsenal F.C.) کے حامی ہیں یا اس کے مخالف کلب، ٹوٹینہم(Tottenham F.C.) کے! اس کے علاوہ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کالے ہیں یا گورے، مسلم ہیں یا یہودی! اسی لیے حالیہ افسوسناک واقعے کے بعد فنس بری پارک کے رہائشی خوفزدہ ہو گئے۔ انہیں خوف ہے کہ مرنے والے یا زخمیوں کا کوئی کٹر رشتے دار بدلے کی آگ میں جل کر غیر مسلموں پر گاڑی چڑھا سکتا ہے۔
27 سالہ جورڈن رسل علاقے میں ایک سپراسٹور کا مالک ہے۔ وہ کہتا ہے ''فنس بری پارک میں کئی مسلمان خاندان رہائش پذیر ہیں۔ میں ان میں سے اکثر کو جانتا ہوں۔ وہ نرم دل، معتدل مزاج اور دوستانہ رویّہ رکھنے والے انسان ہیں۔ مٹھی بھر تنگ نظر مسلمانوں کے اقدامات پورے مسلم طبقے کو سزاوار نہیں بناسکتے۔ مجھے امید ہے کہ جلد لندن کے حالات پُرسکون ہوجائیں گے۔''
اس خوفناک واقعے کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ حملہ آور وین سے ایک سفید فام نکلا اور بھاگنے کی کوشش کرنے لگا لیکن وہاں موجود لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور مارنے پیٹنے لگے۔ وہ بار بار کہہ رہا تھا ''میں سب مسلمانوں کو مارڈالوں گا... یہ لندن برج کا بدلہ ہے۔'' ممکن تھا کہ طیش میں آئے مسلمان اس سفید فام کو مار مار کر ادھ موا کردیتے، امام مسجد نے بڑے تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے اسے بچالیا۔ اس دوران پولیس پہنچ گئی اور حملہ آور کو حراست میں لے لیا گیا۔ بعدازاں اس کی شناخت 47 سالہ ڈیرن اوسبورن (Darren Osborne)کے نام سے ہوئی۔
پولیس کی تفتیش کے مطابق ڈیرن ایک غصیلا، تیز مزاج اور نشئی آدمی ہے۔ 17 جون کو مدہوش جانے پر ایک شراب خانے سے اسے نکالاگیا تھا۔ وہ تب مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا ''میں انہیں نقصان پہنچا کر رہوں گا۔'' ڈیرن کے گھریلو حالات بھی خوشگوار نہیں تھے۔
ڈیرن کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کی چھان بین سے انکشاف ہوا کہ وہ انتہا پسند عیسائی گروہوں کی ویب سائٹوں پر بکثرت جاتا ہے۔ ان میں ''برٹن فرسٹ''(Britain First) نامی برطانوی سیاسی جماعت کی ویب سائٹ بھی شامل تھی۔یہ اسلام مخالف پارٹی ہے۔ اس پارٹی کا منشور یہ ہے کہ پچھلے ایک ہزار سال کی طرح عیسائیت کو دوبارہ برطانیہ کا سرکاری و قومی مذہب بنایا جائے۔
جیسے ہی فنس بری پارک حملے کی خبر پوری دنیا میں پھیلی، امریکا و برطانیہ میں سفید فاموں کے انتہا پسند گروہ (white suprematist ) ویڈیوز اور پوسٹیں سوشل میڈیا میں اپ لوڈ کرنے لگے۔ انہوں نے ڈیرن اوسبورن کو ہیرو قرار دیا اور برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسے بہادری کا تمغہ دیا جائے۔ ان پوسٹوں کا انتخاب درج ذیل ہے تاکہ انتہا پسند سفید فاموں کی ذہنیت اجاگر ہوسکے:
٭... شکر ہے کہ اب برطانوی بھی جاگ اٹھے ہیں اور ایک دلیر مرد نے مسلمانوں کو نشانہ بنا ڈالا۔
٭...مجھے امید ہے کہ فنس بری پارک حملہ اسلام کے خلاف شروع ہونے والی عالمی جنگ کی پہلی گولی ثابت ہوگا۔ تیسری دنیا کے حملہ آور اپنا مذہب مغرب پر تھوپنا چاہتے ہیں۔
٭... یہ تاریخ ساز واقعہ ہے۔ ہماری حکومتیں ناکام ہوچکیں، اب مسلمانوں کے خلاف ہم عوام ہی کو اٹھنا ہوگا۔
٭٭
واضح رہے، یہ پچھلے تین ماہ کے دوران لندن میںسامنے آنے والا تیسرا انوکھا واقعہ ہے کہ دہشت گردوں نے فٹ پاتھ پر چلتے لوگوں پر گاڑیاں چڑھا دیں۔ 23 مارچ کو انگریز نو مسلم، خالد مسعود نے علاقہ ویسٹ منٹر میں اپنی کار سے چھ پیدل چلتے مرد و زن مار ڈالے۔ پھر 3 جون کو داعش سے وابستہ تین جنگجوؤں نے لندن برج میں اپنی وین لوگوں پر چڑھا دی اور آٹھ افراد مار دیئے۔ اب یہ تیسرا واقعہ پیش آیا ہے۔ 22 مئی کو داعش ہی نے ایک امریکی گلوکارہ کے کنسرٹ میں بھی خودکش حملہ کرایا تھا جس میں 22 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
ان پے در پے واقعات کے بعد برطانوی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کو زیر بحث لے آیا۔ خاص طور پر انتہا پسندانہ تنظیموں اور پارٹیوں کی ویب سائٹوں اور سوشل میڈیا میں سبھی انگریز و مغربی افراد مسلمانوں کو جنگجو، لڑاکے اور دہشت گرد قرار دینے لگے۔ یہ عیاں ہے کہ ڈیرن اس پروپیگنڈے سے اتنا زیادہ متاثر ہوا کہ اس نے بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا۔ وہ ذہنی طور پر پہلے ہی پراگندہ طبع انسان تھا، لہٰذا انتہا پسندی کے بطن سے جنم لینے والی نفرت و دشمنی کا نشانہ بن گیا۔
مجرموں کے ظلم کا بے گناہوں سے بدلہ لینا ایک نہایت خطرناک رجحان ہے جو پوری دنیا کا امن خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ لیکن انتہا پسند افراد اسی خوفناک ماحول میں پلتے بڑھتے ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب،نسل اور رنگ سے ہو۔ اسی لیے ان کی بھر پور سعی ہوتی ہے کہ حریفکو کسی بھی طرح نقصان پہنچایا جائے تاکہ وہ بھی جواب دے اور مقابلے کا ماحول گرم ہو سکے،بدلے کی آگ بھڑک جائے۔ تاہم عالم اسلام اور دنیائے مغرب میں انتہا پسندی کے جنم لینے اور پنپنے کی وجوہ مختلف ہیں۔
برطانیہ، سپین، فرانس، پرتگال وغیرہ جب جنگی قوتیں بن گئیں، تو انہوں نے کئی اسلامی ممالک پر قبضہ کیا اور وہاں کے قیمتی وسائل لوٹ لیے۔ جب بادل نخواستہ یہ استعماری قوتیںرخصت ہوئیں، تو انہوں نے دانستہ اقتدار ایسے طبقات کو دے ڈالا جو ان کے مفادات کی دیکھ بھال کرسکے۔ اسلامی ممالک میں جس دلیر حکمران نے استعماری قوتوں کو للکارا، اسے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ شکری قوتلی (شام)، محمد مصدق (ایران)، لیاقت علی خان (پاکستان)، سکار نو (انڈونیشیا) اور کسی حد تک ذوالفقار علی بھٹو (پاکستان) ایسے مسلم حکمرانوں کی نمایاں مثالیں ہیں جنھوں نے مغربی سپر پاورز کو چیلنج کیا تو اپنے اقتدار بلکہ بعض اوقات جان سے چلے گئے۔
سترہویں تا بیسویں صدی کئی اسلامی ممالک میں عموماً مذہبی رہنماؤں نے مغربی استعماری قوتوں کا مسلم مقابلہ کیا۔ لیکن یہ مذہبی رہنما مغربی فوج کو نشانہ بناتے تھے... ایسے واقعات آٹے میں نمک برابر ہیں کہ کسی جہادی اسلامی تنظیم نے نہتے و بے گناہ مغربی شہریوں پر حملہ کردیا۔ وجہ یہ کہ اسلام میں غیر مسلح غیر مسلم شہریوں کو قتل کرنے کی ممانعت ہے۔
ہندوستان کی جنگ آزادی 1857ء کے دوران ناخواندہ اور اجڈ مسلمانوں نے انگریز عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو بھی تہہ تیغ کر ڈالا تھا ۔مگر کٹر شخصیات کو چھوڑ کر تمام ہندوستانی مذہبی رہنماؤں نے اس فعل کی مذمت کی اور اسے غیر اسلامی قرار دیا۔ اواخر بیسویں صدی میں اس انقلابی تبدیلی نے جنم لیا کہ مغرب سے نبرد آزما جنگجو اسلامی تنظیمیں خصوصاً القاعدہ غیر مسلم شہریوں پر حملہ بھی جائز سمجھنے لگیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اسلامی ممالک پر حملہ آور ہر یورپی ملک کا ہر شہری ہمارا ٹارگٹ ہے، چاہے وہ غیر مسلح ہی ہو۔ گویا ان تنظیموں نے جنگ و جدل کے حوالے سے واضح اسلامی احکامات کو پس پشت ڈال دیا اور یوں راہ اسلام سے ہٹ گئیں۔
آنے والے وقت میں اسلامی جنگجو تنظیموں کے نظریات میں شدت آتی گئی اور ان سے اتفاق نہ کرنے والے مسلمان بھی واجب القتل قرار پائے۔ یہ تنظیمیں اسلام کو دنیا میں بزور پھیلانا چاہتی اور اپنے کارکنوں کو ہی حقیقی مسلمان قرار دیتی ہیں۔
دنیائے مغرب میں پنپنے والی تقریباً تمام انتہا پسند سفید فام تنظیموں کے نظریات مذہب سے زیادہ قوم پرستی اور نسل پرستی کے گرد گھومتے ہیں۔ یہ غیر ملکیوں خصوصاً مسلمانوں کے سخت خلاف ہیں اور انہیں اپنی تہذیب و تمدن، ثقافت اور مذہب کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہ سفید فام نسل کو دنیا کی اعلیٰ ترین نسل قرار دیتے ہیں۔ ایسے انتہا پسند سفید فاموں کی بڑی تعداد امریکا، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک میں آباد ہے۔
واقعہ نائن الیون کے بعد کئی مغربی ممالک میں قوم پرست سیاسی جماعتوں کی پتنگ چڑھ گئی اور وہ مقبول ہونے لگیں۔ ایسی تمام جماعتوں کی مقبولیت کا راز مسلمانوں کی شدید مخالفت میں مضمر ہے۔ وہ اپنے اپنے ملک میں مسلمانوں پر دروازے بند کرنا چاہتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان جماعتوں سے وابستہ رہنماؤں اور کارکنوں کے نظریات وہ خیالات میں شدت آرہی ہے۔ اب وہ بزور اسلام اور مسلمانوں کی راہ روکنا چاہتے ہیں۔ ڈیرن اوسبورن کا حملہ اس جنم لیتی تبدیلی کا عیاں ثبوت ہے۔
ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ عالم اسلام اور مغرب، دونوں دنیاؤں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو تہذیبوں کا تصادم چاہتے ہیں۔ اس تصادم سے ایسے لوگوں کا ذاتی مفاد وابستہ ہے اور سیاسی، مذہبی، معاشی اور معاشرتی مفادات بھی! لہٰذا ان فسادیوں کی بھرپور سعی ہے کہ دہشت گردی اور تخریب کاری کے ذریعے دونوں دنیاؤں کا تصادم کرا دیا جائے۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ عالم اسلام اور مغرب میں عوام الناس کی اکثریت امن، محبت، رواداری اور افہام و تفہیم سے رہنا چاہتی ہے۔ تاہم بعض اسلامی و مغربی ممالک کا حکمران طبقہ بھی اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر تہذیبوں کا ٹکراؤ چاہتا ہے ۔ دونوں دنیاؤں کے اعتدال پسند عناصر یہ ٹکراؤ روکنے کی بھر پور سعی کررہے ہیں۔
جانب دار مغربی میڈیا کا کمال یہ ہے کہ جب جنگجو اسلامی تنظیمیں کسی مغربی شہر یا علاقے میں حملہ کریں، تو وہ تمام مسلمانوں کو ''دہشت گرد'' قرار دے کر انہیں رگیدنے لگتا ہے۔ مگر کوئی مغربی باشندہ دہشت گردانہ فعل انجام دے، تو اسے ذہنی مریض یا پاگل قرار دے کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا کے اس مسلسل پروپیگنڈے کے باعث مغرب میں یہ نظریہ جڑ پکڑ چکا کہ اسلام و مسلمان اور دہشت گردی لازم و ملزوم ہیں۔
فنس بری پارک حملے کے مجرم، ڈیرن اوسبورن کے متعلق بھی مغربی میڈیا یہ معلومات دینے لگا کہ وہ شرابی، غصیلا اور جھگڑالو آدمی ہے۔ اس کے گھریلو حالات ٹھیک نہیں۔ مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ ڈیرن کا ذہنی توازن درست نہیں، اس لیے موصوف نے مسلمانوں پر وین چڑھا دی۔ ایک بھی سرکردہ مغربی اخبار نے اسے ''سفید فام دہشت گردی'' یا ''عیسائی دہشت گردی'' کا واقعہ قرار نہیں دیا۔ امریکی صدر ٹرمپ کسی مغربی ملک میں عام سے واقعے کو بھی اسلامی دہشت گردی سے جوڑ دیتے ہیں۔ مگر وہ بھی فنس بری پارک حملے کی مذمت میں ایک لفظ نہ بولے اور چپ سادھ لی۔مغرب کا یہ منافقانہ رویّہ اس کا طرہ امتیاز بن چکا۔
لندن کے دیگر علاقوں کی طرح فنس بری پارک میں بھی مختلف مذاہب اور نسلوں کے لوگ آباد ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ حملے کے بعد سبھی غیر مسلم رہائشیوں نے مسلم کمیونٹی سے اظہار یک جہتی کیا اور دہشت گردی کو مذہب سے جوڑنے کی کوشش نہیں کی۔ سبھی رہائشی بلاتفریق رنگ، نسل و مذہب مل کردہشت گردوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ انسانی گروہ عالمی امن کے لیے خطرہ بن چکا۔
فنس بری پارک کے رہائشیوں کے مابین سب سے بڑا مقابلہ یہ ہے کہ آپ فٹ بال کلب آرسنل(Arsenal F.C.) کے حامی ہیں یا اس کے مخالف کلب، ٹوٹینہم(Tottenham F.C.) کے! اس کے علاوہ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کالے ہیں یا گورے، مسلم ہیں یا یہودی! اسی لیے حالیہ افسوسناک واقعے کے بعد فنس بری پارک کے رہائشی خوفزدہ ہو گئے۔ انہیں خوف ہے کہ مرنے والے یا زخمیوں کا کوئی کٹر رشتے دار بدلے کی آگ میں جل کر غیر مسلموں پر گاڑی چڑھا سکتا ہے۔
27 سالہ جورڈن رسل علاقے میں ایک سپراسٹور کا مالک ہے۔ وہ کہتا ہے ''فنس بری پارک میں کئی مسلمان خاندان رہائش پذیر ہیں۔ میں ان میں سے اکثر کو جانتا ہوں۔ وہ نرم دل، معتدل مزاج اور دوستانہ رویّہ رکھنے والے انسان ہیں۔ مٹھی بھر تنگ نظر مسلمانوں کے اقدامات پورے مسلم طبقے کو سزاوار نہیں بناسکتے۔ مجھے امید ہے کہ جلد لندن کے حالات پُرسکون ہوجائیں گے۔''